Add To collaction

28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_13
آخری_حصہ 
◆فرعون کی آ خری لیے ایمان لانے کی ناکام کوشش:
سرکش باغی ظالم اور مغرور ومتکبر فرعون نے جب موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو جھٹ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رب کو تسلیم کر لیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کرا دیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے چلا ، یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو بولا میں ایمان لاتا ہوں کہ اس (الہ ) کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لاۓ ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ ( جواب دیا گیا کیا اب ( ایمان لاتا ہے ؟ اور تو پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں شامل رہا۔ سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تا کہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔(یونس : 90/10-92) اللہ تعالی نے کافر قبطیوں کے سردار یعنی فرعون کے ڈوبنے کی کیفیت بیان کیا ہے۔ جب وہ پانی کی لہروں میں کبھی ڈوب رہا تھا اور کبھی ابھر رہا تھا اور بنی اسرائیل اس پر اور اس کی فوجوں پر نازل ہونے والا اللہ کا عذاب دیکھ رہے تھے تا کہ ان کے دل ٹھنڈے ہو جائیں ۔ جب فرعون نے دیکھا کہ موت اس کے سر پر کھڑی ہے اور اس کی جان نکلے گی تو اس نے توبہ کی لیکن اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے، وہ ایمان نہ لائیں گے، گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں ، جب تک وہ دردناک عذاب نہ دکھ لیں ۔‘‘ (یونس)
◆فرعون کی نعش نشان عبرت ہے: اللہ تعالی نے اس مغرور ومتکبر کی نعش کو تا قیامت آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا تا کہ آیندہ بھی خدائی دعوی کرنے والے اپنا انجام بغور ملاحظہ کر لیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: 
سو آ ج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تا کہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔ ( یونس:92/10)
◆فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کے حالات:
فرعون اور اس کی کافر قوم کی غرقابی کے بعد اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم کو بے شمار نعمتوں سے نوازا خصوصاً غلامی سے نجات اور امن کی نعمت سے سرفراز کیا ۔ارشاد باری تعالی ہے:
’’ پھر ہم نے ان ( قوم فرعون ) سے بدلہ لے لیا یعنی ان کو سمندر میں غرق کر دیا۔ اس سبب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اوران سے بالکل ہی غفلت کرتے تھے اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کیے جاتے تھے اس سرزمین کے مشرق ومغرب کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہو گیا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے، سب کو درہم برہم کر دیا اور ہم نے بنی اسرائیل کوسمندر سے پار اتار دیا۔ پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جواپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے، کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجیے جیسے ان کے معبود ہیں ۔ آپ نے فرمایا: واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے ۔ یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ کیا جاۓ گا اور ان کا یہ کام محض بے بنیاد ہے۔ فرمایا: کیا اللہ تعالی کے سوا اورکسی کو تمہارا معبود تجویز کر دوں؟ حالانکہ اس نے تم کو تمام جہان والوں پر فوقیت دی ہے ۔ اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے بچالیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے،تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی ۔‘‘(الأعراف: 136/7-141)
◆بنی اسرائیل پر انعامات ربانی کی بارش:
اور ہمارے ان احسانات کو یاد کرو جب تم نے تم کو قوم فرعون سے نجات بخشی وو لوگ تم کو بڑا دکھ  دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی ۔ اور جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا تو تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے۔ اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو( معبود ) مقرر کر لیا اور تم ظلم کر رہے تھے ۔ پھراس کے بعد ہم نے تم کو معاف کر دیا تا کہ تم شکر کرو۔ اور جپ موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ بھائیو تم نے بچھڑے کو (معبود) ٹھہرانے میں ( بڑا ظلم کیا ہے سو اپنے پیدا کرنے والے کے آگے توبہ کرو اور اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالو تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے حق میں یہی بہتر ہے۔ پھر اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا وہ بیشک معاف کرنے والا ( اور ) صاحب رحم ہے ۔ اور جب تم نے (موسیٰ سے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ لہذا تم کو بجلی نے آ گھیرا اورتم دیکھ رہے تھے ۔ پھر موت آ جانے کے بعد ہم نے تم کوازسرنو زندہ کر دیا تا کہ احسان مانو ۔ اور بادل کا تم پر سایہ کیے رکھا اور تمہارے لیے من اور سلوی اتارتے رہے کہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں۔ ان کو کھاؤ (مگر تمہارے بزرگوں نے ان نعمتوں کی قدر نہ جانی اور وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑتے تھے بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرتے تھے ۔ (البقرة 49/2-57)
