14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 14
منزل عشق قسط 14
"راگا یہ کیا کیا تو نے کال کے ساتھ صرف اس لڑکی کو پکڑ کر لایا ہی تو تھا نا وہ اور تو اسے۔۔۔"
ویرہ پریشانی سے راگا کے پاس آیا اور اس سے سوال کرنے لگا لیکن راگا کی سیاہ آنکھوں کی آگ دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
"یہ سزا میں نے اسے وانیا کو پکڑ کر لانے کے لیے نہیں اس پر غلیظ نگاہ رکھنے کی وجہ سے دیا۔مر جائے میری بلا سے اس جیسا گھٹیا کوگ نہیں چاہیے راگا کو۔۔۔"
راگا اتنا کہہ کر چل دیا تو ویرہ اس کے پیچھے آیا۔
"لیکن پھر بھی راگا اتنی سخت سزا۔۔"
"اگر اس نے وانیا کی جگہ مرجان کو چھوا ہوتا تو کیا کرتا تم؟"
راگا کے سوال پر ویرہ کی رگیں غصے سے تن گئی تھیں۔
"زندہ زمین میں گاڑ دیتا اسے۔۔۔"
ویرہ نے دانت پیس کر کہا تو راگا مسکرا دیا۔
"اسی طرح راگا کو بھی نہیں پسند ماڑا کہ اس کی ملکیت کو کوئی ہاتھ بھی لگائے۔۔۔۔کال اسے پکڑ کر ضرور لایا لیکن یہ سزا تو میں اسے اسی دن دینا چاہتا تھا جس دن اس نے اسے غلط نیت سے چھوا تھا۔"
ویرہ نے اسکی جنونیت پر گہرا سانس لیا تھا۔
"راگا اس لڑکی کو اپنا جنون مت بناؤ وہ تمہاری کمزوری بن جائے گی تو ہمارا مقصد۔۔۔"
"فکر مت کر ویرہ ہمارے مقصد کے راستے میں کوئی بھی نہیں آ سکتا ہم اس ملک کی سب سے بڑی دہشت بن کر رہیں گے۔۔"
ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
"سلطان کا آدمی آیا تھا اسے میں نے منع کردیا کہ ہم اس کا کام نہیں کریں گے تو اب ہم کیا کریں گے راگا۔۔۔؟"
ویرہ کے سوال پر راگا مسکرا دیا۔
"ہم اس کا الٹ کریں گے ماڑا سلطان کسی اور کے زریعے کل اس سٹیشن پر بم دھماکہ کروائے گا اور ہم وہ دھماکہ ہونے سے روک دے گا۔۔۔"
"اس سے تو سلطان ہمارا دشمن۔۔۔"
"یہی چاہتا ہوں میں کہ وہ ہمارا دشمن ہو جائے ،راگا کو سلطان کے مقام پر پہنچنا ہے ویرہ،سب سے بڑی دہشت بننا ہے اور اس کے لئے سلطان کو راستے سے ہٹانا پڑے گا۔۔۔"
راگا نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو ویرہ اسکا مقصد سمجھ کر مسکرا دیا۔
"بہت کمینی چیز ہو تم یعنی جس سلطان نے ہمیں عام سے غنڈوں سے یہ طاقت بنایا اب اسی کو ہرا کر ہم اسکا مقام حاصل کریں گے۔۔۔۔"
راگا کے چہرے پر مغرور مسکراہٹ آئی تھی۔
"میں اپنے آدمیوں کو بھیجوں گا اس کام کے لیے۔"
"نہیں ویرہ وہاں میں اور تو جائیں گے تاکہ غلطی کی کوئی گنجائش نہ رہے۔"
راگا کی بات پر ویرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"لیکن راگا اب آرمی اور لوگ تمہیں پہچانتے ہیں۔"
"فکر مت کر ماڑا وہ راگا ہی کیا جو پکڑا جائے۔۔۔۔ویسے پکڑا تو راگا گیا تھا لیکن ایسا عید بار بار نہیں ہوتا۔۔۔"
راگا نے ہنس کر کہا تو ویرہ بھی مسکرا دیا۔
"تیار رہنا کل۔۔۔"
ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے اپنے گھر کی جانب چل دیا۔
❤️❤️❤️❤️
