14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 3
منزل عشق قسط 3
میٹنگ میں پہنچ کر ایم این اے نے دیکھا تو سارے نمائندگان پہلے سے اپنی کرسیوں پر موجود تھے۔سب حیران تھے کہ ایسی کونسی بات تھی جس کے لیے چیر مین صاحب نے انہیں یہاں بلایا تھا۔
"کیا کوئی کافی ضروری بات ہے؟"
ایک ایم این اے نے ساتھ بیٹھے نمائندے سے پوچھا۔تبھی ان کے چیر مین محمود قریشی کمرے میں آئے تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔
"اسلام و علیکم!"
سب نے ہاں میں سر ہلا کر جواب دیا اور اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
"میں نے آپ کو یہ بتانے کے لیے بلایا ہے کہ میں نے اپنی اس پارٹی کا سربراہ کسی اور کو بنا دیا ہے خود میں ریٹائر ہونا چاہتا ہوں۔"
چیر مین کی بات پر سب حیران ہوئے کہ یوں اچانک انہوں نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے لے لیا اور سربراہ تو نمائندگان کی ووٹنگ سے بنایا جاتا تھا۔
"اور اب ہماری اس پارٹی کے رہنما کوئی اور نہیں خوشحال پاکستان پارٹی کے کافی بڑے سیاستدان عثمان ملک کے بیٹے سالار ملک ہیں۔"
سب کا منہ اس بات پر حیرت سے کھل گیا۔تبھی جینز کی پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس سالار کمرے میں داخل ہوا جسکا استقبال چیر مین نے کھڑے ہو کر کیا اور پھر اسے اپنی کرسی پر بیٹھایا۔
"آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں محمود صاحب یہ تو ابھی خود بچہ ہے سیاست کو کیا سمجھے گا۔"
ایک نمائندے نے اعتراض اٹھایا تو سب اسکی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
"آپ فکر مت کریں یہ بچہ اب سے عام عوام پارٹی کا مستقبل ہے اور مجھے یقین ہے کہ سالار صاحب اس پارٹی کو بہت آگے لے کر جائیں گے۔"
محمود صاحب نے وضاحت دینا چاہی۔
"لیکن یہ عثمان ملک کا بیٹا ہے سر اور ان کی بدنامی سے ہر کوئی واقف ہے۔"
ایک آدمی کی بات ہر سالار نے اپنے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔اس سے پہلے کہ محمود صاحب کچھ کہتے سالار نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔
"جی ٹھیک کہا آپ نے میں اسی عثمان ملک کا بیٹا ہوں جسے لوگ اب قاتل کے نام سے جانتے ہیں لیکن کیا ہے نا کہ آپ سب کے ایسے بہت سے کارناموں سے واقف ہوں جو سامنے آئے تو سب کی حالت قابل رحم ہو گی۔۔۔"
سالار نے میز پر اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا تو سب گڑبڑا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"رہی بات میری کم عمری کی تو الیکشن کے لیے پچیس سال کا ہونا ضروری ہے جو کہ میں ہوں اور میری ذہانت اس عمر میں بھی آپ لوگوں سے زیادہ ہی ہو گی ۔"
سالار کی بات پر سب کے چہرے ضبط سے سرخ ہو چکے تھے۔
"تم سمجھتے کیا ہو بچے خود کو جانتے ہو اس الیکشن میں ہمارا مقابلہ خوشحال پاکستان پارٹی کے رہنما خادم شفیق سے ہے اور وہ شخص پہلے بھی جیت چکا ہے اور اس بار بھی جیتے گا۔ "
ایک نمائندے نے سالار کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہا۔
"آپ مجھے جناب یا سر کہہ کر بلائیں گے رہی خوشحال پاکستان پارٹی کی بات تو وہ لوگ کیوں جیتے؟کیونکہ وہ عوام کو بہتری کے سنہرے خواب دیکھاتے ہیں،اپنے جلسے میں بلا کر انہیں بریانی کھلاتے ہیں یا پیسے اور لالچ دے کر ووٹ کو خریدا جاتا ہے۔۔۔"
"یہ سب تو ہم بھی کرتے ہیں..."