◆حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دیدار الہی کی خواہش:
اللہ تعالی نے اپنے محبوب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خصوصی ملاقات کا شرف اور احکامات شریعت دینے کے لیے کوہ طور پر چالیس دنوں کے لیے بلالیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے وہاں پر دیدار ربانی کی خواہش کا اظہار کیا جسے اللہ تعالی نے درج ذیل پیراۓ میں بیان فرمایا ہے:
”اور ہم نے موسیٰ سے تیسں رات کی میعاد مقرر کی اور دس ( راتیں اور ملا کر اسے پورے ( چالیس کر دیا پھر اس کے پروردگار کی چالیس رات کی میعاد پوری ہوئی ۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے ( کوہ طور پر جانے کے بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو جاؤ! (ان کی اصلاح کرتے رہنا اور شریروں کے رستے پر نہ چلنا۔ اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوۓ وقت پر ( کوہ طور پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار! مجھے ( جلوہ دکھا کہ میں تیرا دیدار ( بھی) کروں ۔ پروردگار نے فرمایا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو۔ اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھ کو دیکھ سکو گے۔ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر جلوہ نما ہوا تو ( تجلی انوار ربانی نے اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ جب ہوش میں آۓ تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان سب سے اول ہوں ۔ (اللہ تعالی نے فرمایا: موسیٰ! میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام کے ذریعے سے لوگوں سے ممتاز کیا ہے لہذا جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے لے لو اور ( میرا شکر بجالاؤ ۔ اور ہم نے ( تورات کی تختیوں میں ان کے لیے ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی ۔ پھر (ارشاد فرمایا کہ اسے مضبوطی سے پکڑے رہواور اپنی قوم سے بھی کہہ دو کہ ان باتوں کو جو اس میں ( درج ہیں اور بہت بہتر ہیں پڑے رہیں۔ میں عنقریب تم کو نافرمان لوگوں کا گھر دکھاؤں گا۔ جولوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ، ان کو اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا۔اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر راستی کا رستہ دیکھیں تو اسے (اپنا) رستہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے رستہ بنالیں ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہو جائیں گے ۔ یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔‘‘ (الأعراف: 142/7-147)
◆بچھڑے کی پوجا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سخت سرزنش:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے گئے اور قوم شیطان کے بہکاوے میں آ کر بچھڑے کو پوجنا شروع ہوگئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قوم کی اس حماقت کا علم ہوا تو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اور قوم پرسخت ناراض ہوۓ ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنالیا (وہ) ایک جسم ( تھا جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی ۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کر سکتا ہے اور نہ ان کو رستہ دکھا سکتا ہے اس کو انہوں نے (معبود) بنالیا اور (اپنے حق میں ظلم کیا اور جب وہ نادم ہوۓ اور دیکھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں کرے گا اور ہم کو معاف نہیں فرماۓ گا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ اور جب موسیٰ اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آۓ تو کہنے لگے کہ تم میرے بہت برے جانشین ثابت ہوۓ ۔ کیا تم نے اپنے رب کے حکم ( پہنچنے سے پہلے ) جلدی کی ؟ ( یہ کہا اور ( شدت غضب سے تورات کی تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بالوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی جان ! لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے اور قریب تھا کہ قتل کر دیں ۔ سو ایسا کام نہ کیجیے کہ دشمن مجھ پر ہنسیں اور مجھے ظالم لوگوں میں مت ملایئے ۔ تب انہوں نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے ۔ ( اللہ تعالی نے فرمایا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کو ( معبود بنالیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہو گا اور دنیا کی زندگی میں ذلت ( نصیب ہوگی اور ہم افتراپردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ اور جنہوں نے برے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آۓ تو کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اس کے بعد ( بخش دے گا کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور جب موسیٰ کا غصہ فرو (ختم ہوا تو انہوں نے ( تورات کی تختیاں اٹھالیں اور جو کچھ ان میں لکھا تھا وہ ان لوگوں کے لیے ہدایت ورحمت تھی جواپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ (الأعراف 148/7-154)
◆گاۓ ذبح کرنے کا واقعہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے چند اوباش اپنے چچا کی جائیداد پر قبضہ جمانا چاہتے تھے چنانچہ ان میں سے ایک نے چپکے سے اسے قتل کر دیا اور پھر اس کی نعش پر مگر مچھ کے آنسو بہانے لگا اور قصاص کا مطالبہ کرنے لگا جبکہ قاتل وہ خود ہی تھا، لہذا قاتل کی تلاش کے لیے اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک اور معجزہ عطا کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک گاۓ ذبح کرو۔ وہ بولے: کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ ( موسیٰ نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ انہوں نے کہا: اپنے پروردگار سے التجا کیجیے کہ وہ ہمیں بتاۓ کہ وہ گاۓ کس طرح کی ہو؟ ( موسیٰ نے کہا : پروردگار فرماتا ہے کہ وہ گاۓ نہ تو بوڑھی ہواور نہ بچھڑا بلکہ ان کے درمیان ( یعنی جوان ہو، سو جیسا تم کوحکم دیا گیا ہے ویسا کرو! انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے درخواست کیجیے کہ ہم کو بھی بتا دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ موسیٰ نے کہا: پروردگار فرماتا ہے کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہو کہ دیکھنے والوں ( کے دل کو خوش کر دیتا ہو ۔ انہوں نے کہا: اپنے پروردگار سے پھر درخواست کیجیے کہ وہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کی ہو کیونکہ بہت سی گائیں ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتی ہیں ( پھر اللہ نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جاۓ گی ۔موسی نے کہا کہ اللّہ فرماتا ہے کہ وہ گاۓ کام میں لگی ہوئی نہ ہو، نہ تو زمین جوتتی ہواور نی کھیتی کو پانی دیتی ہو، اس میں کسی قسم کا داغ نہ ہو۔ کہنے لگے : اب تم نے سب باتیں درست بتادیں ۔غرض ( بڑی مشکل سے انہوں نے اس گاۓ کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے تھے نہیں۔ اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا تو اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے اللہ اس کو ظاہر کرنے والا تھا۔ تو ہم نے کہا کہ اس گاۓ کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو۔ اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اورتم کو اپنی (قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تا کہ تم سمجھو‘‘ (البقرة:67/2-73)
◆حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے مروی ہے کہ ملک الموت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف (ان کی روح قبض کرنے کے لیے ) بھیجا گیا۔ جب وہ آۓ تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تھپٹر مار دیا۔ وہ اپنے رب تعالی کے پاس گئے اور عرض کی : ” تو نے مجھے جس بندے کی طرف بھیجا ہے، وہ مرنا نہیں چاہتا۔‘‘اللہ تعالی نے فرمایا ’’دوبارہ ان کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ کسی بیل کی پشت پر ہاتھ رکھیں ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے، اتنے سال عمر ( مزید ) مل جاۓ گی ۔‘‘ ( ملک الموت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔ آپ نے فرمایا:’’یارب! اس کے بعد کیا ہو گا ؟‘‘ اللہ تعالی نے فرمایا:’’پھر موت آ جاۓ گی ۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام  نے فرمایا ”تب ابھی ( وفات کا حکم قبول ہے ۔‘‘)
 اس وقت موسیٰ علیہ السلام  نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ آپ کو ارض مقدس کے اتنا قریب کر دے جتنی دور پتھر جاسکتا ہے۔(اللہ تعالی نے یہ درخواست قبول فرمائی اور ارض مقدس کے قریب وفات دی۔) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں وہاں ہوتا تو تم لوگوں کو آپ کی قبر مبارک دکھا دیتا جو راستے کے کنارے سرخ ٹیلے کے قریب ہے۔‘‘
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ) 
ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   4
5 Comments

Dr.Abdul Aleem khan

20-Jan-2022 12:51 PM

شکریہ

Reply

Amir

19-Jan-2022 10:36 PM

بہت ہی بہترین

Reply

Farida

19-Jan-2022 09:14 PM

Very nice

Reply