Add To collaction

28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_12
بارہواں_حصہ 
★جادوگروں کو فرعون کی دھمکیاں : 
سارے عوام کے سامنے فرعون کو زبردست ہزیمت کا مزہ چکھنا پڑا جبکہ اس کے بلاۓ ہوۓ جادوگر مسلمان ہو گئے تو وہ غصے سے پاگل ہو گیا اور مسلمانوں کو شد ید سزا کی دھمکیاں دینے لگا۔ سورۂ اعراف میں اللہ تعالی نے فرمایا:
’’ پھران پیمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ کو نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کے پاس بھیجا تو انہوں
نے اس کے ساتھ کفر کیا سو دیکھ لو کہ خرابی کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا؟ اور موسی نے کہا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں ۔ مجھ پر واجب ہے کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ کہوں سچ ہی کہوں ۔ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں لہذا بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کی رخصت دو۔ فرعون نے کہا کہ تم جو نشانی لے کر آۓ ہو اگر سچے ہو تو لاؤ ( دکھاؤ وہ نشانی ۔ موسیٰ نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ڈال دی وہ اسی وقت صریح اژدہا ( بن گئی اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اس دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق ( تھا) پھر قوم فرعون میں جو سردار تھے وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے ۔ اس کا ارادہ یہ ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ بھلا تمہاری کیا صلاح ہے؟ انہوں نے ( فرعون سے کہا کہ فی الحال موسیٰ اور اس کے بھائی کے معاملے کو نظرانداز کیجیے اور شہروں میں نقیب روانہ کر دیجیے کہ تمام ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں ۔ (چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور جادوگر فرعون کے پاس آ پہنچے اور کہنے لگے اگر ہم جیت گئے تو کیا ہمیں صلہ عطا کیا جاۓ گا؟ ( فرعون نے کہا: ہاں ( ضرور! ) اور (اس کے علاوہ ) تم مقربوں میں داخل کر لیے جاؤ گے ( جب فریقین روز مقرر پر جمع ہوۓ تو جادوگروں نے کہا کہ موسیٰ ! یا تو تم ( جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ( موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ جب انہوں نے ( جادو کی چیزیں ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور ( لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بنا بنا کر انہیں ڈرادیا اور بڑا بھاری جادو دکھایا۔ (اس وقت ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو وہ فورا ( سانپ بن کر جادوگروں کے بناۓ ہوۓ سانپوں کو ایک ایک کر کے نگل جاۓ گی۔ تو( پھر حق ثابت ہو گیا اور جو کچھ فرعونی کرتے تھے باطل ہو گیا اور وہ مغلوب ہو گئے اور ذلیل ہو کر رہ گئے۔ (یہ کیفیت دیکھ کر جادوگر سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے کہ ہم جہان کے پروردگار پر ایمان لائے (یعنی ) موسیٰ اور ہارون کے پرور دگار پر ۔ فرعون نے کہا کہ پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آۓ؟ بیشک یہ فریب ہے جو تم نے شہر میں دکھایا ہے تا کہ اہل شہر کو یہاں سے نکال دو سو عنقریب (اس کا نتیجہ ) معلوم کر لو گے ۔ میں ( پہلے تو تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دوں گا پھر تم سب کو سولی پر چڑ ھادوں گا ۔ وہ بولے کہ ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور اس کے سوا تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آ گئیں تو ہم ان پر ایمان لے آۓ ۔ اے پروردگار! ہم پر صبر واستقامت کے دہانے کھول دے اور ہمیں مارنا تو بطور مسلمان مارنا۔ (الأعراف : 103/7-126)
★در باریوں کا کفر وعناد: 
جب یہ عظیم واقعہ پیش آیا جو فرعونیوں کے لیے ایک نا قابل برداشت حادثہ تھا کیونکہ قبطی موسیٰ علیہ السلام سے شکست کھا گئے اور جن جادوگروں کو وہ اپنی مدد کے لیے لاۓ تھے، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا کر آپ کے ساتھی بن گئے تو اس سے فرعونیوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ کفر وعناد میں مزید سخت ہو کر حق سے اور بھی دور ہو گئے ۔ اللہ تعالی نے سورۂ اعراف میں فرمایا:
اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: کیا آپ موسیٰ اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں اور وہ آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کیے رہیں؟ فرعون نے کہا: ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے اور عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور حاصل ہے ۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اللہ تعالی کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو۔ یہ زمین اللہ تعالی کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ ما لک بنا دے اور اخیر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔قوم کے لوگ کہنے لگے: ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی ۔موسی نے فرمایا: بہت جلد اللہ تعالی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور بجاۓ ان کے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا ، پھر تمہارا طرزعمل دیکھے گا ۔‘‘ (الأعراف : 127/7-129)
★قوم فرعون کے ایک مومن کا اعلان حق:
جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو دردناک سزائیں دینے کا اعلان کیا تو فرعون کی قوم میں سے ایک مومن نے انہیں نصیحت کرنے کا حق ادا کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اور ایک مومن شخص نے ، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا: کیا تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے؟ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو جس ( عذاب کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے، وہ کچھ نہ کچھ تو تم پر آ پڑے گا۔ اللہ تعالی اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والا اور جھوٹا ہو۔ اے میری قوم کے لوگو! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب ہو لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آ گیا تو کون ہماری مدد کرے گا؟ فرعون بولا: میں تو تمہیں وہی راۓ دے رہا ہوں جوخود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ ہی بتارہا ہوں ۔
(المؤمن: 28/40-29)
★یہ شخص فرعون کا چچا زاد تھا۔ وہ اپنی قوم کے ڈر سے اپنے ایمان کو خفیہ رکھتا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ شخص بنی اسرائیل میں سے تھا لیکن یہ بات درست نہیں ، کلام کا سیاق وسباق اپنے الفاظ کے لحاظ سے بھی اور معنوی طور پر بھی اس کی تردید کرتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ یہ شخص اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھے ہوۓ تھا۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلامکو شہید کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے درباریوں سے اس بارے میں مشورہ کیا تو اس مؤمن کو خطرہ محسوس ہوا کہ موسیٰ کو تکلیف نہ پہنچے۔ چنانچہ اس نے حکمت کا انداز اختیار کر تے ہوۓ فرعون کے خلاف ایسے انداز میں بات کی ، جس میں ترغیب اور تر ہیب دونوں پہلو موجود تھے ۔ اس نے مشورہ اور راۓ کے انداز سے بات کی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:’’سب سے فضل جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے ۔ یہ شخص اس مقام کے اعلی ترین درجہ پر فائز تھا۔ فرعون سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور اس مومن کی بات سے بڑھ کر حق وانصاف والی کوئی بات نہیں کیونکہ اس سے نبی کے معصوم ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کلام کے ذریعے سے اس نے اپنا پوشیدہ ایمان ظاہر کر دیا۔لیکن پہلی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
★پے در پے عذاب اور قوم فرعون کی وعدہ شکنیاں:
