Add To collaction

08-Jan-2022 مولوی کی بیٹی کی کہانی -

مولوی کی بیٹی 
قسط نمبر دو 
رائٹر ماورا 💔💔
نور نے جیسے ہی حال  میں پیر رکھا ششدر رہ گیی ایک بہت ہی لمبا حال تھا لگ بھگ دس مرلے  کا جس میں سینکڑوں لڑکیاں عربی فروک نما لمبا سا چوگا پہنیں سر پر سفید سکارف تھے ماتھے تک چھپے ہووے تھے  ہر سکارف اور الگ رنگ کا ربن نما فیتا تھا جو ہر کلاس کی نمائندگی کر کر رہا تھا یہ بات اسے کچھ دن بعد ہی پتہ چل گیی تھی کے ریڈ ربن حافظات کلاس کا بلو ترجمہ تفسیر کا گرین عاما  کا اور پرپل فاضلات کلاس کا ھے  حال کی دیواروں کے ساتھ ایک لمبی سی لائن لوہے کے صندوقوں کی تھی جو بچیاں دور دراز قصبو ں  سے دینی تعلیم کے لئے یہاں رہائش پزیر تھی  انکے صندوق تھے 
وہ سوچ ہی رہی تھی جب ایک لڑکی نے اسے اشارے سے بلا کر کہا یہ ھے تمہاری کلاس تم حفظ کروگی نا  تو نور نے ہاں میں سر ہلایا ایک لمبی قطار میں لکڑی کی ریلیں پڑھی تھی دونو طرف  اور لائن کے شرو ع  . . میں ایک بڑی ریل لگا کر ریلوں کے بیچ کا شگاف بند کر دیا گیا تھا  ایک موٹا سا دری نما چھوٹا سا کپڑا بچا کر اور سرے کی ریل پر ایک موٹی سی سٹک دو پینسل رکھی گیی تھی  ریلوں کے چاروں طرف سفید چوغہ نما لباس  میں لڑکیاں اپنے قرآن پاک  اور نورانی قاعدے اونچی اواز میں پڑھ رہی تھی  نور بھی چپ سی بیٹھ گیی . . . اسی بھی نورانی قاعدہ دیا گیا  باجی آئی تو سب السلام عليكم کہتے ہووے تعظیم سے کھڑی  ہو گیی  سب سبق سنانے لگے اپنی باری پر نور بھی  باجی کے پاس گیی  جب اسے تلفظ کے ساتھ آ دیگی  کا بولا گیا تو اسے اماں جی پڑھا ہوا قرآن یاد آیا  یہاں تو حروف تہجی اسکی سمجھ سے باھر تھے 
مدرسے کا ماحول بہت سخت تھا لیکن نور کو کوئی خاص فرق نا لگا گھر میں بھی تو سختی ہی تھی  اسے بس کھانا یاد آ تا تھا گھر کا  . مدرسے میں بینا تیل اور بینا مسلہے  کے دال بنتی تھی  جس میں نمک مرچ براۓ نام حتی کے اس میں دال بھی براۓ نام ہی ہوتی تھی  پتلا شوربہ جیسے ہانڈی کا دھون  صبح کو پتلی سی چپاتی دوپہر کو دو چپاتی اسی دال سے  نور نے غور کیا  لڑکیاں جب کھانے بیٹھتی ہیں تو  اچار جام اور پتہ نی کیا کیا بکسوں سے نکالتی ہیں  وہ نیئی تھی اسے پتہ نی تھا  وہ ہر بات میں صبر کرنا گھر سے سیکھ  کر آ ئی تھی اسے دشواری  نہیں ہو رہی تھی  بس جب لمبی لائن میں لگ کر کھانا لینا پڑتا  پھر تکلیف ہوتی مدرسہ خدا کا گھر ہوتا ھے یہاں ہر طرح سے بچوں کو دین کی تعلیم سے آ راستہ کیا جارہا رہا  نور بھی ہر چیز دل سے سیکھنے لگی اسے ہر جعمرات کو چھٹی ہوتی اور ہفتے کی صبح ہر حال میں سات بجے  کی کلاس میں پہچنا ہوتا تھا  نور کا گھر دیہات سے بہت ہٹ کر ایک ڈیرہ نما جگہ تھی وہاں تھا  اس ڈ یرے  میں سب زیمدار اور وڈیرے ٹائپ لوگ رہتے تھے جن کی عورتیں بھی مردوں کی طرح برابر کھیتوں میں کام کرتی تھی  انہی گجروں میں ایک لڑکا  ندیم نور پر بہت  دیر سے دل ہار بیٹھا تھا جب وہ سکول جاتی تھی لیکن وہ مناسب وقت کے انتظار میں تھا  اسی لڑکے کی آٹا  پسنے کی چکی بھی تھی وہ پڑھتا بھی تھا  ساتھ مل ڈنگر اور زمین کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا۔

 
آج جعمرات تھی نور کو گھر جانا تھا بارہ بجے کے بعد بہت رش ہو جاتا تھا مدرسے میں لڑکیاں پہلے سے اپنی تیاری کر کے رکھتی تھی گھر جانے کے لئے بار بار دستک ہوتی تھی پھر کسی نا کسی لڑکی کا نام پكارا جاتا وہ لڑکی خوشی سے جھومنے لگتی کے آج اپنے پیاروں سے ملے گی نور کو بھی انتظار تھا گھر جانے کا لیکن کسی سے ملنے کا نہیں اسے اپنی نیند پوری کرنی تھی بس یہاں نیند پوری نہیں ہوتی تھی صبح چاۓ بجے اٹھا دیا جاتا تھا  فجر کی نماز کے کے بعد کلاس لگتی تھی صبح ساڑھے چھ تک 
پھر انکو ایک گھنٹہ ملتا تھا اس میں انکو ناشتہ کرنا ہوتا تھا پھر کنگی یونیفام پہننا ہوتا تھا ناشتے کے برتن دھونے ہوتے تھے اور ساڑھے ساتھ تک اسمبلی ہوتی تھی وہاںسب کے ساتھ کھڑے ہونا ہوتا تھا دعا کے بعد کلاسیں پھر ایک چھٹی تھوڑی ریسٹ پھر ظہر کی نماز کے بعد دوبارہ کلاس  عصر کی نماز کے بعد پھر مغرب تک ریسٹ مغرب کے بعد پھر کلاس 
 پڑھ پڑھ کے حالت خراب ہوجاتی تھی نور اتنی سختی کی عادی نہیں تھی نیند پوری نہیں ہوتی اور مدرسے کی تین منزلہ عمارت میں اوپر نیچے بھاگ کر تھک کر چور ہوجاتی تھی نور 
آواز پڑی نور ۔۔
نور نے فورن اپنا دھونے والے کپڑوں کا شاپر پکڑا . . . . . اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا اور اور دفتر نما کمرے میں گھس گیی لیکن باجی نے اسے روکا اور سر سے پیر تک جائزہ لیا اسکا نور کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہیں اسے گھر جانے سے روک ہی نا لیا جاۓ  باجی نے اپنی عینک ٹھیک کی پھر بولی دیکھو لڑکی جب ہفتے کو واپس اؤ تو برقے میں میں آنا مکمل حجاب ہو ہاتھوں میں دستانے پیروں میں کالی جرابیں اور کالے شوز  بھی ہوں ورنہ سزا ملے گی 
اسے مولوی صاحب لینے آے تھے جاؤ اب اجازت ملی تو تو نور سکھ کا سانس لیتے ہووے  باہر نکلی 
باھر کی دنیا بہت خوبصورت تھی ہر طرف چہل پہل ہے کوئی اپنے کام میں مگن مولوی جی اسے پوچھا کچھ کھاؤ گی نور کے ہاں میں سر ہلانے پر  وہ اسے ایک چنے چاول کی رہڑھی پر لے گئے 
زندگی میں پہلی بار بھرے بازار میں سب کے سامنے کچھ کھانے سے اسے بہت شرم آ رہی تھی  اسے لگ رہا تھا سب اسے ہی دیکھ رہے ہیں مولوی صاحب اسکی جھجھک محسوس کرتے ہووے اسکے سامنے کھڑے ہو گئے اور بولے اب کھاؤ چاول بہت مزے کے تھے  
