Jahan e Adab

Add To collaction

افسانہ۔ اس کی بیویاں۔ از۔ ایم مبین

افسانہ اُس کی بیویاں از:۔ ایم مبین 

تھوڑی دیر میں ہی پورے علاقے میں رنگی کی موت کی خبر پھیل گئی ۔ جو بھی اس کی موت کی خبر سنتا طرح طرح کے سوال کرنے لگتا ۔
رنگی کس طرح مری ؟
کل تک تو اچھی خاصی تھی ؟ 
کیا اسے رنگا نے مارا ؟
کیا وہ بیمار تھی ؟ 
سوالات کا سامنا کرنے والا مختصر سا جواب دے کر اپنی جان چھڑا لیتا ۔ 
’’پتہ نہیں ..... شرفو سیٹھ کے کارخانے کے پاس رنگی کی لاش پڑی ہے ۔‘‘
رنگی کی لاش اسی علاقے میں ہے یہ جان کر اس کی لاش دیکھنے کے لیے سب شرفو سیٹھ کے کارخانے کی طرف دوڑپڑے ۔ سچ مچ وہاں رنگی ک لاش پڑی تھی اور رنگا اس کے سریانے بیٹھ کر دہاڑیں مار کر رو رہا تھا ۔ جو بھی رنگی کی لاش کو دیکھتا اس کے جسم میں ایک جھر جھری سی دوڑ جاتی تھی اس کی آنکھیں اور منہ بھیانک انداز میں کھلا ہوا تھا ۔ کھلے منہ سے اس کے تیڑھے میڑھے بد صورت دانت جھانک رہے تھے ۔ چہرے پر درد اور دہشت کے ملے جلے تاثرات تھے ۔ 
’’رنگا !..... رنگی کس طرح مری؟‘‘کسی نے رنگا سے پوچھا ۔ 
’’پتہ نہیں ‘‘روتے ہوئے رنگا نے جواب دیا...’’ دو تین دن سے بیمار تھی ۔ کام پر نہیں آرہی تھی ۔ آج اس سے کام پر چلنے کے لیے کہا تو بڑی مشکل سے چلتی یہاں تک آئی اور چکرا کر گری اور ختم .... ہائے میری رنگی....‘‘ کہتا وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔ 
’’حرامی... جب اس کی طبیعت خراب تھی تو اسے کام پر کیوں لایا ۔‘‘ کسی نے اسے گالی دی لیکن اس بری تہذیب بھری گالیاں رنگا پر اثر نہیں کرتی تھی ۔ فحش سے فحش گالیاں سن کر بھی وہ اپنے بھدے ہونٹ پھیلا کر دانت دکھاتا تھا ۔ 
لوگ آتے لاش دیکھ کر آپس میں باتیں کرتے اور واپس چلے جاتے ۔ اس حالت میں رنگی کی لاش پڑے کئی گھنٹے ہوگئے تو کسی کو یاد آیا 
’’اے رنگا ! اب کیا زندگی بھر یہ لاش یہاں پڑے رہے گی ؟ جا اسے گھر لے جا کر اس کاکِریا کرم کر ۔‘‘
’’کریا کرم کے لیے پیسے نہیں ہے ‘‘کہتا وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔ 
’’ٹھیک ہے کریا کرم کے پیسے جمع ہوجائیں گے ،جاجا کر سب سے مانگ ...‘‘ کسی نے کہا تو رنگا بجلی کی سی پھرتی سے اٹھا اور اس نے کھڑے ہوئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا ۔ 
نظارہ تماش بینوں کے سامنے تھا ۔کسی طرح کے کسی سوال کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ سب کے ہاتھ اپنی اپنی جیبوں کی طرف بڑھے اور جس سے جو بن پڑا رنگا کے ہاتھ میں رکھ دیا ۔ دھیرے دھیرے رنگا کی مٹھی بھرنے لگی ۔ جب مٹھی بھر گئی تو اس نے اپنی جھولی کو مٹھی بنا لیا ۔ 
پورے علاقے میں سینکڑوں کارخانے تھے جن کی صفائی کاکام رنگا اور رنگی کرتے تھے ۔ رنگی کی موت کا ہر کسی کو افسوس تھا اور ہر کسی کو رنگا سے ہمدردی تھی ۔ اس لیے اس کی جھولی تیزی سے بھرتی جا رہی تھی ۔ رنگی کی لاش پڑی رہی ۔ سب کو پتہ تھا رنگا کریا کرم کے لیے پیسہ جمع کرنے گیا ہے بس آیا ہی چاہتا ہے ۔ لیکن جب شام ہوگئی اور رنگا نہیں آیا تو لوگوں کا ماتھا ٹھنکا اور شرفو سیٹھ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔
سویرے سے رنگی کی لاش لاوارث اس کے کارخانے کے سامنے پڑی ہے ۔ اس طرح پڑی رہی اور پولیس کا جھمیلہ کھڑا ہوگیا تو اسے جواب دینا مشکل ہوجائے گا ۔ لوگ رنگا کی تلاش میں دوڑے لیکن وہ کسی کو نہیں مل سکا ۔ اس علاقے سے کچھ دور جہاں رنگا جھونپڑی بنا کر رہتا تھا، لوگ وہاں بھی اسے دیکھ آئے لیکن وہ دکھائی نہیں دیا تو شرفو سیٹھ کی دل کی دھڑکنیں اور تیز ہوگئیں ۔ 
انھوں نے رنگا یا رنگی کے رشتہ داروں کا پتہ لگایا تو اسے رنگی کی ایک بہن کا پتہ ملا ۔ 
’’اے بائی تیری بہن مر گئی ہے ۔ سویرے سے اس کی لاش میرے کارخانے کے سامنے پڑی ہے ۔ رنگا لاش چھوڑ کر بھاگ گیا ہے ۔ ‘‘
بہن کے مرنے کی خبر سن کر وہ دہاڑیں مارتی روتی اس مقام پر پہنچی جہاں رنگی کی لاش پڑی تھی ۔ 
پھر رنگی کی لاش دیکھ کر وہ رنگا کو گالیاں دینے لگی .....’’ اس حرامی ،کمینے کتے نے میری بہن کو مار ڈالا...مار کر بھاگ گیا ‘‘......جب لوگوں سے اسے بتایا کہ رنگی کو رنگا نے نہیں مارا ہے ،وہ اپنی موت مری ہے ۔دوپہر تک تو وہ اس کی لاش کے پاس بیٹھا رو رہا تھا پھر کریا کرم کے لیے پیسے جمع کرنے لگا ۔جب اچھے خاصے پیسے جمع ہو گئے تو پیسہ لے کر بھاگ گیا ۔ 
’’حرامی ،ذلیل ،کمینہ کتا ....... بیوی کی لاش کے کریا کرم کے پیسے لے کر بھاگ گیا ....جاکر جوا کھیلے گا اور شراب پیے گا.... ہائے میری بہن ......اب میں تیرا کریا کرم کیسے کروں ؟ میرے پاس تو تیرے کریا کرم کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں ہے ۔‘‘ 
اس بات کو سن کر شرفو سیٹھ کے دل کی دھڑکنیں اور زیادہ تیز ہوگئیں ........
’’ ارے بائی ! ہزار روپیہ میں دیتا ہوں اور بھی کچھ پیسے دوسروں سے دلا دیتا ہوں،تُو یہ لاش لے کر یہاں سے جا ....‘‘کہتے ہوئے اس نے دو پانچ پانچ سو کی نوٹیں نکال کر اس کی طرف بڑھائی ۔ رنگی کی بہن نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے پیسے لیے اور پھر دہاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔ 
’’اتنے کم پیسوں میں کریا کرم کیسے ہوگا ؟‘‘
’’بھائیو! جس سے جتنا ہو سکتا ہے اس کی مدد کیجیے ۔‘‘ شرفو سیٹھ نے آواز لگائی تو لوگ جیب سے پیسے نکال نکال کر رنگی بہن کی طرف بڑھانے لگے ۔ پیسہ جمع کرتے کرتے رنگی کی بہن کا فی دورن نکل گئی ۔ جب واپس آئی تو اس کے پاس اچھی خاصی رقم تھی ۔ اس نے وہ رقم اپنی ساڑی میں ٹھونسی اور رنگی کی لاش کو کسی بوجھ کی طرح اپنے سر پر اٹھا لیا اور لاش لے کر اپنی بستی کی طرف چل دی۔ 
رنگی کی لاش اٹھ جانے کے بعد لوگوں نے اطمینان کی سانس لی ۔ وہ پھر اس کی موت پر تبصرہ کر نے لگے ۔
’’رنگا جیسا حرامی آدمی شاید ہی دنیا میں کوئی ہوگا ۔ بیوی کی لاش پڑی ہے رحم کھا کر اس کے کریا کرم کے لیے لوگوں نے جو پیسہ دیے ہیں وہ بھی لے کر بھاگ گیا۔ بیوی کی لاش چھوڑ دی .....‘‘
’’ارے بھائی ! یہ ادیواسی لوگ ہیں ۔ ان کے لیے اس طرح کی حرکتیں معمول کی باتیں ہیں ۔‘‘ 
رنگا دو تین سال قبل اس علاقے میں آیا تھا ۔ 
ہفتہ بھر مشینوں پر کام ہوتا رہتا تھا ۔ چھٹی کے دن مشین بند رہتی تھی ۔اس دن مشینوں کی صفائی کی جاتی تھی ۔ اس دن صفائی کے لیے قریب کی ادیواسی بستی کے کئی عورتیں اور مرد اس علاقہ میں مشینوں کی صفائی کے کام کے لیے آجاتے تھے ۔ 
سو دو سو روپیہ میں وہ مشین کی اچھی طرح صفائی کر دیتے تھے کیونکہ یہ ان کاکام تھا ۔ دوسرے لوگ اس طرح کی صفائی سے مشین صاف نہیں کر پاتے تھے اس لیے یہ کام انہی کو دیا جاتا تھا ۔ انہی کے ساتھ رنگا بھی آیا تھا ۔ اس کا نام شاید کچھ اور تھا لیکن اس کے جسم کے میلے کچیلے کپڑے اور گندے جسم کو دیکھ کر لوگوں نے اس کانام رنگا رکھ دیا تھا ۔ 
اس کی یہ خاص بات تھی کہ صفائی کرنے کے لیے دیگر ادیواسی صرف چھٹی کے دن اس علاقہ میں آتے تھے ۔ رنگا دن بھر اسی علاقہ میں گھومتا رہتا تھا اور جو اس سے چھوٹا موٹا کام کہتا خوشی سے کر دیتا تھا ۔ شام کو یا تو شراب پی کر اپنے گھر چلا جاتا پھر وہیں کسی کارخانے کے کونے میں دبک کر سو جاتا تھا ۔ ایک دن آیا تو اس کے ساتھ ایک بد صورت ،دبلی پتلی ،آبنوسی رنگ کی لڑکی بھی تھی ۔ 
اس کے بارے میں بتانے لگا کہ یہ اس کی بیوی ہے ۔ بستی والوں نے اس کے ساتھ اس کی شادی کر دی ہے اب یہ بھی اس کے ساتھ کام کرے گی ۔ اس طرح وہ دونوں مل کر کام کرتے ۔ دن بھر اسی علاقے میں رہتے جو کام مل جاتا کرتے اور شام کو اپنی بستی کی طرف چل دیتے تھے ۔ 
اس طرح دن بیت رہے تھے ۔ دو تین دن سے رنگا اکیلا کام پر آرہا تھا ۔ پوچھنے پر بتایا تھا کہ رنگی بیمار ہے ۔ 
......اور آج اس کی موت ہوگئی تھی ۔ 
اس کے بعد کئی دنوں تک وہ اس علاقہ میں دکھائی نہیں دیا ۔ ایک دن آیا تو اس کے ساتھ اس کی سالی تھی ۔ اس کی سالی نے اس کا گربیان پکڑ رکھا تھا ۔ وہ رنگا کو گریبان سے پکڑ کر ہر اس جگہ جاتی جہاں وہ کام کرتا تھا اور کام کروانے والے سے کہتی .......
’’یہ حرامزادہ میری بہن کے کریا کرم کے ۱۵؍ ہزار روپیہ لے کر بھاگا تھا ۔ سارے پیسے اس نے جوئے اور شراب میں اڑا دئیے ۔ وہ میری بہن کے کریا کرم کے پیسے تھے ۔ اس لیے آج کے بعد یہ جو بھی کام کرے گا اسے ایک پیسہ مزدوری نہیں دینا ۔ وہ مزدوری مجھے دینا جب تک اس کے اڑائے ۱۵؍ ہزار روپیہ جمع نہیں ہوجاتے میں پیسہ وصول کرتی رہوں گی۔ جس دن پورے ۱۵؍ ہزار روپیہ جمع ہوجائیں گے، میری مرحوم بہن کی آتما کو شانتی ملے گی ۔ میں ان پیسوں سے بہن کا اترکاریہ کروں گی ۔ ‘‘
رنگا چپ چاپ سر جھکائے کھڑا رہا ۔ اس کے بعد سے یہ معمول ہوگیا ۔ رنگا دن بھر کام کرتا رہتا شام میں مزدوری وصول کرنے کے لیے اس کی سالی آدھمکتی ۔ سارے پیسے خود لے لیتی اور رنگا کو ہزاروں گالیاں دیتی ۔
’’حرامی ،کتا کمینہ..... اس سے کام نہیں ہوتا ۔ دن بھر میں دو سو روپیہ کا بھی کام نہیں ہو پاتا ہے ۔ کیا زندگی بھر کام کر کے ۱۵ ؍ ہزار روپیہ جمع کرئے گا ۔ ‘‘