ایک ایم پی اے کی بات پر سالار مسکرا دیا۔
"لیکن ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ عوام ہماری زمہ داری ہے کوئی ٹشو پیپر نہیں جسے آپ لوگ اپنی جیت کے لیے استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔کیوں انکی یہ حالت ہے کہ انہیں اپنا ووٹ بیچنا پڑتا ہے؟کیوں انہیں اچھا کھانا کھانے کے لیے جلسے میں آنا پڑھتا ہے؟کیوں وہ خود غرض ہو کر غلط حکمران چنتے ہیں کیونکہ ہم لوگ انہیں خود غرض بننے پر مجبور کرتے ہیں۔۔۔۔"
سالار کی بات پر سب کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔
"میری پارٹی کے ہر نمائندے کا مقصد اس عوام کو استعمال کرنا نہیں بلکہ خود کو انکی فلاح پر لگانا ہو گا۔انکی مدد اس لیے نہیں کرنی کہ وہ ہمیں ووٹ دیں بلکہ اس لیے کرنی ہے کہ ہم مدد کرنے کے اہل ہیں اور انہیں اس کی ضرورت ہے۔اصل جیت ہمیں عوام کا حکمران بن کر نہیں بلکہ انکے دل پر حکومت کر کے حاصل ہو گی اس لیے آپکا گول کبھی بھی الیکشن کی جیت نہیں ہو آپکا گول ایک غریب کے چہرے کی مسکان ہو۔۔۔۔"
سب لوگ اب خاموشی سے سالار کی باتیں سن رہے تھے۔سالار کی نظر اس ایم این اے پر پڑی جسے اس نے سڑک پر دیکھا تھا۔
"میں تمہیں پارٹی سے نکال رہا ہوں تم جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں۔"
سالار کی بات پر سب کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
"لیکن سر۔۔۔۔"
" پرائیویٹ پارٹی ہے یہ جو چاہے کر سکتا ہوں میں اور باقی سب بھی میری بات غور سے سن لیں سالار ملک آپکے ذاتی مفاد کے لیے عوام کی بے بسی اور لاچارگی برداشت نہیں کرے گا اس لیے میرے ساتھ سوچ سمجھ کر رہنا اور جسے نہیں رہنا۔۔۔وہ آج ہی پارٹی چھوڑ کر جا سکتا ہے۔۔۔"
اتنا کہہ کر سالار نے گھڑی ہر ٹائم دیکھا اور کچھ سوچ کر مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا جبکہ ابھی بھی سب لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
❤️❤️❤️
معراج بے چین نگاہوں سے اپنا رزلٹ دیکھ رہا تھا لیکن خود کو پھر سے فیل ہوتا دیکھ وہ بے چینی غم میں بدل گئی اور اسکی سبز آنکھیں نم ہوئی تھیں۔
اسکا مطلب پرنسپل سر پھر سے بڑے پاپا کو باتیں سنائیں گے اور بڑے پاپا میری وجہ سے سر جھکا کر پرنسپل سے مجھے نہ نکالنے کی ریکویسٹ کریں گے۔۔۔۔
یہ سوچتے ہوئے معراج کی پلکیں نم ہو گئی تھیں اور وہ خاموشی سے سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔
"ارے کیا ہو گیا بونگے پھر سے فیل ہو گئے کیا۔۔۔ "
عمیر کی آواز پر معراج گھبرا کر کھڑا ہوا اور عمیر اور اسکے دوستوں کو دیکھنے لگا جن کا شوق تھا معراج کو پریشان کرنا۔
"تتت۔۔۔۔تم سے ۔۔۔۔۔ممم۔۔۔۔مطلب تم اپنا کام ۔۔۔۔ککک ۔۔۔۔کرو۔۔۔۔"
معراج گھبرانے کی وجہ سے زیادہ ہکلانے لگا تھا۔
"ارے ہماری چیونٹی نے تو پر نکال لیے ہیں اب یہ مکھی بن کر اڑنے لگے گا۔۔۔۔"
