شادی سے پہلے منگنی کے بعد
شادی سے پہلے منگنی کے بعد
قسط ا
رات اندھیرے کی دہلیز پر کھڑی تھی دس بجنے کو تھے سب چرند پرند اپنے اپنے نشمینوں میں آرام فرما تھے۔ میں اکیلا لمبے سفر سے واپس آرہا تھا اور گاڑی کی سڑیکنگ اپنے خوفزدہ ہاتھوں سے ادھر اُدھر گھما رہا تھا ۔ ادھر موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے خوف کا ماحول بنتا جا رہا تھا دوسری جانب گھر سے فون کالز کی بھرمار نے بھی خوف ذدہ بنا دیا۔خوف کے ماحول سے سارا جسم کانپتا رہا ۔ہونٹوں پر دعائیں اللہُ کی بارگاہ میں جاری تھے۔
اسی خوف ناک منظر میں کچھ دوری پر دھندلی روشنی دکھائی دے رہی تھی جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا روشنی بھی میرے قریب آتی گئی ۔جب یہ روشنی نمایاں ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لڑکی اپنے ہاتھوں میں ایک سو لر لالٹین لے کر کھڑی ہوئی اور مجھے گاڑی روکنے کے لیے مجبور کر دیا تیز بارش سے اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ـ وہ گڑگڑائی اور درخواست کی کہ میں اسکی مدد کروں ـ اسکی حالت دیکھ کر میں اپنی حالت بھول گیا تھا ـ میں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اسے کہا "کیا مدد کر سکتا ہوں میں آپکی" اس نے کہا "مجھے میرے گھر چھوڑ دیں پلیز" میں نے گاڑی کی کھڑکی کھولی اور وہ گاڑی کے اندر بیٹھ گئی ـ کپڑے تر'بھیگے بال' سردی سے تھرتھراتی اور ہاتھ میں دوائی کی تھیلی ـ
میں نے گاڑی کے ہیٹر کا بٹن دبایا اور اسے کہا " آپ اطمینان رکھیں اور بے خوف ہو کے بیٹھیں' ویسے آپ اس وقت بارش میں کہا تھیں" ـ اس نے کہا ً "میرے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی' دوائی ختم ہو گئی تھی اور اسپتال لے جانے کے لئے گاڑی نہیں ملی ـ سوچا اب صبح ہوتے ہی ڈاکٹر کو دکھاؤں اور درد زیادہ نہ بڑھ جائے اسلئے دوائی لائی" ـ میں نے کہا " کوئی اور نہیں ہے گھر میں' بھائی یا اور کوئی مرد" "نہیں کوئی نہیں ہے" اس نے سسکتی آواز میں کہا ـ میں نے اسے حوصلہ دیا اور باتیں کرنا شروع کر دی سوچا من بھی بہل جائے گا اور اس کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا ـ"اچھا اور بتاؤ اپنے بارے میں" "میرا نام نادرہ ہے' میں اپنے ماں باپ کی ایک لوتی اولاد ہوں' ماں بچپن میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئ اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ مجھے بچپن سے ہی گھر کے کام سنبھالنے پڑے' میرا بچپن پتا نہیں کب گزرا' باقی بچوں کی طرح مجھے وقت ہی نہیں ملا کھیلنے کے لئے' گھر کی ذمہ داریوں نے اسطرح جھکڑا تھا کہ نہ کوئی دوست ہے اور نہ ہی کوئی ہمدرد" اور وہ رونے لگی ـ ہائے! یہ کیسے ستم ہیں زمانے کے ـ خیر تھوڑی دیر میں ہم اسکے گھر پہنچ گئےـ جوں ہی ہم گاڑی سے اترے تو میں نے اسے اپنا کوٹ پہننے کے لئے دیا مگر اس نے انکار کر دیا ـ جوں ہی ہم نے اسکے گھر کے اندر قدم