Add To collaction

28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام

قسط_نمبر_8
آٹھواں_حصہ 
◆فرعون کو دعوت کا حکم اور موسیٰ علیہ السلام کی التجا:
 بہر حال جب اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا
تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
ان میں سے ایک شخص میرے ہاتھ سے قتل ہو چکا ہے سو مجھے خوف ہے (کہیں) مجھ کو مار نہ ڈالیں اور ہارون ( جو ) میرا بھائی ( ہے ) اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہذا اس کو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرے، مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کر یں گے۔ (اللہ نے فرمایا) ہم تمہارے بھائی سے تمہارے بازو کو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے ۔ سو ہماری نشانیوں کے سبب وہ تم تک پہنچ نہ سکیں گے (اور ) تم اور جنہوں نے تمہاری پیروی کی غالب رہو گے ۔ (القصص:33/28-35)
◆ان آیات میں اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے جب ایک قبطی قتل ہو گیا تو آپ فرعون کے ظلم سے بچنے کے لیے مصر سے نکل گئے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو اسی دشمن کے پاس جانے کا حکم دیا تو آپ نے فرمایا: "پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کر دیا تھا، اب مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے بھی قتل کر ڈالیں ۔ اور میرا بھائی ہارون مجھ سے بہت زیادہ فصیح زبان والا ہے، تو اسے بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج دے۔ مجھے تو خوف ہے کہ وہ سب مجھے جھٹلا دیں گے ۔‘‘یعنی اسے میرا مددگار اور وزیر مقرر فرمادے تا کہ تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچانے میں وہ میری مدد کرے اس لیے کہ وہ میری نسبت زیادہ فصاحت و بلاغت سے بات کر سکتا ہے ۔ اللہ تعالی نے آپ کی یہ درخواست قبول کرتے ہوۓ فرمایا:
"ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے ۔ فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ( بسبب ہماری نشانیوں کے ۔‘‘) یعنی چونکہ تم ہماری آیات پر عمل کرتے ہو اس لیے وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یا یہ مطلب ہے کہ ہماری آیات کی برکت سے "تم دونوں اور تمہاری اتباع کر نے والے ہی غالب رہیں گے ۔‘‘
◆سورہ طہ میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
”تم فرعون کے پاس جاؤ ( کہ وہ سرکش ہو رہا ہے ۔ کہا: میرے پروردگار! (اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دے اور میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تا کہ وہ میری بات سمجھ لیں ۔‘ (طہ :24/20-28)
 آپ کی زبان میں کچھ لکنت رہ گئی تھی ۔ اسی وجہ سے فرعون نے بزعم خویش حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس عیب کا ذکر کیا تھا ’’اور صاف بول بھی نہیں سکتا۔‘( الزخرف:52/43) یعنی اپنے مافی الضمیر کا اظہار نہیں کرسکتا۔
◆حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مزید التجا کی:
’’میرا وزیر (معاون) میرے کنبے میں سے کر دے یعنی میرے بھائی ہارون کو اس کے ذریعے میری قوت بڑھا دے اور اسے میرا شریک کار کر دے تا کہ ہم دونوں بکثرت تیری تسبیح بیان کریں اور بکثرت تجھے یاد کریں ۔ بے شک تو ہمیں دیکھنے والا ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: موسیٰ! تیرے تمام سوالات پورے کر دیے گئے ۔‘ (طہ :29/20-36) یعنی ہم نے آپ کی ساری دعائیں قبول کر لیں اور جو جو کچھ آپ نے مانگا، ہم نے دے دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں آپ کا مقام بہت بلند تھا۔ آپ نے اپنے بھائی کے حق میں نبوت کی دعا فرمائی ۔ اللہ تعالی نے ان کو نبوت عطا فرما دی ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اور وہ اللہ کے نزدیک باعزت تھے ۔‘‘ (الأحزاب: 69/33) 
اور فرمایا: ’’اور اپنی خاص مہربانی سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر انہیں عطا فرمایا۔‘ (مریم:53/19) 
◆کچھ لوگ حج کی ادائیگی کے لیے سفر کر رہے تھے ۔ راستے میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ نے سنا کہ ایک آدمی اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا ہے: ” کون سے بھائی نے اپنے بھائی پر سب سے بڑا احسان کیا؟‘‘ وہ لوگ خاموش رہے۔ ( جواب نہ دے سکے ) ام المؤمنین نے اپنے محمل کے قریب کے افراد کو ( اس سوال کا جواب بتاتے ہوۓ فرمایا ’’وہ موسیٰ بن عمران تھے جنہوں نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے حق میں دعا کی تو ان کی طرف بھی وحی نازل ہونے لگی ‘‘ ° اللہ تعالی نے فرمایا: ’’ ہم نے اپنی خاص مہربانی سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر انہیں عطا فرما دیا۔“
◆موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں :-