پنڈ کے سٹاپ پر اتر کر ٹانگے پر بیٹھے تو جو بھی رستے میں ملتا مولوی صاھب کو سلام کرتا پنڈ کے تھوڑا قریب سے ایک رستہ موڑ کھاتا ڈیرے کو نکل رہا تھا ٹانگہ وہی روکا تو پنڈ کی سواریاں وہی اتر گیی ٹانگے کو ڈیرے پر جانا تھا ہر طرف تیار فصل کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی گندم پک کر تیار تھی  تانگہ تھوڑا اور چلا تو ڈیرے کی مسجد نظر انے لگی مسجد کے بلکل ساتھ آ ٹا پسنے کی چکی تھی لوگ دھڑا دھڑ اپنی گندم پسوا رہے تھے  نور کو یہ منظر بہت پیارا لگا تانگہ رکا ٹانگے والا بولا پا جی میں اپنا آ ٹا چک لیواں  نور ٹانگے والے کے تعاقب میں دیکھتی اس رش کو دیکھنے لگی  کوئی گندم مشین کے اندر ڈال رہا تھا کوئی نام لکھوا رہا تھا ایک لڑکا بلکل سفید ہو رہا تھا آ ٹے  سے سر بار نور اسے دیکھ کر بے اختیار مسکرائی لیکن فورن نارمل ہوگیی اگر کوئی دیکھ لیتا تو مولوی کی بیٹھی سرعام مسکرا رہی تھی یہ بہت میعوب بات تھی 
اسی آ ٹے میں لتھڑے انسان کی نظریں نور سے ہٹ نہیں رہی تھی 
وہ ندیم تھا نور کا دیوانہ ویسے تو ہر نظر نور پر رکتی تھی لیکن ندیم اپنا دل ہار بیٹھا تھا اس پر وہ اسے ہر جگہ نظر آتی تھی اسے پتہ تھا نور کا مقام وہ مولوی کی  بیٹی  تھی وہی پا جی  جنہوں نے اسے قرآن پڑھایا تھا نماز پڑھنی سکھائی تھی  وہ دل کو بہت سمجھاتا تھا  پر دل ہاتھوں سے نکلا جارہا تھا .

ندیم 
 چار بہنوں کا بھائی اور بہت ہونہار لڑکا تھا وہ چار  بھائی اور چار بہنیں تھی  ندیم اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کام بھی کرتا تھا اپنے مویشی بھی پالتا تھا ساتھ آ ٹا  پیسنے کی مشین  کام بھی سنبھا لتا   سب ٹھیک جارہا تھا پھر ایک دن اسنے نور کو بستہ لٹکاۓ سکول جاتے دیکھا تب وہ بہت چھوٹی تھی صرف بارہ سال کی ۔
وہ اسکے دروازے کے سامنے سے گزر کر جاتی تھی اس پر اچانک نظر پڑھ گیی تھی اسکی وہی اک نظر لے ڈوبی اسکو ساری زندگی یاد رہی ندیم کو وہ نظر   اب وہ روز اسکو دیکھنے کے لئے بلا وجہ دروزے سے ٹنگا رہتا  جب تک وہ نظر نہیں آتی بے چین رہتا لیکن وہ بس اسکو اک نظر دیکھنا چاہتا تھا کچھ اور نیت تو نہیں تھی اسکی  اور آج جب اسنے اسکو ٹانگے میں بیٹھے دیکھا تو اور بھی خوبصورت اور نکھری نکھری لگی اسے  وہ بہت خوش ہوگیا تھا آ ج  بینا مانگے دیدار نصیب ہوا تھا اسکو خوش کیوں نا ہوتا بہت صبر کیا تھا اس نے پورے تین سال اب اسے اپنے دل کی بات نور سے کہنی تھی ہر حال میں کچھ بھی ہو 
نور بھی تو جانیں کب سے تڑپ رہا ہے وہ رات  چھت پے لیٹا وہ پلاننگ کر رہا تھا جانے نور
 کا ریکشن کیا ہو یہ سوچ کر بیچنی سے کروٹیں بدلنے لگا نیند کوسوں دور تھی آ نکھوں سے۔
دروازے سے تانگہ رکنے کی آواز آ ئی  تو آ پاں  جی رہ نہیں سکی بھاگی چلی آ ئی  دروارے تک تب تک نور اندر آ چکی تھی نور نے سلام کیا دونو چھوٹے بھائی بھی موجود تھے انہوں نے دیکھا تک نہیں نور کی طرف  نور اندر سے بجھ سی گیی  بھائیو کی نظر میں نا سہی باقی پورے پنڈ اور گھر سب افراد میں نور کی قدر بڑھ گیی تھی  اسے وی آئی پی مہمان والا پروٹوکول مل رہا تھا گھر میں  بیشک یہ بہت بڑی کامیابی  تھی پورے پنڈ سے نور واحد لڑکی تھی جو پڑھائی کے لئے پنڈ سے باھر نکلی  