رکھا تو اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ـ میں نے موبائل کی لائٹ آن کی اور اس نے میز پر رکھی آدھے سے زیادہ جلی ہوئی شمع جلائی اور اس نے بابا کو دوائی دی اور اسے آرام ملا ـ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا "اب میں چلتا ہوں' بہت دیر ہو گئی ہے' ماں پریشان ہو گئ ہوں گی اور وہ لگاتار کال کر رہی ہے ـ اس نے دھیمی آواز میں کہا- "شکریہ! آپ نے میری اتنی مدد کی' اگر آپ وقت پہ نہ آجاتے تو خدا جانے کیا سے کیا ہو جاتا' نہ تو میں ٹھیک سے گھر پہنچ پاتی اور نہ ہی میرے بابا کو آرام ملتا" ۔ میں نےاسے دلاسہ دیا اور کہا یہ منشائے خدا ہے۔ جوں ہی میں نے اوپر کی طرف اشارہ کیا تو ٹپکتی چھت سے بارش کی بوندیں میرے چہرے پر گر گئیں ۔ان کی غریبی، لاچارگی اور بے بسی صاف ظاہر ہوتی تھی۔ صرف کمرے کے ایک کونے میں بہت ساری مٹھائی کی ٹوکریاں اور بہت سارا قیمتی سامان پڑا تھا جس میں مہنگے کپڑے ، جوتے، ایک گھڑی اور ایک موباٸل تھا۔ مجھے یہ سب عجیب لگا اور میں نے بے ججک پوچھا " یہ کیا ہے؟ اتنا قیمتی سامان آپکے گھر میں کہاں سے آیا ہے؟ او ہو ! آپ کو کسی نے تحفے میں بھیجا ہے"۔ اس نے حسرت بھری نگاہوں سے میری طرف دیکھ کر کہا " بھیجا نہیں بھیجنا ہے: میرے منگیتر کو، میرے سسرال! منگیر کو؟ آپ کی منگنی ہوگٸ ہے؟ میں نے پوچھا۔ ہاں بس شادی نہیں ہو رہی، دو سال پہلے منگنی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے آنسو پونچھ کر کہا۔"ارے یہ تو خوشی کی بات ہے، آپ کی شادی ہونے والی ہے اور آپ اتنی پریشان ہیں"۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر بیٹھنے کو کہا اور خود دوسرے کمرے مہیں چلی گٸ۔ تھوڑی دیر میں ایک بیگ لے کے آگٸ اور میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے کہا " کیا ہے یہ سب" اس نے بیگ سے سارا سامان نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا " آپ خود دیکھیۓ"۔ " یہ تو بلز ہیں"۔ " ہاں بلز ہی ہیں، پچھلے دو سالوں کی ، یہ سارا سامان مجھے اپنے سسرال بھیجنا پڑا، میرے گھر میں کھانے کے لۓ روٹی نہیں، باپ بیمار پڑا ہے، یہ ٹپکتی چھت مرمت مانگتی ہے اور میرے یہاں اڑنا بچھونا کچھ نہیں۔ میں نے ان پیسوں سے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں حاصل کی ہوتی اور میرا اپنا ایک محل ہوتا" اور وہ رونے لگی۔
میں یہ سب دیکھ کے اور سن کے دنگ رہ گیا۔ ہاۓ! میرے رب یہ کیسا ظلم ہوا ہے اس کے ساتھ؟ کہاں کا انصاف یے یہ؟ ایک غریب لڑکی پہ اتنا ظلم کیوں؟ میں نے اپنے جذبات قابو میں رکھ کر اسے کہاں کہ اگر یہ رشتہ تمہاری پریشانی کا باعث ہے تو یہ رشتہ توڑ کیوں نہیں دیتی؟ اس نے کہاں" میری زندگی میں سب کچھ پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا ہے۔ میری تقدیر، میرا گھر ، میری خوشیاں حتاکہ میرا دل بھی۔ میں پاس کے رسٹورانٹ میں ویٹر کا کام کرتی ہوں، بابا کی چھوٹی سی دکان تھی اس کے بیمار ہونے کے بعد وہ بھی بھیچنی پڑی۔ مزید پیسوں کی درکار تھی تو بابا کے دوست کریم چاچا نے ہماری مدد کی اگر وہ تب پیسے نہ دیتے تو بابا کا علاج ممکن نہ تھا۔ اس وقت کے علاج سے ہی میرے بابا آج سانسیں لے رہے ہیں"۔ " کتنے رحم دل اور مددگار ثابت ہوئے ہیں کریم چاچا ، الله تعالٰی انہیں تندرست رکھے اور زندگی میں مزید اضافہ کرے تاکہ وہ ایسے ہی اللہ کی مخلوق کا مددگار و معاون ثابت ہو"۔ میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوے نادرہ سے کہا۔" کریم چاچا ہمارے لیے کسی فرشتے سے کم نہیں اللہ انکی مغفرت فرمائے وہ کچھ مہینے پہلے ہی فوت ہوگۓ" نادرہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی"بابا اور کریم چاچا بچپن سے ہی ایک دوسرے کو جانتےتھے اور وہ بابا کے قریبی دوست تھے۔ جب بابا کی تبیت خراب ہوئی تو کریم چاچا نے بابا کے علاج کیلۓ پیسے دیۓ اور بدلے میں میرا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیۓ مانگا کیوں کہ کریم چاچا میری بے بسی سے واقف تھے اور وہ وہ ہمیشہ مجھے ' میری گڑیا' کہہ کے پکارتے تھے چونکہ بابا کو اپنی صحت پہ کوئی بھروسہ نہ تھا اور اس نے بنا سوچے سمجھےاس شادی کے لئے ہاں کردی ۔اور میری منگنی طے ہوگئ ۔ شاید بابا کا یہ فیصلہ بھی ٹھیک تھا لیکن زندگی پہ کس کا بروسہ؟ ٹھیک اس کے ایک ہفتے بعد ہی کریم چاچا کی موت ہوئی ۔ اس کے بیٹے اور بیوی نے رٹ لگائی ہوئی تھی کہ وہ پیسے میں ادا کروں۔ ایک سال تک دن رات محنت کر کے میں نے وہ پوری رقم چکادی تھی لیکن ان کا حساب برابر ہی نہیں ہوتا جا رہا اور وہ زور زور سے رونے لگی۔ میری آنکھیں یہ سن کے نم ہوگیں اور میرے من میں سوالوں کے پہاڑ امڑ پڑے۔ " ہائے ! میرے رب یہ کیسی دنیا ہے۔ مظلوم کے آنسووں کی کوئی قیمت ہی نہیں، نہ کوئی پوچھنے والا اور نہ ہی کوئی ہمدرد و مددگار۔ یہ کیسے اس کی زندگی کا سودا ہوگیا ہے، اس کی بولی لگا دے گٸ، کیسے اس بچاری کو اس دلدل میں پھنسایا گیا ہے؟ ان کو چاہیے تھا کہ اس کی دیکھ بال کریں۔ اس کے لے معاون و مددگار ثابت ہوں۔ لیکن نہیں، دو سال سے شادی اس لئے رکی ہوئی ہے تاکہ یہ ان کو تحفے بیجھتی رہے۔
یہ صرف نادرہ کی کہانی نہیں بلکہ ایسی ہزاروں کہانیاں ہونگی۔ہزاروں خاندان اسی دلدل میں پھنسے ہونگے۔ کہاں گۓ وہ دین و دنیا کے ٹھیکیدار ؟ جو سماجی خدمات دینے میں مشغول ہیں۔ کیا ہوگیا ہے ہماری سوچ کو ؟ انسان اتنا خود غرض کیسے ہوسکتا ہے ؟ لیکن یہ سب تو ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہے اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھیں ہیں۔ " چاۓ " نادرہ نے کپ کی طرف اشارہ کیا اور میں نے خیالوں کی دنیا سے نکل کر کہا "جی پی رہا ہوں" اور ہم باتیں کرنے لگے-
Arshik
12-Sep-2022 08:08 PM
بہت بہت زبردست لکھا ہے🔥🔥
Reply
Manzar Ansari
03-Feb-2022 05:01 PM
Nice
Reply
Vinita varma
24-Jan-2022 03:06 PM
Good
Reply