ہانیہ انس کے جانے کے بعد سے اپنے کمرے کے باہر بالکنی میں کھڑی خوبصورت پہاڑوں کو دیکھتی جا رہی تھی۔اس کا دماغ ابھی بھی انس کے والٹ میں موجود اس تصویر پر تھا۔
تو کیا تب انس نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ ہانیہ کے لئے کوئی جذبات نہیں رکھتا۔کیا وہ بھی اس سے محبت کرتا تھا اگر کرتا تھا تو اسے چھوڑ کر کیوں گیا۔۔۔کیوں توڑا اس نازک عمر میں اسکا معصوم دل؟
"ہانیہ کہاں ہو؟"
انس کی آواز پر ہانیہ جلدی سے کمرے میں واپس آئی۔
"گڈ نیوز ہے ہانیہ ایک آدمی کا پتہ چلا ہے مجھے ویسے تو وہ راگا کا دشمن ہے لیکن دشمن کا دشمن بھی دوست ہی ہوتا ہے ہو سکتا ہے وہ ہمیں راگا تک پہنچا دے۔۔۔"
انس کی بات پر ہانیہ نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا دیا۔
"کون ہے وہ اور کہاں ملے گا ہمیں؟"
"زرخان نام ہے اسکا پہلے تو وہ اسی شہر میں رہتا تھا لیکن پھر راگا نے اس کے گھر میں آگ لگا کر اس کے بیوی بچوں کو جلا کر مار دیا بس تب سے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے اور بس راگا کی جان لینا چاہتا ہے جہاں تک مجھے پتہ چلا ہے ایک گینگ بھی ہے اس کا۔"
انس کی بات پر ہانیہ کافی پریشان ہوئی تھی۔
"انس اس قدر خطرناک آدمی کے پاس ہے میری معصوم بہن نہ جانے کیا حال کیا ہو گا اس نے وانیا کا۔"
اس کی کانچ سی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر پریشانی دیکھ کر انس اس کے قریب آیا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"تم فکر مت کرو ہانیہ ہم بہت جلد وانیا کو اسکی قید سے آزاد کروا دیں گے۔میں نے سوچا ہے کہ اس آدمی سے ہم سودا کریں گے کہ وہ وانیا کو بچانے میں ہماری مدد کرے بدلے میں ہم راگا کو پکڑنے میں اسکی مدد کریں گے۔"
ہانیہ نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلا دیا۔
"چلو اب ہمیں اس کے پاس چلنا چاہیے وقت ضائع نہیں کرنا۔۔۔"
اتنا کہہ کر انس اپنے بیگ کے پاس آیا اور چیزیں سیٹ کرنے لگا جبکہ ہانیہ بس اسے گہری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
"انس آپ سے ایک بات پوچھوں؟"
"ہاں پوچھو۔۔۔"
انس نے مڑے بغیر کہا۔
"آپ میری مدد کیوں کر رہے ہیں؟"
ہانیہ کے سوال پر انس ٹھٹک کر رک گیا اب وہ اسے کیا جواب دیتا کہ وہ اسکی ہر مشکل کو،ہر پریشانی کو اپنی مشکل سمجھتا تھا۔اس کے چہرے پر مسکان لانے کے لیے انس راجپوت کچھ بھی کر سکتا تھا،مر بھی سکتا تھا۔
"کیونکہ وانیا اس درندے کے پاس رہنے کے لیے بہت زیادہ معصوم ہے میں نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کچھ ہو۔۔۔۔"
انس نے مسکرا کر کہا تو ہانیہ بھی ہلکا سا مسکرا دی۔لیکن وہ تو یہ سننا چاہتی تھی کہ سامنے موجود شخص یہ سب صرف اور صرف اس کی محبت میں کر رہا تھا۔
"چلو اب تیار ہو جاؤ زیادہ وقت نہیں ہمارے پاس۔۔۔"
از کی آواز پر ہانیہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور ہاں میں سر ہلا کر جلدی سے پیکنگ کرنے لگی۔اسے یہ بھولنا نہیں تھا کہ اس کی منزل صرف اور صرف وانیا کو ڈھونڈنا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