عمیر اتنا کہہ کر آگے بڑھا اور معراج کو گردن کے پیچھے سے پکڑ لیا۔
"تو بس ایک لوزر ہے معراج سعد ہمارا بونگا اپنی اوقات سے باہر نہیں نکلنا کبھی سمجھا۔۔۔۔"
عمیر کے چلانے پر معراج نے اپنے ہاتھ چہرے کے سامنے کر لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ عمیر پھر سے اسے مارے۔
"ارے چھوڑو اسے۔۔۔۔"
جنت کی آواز پر سب لڑکوں نے گھبرا کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا اور فوراً وہاں سے دور ہوئے۔
"سمجھتے کیا ہو تم لوگ خود کو آئندہ میرے کزن کو ہاتھ بھی لگایا نا تو ہاتھ توڑ دوں گی۔۔۔"
جنت نے معراج کے آگے آ کر انہیں گھورتے ہوئے کہا تو وہ سب ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے چلے گئے۔
"ہاہاہا دیکھا شارٹ سرکٹ یہ تو مجھ جیسی چھوٹی سی لڑکی سے ڈرتے ہیں اور تم ہو کہ ان سے ڈرتے ہو۔۔۔"
جنت نے ہنستے ہوئے کہا۔حالانکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑکے جنت سے نہیں ہر وقت اسکے ساتھ سائے کی طرح رہنے والے سالار ملک سے ڈرتے تھے۔
چند دن پہلے ہی تو انکے ایک دوست نے جنت کو ہاتھ لگایا تھا اور بعد میں سالار ملک نے اسکا ہاتھ توڑ کر سب کو کہا تھا کہ اگلی بار میری جنت کو چھونے والے کا ہاتھ توڑوں گا نہیں اکھاڑ پھینکوں گا۔بس تب سے ہی وہ جنت سے ایسے ڈرتے تھے جیسے کہ وہ کوئی بھوت ہو۔
"تم بھی ان سے ڈرنا چھوڑو تمہیں چاہیے کہ۔۔۔"
جنت بولتے بولتے چپ ہو گئی جب اس نے معراج کو روتے ہوئے دیکھا۔
"کیا ہوا معراج تم رو کیوں رہے ہو؟"
جنت نے پریشانی سے پوچھا۔
"مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔پھر سے فیل ہو گیا۔۔۔جج۔۔۔جنت۔۔۔۔بڑے بابا کو کککک۔۔۔۔کیا کہوں گا؟"
معراج کی بات پر جنت نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"تم فکر مت کرو بابا تمہیں کچھ نہیں کہیں گے وہ تم سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں البتہ تمہیں وجدان ماموں کی فکر کرنی چاہیے۔۔۔"
جنت کی بات پر معراج نے پریشانی سے اسے دیکھا تو جنت کھلکھلا دی۔
"لیکن فکر مت کرو میں ماموں کو تمہیں کچھ نہیں کہنے دوں گی بھئی میرے علاؤہ میرے شارٹ سرکٹ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔"
جنت کی بات پر معراج آنسو صاف کرتا مسکرا دیا۔
"تت۔۔۔تم بہت اچھی ہو جنت ۔۔۔"
" مکھن لگانے کی ضرورت نہیں۔۔۔"
"جنت بیٹا بات سنیں۔۔۔"
پروفیسر کی آواز پر جنت فورا انکے پا آئی۔
"جی سر؟"
"بیٹا مس ثناء کا جرنلزم کا پروجیکٹ ہے کہ کسی سیاست دان کا انٹرویو لیں لیکن ان میں کانفیڈینس اتنا نہیں تو آپ انکے ساتھ جاؤ تو کہ ایک کانفیڈنٹ لڑکی ہو ان کے ساتھ۔۔۔۔"
پروفیسر کی بات پر جنت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"میں کیا کروں گی؟"
