آسماں ہو رہے ہیں
جہاں ذکر امن و اماں ہو رہے ہیں
وہیں روز فتنے جواں ہو رہے ہیں
وہ سمجھے کہ جل کر دھواں ہو رہے
انھیں کیا خبر آسماں ہو رہے ہیں
اسی سے ہے شاید انھیں بدگمانی
کہ ہم رونقے داستاں ہو رہے ہیں
خدا جانے یہ کیا کیا دوستوں نے
جو دشمن تھے وہ مہرباں ہو رہے ہیں
یہ کہتا ہے میرے لبوں کا تبسم
ستم آپ کے رایگاں ہو رہے ہیں
یہ بے چارگی جو نہیں ہے تو کیا ہے
جو اہل زباں بے زباں ہو رہے ہیں
وہاں نام آتا ہے جاوید کا بھی
جہاں ان کے قصے بیاں ہو رہے ہیں
جاوید سلطانپوری
Amir
28-Feb-2022 05:29 PM
nice
Reply
Farida
28-Feb-2022 12:04 PM
Nyc
Reply
साहित्य का अनूठा संगम
28-Feb-2022 10:57 AM
Very nyc
Reply