معراج آج پھر سے خادم شفیق کے گھر آیا تھا۔
"کیسے ہو برخوردار۔۔۔؟"
خادم معراج کو دیکھ کر ہی خوش ہو چکا تھا اور مسکرا کر اس کا کندھا تھپتھپایا۔
"مم۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں انکل۔۔۔۔ااا ایمان کہاں ہے؟"
"وہ اپنے کمرے میں ہو گی چلو چلتے ہیں اسی کے پاس میں بھی اسے دیکھ لوں گا کہ کیسی ہے وہ۔۔۔۔"
معراج نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کے ساتھ ایمان کے کمرے میں آ گیا۔ایمان فرش پر بیٹھی شائید کچھ سوچ رہی تھی۔
"ایمان بیٹا دیکھو کون آیا ہے۔۔۔"
خادم کی آواز پر ایمان جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور معراج کو دیکھا۔
"ہہ۔۔۔۔ہائے۔۔۔"
معراج نے مسکرا کر کہا اور پھر اس کی نظر ایمان کے گال پر پڑی جہاں ایک سرخ نشان تھا۔
"تتت۔۔۔۔تمہاری چیک پپپ۔۔۔۔پر کیا ہوا؟"
معراج کے سوال پر ایمان نے سہم کر اپنے باپ کو دیکھا جو خود بھی اسکے گال پر غور کر رہا تھا۔
"ارے اس کی فکر مت کرو تم معراج جب ایمان کو دورے پڑتے ہیں نا تو سب کو مارتی ہے جیسے اس دن تمہیں مارا تھا اور اگر اسے کوئی نہ ملے تو اپنا چہرہ ہی نوچنے بیٹھ جاتی ہے۔۔۔"
خادم کا لہجہ کوفت سے بھرا پڑا تھا۔
"یہی ہوا تھا ناں ایمان؟"
خادم کے پوچھنے پر ایمان نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا۔
"اچھا میں چلتا ہوں تم دونوں باتیں کرو ۔۔۔"
خادم اتنا کہہ کر چلا گیا اور معراج ایمان کے پاس آیا تھا۔
"تم پھر آ گئے۔۔۔؟"
ایمان نے پھر سے زمین پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"دد۔۔۔۔دوست ہوں تمہارا تت۔۔۔تو آونگا ہی نا۔"
معراج نے اس کے پاس بیٹھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
"میں نے بتایا تھا نا کہ مونسٹر میرے دوستوں کو مار دیتا ہے پھر بھی تم میرے دوست بننا چاہتے ہو۔۔۔"
معراج اسکی بات پر گھبرایا۔
"تت۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔ددد۔۔۔۔دوست بن جائیں گے تو دونوں ممم۔۔۔۔مل کر مونسٹر سے لڑیں گے۔۔۔"
معراج کی عام سی بات پر نہ جانے ایمان کو کیا مزاحیہ لگا کہ وہ قہقے لگا کر ہنسنا شروع ہوگئی۔
"تم لڑ لو گے مونسٹر سے بہت بڑا ہے وہ اور بہت زور سے مارتا ہے جب تمہیں مار پڑے گی تو پتہ چلے گا۔۔۔"
ایمان کے چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ اب افسردگی آ چکی تھی۔
"جج۔۔۔۔جب میں تمہارا دوست ببب۔۔۔۔بنوں گا نا تو تمہیں کککک۔۔۔۔کوئی نہیں مارے گا دیکھنا تم۔۔۔"
اپنی سبز آنکھوں پر چشمہ درست کرتے ہوئے معراج نے اترا کر کہا۔
"سچ میں؟"
ایمان نے بہت زیادہ امید سے پوچھا تھا۔
"ہاں سچ ممم ۔۔۔۔۔میں وعدہ اب بببب۔۔۔۔بنو گی میری دوست۔۔۔۔"
معراج نے ہاتھ آگے کر کے پوچھا تو ایمان اس کے ہاتھ کو گھورتی رہی۔وہ ایسی لڑکی تھی جو دوسروں کو چھونے سے بھی ڈرتی تھی لیکن نہ جانے معراج میں ایسی کیا بات تھی کے ایمان میں اپنا ہاتھ اسکو پکڑا دیا۔
