28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_6
چھٹا_حصہ
◆حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر:-
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے پاس مقررہ مدت پوری کی اور پھر اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مصر کی طرف روانہ ہوۓ تو راستے میں کلیم اللہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
جب موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کر لی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی ۔اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارا لاؤں تا کہ تم سینک لو۔ پس جب وہاں پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت میں سے انہیں آواز دی گئی کہ اے موسیٰ! یقینا میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہانوں کا پروردگار ۔ اور یہ بھی آواز آئی کہ اپنا عصا پھینک دے۔ پھر جب اسے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح پھنپھنا رہا ہے تو پیٹھ پھیر کر واپس ہو گئے اور مڑکر رخ بھی نہ کیا۔ ( ہم نے کہا: اے موسیٰ! آ گے آ ، ڈر مت، یقینا تو ( ہرطرح امن والا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال، وہ بغیر کسی قسم کے روگ کے بالکل سفید (چمکتا ہوا نکلے گا ۔ اور خوف سے (بچنے کے لیے) اپنے باز و اپنی طرف ملا لے پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں ، فرعون اور اس کی جماعت کی طرف یقیناََ وہ سب کے سب نافرمان لوگ ہیں ‘‘(القصص : 28/ 29-32)
◆جب موسیٰ علیہ السلام نے دس سال کی مدت پوری کر لی تو اپنے گھر والوں سمیت واپس مصر کی طرف روانہ ہوۓ۔ راستے میں رات ہوگئی رات تار یک اور سرد تھی وہ راستہ بھول کر معروف راہ سے ہٹ گئے ۔ ان حالات میں آپ کو طور کے دامن میں آگ روشن نظر آئی۔ آپ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے : ’’ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے ۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آ گ صرف آپ کو نظر آئی تھی آپ کے اہل کو نہیں کیونکہ یہ اصل میں نور تھا جسے ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ " بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں ۔‘‘یعنی وہاں مجھے جو کوئی ملے، اس سے راستہ پوچھ لوں یا آگ کا کوئی انگارا لاؤں تا کہ تم سینک لو۔‘‘ معلوم ہوا کہ وہ رات سرداور تاریک تھی جیسے سورۂ طہ میں ارشاد ہے:
کیا آپ کو موسیٰ کا قصہ معلوم ہے؟ جب اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا: تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ ۔ مجھے آگ دکھائی دی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں یا آگ کے پاس رہنمائی میسر ہو۔‘‘ (طه : 20 / 9-10 )
اس سے معلوم ہوا کہ وہاں اندھیرا تھا اور وہ راستہ بھول گئے تھے ۔ سورۂ نمل میں بھی ان سب باتوں کا ذکر ہے۔
◆ارشاد باری تعالی ہے:
" جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے۔ میں وہاں سے کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر جلد تمہارے پاس آ جاؤں گا تا کہ تم تاپ سکو ۔‘ (النمل: 7/27 )
وہ واقعی ایک خبر لے کر آئے ، وہ کتنی عظیم خبرتھی ! انہیں رہنمائی بھی ملی اور کتنی عظیم الشان تھی وہ رہنمائی! انہوں نے وہاں سے ایک بے مثال روشنی حاصل کی تھی ۔
◆ارشاد باری تعالی ہے :
پس جب وہ وہاں پہنچے تو اس با برکت زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت میں سے انہیں آواز دی گئی: اے موسیٰ ! یقینا میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہانوں کا پروردگار۔ (القصص:30/28 )
◆سورہ نمل میں ارشاد ہے:
جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس (آگ) میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔‘(النمل: 8/27)
یعنی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو فیصلے چاہتا ہے نافذ فرماتا ہے ۔اے موسیٰ!(سن!) بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ غالب حکمت والا ہوں ۔‘ (النمل:9/27 )
◆ سورہ طہ میں ارشاد ہے:
جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں آواز دی گئی: اے موسیٰ ! یقینا میں ہی تیرا پروردگار ہوں ، تو اپنی جوتیاں اتار دے کیونکہ تو پاک میدان طوی میں ہے اور میں نے تجھے منتخب کر لیا ہے ، اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن! بے شک میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ پس تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ قیامت یقینا آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تا کہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جاۓ جو اس نے کوشش کی ہو ۔ پس تجھے اس ( کے یقین سے کوئی ایسا شخص روک نہ دے، جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو، ورنہ تو ہلاک ہو جاۓ گا۔ (طہ : 20 / 11-16 )
مفسرین فرماتے ہیں : حضرت موسیٰ علیہ السلام اس آگ کی طرف چلے جو ان نظر آئی تھی ۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک کانٹے دار درخت میں آگ کے شعلے نظر آ رہے ہیں ،لیکن درخت زیادہ سے زیادہ سرسبز ہوتا جارہا ہے ۔ آپ تعجب سے وہیں ٹھہر گئے ۔ وہ درخت آپ کی دائیں طرف پہاڑ کے مغربی پہلو میں تھا۔ جیسے ارشاد ہے:
’’اور طور کے مغربی جانب ، جبکہ ہم نے موسیٰ کواحکام کی وحی پہنچائی تھی ، نہ تو موجود تھا اور نہ تو دیکھنے والوں میں سے تھا “ (القصص: 44/28)
◆حضرت موسیٰ علیہ السلام جس وادی میں تھے، اس کا نام طویٰ ی ہے ۔ موسی علیہ السلام کا چہرہ قبلہ (یعنی جنوب کی طرف تھا۔ وہ درخت آپ کے دائیں طرف مغرب کی سمت تھا۔ اس مقدس وادی طویٰ میں اللہ تعالی نے آپ سے کلام کیا۔ پہلے جوتے اتارنے کاحکم دیا، اس کا مقصد اس مقدس مقام کا احترام تھا۔ بالخصوص اس مبارک رات میں تو اس مقام کو مزید تقدس اور
برکت حاصل ہوگئی تھی ۔ * بائیل میں لکھا ہے کہ روشنی اس قدر شدید تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نظرختم ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا، چنانچہ آپ نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
Anuradha
10-Sep-2022 03:23 PM
بہت بہت شاندار
Reply