Ahmed Alvi

Add To collaction

24-Mar-2022 A طالب زیدی کا مڑاحیہ مضمون


ظریفانہ طمانچے پر ظریفانہ تبصرہ 

از قلم طالب زیدی

آی پ نے اردو اخباروں میں اکثر پڑھا ہوگا کہ فلاں مقام پر تمنچے کی نوک پر بس لوٹ لی. کسی دوشیزہ کی عصمت دری میں بھی اسی نوک کا تذکرہ ملتا ہے. زیادہ تر جرم اسی نوک سے کیئے جاتے جاتے ہیں.

احمدعلوی سے متعلق شاعر ادیب، صحافی، ڈرامہ نویسی کا ، پہلے تذکرہ بعد میں غلغلہ ہوا. مشاعرے لوٹے جانے کی خبریں بھی ملتی رہیں. مگر تمنچے کا تذکرہ کہیں نہیں تھا.

ایک دن ڈاکٹر خالد حسین خاں اپنی متانت اور ڈاکٹر مکتوب الرحمن قاسمی نظامت اور احمد علوی کی کتاب ظرافت لئے ہوئے غریب خانے پر وارد ہوئے. احمد علوی نے پڑھنے اور خالد حسین خاں و ڈاکٹر مکتوب الرحمن قاسمی نے اس پر کچھ لکھنے کی فرمائش کی، کتاب پڑھی تو اندازہ ہوا کہ علوی کو لوٹ پاٹ کے لئے تمنچے کی ضرورت نہیں ہے ان کی یہ کتاب مسماۃ یا مسمی " طمانچے" ہی کافی ہے.

کتاب میں نے شروع سے آخر تک انتہائی تحمل اور یکسوئی کے ساتھ پڑھی، جب عالم جانکنی سے نکل آیا تو اس پر لکھنے کو یوں بھی جی چاہا کہ اپنے کرم فرما ڈاکٹر خالد حسین خاں سے شرمندہ تھا، ماضی میں کئی مرتبہ ان کی عطا کردہ کتابیں پڑھ کر ہضم کر گیا تھا. کیونکہ آج کل میں ویجیٹیرین ہوں اس لئے ایک تیر دو تیر کی مثال نہیں دے سکتا. ہاں ایک پنتھ دو کاج کے تحت اس کتاب پر کچھ لکھ دوں تو ڈاکٹر خالد حسین خاں اور ڈاکٹر ایم آر قاسمی دونوں خوش ہو جائیں گے. احمد علوی کا کیا حال ہوگا یہ اللہ جانتا ہے وہ علیم و خبیر ہے. 

بہ ایں ہمہ کتاب پر کچھ لکھنے سے پہلے مجھے یوسف ناظم کے انتقال پر ملال کی خبر نے روکے رکھا. اس کتاب پر دیگر لکھنے والوں کی خیریت معلوم کرنے کے بعد احمد علوی سے دریافت کیا کہ بھائی آپ کی اس کتاب پر یوسف ناظم مرحوم نے کچھ لکھا ہے باوجود یہ کہ ہندی میں مزاحیہ شاعری لکھ رہے ہیں. میرے سوال کی گہرائی تک فوراً پہنچ گئے اور جھٹ سے ایم آر قاسمی کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ بہت کچھ لکھا ہے. 

ان کی اس فی البدیہہ قسم سے نہ صرف کتاب پر لکھنے کا حوصلہ بلکہ ایم آر قاسمی کے ان کی کتاب پر اس جملے " یہ مختصر کلام کسی دانشورانہ حیرت کدے سے کم نہیں" کے مفاہیم بھی کھلتے چلے گئے. 

بھرپور طنزو مزاح کے سبب دندان نما سے ہنسی اور پھر قہقہوں کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے بام فکر و شعور کا راستہ اس کتاب سے ملتا ہے. 

"الہ دین کے چراغ" اور جن کو بالکل نیا نظریہ دیا ہے،" ویر رس کے کوی " صرف مزاحیہ نظم ہی نہیں سنجیدہ آلمیہ ہے. ہمارا وجود مخالفت کی بیساکھیوں پر ٹکا ہوا ہے. ان کی نظم " بدنام" مختصر مگر جامع ہے. پولس کے کردار کو بہ طریق احسن پیش کیا ہے. 

احمدعلوی دلاور فگار کی شاعری کے دلدادہ ہیں بے شک اپنے وقت میں دلاور فگار مزاحیہ شاعری کے بے تاج بادشاہ تھے. علوی کی نظم کرکٹ دلاور فگار کی نظم شاعر اعظم کی یاد دلاتی ہے. مگر اس کا چربہ نہیں ہے. کرکٹ اور شاعری کے موضوع کو خوب نبھایا ہے اور بڑے رواں شعر نکالے ہیں. میرے خیال میں اس نظم کا آخری شعر اگر تمثیلی انداز میں پڑھا جائے یعنی بلے کا سائز ہاتھ سے اور پین جیب سے نکال کر دکھایا جائے تو غیر سنجیدہ عوام سیٹیاں بجانے پر مجبور ہو جائیں گے. 