رنگا چپ چاپ اس کی گالیاں سنتا اور جب وہ پیسہ وصول کر لیتی تو چپ چاپ اس کے ساتھ بستی کی طرف چلا جاتا ۔ ایک آدھ مہینے تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر کئی دنوں تک رنگا اس علاقہ میں دکھائی نہیں دیا اور نہ اس کی سالی دکھائی دی ۔ 
ایک دن اس کی سالی دکھائی دی تو لوگوں نے رنگا کے بارے میں پوچھا...... ’’ پتہ نہیں حرامی کہاں بھاگ گیا ہے ۔ ارے میں تو اس کے بھلے کا سوچ رہی تھی ۔ میری بہن کو تو کھا گیا ۔ میری ایک نند ہے وہ ایک آنکھ سے کانی ہے ۔ اس وجہ سے اس کی شادی نہیں ہو رہی ہے ۔ سوچ رہی تھی اس کے ساتھ رنگا کی شادی کر دو ں گی تو رنگا کی زندگی بھی اچھی طرح گذرے گی اور مجھے بھی اپنی کانی نند کے بوجھ سے نجات مل جائے گی ۔ اس کے لیے اس کے پیسہ جمع کر رہی تھی ۔ تو حرامی بھاگ گیا پتہ نہیں کہاں بھاگا ہے ۔ اسے بہت تلاش کیا ملتا ہی نہیں ہے ۔ ‘‘
سالی کی باتیں سن کر سب ہنسنے لگے اور اس کی باتوں پر چرچا بھی کرنے لگے ۔ کیسی عورت تھی ۔ اس کی بہن مر گئی اسے اس کا دکھ نہیں ہے ۔ اب اسی مرد کے ساتھ اپنی نند کا بیاہ کرنا چاہتی ہے جو اس کے بقول اس کی بہن کی جان لے چکا ہے ۔ 
ایک دن کارخانے کا مالک رنگا کو پکڑ لایا ۔ وہ کسی کام سے دوسرے شہر گیا تھا ۔ تو اسے وہاں رنگا دکھائی دیا ۔ وہ وہاں کام کر رہا تھا تو اس نے اسے سمجھایا کہ وہ واپس شہر چلے ۔ اس پر وہ اپنی سالی کے بارے میں بتایا کہ اسے اس سے بہت ڈر لگتا ہے تو اس آدمی نے ہنستے ہوئے اسے حقیقت بتائی ۔ 
’’ارے تیری سالی اپنی نند کے سا تھ تیری شادی کرنا چاہتی ہے ۔ چل ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ تیری شادی ہو جائے گی ،تجھے بیوی مل جائے گی ،چل شادی کر کے مزا کر ......‘‘
وہ آیا اور پھر اسی علاقے میں رہنے لگا ۔ 
سالی کے ڈر سے اس نے اپنے گھر اور بستی کا رخ نہیں کیا لیکن ایک دن اس کی سالی کو اس کا پتہ چل گیا ۔ وہ آئی اور اسے گریبان سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئی ۔ دوسرے دن وہ رنگا کو لے کر آئی اور کام کرنے کے لیے پھر اس علاقہ میں چھوڑ گئی ۔ اس نے سب کو تاکید کی تھی کہ خبر دار کام کے پیسے رنگا کو نہ دیں ۔ وہ رنگا کے مزدوری کے پیسے لے گی ۔ 
اس کے بعد یہ معمول ہو گیا ۔ رنگا سویرے اکیلے آتا ،د ن بھر کام کرتا شام کو مزدوری وصول کرنے کے لیے اس کی سالی آتی ۔ وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چلا جاتا تھا ۔ وہ اس سے بہت ڈرتا تھا ۔ کریدنے پر اس نے بتایا کہ وہ بڑی ظالم ہے ۔ اسے جانوروں کی طرح مارتی ہے ۔ اس کے سارے پیسے تو چھین لیتی ہے ۔ شکر اس بات کا ہے کہ اسے دو وقت کھانے کے لیے دیتی ہے اور شراب پینے کے لیے دس روپیہ دے دیتی ہے ۔ ایک دو مہینہ یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ 
ایک دن رنگا آیا تو اس کے سا تھ اس کی سالی کی کانی نند بھی تھی ۔ اس کے بارے میں پوچھنے پر وہ بتانے لگا کہ ان کی شادی ہو گئی ہے وہ اس کی بیوی ہے ۔ اب وہ ساتھ رہتے ہیں اور اب ساتھ ہی کام کریں گے ۔ 