پورے پنڈ میں باتھ روم نہیں تھے عورتیں رفع حاجت کے لئے  رات کے اندھرے میں ایک ساتھ کھیتوں میں جاتی تھی۔
نور جب سے آئی کھانا کھا کر مسلسل سو رہی تھی   عشاہ کے بعد ڈیرے کی لڑکیوں نے دروازہ کھٹکھٹایا باہر رفع حاجت کے لئے جانے کے لئے   نورین  مولوی کی بہو اور بڑی شازیہ تو چلی گیی نور سوئی رہی  
رات دس بجے کے بعد نور کی آنکھ کھلی تو اسے باہر جانے کی ضرورت محسوس ہوئی 
آپاں  جی کے ساتھ وہ گلی کی نکڑ مڑ کر کھیتوں کی طرف جا رہی تھی  کے چھت پر بے چینی سے کروٹ بدلتے ندیم کی نظر اک دم نور اور آپا ں  جی پے پڑی وہ خوشی سے اچھل پڑا قبولیت کی گھڑ ی  تھی شاید  وہ اٹھا اور بینا سوچے کھیتوں کی طرف چل پڑا اسنے دوسرے رستے سے جانے کا فیصلہ کیا ندیم کا دل اندر سے دھک دھک کر رہا تھا
مولوی ظہور کے بڑے بیٹے کی شادی کو پانچ سال ہونے والے تھے  ایک پوتا دو پوتیاں تھی  بڑا احمد بہت شریف اور سیدھا تھا بیوی اتنی کی لڑاکو اور  خطرناک گھر کے کام کاج اسکو پسند نہیں تھے آزادی پسند عورت تھی جو اسے مولوی صاحب کے گھر نصیب نہیں تھی  یہاں کا گھٹا گھٹا  ماحول اسے قید خانہ لگتا تھا وہ اپنے شوہر کے ساتھ یہاں سے نکلنا  چاہتی تھی اس لئے نت نیی سازشوں میں مشغول رہتی نور جب سے مدرسے گیی تھی  وہ جلے پیر کی بلی بنی گھوم رہی تھی ۔
رات کے دس بجے تھے ہر طرف سناٹے کا راج تھا ہر طرف ہو کا عالِم تھا وقفے وقفے سے گیدڑوں کی ہیبت ناک آواز ابھرتی جھینگروں کی آواز سے پرسرار سا ماحول بنا ہوا تھا نور کو ڈر  سا لگا تو اگے بڑھ کر ما ں  کے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی  ندیم کے پیروں میں جیسے پہیے لگ گئے تھے وہ متابا دل  رستے سے  جارہا تھا جو ذرا دور پڑتا تھا نور تک پہنچنے میں  جب وہ اپنے مخصوص مقام تک پہنچا تو نور درخت کے پاس کھڑی تھی کھیت کے کنارے پر اور آپاں  جی کھیت میں غائب تھی 
یہی موقع تھا  وہ تیزی سے چلتے ہووے نور کے پاس آیا اور نور کے سامنے کھڑا ہوگیا اک دم نور کی نظروں سے نظریں ملیں  تو الفاظ بھول بیٹھا اسے کچھ یاد نہیں رہا تھا بلکل  گم صم بت کی طرح کھڑا تھا 
نور حیران پریشان تھی اس نیی افتاد سے اسنے اک دم آ واز  لگائی امی  نور کی ڈری ہوئی آواز سے آپاں  جی گبهرا کر باہر آئی اک سایہ سا نظر آیا تاریکی میں تو ڈور کر نور تک پہنچنے کی کوشیش کی تب تک سایہ اندھیرے میں غائب ہو چکا تھا  آپاں  جی ہانپتی کا نپتی  نور تک پنہچی کیا ہوا نور کون تھا نور پہچان گیی تھی لیکن چھپا گیی پتہ نہیں امی کون تھا 
آپاں جی ۔ کیا بولا کچھ نہیں امی بس گزر گیا میں ڈر گیی تھی 
آپاں  جی اندر سے پریشان
 تھی نور کو تسلی دینے کو بولی پانی کی باری ہوگی کسی کی آویں ڈر گیی تو نور  ہاں امی