نظم اقبال جرم کا عنوان اس مناسبت سے بھی دلچسپ ہے کہ یہ جس نظم کی پیروڈی ہے وہ علامہ اقبال کی " شکوہ جواب شکوہ" ہے. پوری نظم فکر و آگہی اور طنز کی بھرپور کاٹ سے لبریز ہے. احمدعلوی کو ایک اینٹ سے عمارت تعمیر کرنے کا فن بھی آتا ہے نظم " کسرت" پڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ ایک لفظ سے شاعر نے کیا کام لیا ہے. نظم " شرافت" کی بنت روانی واقعہ نگاری، تحیر اور اختتامیہ بہت دلچسپ ہے. 

ان کی کتاب میں کچھ شاعری ہزل اور کچھ شاعری غزل کے عنوان کے تحت ہے میں نے کافی کوشش کی کہ عنوان کے اختلاف کو سمجھ سکوں شاعری پڑھ کر لطف تو ضرور آیا مگر فرق سمجھ نہیں آیا. 

احمدعلوی علوی نے کچھ"  مگس کو باغ میں جانے نہ دینا" قسم کی چیستانی قسم کی شاعری بھی کی ہے جس کے تحت ایک خاتون اچار کے ٹھیلے ڈھوندتی پھرتی ہے. 

احمدعلوی علوی نے ایک نظم " ب پروف" میں ببانگ دہل لکھ دیا ہے کہ اس نظم کا مرکزی خیال شوکت تھانوی کے مشہور مضمون " ب" سے لیا گیا ہے. 

آفریں صد آفریں احمد علوی آپ نے بڑی ایمانداری سے کام لیا بہر گاہ کہ شوکت تھانوی صاحب کے پاکستان میں انتقال کو بھی عرصہ گزر گیا ہے. میں نے آپ کی اس نیکی کا ذکر آپ کے ایک ہم عصر ہم مشرب سے اس لئے کیا کسی کی نیکی کے ذکر سے ثواب ملتا ہے اور مخاطب الیہ کو بھی اس کی توفیق ہو سکتی ہے. تو انہوں نے کہا کہ علوی صاحب کچھ شریف قسم کے آدمی ہیں پولس تھانے سے بچنا چاہتے ہیں اس لئے شوکت صاحب کے تھانوی ہونے کی علت کے سبب انہوں نے ایمانداری برتی ہے ان کے اس جواب سے میری نیکی برباد اور ان پر گناہ لازم ہو گیا. بہ ایں ہمہ ب پروف ایک رواں دواں اور مزاح کے لطیف پہلو لئے ہوئے ایک بہت عمدہ نظم ہے. 


نظم کے ساتھ ساتھ طمانچے میں 205 قطعات ہیں پوٹا، ثبوت عہد حاضر میں مسلم اقلیت کی طرف اشارہ ہے. جعفری مسلم ممبران پارلیمنٹ کے لئے چشم کشا ہونا چاہئے. اسلامی ملکوں کے صدر عنوان سے قطعہ بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے کا غماز ہے. قطعہ بہ عنوان مسلمان قومی مزاج کے ادراک کی دلیل ہے. احمد علوی نے گرد و پیش پر نظر ڈال کر اپنے لئے مواد مہیا کیا ہے اشتہار آج کل مارکیٹنگ کے طور طریقوں پر دلچسپ سوالیہ نشان ہے. 

سیکولر ہندوستان اور دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کے لئے بابری مسجد کا انہدام قیامت سے کم نہیں لیکن احمد علوی نے اس میں بھی خیر کا پہلو نکالا ہے. پناہ مسلم لیڈروں کو آئینہ دکھاتا ہے اور یاد دلاتا ہے کبھی خلیفہ وقت اپنی کمر پر آٹے کی بوری لاد کر غریبوں کے گھر پہنچاتے تھے. 

عمدہ طنز اور تلاش کی ذیل میں " مشاعرے کی فیس" دو شادیاں غلط فیصلہ نیکیاں جیسے قطعات رکھے جا سکتے ہیں. دو شادیاں میں تراکیب کی چستی نظر آئے گی " رضیہ مرے پیچھے ہے تو سلمہ مرے آگے" سلمہ میں الف ندائیہ یعنی کھڑا الف اسے آگے رکھا گیا ہے. 

مقام استاد شاعروں اور سینئر شاعروں کا المیہ اور عمدہ تصویر کشی ہے. لپٹن اور برسات میں قافیے کی تلاش اور نیا پن محسوس ہوتا ہے. آل انڈیا مشاعرہ لکھ کر چوتھے مصرعے میں شعروں مشاعروں اور سامعین با تمکین کے واقعی طمانچہ رسید کیا ہے. 

انگریزی الفاظ کا جستہ جستہ استعمال اکثر برجستہ ہے اور کہیں بے محل بھی ان کے قطعے ای میل میں آپ کو طنز قافیے کی تلاش سماجی نا محترم رویوں کا بھرپور عکس ملے گا. 