"جنت بیٹا میں جانتا ہوں آپ بہت کانفیڈنٹ ہو آپ یہ کر لو گی۔۔۔۔"
جنت نے ہاں میں سر ہلایا اور ثناء کے ساتھ چل دی۔
❤️❤️❤️❤️
وجدان غصے کے عالم میں گھر میں داخل ہوا۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی یونی کی پرنسپل اسے فون کر کے اس کی بیٹی کے کارنامے سنا چکی تھیں۔
"ہانیہ۔۔۔۔ہانیہ۔۔۔۔"
وجدان نے اپنا آرمی یونیفارم چینج کیے بغیر ہی ہانیہ کو پکارنا شروع کر دیا۔
"وجدان آپ آ گئے؟ کیسا گزرا آپکا دن؟"
زرش نے اسکے پاس آ کر پیار سے پوچھا اسکے اس طرح سے پوچھنے پر وجدان کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بہا تھا لیکن اپنے تاثرات سختی سے چھپا گیا۔
"ہانیہ کو بلاؤ زرش بات کرنی ہے مجھے اس سے۔۔۔۔"
وجدان نے سختی اور بے رخی سے کہا تو زرش کی آنکھیں نم ہو گئیں۔اپنی بہن حمنہ کی زندگی کی خاطر اس نے خود کی دنیا اجاڑ لی تھی۔عثمان کو معافی دلانے میں وہ اپنا پیار لٹانے والے وجدان تو کھو ہی چکی تھی۔اب وہ پھر سے پہلے جیسا وجدان بن چکا تھا سخت مزاج اور بیزار سا۔
"وجدان وہ ۔۔۔۔اس نے سوری بولا ہے مجھے وہ پھر سے شرارت نہیں کرے گی۔"
زرش نے گھبراتے ہوئے کہا۔
"بس زرش ضرورت سے زیادہ ڈھیل دیتی ہو تم اسے اور اب میں یہ برداشت نہیں کرنے والا ۔۔۔"
وجدان زرش کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بولتے بولتے رکا۔وہ جتنا مرضی سخت کیوں نا ہو جاتا لیکن زرش آج بھی اسکے اپنی جان سے زیادہ بڑھ کر تھی۔
"ٹھیک ہے لیکن پھر کبھی ایسا نہ ہو۔۔"
وجدان نے زرش کو نرمی سے کہا اور کمرے کی جانب چل دیا۔زرش فوراً اسکے پیچھے آئی اور اسکے کپڑے نکالنے لگی۔
اپنی نور سے یوں سختی سے پیش آنا وجدان کے لیے کتنا اذیت ناک تھا یہ وہی جانتا تھا لیکن وہ کیسے بھول جاتا کہ زرش کی وجہ سے اس نے اپنی بہن کے قاتل کو چھوڑ دیا۔
وجدان کی سبز آنکھیں عشال کو یاد کرتے ہی نم ہو گئی تھیں۔انکی زندگی ان سالوں میں مکمل طور پر بدل چکی تھی۔
پانچ سال پہلے اپنے اسی غصے کے زیر اثر وجدان نے غلط آدمی پر بھروسہ کیا۔جسکی وجہ سے اسکا سیکریٹ ایجنٹ ہونے کا راز باہر آ گیا اس لیے اب وہ آرمی میں تھا اور آئی ایس آئی سے اسکا تعلق مٹ چکا تھا۔
شایان تو اپنی جانان ،جنت اور معراج کے ساتھ بہت خوش تھا لیکن وجدان تو اپنا کل جہان پاس ہوتے ہوئے بھی ان سے دور ہو چکا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
جنت اور ثناء اس سیاست دان سالار ملک کے آفس میں بیٹھی یہاں وہاں دیکھ رہی تھیں۔وہ آفس تھا ہی اتنا شاندار۔
"سالار ملک سر ملیں گے اب آپ سے۔۔۔۔"
ایک لڑکی کے کہنے پر جنت ثناء کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں آئی اور بنا پرمیشن لیے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی جیسے اسکے باپ کی جگہ ہو ۔۔۔
"اوپس سوری سر مے آئی کم ان تو پوچھا ہی نہیں۔۔۔"