موسیٰ اور ہارون علیہ السلام فرعون کے دربار میں پہنچ کر اسے دعوت تو حید دیتے ہیں اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم بند کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جبکہ فرعون حقارت سے یہ بات ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
"اور جب آپ کے رب نے موسیٰ کو آواز دی کہ ظالم قوم کے پاس جا قوم فرعون کے پاس۔ کیا وہ پر ہیز گاری اختیار نہ کریں گے؟ موسیٰ نے کہا: میرے پروردگار! مجھے تو خوف ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے، میری زبان چل نہیں رہی ، پس تو ہارون کی طرف بھی (وحی ) بھیج اور میرے ذمے ان کا ایک قصور بھی ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے مار نہ ڈالیں ۔ باری تعالیٰ نے فرمایا: ہرگز ایسا نہ ہوگا! تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ، ہم خود سننے والے ہیں تمہارے ساتھ ہیں ۔تم دونوں فرعون کے پاس جا کر کہو:’’ہم بلا شبہ رب العالمین کے بھیجے ہوۓ ہیں کہ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کر دے۔ فرعون نے کہا: کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن میں اپنے ہاں نہیں پالا تھا؟ اور تو نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے؟ پھر تو اپناوہ کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے ۔‘‘ (الشعراء: 10/26-19)
 ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موتسی اور ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر اسے تو حید کا پیغام دیں کہ وہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور بنی اسرائیل کو اپنے قبضے اور تسلط سے آزاد کرے ۔ وہ جہاں چاہیں جا کر اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کی توحید پر کار بند رہتے ہوۓ اس سے دعا والتجا میں مشغول ہو جائیں ۔ فرعون پر فخر وتکبر کے جذبات غالب آ گئے ۔ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہوۓ کہا: ’’ کیا تو وہی نہیں جسے ہم نے اپنے گھر میں پالا اور طویل عرصہ تک تجھ سے حسن سلوک کرتے ہوۓ انعامات کی بارش کیے رکھی؟‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس فرعون کے پاس سے آپ فرار ہوۓ تھے ، اس کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے ۔ اس کے برعکس اہل کتاب کہتے ہیں کہ آپ جس فرعون کے دور میں مصر سے نکل کر مدین تشریف لے گئے تھے، وہ آپ کے مدین میں مقیم ہونے کے دوران میں مر گیا تھا۔ اور نبوت ملنے کے بعد جس کے پاس گئے وہ اور فرعون تھا۔
"پھر تو اپنا وہ کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں میں سے
ہے ۔ یعنی تو نے قبطی آ دمی کو قتل کیا اور ہمارے پاس سے بھاگ گیا اور ہمارے احسانات کا منکر ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: ’’میں نے یہ کام اس وقت کیا تھا جب میں راہ بھولے ہوۓ لوگوں میں سے تھا۔‘‘(الشعراء: 20/26)
 یعنی اس وقت مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی ۔ ’’پھر تم سے خوف کھا کر میں تم میں سے بھاگ گیا۔ پھر مجھے میرے رب نے حکم (وعلم ) عطا فرمایا اور مجھے اپنے پیغمبروں میں سے کر دیا۔‘‘ (الشعراء: 21/26) پھر فرعون نے آپ پر پرورش اور حسن سلوک کا جو احسان جتلایا تھا، اس کا جواب دیتے ہوۓ آپ نے فرمایا: - ’’مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے جسے تو جتار ہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟‘‘(الشـعـراء: 22/26) 
یعنی تو نے مجھ ایک فرد پر جواحسان کیا ہے، کیا تو اپنے اس ظلم کے مقابلے میں اس کا ذکر کر سکتا ہے کہ تو نے ایک پوری قوم کو غلام بنا کر اپنی خدمت میں لگا رکھا ہے؟ اللہ تعالی نے سورۃ الشعراء کی مندرجہ ذیل آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا مکالمہ بیان فرمایا ہے۔ ◆ارشاد باری تعالی ہے:
’’ فرعون نے کہا: رب العالمین کیا ہوتا ہے؟ موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا: وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو ۔ فرعون نے اپنے اردگر د والوں سے کہا: کیا تم سن نہیں رہے؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے ۔ فرعون نے کہا: ( لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، یہ تو یقیناً دیوانہ ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: وہی مشرق ومغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے،اگر تم عقل رکھتے ہو۔‘‘(الشعراء 23/26-28)
 ان آیات میں اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان ہونے والا مکالمہ اور مناظرہ بیان فرمایا ہے اور موسیٰ علیہ السلام کی عقلی اور حسی دلیل کا ذکر کیا ہے جو آپ نے فرعون کو پیش کی ۔
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ) 
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   8
0 Comments