"ٹھیک ہے اب ہم دوست ہیں۔۔۔۔ملنگ۔۔۔"
ایمان جو محبتوں کی ترسی تھی ایک دوست ملنے پر ہی بہت خوش ہو چکی تھی۔
"اااا۔۔۔۔اگر میں ملنگ ہوں تو تتتت۔۔۔۔تم ملنگی ہو۔۔۔۔"
معراج کی بات پر اس اب ایمان قہقہ لگا کر ہنس دی۔
"ملنگی کیا ہوتا ہے؟"
"تت۔۔۔۔تم۔۔۔"
معراج کے عام سے جواب پر ایمان مزید ہنسنے لگی تھی اور اسے یوں ہنستا دیکھ معراج بھی مسکرا دیا۔
❤️❤️❤️❤️
رات ہوتے ہی راگا کمرے میں واپس آیا تو وانیہ جو اسکی سزا کے ڈر سے پہلے سے ہی بستر میں گھسی ہوئی تھی اسکے اندر آتے ہی سونے کی بھرپور ایکٹنگ کرنے لگی۔اسے دیکھ کر راگا کی ہنسی نکلی تھی۔
"فکر مت کرو افغان جلیبی آج تمہاری دعا قبول ہو چکی ہے۔سزا سے بچ گئی ہو تم ابھی سونے کا اتنا برا ناٹک کرنا بند کرو تمہارے ہاتھ باقاعدہ کانپ رہے ہیں۔"
راگا کے ایسا کہنے پر وانیہ نے فورا اپنے ساتھ کمبل کے اندر چھپا لیے۔
"ہاہاہا۔۔۔۔اف ماہ جبیں تمہاری یہ معصومیت جان لے لے گی اس جن کی۔۔۔۔فکر مت کرو جان وعدہ کرتا ہوں کہ سزا نہیں ملے گی تمہیں۔۔۔"
راگا کے لہجے میں سچائی محسوس کر کے وانیا اٹھ کر بیٹھ گئی۔
"آپ سچ میں مجھے پنش نہیں کریں گے۔۔۔۔؟"
جواب میں اچانک ہی راگا اسکے قریب آیا اور اسے اپنی گرفت میں لے کر بیڈ پر لیٹایا اور اسکے ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر تکیے سے لگا دیے۔
"ابھی تک اپنے شوہر کو سمجھ نہیں پایا ماڑا تم۔۔۔خاموش شکاری ہے وہ کب وار کر جائے پتہ ہی نہیں لگتا۔"
اتنا کہہ کر راگا نے اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رکھے تھے۔
"عماد۔۔۔"
وانیا نے گھبرا کر اسے پکارا تھا اور اس کے اس طرح سے پکارنے پر راگا مزید مدہوش ہوا تھا۔
"تو کیا بنا لوں تمہیں اپنا،جان راگا؟دے دوں تمہیں اس دنیا کی سب سے حسین سزا؟"
وانیا کا حلق اسکی بے باک باتوں پر خشک ہو چکا تھا۔
"ننن۔۔۔۔نہیں پلیز نہیں۔۔۔"
وانیا نے رونا شروع کر دیا تو راگا نے اسکی گردن سے اپنا چہرہ نکال کر اسے دیکھا۔
"کیوں نہیں اپنانا چاہتی تم مجھے ہاں؟"
وانیا اسکو اپنے بہت قریب ہوتا دیکھ آنکھیں زور سے میچ گئی تھی۔
"مم۔۔۔۔میں اور آپ ایک نہیں ہو سکتے عماد۔۔۔میرے بابا آرمی میں ہیں اور آپ۔۔۔"
"اور میں ایک درندہ ،قاتل ہوں۔۔۔۔جہنم کا جن جو جنت کی اس پری کے قابل نہیں۔۔۔"
وانیا کے خوبصورت چہرے کو چھوتے ہوئے راگا نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"لیکن اب یہ پری میری ہے ماڑا اگر کوئی شہزادہ اسے بچانے آئے گا تو پھر سے ان قراقرم کے پہاڑوں میں مارا جائے گا۔۔۔"
راگا نے وحشت سے کہا اور اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنانے لگا۔اس کے لمس میں بہت جنون اور شدت تھی۔وانیا مچل رہی تھی لیکن راگا کو ہوش ہی کہاں تھا۔بس تھوڑی سی دیر میں راگا اسکی نازک جان عذاب میں ڈال چکا تھا۔اسکے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے کاٹ کر اس سے دور ہو کر لیٹ گیا۔
"اتنی سزا کافی ہے اس نازک جان کے لیے۔"