مزاح کے بارے میں دو دھاری تلوار ہونے کی بات عرصے سے کہی جا رہی ہے. ان کے قطعے مشورہ میں علوی دوسری طرف کی دھار کے نیچے آگئے ہیں. ان کے ہم مشرب نے آخری مصرعے کو اس طرح پڑھا کہ کہ موصوف کا نام ایک چوپائے سے جوڑ دیا. ہر چند میں نے ان سے کہا کہ لکھنے کی نہیں پڑھنے کی خطا ہے لیکن وہ ہم عصر لکھے پڑھے آدمی ہونے کے سبب قائل نہیں ہوئے( ایسا بھی کوئی زمانہ آئے گا جس میں ہم عصر نہ پائے جائیں ) 


میں نے کتاب کے سرورق پر " طمانچے" کے نیچے بریکٹ میں طنزو مزاح کا مجموعہ لکھا دیکھا جسے پڑھ کر احساس ہوا کہ صاحب کتاب نے پڑھنے والوں کے لئے کتنی آسانی پیدا کردی اور اپنے اوپر سات خون بھی معاف کرا لئے.

اب اگر میں احمد علوی سے کہوں کہ وزن ہجے سمجھ میں نہیں آرہے کتابت کی بہت سی غلطیاں ہیں صحیح کو صیح اور اور ختنہ کو ط سے لکھ کر وہ کیا کہنا چاہتے ہیں. تو استفسار کیا تو کتابت کی غلطی نہیں کچھ ایجاد بند قسم کی چیز ہے فرمانے لگے بالکل درست میری نظر میں جب معرکہ سر ہوا بہت خون خرابہ ہوا اور جن صاحبزادے پر ہاتھ صاف کیا گیا وہ کافی جید قسم کے مسلمان عربی عالم کے نور نظر تھے.

اس لئے یہ ختنہ ذرا معرب ہو گئی تھی اس لئے میں نے اسے ت کی بجائے طوئے سے لکھا ہے اور بار بار لکھا ہے.

عجب نہیں کہ ان غلطیوں کا ٹھیکرا کاتب کے سر پھوڑ دیں اس لئے میں نے ان سے کچھ نہ کہہ کر کاتب کو تلاش کیا، اور کہا کہ اردو ویسے ہی زمانے کی مار سہہ رہی ہے. آپ نے کتابت کی اتنی غلطیاں کرکے اسے اور بھی نیم مردہ کر دیا ہے. تو اس پر کاتب فرفر رقم نے فرمایا جناب کتاب مزاحیہ شاعری کی تھی میں نے صرف نقل کی ہے عقل کو زحمت دینے کی ضرورت نہیں سمجھی.

کتاب کی ابتدا ساحل احمد کے مقتدر مفسر اور معرب رائے سے مزین ہے یوسف ناظم جیسے کہنہ مشق ادیب نے احمد علوی کی شاعری کو طمانچوں کی نہیں دبی دبی آنچوں کی شاعری کے خطاب سے نوازہ ہے. محترم منظور عثمانی تفصیلی اور حوالہ جاتی مضمون کمال جعفری( پیکس آل انڈیا ریڈیو ) کا مختصر اشاریہ کتاب کو پڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں.

مشاعروں میں سامعین کی طرف سے مکرر مکرر کی صدا پر دوبارہ شعر پڑھنا قدیم روایت ہے، مگر کتاب میں اس مکرر کا اثر پہلی بار دیکھا ہے. احمدعلوی نے اپنے ہم عصروں کے لئے جو قطعات لکھے ہیں اس میں ایم آر قاسمی نام کے قطعے کو دوبار جگہ دی گئی ہے. میرے استفسار پر احمدعلوی نے کہا کہ قاسمی کی سسرال اور میرا میکہ ایک ہی شہر کے ہیں، اس لئے ان سے خصوصی تعلق ہے اپنی بہن کی مدد کی نیت سے میں نے یہ کام کیا لیکن پھر بھی کامیابی نہ مل سکی. ان کے اس جواب سے میری نظر میں ان کا قد آور بڑھ گیا ورنہ آج کل رشتوں کی قدر کون کرتا ہے.

پایان تحریر میرا یہ مضمون پڑھنے کے بعد قارئین سے گزارش ہے کہ اردو کی بقا کے لئے اچھے گیٹ اپ عمدہ کاغذ والی کتاب خرید کر پڑھیں آخر آپ پان بیڑی سگریٹ جیسی فضولیات پر بھی تو سو روپے خرچ کر دیتے ہیں. مجھے امید ہے اگر آپ پڑھے لکھے تو آپ کو ہنسی ضرور آئے گی میرے مضمون میں لکھے سربستہ آپ پر م. کشف ہو جائیں گے اور آپ خود کو حلقہ دانشوراں کی فرد فرید تصور کرتے ہوئے دیگر تشنہ کام ظرافت کو فرید بک ڈپو کا پتہ بتائیں گے.

   6
3 Comments

Arshi khan

24-Mar-2022 09:45 PM

Bahutt khob

Reply

Manzar Ansari

24-Mar-2022 06:12 PM

Nice

Reply

fiza Tanvi

24-Mar-2022 06:07 PM

Bahut khoob

Reply