جنت کی آواز پر سالار نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جو سفید یونیفارم میں بالوں کی پونی ٹیل بنائے گلابی گالوں کے ساتھ حد سے زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔
"اٹس آل رائیٹ ہیو آ سیٹ۔۔۔"
سالار نے اس نے نظریں ہٹا کر کرسی کی جانب اشارہ کیا تو جنت ثناء کو کھینچتی ہوئی کرسی پر بیٹھی۔
"جی کیوں آئی ہیں آپ یہاں؟"
"سر ہم آپکا انٹرویو لینے۔۔۔۔"
"ارے ٹھنڈا گرم نہیں پوچھیں گے آپ ڈراموں میں تو ایسا ہی پوچھتے ہیں۔۔۔۔"
ثناء جو اپنی بات کہنے لگی تھی جنت کی بات پر حیرت سے اسے دیکھنے لگی جبکہ سالار اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
"نہیں سر ہمیں بس انٹرویو چاہیے آپکا۔۔۔"
ثناء نے گھبراتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے میں انٹرویو دوں گا لیکن صرف اس لڑکی کو۔۔۔"
سالار نے جنت کی جانب اشارہ کیا تو جنت کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
"لیکن جرنلزم کی سٹوڈنٹ یہ ہے میں نہیں۔۔۔۔"
"یا تو اسے انٹرویو دوں گا یا آپ لوگ جا سکتے ہیں۔۔۔"
سالار نے انہیں باہر کے دروازے کی جانب اشارہ کیا تو ثناء نے بے چارگی سے جنت کو دیکھا اور انٹرویو کا پیپر اسے پکڑا کر باہر چلی گئی۔جنت نے تھوک نگلا اور اپنے سامنے بیٹھے اس شاہانہ سے سیاسی رہنما کو دیکھا۔
"تو سر پہلا سوال یہ ہے کہ آپ نے سیاسی کیریر۔۔۔"
""نام کیا کے تمہارا؟"
اچانک سوال سالار ملک کی جانب سے آیا تو جنت نے سنہری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"انٹرویو آپکا ہے میرا نہیں سالار سر۔۔۔۔"
جنت نے وضاحت کرنا چاہی۔۔۔۔
"ہاں لیکن آفس میرا ہے اور یہاں وہی ہوتا ہے جو میں چاہتا ہوں بے بی گرل اب نام بتاؤ اپنا۔۔۔"
سالار نے ابرو اچکا کر کہا اور یوں بولتے ہوئے وہ اتنا با وقار لگ رہا تھا کہ جنت کی ہتھیلیاں پسینے سے بھگ گئیں۔
"جج۔۔۔۔جنت شایان شاہ۔۔۔"
زندگی میں پہلی بار وہ بوکھلائی تھی۔
"کتنے سال کی ہو جنت؟"
سالار نے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
"سترہ سال کی ہوں،پری میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہوں گھر میں مما ،بابا، میں اور میرا کزن معراج رہتے ہیں میرے بابا آرمی میں تھے سات سال پہلے ٹانگ میں گولی لگنے کی وجہ سے ریٹائر ہو گئے اور اب سیکیورٹی ایجنسی چلاتے ہیں۔مما بہت پیاری ہیں میری طرح اور ہاوس وائف ہیں اور کچھ؟"
جنت نے ایک ہی سانس میں اپنا سارا بائیو ڈیٹا بتاتے ہوئے آخر میں پوچھا تو اسکی حسین چہرے کو دیکھتا سالار ہوش میں آیا۔
"تم میری دوست بنو گی جنت شایان شاہ۔۔۔"
جنت کی سنہری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی سالار بولا۔
"اگر دوست نہیں بنی تو تمہیں انٹرویو نہیں دوں گا اور تمہاری دوست فیل ہو جائے گی۔۔۔"