جادوگروں کا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آنا فرعون کی زبردست شکست کے مترادف تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ کفر اور سرکشی کی راہ پر گامزن رہا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کی نشانیاں پے در پے عذابوں کی صورت میں ظاہر کر نا شروع کر دیں۔ پہلے قحط واقع ہوا، پھر طوفان آ گیا ، پھر ٹڈی دل، جوئیں ،مینڈک، خون کے عذاب آۓ۔ یہ سب الگ الگ نشانیاں تھیں ۔ اللہ تعالی نے پانی کا طوفان بھیجا۔ پانی پورے علاقے پر پھیل گیا پھر وہیں رک گیا۔ اب وہ نہ کاشتکاری کر سکتے تھے نہ کوئی اور کام حتٰی کہ وہ سخت بھوک کا شکار ہو گئے ۔ جب یہ عذاب ان کے لیے برداشت سے باہر ہو گیا تو کہنے لگے:
”اے موسیٰ ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کیجیے جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے۔اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹادیں تو ہم ضرور آپ کے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کر کے آپ کے ہمراہ کر دیں گے ۔‘‘  موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو عذاب ختم ہو گیا لیکن انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا۔ تب اللہ تعالی نے ان پر ٹڈی دل کا عذاب بھیج دیا جس نے تمام درخت اور پودے کھا لیے ۔ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دوبارہ وعدہ کیا تو آپ کی دعا سے عذاب ٹل گیا۔ انہوں نے پھر وعدہ توڑ دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام  کو حکم ہوا کہ ریت کے ایک بڑے ٹیلے پر عصا ماریں۔ انہوں نے عصا مارا تو وہاں سے جوئیں نکل کر گھروں میں داخل ہوگئیں اور لوگوں کے لیے کھانا پینا اور سونا آرام کرنا دشوار ہو گیا۔ جب وہ جوؤں سے تنگ آ گئے تو موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کی طرح درخواست کی ۔ ان کی دعا سے عذاب ختم ہو گیا۔ لیکن انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا۔ تب اللہ تعالی نے مینڈک بھیج دیے ۔ گھروں میں ، کھانے پینے کی چیزوں میں اور برتنوں میں مینڈک ہی مینڈک نظر آنے لگے ۔ کوئی شخص کپڑا اٹھاتا تو نیچے سے مینڈک نکل آتے ۔ کھانے کا برتن کھولتا تو مینڈک پھدک کر اس میں جا پڑتے ۔ جب وہ مینڈکوں سے تنگ آ گئے تو پھر وہی درخواست کی ۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے عذاب ختم ہو گیا تو انہوں نے پھر اپنا وعدہ پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ جب ان پر خون کا عذاب آ گیا۔ فرعونیوں کا سارا پانی خون میں تبدیل ہو گیا۔ وہ کسی کنویں میں سے پانی نکالتے یا دریا سے پانی لیتے یا پانی کے برتن سے چلو بھرتے ، ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی خون بن جا تا ۔ بعض علماء نے خون کے عذاب سے نکسیر کی بیماری مراد لی ہے ۔
★حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون اور اس کی قوم کے لیے بد دعا:
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کی حد سے بڑھتی ہوئی سرکشی دیکھی تو اپنے رب سے یوں دعا مانگی:-
اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیے۔ اے ہمارے رب! ( کیا اس واسطے دیے ہیں کہ وہ تیری راہ سے گمراہ کر دیں؟ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے، سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔حق تعالی نے فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ،سوتم ثابت قدم رہواور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو علم نہیں ۔ ( یو نس :88/10'89)
★فرعوان بنی اسرائیل کے تعاقب میں:
مفسرین اور اہل کتاب کہتے ہیں بنی اسرائیل نے فرعون سے اپنی ایک عید منانے کے لیے شہر سے باہر نکلنے کی اجازت مانگی۔ وہ پسند تو نہ کرتا تھا تاہم اس نے اجازت دے دی ۔ چنانچہ انہوں نے نکلنے کی تیاری کی تو وہ اصل میں مصر سے ہمیشہ کے لیے چلے جانے کی تیاری تھی ۔ یہ پروگرام ہجرت کے لیے بنایا گیا تھا۔ بائبل میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل نے اللہ کے علم کے مطابق مصریوں سے سونے چاندی کے زیورات مانگے اور انہوں نے دے دیے۔ بنی اسرائیل فوراََ شام کے ملک کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جب فرعون کو ان کے چلے جانے کی اطلاع ملی تو وہ انتہائی غضب ناک ہوا اور فوج کے سرداروں کو حکم دیا کہ فوراََ ان کا تعاقب کر کے انہیں گرفتار کریں اور سزا دیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ ہمارے بندوں کو رات کو لے لو کہ ( فرعونیوں کی طرف سے تمہارا تعاقب کیا جاۓ گا ۔ لہذا فرعون نے شہروں میں نقیب روانہ کیے( اور کہا کہ یہ لوگ تھوڑی سی جماعت ہے اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں اور ہم سب با ساز وسامان ہیں۔ تو ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکالا اور خزانوں اور نفیس مکانات سے (ان کے ساتھ ہم نے اسی طرح کیا اور ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو کر دیا تو انہوں نے سورج ٹلتے ( یعنی صبح ج کو ان کا تعاقب کیا ۔ جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم تو پکڑ لیے گئے ۔ موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں! میرا پروردگار میرے ساتھ ہے وہ مجھے راستہ بتاۓ گا۔ اس وقت ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو تو سمندر پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا ( یوں ہو گیا ( کہ گویا بڑا پہاڑ ( ہے اور ہم دوسروں کو وہاں قریب لے آئے اور موسیٰ اور ان کے ساتھ والوں کو تو بچا لیا تاہم دوسروں کو ڈبو دیا۔ بیشک اس قصے میں نشانی ہے لیکن یہ اکثر ایمان لانے والے ہیں اور تمہارا پروردگار و غالب (اور مہربان ہے ۔" (الشعراء : 52/26-68)
★مومنوں کی نجات اور فرعونیوں کی غرقابی: 
ارشاد باری تعالی ہے:
ہم نے موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل ! اور ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بنالے، پھر نہ تجھے کسی کے آ پکڑنے کا خطرہ ہو گا نہ ڈر ۔ فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا تعاقب کیا پھر تو سمندر ان سب پر چھا گیا، جیسا کہ چھا جانے والا تھا۔فرعون نے اپنی قوم کو گمراہی میں ڈال دیا اور سیدھا راستہ نہ دکھایا۔‘‘(طه : 77/20-79) 
جب اللہ عز وجل کے علم سے سمندر کی یہ کیفیت ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو وہاں سے گزرنے کا حکم دے دیا۔ وہ خوش ہو کر جلدی جلدی ان راستوں میں داخل ہو گئے ۔ انہوں نے ایسا عظیم واقعہ دیکھا تھا جس کو دیکھ کر ہرشخص حیران رہ جاۓ اور مومنوں کو ہدایت نصیب ہو۔ جب وہ سب پار اتر گئے اور ان کا آخری فرد بھی سمندر سے باہر آ چکا، عین اس وقت فرعون کالشکر سمندر میں بنے ہوۓ ان راستوں میں داخل ہور ہا تھا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اور ان سے پہلے ہم نے قوم فرعون کی آزمائش کی اور ان کے پاس ایک عالی قدر پیغمبر آۓ ۔ ( جنہوں نے ) یہ ( کہا) کہ اللہ کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دو۔ میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں اور اللہ کے سامنے سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے پاس کھلی دلیل لے کر آیا ہوں اور میں اس (بات) سے کہ تم مجھے سنگسار کرو اپنے اور تمہارے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔ اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہو جاؤ ۔ تب موسیٰ نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ یہ نافرمان لوگ ہیں ۔ ( اللہ نے فرمایا کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر چلے جاؤ اور (فرعونی ) ضرور تمہارا تعاقب کریں گے ۔ اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہور ہا ہو گا ) پار ہو جاؤ ( تمہارے بعد ان کا تمام لشکر ڈبو دیا جاۓ گا۔ وہ لوگ بہت سے باغ اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور نفیس مکان اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کیا کرتے تھے۔ اس طرح ( ہوا) اور ہم نے دوسرے لوگوں کو ان چیزوں کا مالک بنا دیا پھر ان پر نہ تو آسمان اور زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو مہلت دی گئی اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی یعنی فرعون سے۔ بیشک وہ سرکش اور حد سے نکلا ہوا تھا۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا اور ان کوایسی نشانیاں دیں تھیں جن میں صریح آ زمائش تھی ۔‘‘ (الدخان: 17/44-33)
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ)
جاری ہے ۔۔۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   8
0 Comments