اسکے دور ہوتے ہی وانیا نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور گہرے سانس لیتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ بہت دیر اسے دیکھتی رہی تھی۔
راگا سے زیادہ تو اسے اب خود سے ڈر لگتا تھا،اپنے دل سے ڈر لگتا تھا جو اسکی قربت میں مچلنے لگتا تھا،اپنی ان آنکھوں سے ڈر لگتا تھا جو پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھنا چاہتی تھیں۔
"عماد۔۔۔آپ سے کچھ پوچھوں۔۔۔؟"
"ہمم۔۔۔۔"
راگا نے آنکھیں موند کر ہلکے سے جواب دیا۔
"آپ کیوں لیتے ہیں لوگوں کی جان کیا مل جاتا ہے آپ کو معصوموں کو مار کے؟"
راگا نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
"ایک بات یاد رکھنا افغان جلیبی کوئی بھی برا پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ہر بچہ اس دنیا میں معصوم ہی آتا ہے ایک کورے کاغذ کی مانند جس کورے کاغذ پر یہ دنیا اپنے ظلموں داستان لکھ کر اسے اچھا یا برا بننے پر مجبور کرتے ہیں۔۔۔"
وانیا کو نہ جانے کیوں اس کی آواز میں درد محسوس ہوا تھا۔اسی لیے کچھ دیر ہچکچاتے کے بعد اسکے قریب ہوئی اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔
"تو کیا کبھی یہ نہیں سوچا کہ کاش آپ ایسے نہ ہوتے کاش آپ اچھے ہوتے؟"
عماد اسکی معصومیت پر مسکرا دیا جو شائید اس میں سے اچھائی تلاش کرنا چاہ رہی تھی۔
"کیا چاہتا ہے تم افغان جلیبی؟"
عماد نے ٹھوڈی سے تھام کر اسکا چہرہ اپنی جانب کیا۔
"یہ کہ آپ اچھے ہو جائیں یہ سب چھوڑ دیں میرے ساتھ چلیں عماد میری دنیا میں راگا بن کر نہیں عماد بن کر۔۔۔"
راگا اسکی معصومیت پر مسکراتا اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے ٹکا گیا۔
"بہت معصوم ہو جان عماد تم،بہت معصوم اور اس معصومیت کو کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گا میں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"
راگا کی بات کی گہرائی سمجھ کر وانیا کی پلکیں بھیگ گئی تھیں۔
"اس کا مطلب آپ مجھے کبھی نہیں جانے دیں گے؟"
وانیا نے بہت امید سے اس کی طرف دیکھا۔
"نہیں کبھی بھی نہیں۔۔۔"
وانیا کے آنسو راگا کی شرٹ میں جذب ہوئے۔بہت دیر تک وہ جاگ کر آنسو بہاتی رہی تھی اور راگا اپنے دل پر اسکے آنسوؤں کی ٹھنڈک محسوس کرتا رہا تھا۔اب یہ بات تو طے تھی وہ جتنا مرضی روتی راگا اسے خود سے دور نہیں کرنے والا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
کال کے ہاتھ پر ڈاکٹر کب سے پٹی کر کے جا چکا تھا۔پہلے تو وہ دوائیوں کے زیر اثر بےہوش رہا تھا لیکن اب جب سے ہوش آیا تھا تب سے اپنے بستر پر پڑا تکلیف سے کراہ رہا تھا۔
"راگا۔۔۔۔یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔"
کال نے تکلیف کی شدت ہر نفرت سے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"اس ۔۔۔۔۔(گالی) کی خاطر تو نے اپنے ساتھی پر ظلم کیا۔۔۔تو پہلے والا راگا نہیں رہا اب۔۔۔"
کال نے اپنا ہاتھ دیکھا جس کی جگہ اب بس ایک پٹی تھی۔
"نہیں چھوڑوں گا راگا اب تجھے۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا تجھے بے بس کر کے تیری آنکھوں کے سامنے اس لڑکی کا روم روم چھوؤں گا میں۔۔۔اور تو بس بے بسی سے دیکھتا رہ جائے گا راگا ۔۔۔۔"
کال نے دانت پیس کر کہا اور بازو میں اٹھنے والے درد پر کراہ کر رہ گیا۔
"نہیں چھوڑوں گا تجھے۔۔۔"
کال اپنے گھر کی تنہائی میں چلایا۔اس نے ٹھان لی تھی اب وہ اس راگا کا زوال بن کر رہے گا۔
❤️❤️❤️❤️
سکردو تو وہ دونوں تقریبا دو گھنٹے میں پہنچ گئے تھے لیکن زیادہ وقت انہیں زرخان کے گھر پہنچنے میں لگا تھا۔زرخان کا گھر پہاڑوں میں کافی سنسان جگہ پر تھا۔پہلے تو وہ دونوں جہاں تک ہو سکتا تھا گاڑی پر گئے لیکن انہیں وہاں پہنچنے کے لئے کم از کم ایک گھنٹہ پیدل چلنا پڑا تھا۔
"وہ سامنے گھر ہے زرخان کا۔۔۔"
انس نے اشارہ کیا تو ہانیہ نے شکر کا سانس لیا۔اس وقت وہ جینز ٹاپ پر جیکٹ پہنے تھی لیکن اس کے باوجود جسم سردی کی شدت سے سن ہو رہا تھا۔
"چلیں۔۔۔۔"
وہ دونوں اس گھر کی جانب بڑھے جو لکڑی اور ٹن سے بنا ہوا تھا۔انس کے دروازہ کھٹکھانے پر ایک پینتالیس سالہ شخص دروازہ کھول کر سامنے آیا تھا۔
"زرخان؟"
انس کے سوال پر ہر آدمی نے دونوں کو طائرانہ نظروں سے دیکھا۔
"کون ہے تم لوگ؟"
"ہمیں کام ہے آپ سے۔۔۔۔"
زرخان نے ہاں میں سر ہلایا اور دونوں کو گھر کے اندر لے آیا۔
"آپ کے ایک آدمی سے ملا تھا میں اس نے مجھے بتایا کہ آپ راگا کے دشمن ہیں اور راگا کے پاس بھی ہمارا کچھ ہے۔۔۔اس لیے ہم بس یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ راگا کہ بارے میں کچھ جانتے ہیں؟"
زرخان نے انہیں کرسی پر بیٹھنے کا کہا تو وہاں بیٹھتے ہی انس مدعے کی بات پر آیا۔
"راگا۔۔۔۔ہاں جان لینی ہے اس کی مجھے۔۔۔۔بس ایک ہی مقصد ہے مارا زندگی کا راگا کو مارنا۔۔۔"
زرخان نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔
"تو پھر آپ بس ہمیں اس کا پتہ بتا دیں تو ہم بھی آپ کی مدد کر سکتے ہیں راگا کو ہرانے میں۔۔۔۔"
انس کی بات پر زرخان قہقہ لگا کر ہنسنے لگا تھا۔
"ہاہاہاہا اوئے ماڑا تم لوگ ہارائے گا راگا کو۔۔۔جانتا نہیں لوگ کہ وہ کتنا طاقت ور ہے کھڑا کھڑا غائب کر دے وہ تم دونوں کو۔۔۔۔"
زرخان نے ہنستے ہوئے کہا تو ہانیہ اس شخص کو ناگواری سے دیکھنے لگی۔
"آپ بس ہمیں اس کا پتہ بتا دیں اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے ہمیں۔۔۔اس راگا کی طاقت سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔"
ہانیہ نے مٹھیاں بھینچ کر کہا تو زرخان نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا۔
"فرق پڑنا چاہیے راگا کی طاقت کا اندازہ ابھی کروا دیتا ہوں تم دونوں کو۔"
اس سے پہلے کہ انس اور ہانیہ کو کچھ سمجھ آتا چھ سے سات آدمی دروازہ کھول کر کمرے میں آئے اور انس کو اپنی پکڑ میں دبوچ لیا۔
"انس ۔۔۔"
ہانیہ فوراً آگے بڑھی تو ایک شخص نے اسے بھی پکڑنا چاہا لیکن ہانیہ نے اسکے ہاتھ کو مڑوