Add To collaction

غزل

مرا بھی دنیا میں اے دوست ایک دلبر تھا

سراپا  عشق وفا کا حسین پیکر تھا

مجھے سنبھال کے رکھتا وہ کس لئے آخر
میں اس کی نظروں میں بس راستے کا پتھر تھا

اڑا کے تیز ہوا لے گئی اسے بھی آج
جو ٹوٹا پھوٹا ہوا سر پہ میرے چھپر تھا

مدد کے واسطے آواز دے رہا تھا کوئی
کنویں میں جھانک کے دیکھا تو میں ہی اندر تھا

اسی  نے لوٹ لیا کارواں کو رستے میں
قدم قدم جو رہا ساتھ اور  رہبر تھا

یہ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے یارو
کسی کو قطرہ نہ حاصل کوئی سمندر تھا

کسے خبر تھی مرے قتل کے لئے جاوید
وہ آستین میں اپنی چھپائے خنجر تھا

جاوید سلطانپوری

   5
1 Comments

Zakirhusain Abbas Chougule

20-Mar-2022 11:54 PM

Masha Allah

Reply