اس کے بعد وہ دونوں ساتھ ساتھ کام کے لیے آتے ۔ساتھ کام کرتے اور شام میں ساتھ واپس اپنی بستی کی طرف چلے جاتے تھے ۔ اپنی مزدوری کے پیسے وہ خود وصول کرتے تھے ۔ رنگا کی ظالم سالی مزدوری کے پیسے وصول کرنے کے لیے نہیں آتی تھی ۔ دونوں بڑے خوش تھے ۔ جہاں تنہائی ملتی تھی وہ ایک دوسرے سے باتیں، ہنسی مذاق کرنے لگتے تھے ۔
اپنی باتوں اور ہنسی مذاق میں وہ اس قدر کھوجاتے تھے کہ انھیں احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ لوگ رک رک کر ان کی عجیب و غریب حرکتوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ دن گذررہے تھے ۔ دونوں کی زندگی اچھی طرح گذر رہی تھی ۔ ایک دن رنگا نے سب کو یہ خبر سنائی کہ اس کی سالی کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے ۔ وہ بیوہ ہوگئی ہے ۔ رنگا کی کانی بیوی کا جسم دھیرے دھیرے پھولنے لگا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ امید سے ہے ۔ 
اس کے بعد رنگا اس کا اور بھی زیادہ خیال رکھنے لگا تھا ۔ وہ بھی رنگا پر واری واری جاتی تھی ۔ جب آخری ایام قریب آئے تو اس نے رنگا کے ساتھ کام پر آنا چھوڑ دیا تھا ۔ لوگوں کے لیے ایک دلچسپی کا ذریعہ مل گیا تھا ۔ ہر کوئی بار بار رنگا سے ایک سوال کرتا تھا ۔
’’رنگا کوئی خوش خبری ؟‘‘
ان کی اس بات پر رنگا شرما جاتا اور شر ما کے جواب دیتا تھا ......’’ نہیں ابھی تک تو نہیں ہے ۔ ‘‘
پھر وہ تین چار دن کام پر نہیں آسکا ۔ تین چار دن بعد کام پر نہ آنے کی وجہ پوچھنے پر وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔ 
’’ڈیلیوری میں میری بیوی کا انتقال ہو گیا ہے ۔‘‘
سچ مچ لوگوں کے لیے یہ بری خبر تھی ۔ رنگا کی دوسری بیوی بھلے ہی کانی تھی لیکن رنگا اس سے بہت خوش تھا ۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش تھے لیکن اس کی اس طرح موت واقع ہو جائے گی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ لوگ سے تسلی دیتے ۔ 
کوئی کوئی مذاق میں کہہ دیتا ۔
’’رنگا چنتا مت کرو ۔بھگوان نے پیدا کیا ہے تو بیوی بھی دے گا ۔ دو تو دے چکا ہے تیسری بھی ضرور دے گا ۔‘‘ 
لوگوں کی باتیں سن کر وہ شرما جاتا تھا اور اپنے کام میں لگ جاتا تھا ۔ ایک دن کام پر آیا تو اس کے ساتھ اس کی ظالم سالی تھی ۔ ان دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر سب گھبراگئے ۔ 
’’رنگا !‘‘....... کسی نے دھیرے سے پوچھا ’’یہ ظالم تمہارے ساتھ کیسے ؟‘‘
اس بات کو سن کر رنگا شرماگیا اور شرمائے ہوئے لہجے میں بولا .....
’’اب یہ میری بیوی ہے ،ہم نے شادی کر لی ہے ۔‘‘
*****
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ:۔
ایم مبین
۳۰

   11
6 Comments

Arshik

12-Sep-2022 12:14 PM

بہت زبردست👏👏

Reply

Mchoudhary

24-Mar-2022 12:32 AM

👏

Reply

Manzar Ansari

23-Mar-2022 10:28 PM

بہت بہتریں

Reply