سالار نے دھمکایا تو جنت اسے گھورنے لگی۔
"چھچھورا سیاست دان ۔۔۔۔"
جنت بڑبڑائی اور سوچا کہ ابھی کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملانے سے کیا جائے گا اس لیے ہاں میں سر ہلا کر اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔اسکے بڑے سے ہاتھ میں وہ نازک سا ہاتھ چھپ گیا تھا۔
"پوچھو جو پوچھنا ہے ۔۔۔۔۔"
سالار نے مسکرا کر کہا تو جنت اس سے لسٹ پر لکھا ہر سوال پوچھنے لگی اس بات سے بے خبر کہ وہ یہاں اتفاق سے نہیں سامنے موجود شخص کی سوچی سمجھی سازش سے تھی۔اس ہی کے کہنے پر تو اس پروفیسر نے انہیں یہاں بھیجا تھا۔
میری جنت کو میرے بارے میں بتایا بھی نہیں نا۔دیکھیں آج میری جنت میرے پاس ہے شایان شاہ صاحب اور آپکو علم بھی نہیں ایک دن اسے چھین کر اپنا بنا لوں گا اور آپ بس دیکھتے رہ جائیں گے۔
سالار نے اس سنہری آنکھوں والی لڑکی کو دیکھتے ہوئے سوچا جو اپنی پہلی سانس سے اسکی ملکیت تھی۔
❤️❤️❤️❤️
"میں یونی نہیں جا رہی بلکل بھی نہیں۔۔۔"
وانیا نے ضدی انداز میں منہ بناتے ہوئے کہا تو زرش نے گہرا سانس لیا۔ہانیہ کی یونیورسٹی نہ جانے کی وجہ سے وہ کل بھی نہیں گئی تھی اور آج بھی نہ جانے کی ضد کر رہی تھی۔
"میری جان اب ہر جگہ ہانی تو آپکے ساتھ نہیں ہو سکتی نا آپکو خود بھی تو ہمت کرنی ہے۔۔۔"
زرش نے اپنی معصوم بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا جو بلکل اسی کی طرح تھی۔ہر دوسری چیز سے ڈرنے والی،معصوم سی گڑیا جسکی ہمت بس اسکی جڑواں بہن ہانیہ تھی۔
"ہائے میرا بچہ تم ایک کام کرو آج نا پرنسپل کے پاس جا کر اپنے اس معصوم سے چہرے سے انہیں منا لینا۔وہ میری سزا ختم کر دیں گیں تو ہنسی خوشی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی۔"
ہانیہ نے اسے آئیڈیا دیتے ہوئے کہا تو وانیا نے پر شکوہ نگاہوں سے اپنی بہن کو دیکھا۔
"تم مجھے اکیلے بھیجنا چاہتی ہو؟"
وانیا کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں وہ تو ہانیہ کے بغیر سانس بھی نہیں لیتی تھی۔
"صرف ایک دن کی بات ہے وانی پلیز مینج کر لو نا یار کل کسی بھی طرح میں تمہارے ساتھ چلوں گی وعدہ لیکن آج پرنسپل میم مجھے بلکل بھی برداشت نہیں کرنے والی۔۔۔"
وانیا نے کچھ دیر سوچا پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
"اور اگر میں آج واپس ہی نہ آئی یونی سے کسی نے مجھے وہیں بند کر دیا تو؟"
وانیا کی بات پر زرش نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا جبکہ ہانیہ نے اسے گھورا۔
"بس وانی اب اتنا بھی نہیں ڈرتے چلو شاباش اچھے بچوں کی طرح یونی جاؤ۔۔۔"
ہانیہ نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا تو جب سے پیچھے کھڑا وجدان آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ وانیا کے کندھوں پر رکھے۔
"ایک بات یاد رکھنا میرا بیٹا تم کمزور نہیں ہو بلکہ بہت بہادر ہو تم،چاہے کچھ بھی ہو جائے میری بیٹی کبھی بھی ہمت اور حوصلہ نہیں چھوڑے گی۔۔۔"
وجدان کی بات پر وانیہ نے پلٹ کر اپنے باپ کو دیکھا جسے زندگی میں کبھی بھی انکار نہیں کر پائی تھی۔
"جی بابا۔۔۔۔"
وجدان نے وانیا کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور اسے اپنے ساتھ لے کر باہر کی طرف چل دیا ۔
"بائے ماما، بائے ہانی۔۔۔"
وانیا نے مڑ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا اور پھر نم آنکھوں کے ساتھ وجدان کے ساتھ چل دی۔
❤️❤️❤️❤️
ہانیہ ہال میں آئی جہاں زرش اسکا فیورٹ پیزا بنانے کے لیے سبزیاں کاٹ رہی تھی۔
"مما میرے ہٹلر پاپا کو پتہ چلا نا کہ آپ میری سزا کے دنوں میں میرے لاڈ اٹھا رہی ہیں تو ہم دونوں کی بہت عزت افزائی ہو گی۔۔۔۔"
ہانیہ نے ناک چڑھا کر کہا۔
"شرم کرو ہانی بابا ہیں تمہارے اور ویسے بھی یہ پیزا تمہارے لیے نہیں میں وانی کے لیے بنا رہی ہوں اسکے آنے سے پہلے بنا دوں گی تو دیکھ کر خوش ہو جائے گی۔۔۔۔"
زرش نے مسکراتے ہوئے کہا تو ہانیہ نے زرش کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔
"ہائے دنیا کی بیسٹ مما۔۔۔۔کتنا خیال رکھتی ہیں آپ ہم دونوں کا۔۔۔،"
زرش کے ہونٹوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔
"تم دونوں ہی تو میرا کل جہان ہو بیٹا۔"
"جی بلکل پاپا نے تو نکال لیا ہے خود کو اس جہان سے"
ہانیہ نے مٹھیاں بھینچ کر کہا تو زرش اسے گھورنے لگی۔
"نہیں ہانی جان سے زیادہ چاہتے ہیں وہ ہمیں ایک پل کے لیے ہٹا کر دیکھو مجھے ان کی آنکھوں کے سامنے سے تب پتہ چلے گا۔ ہم جان ہیں انکی بیٹا ہاں تھوڑے سخت ہیں کیونکہ۔۔۔۔کیونکہ بہت بڑا غم دیا ہے میں نے انہیں۔۔۔"
زرش نے آہستہ سے کہا۔تبھی فون بجنے کی آواز پر ہانیہ نے اپنا موبائل پکڑا اور کان سے لگایا۔
"ہیلو۔۔۔"
ہہ۔۔۔۔ہانی یار وہ۔۔۔۔ تم یونی نہیں گئی کیا؟"
اپنی ایک کلاس میٹ کی آواز پر ہانیہ حیرت زدہ ہوئی۔
"نہیں ماریہ کیوں کیا ہوا؟"
ہانیہ ماریہ کی روتی آواز سن کر پریشان ہو چکی تھی۔
"آآآ۔۔۔۔آج بخار تھا تو میں بھی نہیں گئی یار اور وہ۔۔۔۔تم ٹی وی چلا کر دیکھو۔۔۔۔"
ہانیہ نے فون سائیڈ پر رکھا اور رموٹ پکڑ کر ہال میں لگی ایل سی ڈی چلا دی۔تھوڑا سرچ کرتے ہی اسے نیوز چینل ملا۔
"راولپنڈی کی پرائیویٹ یونیورسٹی پر دہشتگردوں کا حملہ۔یونیورسٹی کے تمام طلبہ کو یرغمال بنا لیا۔ابھی تک پندرہ طالب علموں کی موت کی خبر موصول ہوئی ہے۔۔۔۔"
خبر سنتے اور سکرین پر اپنی یونیورسٹی کی تصویریں چلتے دیکھ کر ریمورٹ ہانیہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا۔۔۔
"وانی۔۔۔"
بے ساختہ ہانیہ کے ہونٹوں سے نکلا اور پھر اسکا دھیان زرش پر پڑھا جو اب صوفے کی بجائے بے ہوش ہو کر زمین پر پڑی تھی۔
"مما ۔۔۔۔!!!"