فجر کی نماز پڑھ کر نور اپنا تجوید کا سبق یاد کرنے بیٹھ گیی اک لمبی لائن تھی سپارہ پڑھنے والے بچوں کی نور سب کے سبق سننے لگی آ پاں  جی بھنڈی بنا رہی تھی کوئی تازہ تازہ اپنے کھیت سے توڑ کر دے گیا تھا پیش امام کی کون سی آ مدنی  ہوتی ہے اور وہ بھی پنڈ میں کسی کی بھینس پہلی بار دھودہ دیتی تو پہلے پا جی کے گھر دے جاتے نیی سبز ی  کی پہلی تڑ وائی  ہوتی  تو  پا جی کے گھر ہر نئی فصل پا جی کے گھر پنچائی  جاتی تھی اسی طرح گزر بسر ہورہی تھی آپاں  جی بھی اسی میں خوش تھی کبھی زیادہ کی تمنا نہیں کی تھی
آپاں جی سبز ی  بنا کر تندور دھکا رہی تھی جیسے ہی آ گ  کی لپٹیں تندور سے نکلنے لگیں آپاں جی نے دیگچی میں گھی ڈالا اور ساتھ ہی بھنڈی فرائی کرنے لگی جب تک تندور دھک کر روٹی کے لئے تیار ہوا تھا 
آپاں جی بھنڈی تیار کر چکی تھی بھنڈی کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی آ پاں  جی اب تندور میں روٹی لگانے کو تیار کھڑی تھی نور غور سے ماں کو دیکھنے لگی کیسے گرم اور انگارہ بنے تندور میں کتنے 
آرام سے روٹی لگا رہی تھی وہ تو تو ے  پے روٹی نہیں بنا سکتی تھی کجا تندور  آپاں  جی روٹیاں لگا کر اندر  آئی تو سوے ہووے حمید کو اٹھانے لگی اٹھ حمید پت روٹی کھا لے نور بیزار سی ہوگیی آخر ما ں  ان نکموں کو کیوں اتنا سر چڑھا کر رکھتی ہے اس کی سمجھ سے باہر تھا پانی کا گلاس تک خود نہیں پی سکتے یہ
ہفتے کو وہ سفید جبہ نما فراق پہنے تیار کھڑی تھی اسے کچھ کہنا تھا ماں  سے کے وہاں پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا اک کاغذ جیسی روٹی سے پیٹ نہیں بھرتا وہاں لڑکیاں انڈے خشک دودھ جیم بریڈ  بسکٹ پتہ نہیں کیا کیا کیا لیکر آ تی  ہیں )
گھر میں اور کچھ نہیں تو سبز ی  دال روٹی تو پیٹ بھر کر ملتی تھی خالی پیٹ پڑھا نہیں جاتا تھا 
نور کہ نہیں پائی تھی کیوں وہ جانتی تھی گھر کے حالات سوچنے لگی اگر یہ سب کہا تو گھر نا بیٹھا لیں مجھے  ویسے بھی انکو صبر کرنا اور خواہشیں مارنا سکھایا گیا تھا  سو صبر کیا اور چل پڑی
پڑھائی میں اسکا دل لگنے لگا تھا وہ قابل لڑکی تھی آہستہ آہستہ سب رہائشی لڑکیاں اسکے قریب ہونے لگی تھی ٹیچرز بھی اسکو بہت پیار سے بلانے لگی تھی نور کا مسلہ تھا وہ بہت کم گو اور شرمیلی  تھی وہ بات نہیں کر سکتی تھی کسی سے لیکن پڑھائی میں ایک دم تیز اسمبلی کے بعد کلاسیں لگ چکی تھی اک دم باجی آ ئی کلاس میں اور کہا سب بچیاں کلاس اٹھاؤ شمار ے  پڑھنے ہیں کیا پر رونق نظارہ تھا ہر طرف سفید کپڑوں میں ملبوس نورنی چہرے والی بچیاں ہاتھوں میں شمارے پکڑے ایک ایک دانہ گرا تی  لڑکیاں ڈھکے ہووے ماتھے با وضو چہرے ایسا پور نور منظر دیکھنے والے کا خود بخود رب سے رجوع کرنے کا دل کرے سبحان اللّه 😍😍
آیت کریمہ کی تعداد پوری ہوئی تو دورود شریف کی آواز سے مدرسے کے درو دیوار گونج اٹھے پھر قصیدہ بردہ شریف کا ورد ہوا پھر مختصر بیان  کے بعد نعت شریف پڑھنے کا موقع دیا گیا سبکو اسی موقے پر نور رہ نا سکی اور نعت شریف پڑھنے کی اجازت مانگی باجی سے  انھوں نے ہاں میں سر ہلایا تو  نور نے نعت شریف شروع کی 
مدینے دیاں پاک گلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں 
رہیںا ں  مہک جویں جنت دیاں کلیاں 
پہلے تو نور کی آواز کانپ گیی  پھر نور مدینے کے تصور میں کھوئی تو  پڑھتی چلی گیی سننے والا ہر کان سرور میں تھا محفل پر وجد کی کیفیت تھی ہر طرف سبحان اللّه کا شور 
نور نے کلام مکمل کیا تو پسینہ پسینہ تھی

وہ 
 تیز تیز چلتا پگڈنڈی کو پھلانگ رہا تھا اسے گھر پنھچنا تھا گھر جاتے ہی ہینڈ پمپ سے پہلے منہ پر چھٹے مارے پھر نلکے کی ٹوٹی کو منہ لگا کر بڑے بڑے گھونٹ بھرنے لگا اسکی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی کچھ حواس بحال ہووے تو پیر دھو کر جو مٹی سے اٹ چکے تھے چھت پر آ گیا اپنی چارپائی پر لیٹتے  ہی وہ دشمن جاں اک دم نظروں میں آگئی اس کا سہما سا چہرہ بھول نہیں پا رہا تھا وہ 
رمضان قریب تھے  مدرسے کی انچارج  نے سبق بند کرا دئے تھے سب کو منزل پکی کرنے کو بول دیا گیا تھا  نور بھی منزل پر دھیان دے رہی دفتر سے نور کو بلاوا آ یا  تھا وہ حیران سی دفتر والے روم میں گیی تو نور کی امی اسے لینے آئی تھی  لیکن آج تو بدھ وار ہے امی جی نور  پریشان سی پوچھ رہی  سب خیر تو چل 
 
رستے میں آپاں  جی نے بتایا کے پنڈ کے چودھری صاحب وفات پا گئے ہیں  وہاں جانا ہے 
نور حیران سی دیکھنے لگی کے میرا جانا کیوں ضروری ہے 
انکو تو کبھی رشتے داروں  میں نہیں لے کر جایا گیا تھا  وہ ترستی ہی رہی جب بھی جانے کی ضد کی کہا گیا جوان لڑکیاں نہیں جاتی گھر بیٹھو  آپ جی نے نور کو حیران دیکھا تو بولی دیکھ چودھری صاحب فوت ہو گئے ہیں وہاں ذکر ازکار اور پڑھائی کی ضرورت ہوگی دعا کی بھی تیری بہن کی تو شادی ہو گیی ہے نورین چھوٹی ہے  تو تو ہی پڑھے گی نا  ویسے بھی اب تو مدرسے میں  پڑھنے لگی ہے  نور نے ہاں میں سر ہلایا  نور اسی طرح عبایا میں  چودھری صاحب کے گھر کے سامنے ٹانگے سے اتری  دیگ پر نائی کے سر پے نگرانی کرتے ندیم کی تو  عید ہو گیی نور کو لگا کوئی اسے گھور رہا ہے ادھر ادھر دیکھا تو ندیم ٹکٹکی باندھے ترسی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا نور کو کھیت والا واقعہ پوری شدت سے یاد آیا  ندیم نے کسی فلمی ہیرو کی طرح ماتھے پر ہاتھ لیجا کر تین انگلیوں سے نور کو سلام کیا نور کو بہت عجیب اور ناگوار گزرا  اسنے حویلی کی طرف قدم بڑھاے  اور تیز قدموں سے چلتی عورتوں کی بھیڑ میں گم ہوگیی 
نور کلمہ طیبہ کا ورد شرو ع  کروایا  اس کی آواز کسی سحر کی طرح سننے والوں کو جکڑ رہی تھی  ندیم بہانے بہانے سے اندر آتا اپنی نظروں کی پیاس بجھاتا  ندیم کے اک دوست  رب نواز نے بھانپ لیا تھا  ندیم کیوں اندر باہر بھاگتا پھر رہا ہے  جنازہ اٹھا تو  لوگ میت کو بھول کر  بریانی سے انصاف کر رہے تھے  ندیم کھانا ورتانے کے بہانے نور کے پاس آیا  جھک کر بریانی کی پلیٹ نور کے سامنے رکھتے وہ اسکے کافی قریب آگیا تھا  نور گھبرا گیی تھی وہ اسکے کان کے پاس سرگوشی میں بولا کی حال سے سوہنئے   مدرسے تیان  نل جایا کر تو امانت اے کیسے دی   نور  نے  ڈر کے مارے نظریں زمین میں گاڑ  لی تھی  وہ بہت بزدل تھی  ندیم کو  نور کے ڈرنے سے اور ہمت ملی   ندیم سرگوشی  کرکے کب کا جا چکا تھا
آپاں  جی بہت خوش تھی نور کی آواز کے ہر طرف چرچے ہو گئے تھے  گھر والے بھی نور نور کرنے لگے پنڈ والے ڈیرے والے ہر کسی کی زبان پر نور کا ذکر تھا  نور نے ہفتے کو واپس جانا تھا کچھ دن بلکل آزاد تھی  ایک دو گھر چھوڑ کر نور کی سہیلیاں تھی نور نے آپاں  جی سے اجازت لی لڑکے گھر نہیں تھے آپاں  جی نے جلدی آ نے کی تاکید نور نے اپنا بڑا سا دوپٹہ اور پھیلا کر لیا ماتھا  ہاتھ سب چھپا لیا گلی سنسان تھی وہ دو قدم چلی ہوگی اسے اپنے پیچھے پیروں کی چاپ سنائی دی نور کے دل سے دعا نکلی یا اللّه ندیم نا ہو  مڑ کر دیکھا تو ندیم ہی تھا نور کے پیروں سے زمین نکل گیی وہ اس وقت کو کوسنے لگی جب گھر سے اکیلی نکلی  
لیکن اب دیر ہو چکی تھی

نور واپس گھر نہیں جاسکتی تھی کیوں کے گھر رستے پے ندیم رستہ روکے کھڑا تھا  نور نے اک دم فیصلہ کیا  اور چاچے لطیف کے گھر کی طرف قدم بڑھا دئے  لیکن ندیم پھر سے رستے میں دیوار کی طرح کھڑا  تھا نور واپسی کو مڑی تو  ندیم نے اپنے  بازو سے رستہ بند کر دیا  نور نے دوپٹے  سے  چہرہ چھپایا ہوا  لیکن آ نکھوں  سے بے بسی ندیم سے چھپی نی ہوئی تھی وہ بولی تو کچھ نہیں لیکن آ نکھوں  میں موتی کی طرح آنسو  چیخ چیخ کر کہ رہے تھے مجھے جانے  دو  ندیم ذرا نرم پڑا  دیکھ نور میں کوئی چور ڈاکو یا بدمعاش نہیں ہوں ڈر مت مجھ سے نور نے اپنی ساری ہمت جمع کی  پا ندیم مجھے جانے دے تجھے رب کا واسطہ کوئی دیکھ لے گا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی  
ندیم نور کا رونا دیکھ نا سکا بولا دیکھ میں تیرا بھرا نہیں ہوں بہت سالوں سے تجھ سے خاموش محبت کرتا ہوں  ندیم نے بات ادھوری چھوڑی اور چل پڑا شاید کوئی آ یا  تھا  نور بھی  بھاگ کر چاچے لطیف  کر گھر  کی طرف چل پڑی نور نے کن آ کھیو ں  سے چاروں طرف دیکھا کوئی نہیں تھا  لیکن یہ  چار منٹ کی ملاقات  کوئی اور بھی دیکھ چکا تھا
نور 

 گھوڑے پر سوار چاچے لطیف کا گیٹ پیٹنے لگی دروازہ زہرہ نے کھولا زہرا نور سے عمر میں کچھ سال بڑی تھی پر نور کی واحد سہیلی بھی تھی  اوے کی ہویا تجھے تو رو کیوں رہی ہے اور کہاں سے بھاگ کر آرہی ہے ووووہ 
کتا پیچھے پڑ گیا تھا نور کو کوئی اور بہانہ نا سوجا  زہرہ ہلکا سا مسکرائی جیسے یقین نا آیا ہو نور کی بات پر نور وہاں ہسنے کھیلنے آئی تھی پر اب اسکا دل نہیں لگا رہا تھا وہاں
زہرہ کچھ بول رہی تھی پر نور کو کچھ سمجھ نہیں آرہا  تھا  تنگ آکر زہرہ نے نور کو جھنجھوڑ ڈالا کیا سوچ رہی نور 
نور ۔وہ میں سوچ رہی تھی  گھر واپس چلی چلتی ہوں تم چلو گی ساتھ میرے
ابھی تو تم آئی ہو ابھی واپس ابھی تو تونے شہر کی کوئی گل بھی نی دسی مجھے
نہیں زہرہ مجھے گھر جانا ہے 
نور  تم اب کیوں ہم سے بات کرو گی اب ہم کیوں اچھے لگیں گے تجھے اب تو شہرن ہو گیی ہے  نور بلا وجہ ہی شرمندہ سی ہو گیی  اچھا نہیں جاتی ابھی گھر لیکن تم مجھے گھر چھوڑ کر آو گی پھر
ندیم بہت خوش تھا اپنے دل کی بات کر آ یا تھا  نور سے  وہ
مشین پے بیٹھا کھاتے لکھ رہا لے  مگر خیالوں میں نور کا دوپٹے میں بمشکل چھپایا ہوا چہرہ اور روئی روئی آ نکھیں  تھی کتنی معصوم ہے نا نور بالکل بچوں کی طرح معصوم کم سن  ان چھوئی  بالکل پاک صاف  وہ چھپا لے گا اسے سب سے  شادی کرے گا نور سے  وہ رنگین خیالوں میں کھو چکا تھا
رب نواز نے زور سے ندیم کے کندھے پر ہاتھ مارا کیوں شہزادے کن خیالوں میں ہو آج کل اسنے اپنے پیلے پیلے دانت نکالے  ندیم کو لگا پکڑا کیا کہیں نہیں تم بتاؤ کہاں سے آرہے ہو اس گرمی میں  بات نا بدل ندیم میں جانتا ہوں تیری پتنگ مولوی صاحب کے کوٹھے پر اٹکی ہے 
ندیم نے اک دم ہاتھ  رب نواز کے منہ پر رکھ دیا تجھے واسطہ ہے  ربنواز دوبار ہ  یہ بات اپنی زبان پر مت لانا ورنہ میں بھول جاؤنگا  تو میرا بچپن کا لنگوٹیا ہے  رب نواز  کا ماتھا ٹھنکا
تم نے زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایسے بات کی ہے ندیم اور وہ کسی لڑکی کے لئے 
دیکھ رب نواز مولوی صاحب کی عزت ہماری دوستی سے کہیں زیادہ اہم ہے 
اگر مولوی صاحب کی عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو کیوں مولوی صاحب کی عزت خراب کرنے پر تلے ہو 
ندیم نے بےبسی سے نظریں جھکا لی یار میرے بس کی بات نہیں ہے مجھے تین سال ہوگئے نور کے خواب دیکھتے 
اؤ چل رین دے  تو اکیلا نہیں ہے پنڈ میں جو نور کے خواب  دیکھتا ہے پورے پنڈ کے منڈے 
نور کی اک جھلک کے لئے مرتے ہیں ندیم آکھاں کھول ہوش کر اپنی اوقات سے بڑھ کر خواب نہیں دیکھا کرتے 
ندیم آگ بگولہ ہو اٹھا تھا کون مائی کا لال ہے جو اکھ چک کے نور کی طرف دیکھے آنکھیں نا نکال دوں اسکی  قتل کرنے سے گریز نہیں کرونگا  میں رب نواز 
رب نواز  ششدر رہ گیا تھا  وہ سمجھ گیا تھا پانی سر سے اپر نکل چکا اب ندیم کی واپسی بہت مشکل
مرد تو اپنی پسندیدہ عورت کو چھونے والی ہواوں کا بھی دشمن ہوتا ہے..!!😐
اور رب نواز جیتے جاگتے لوگوں کی با ت  کر رہا تھا 

نور اور زہرہ اسکی کھلی سی جانوروں کے باندھنے والی جگہ پر بیٹھیں تھی نور تھوڑی اونچی جگہ پر بیٹھی زہرہ کو دیکھ رہی تھی زہرہ گوبر کے اپلے تھاپ رہی تھی نور زہرہ نے دھیرے سے پکارا  نور نے چونک کر زہرہ کو دیکھا نور اک گل دس 
ہاں پوچھ  نور بے خیالی سے پوچھا  تو جب ندیم سے گلی میں بات کر رہی تھی میں نے اپنے نلکے والی دیوار سے دیکھا تھا  تو بہت گھبرا  رہی تھی سچی سچی بتا گل کیا تھی  کیا تو پیار کرتی ہے ندیم سے  نور کو کرنٹ سا لگا  نہیں نہیں  زہرہ قسم چکا لے مجھے کچھ پتہ نہیں  اور تجھے رب کا واسطہ کسی سے کچھ نا کہنا۔

   1
0 Comments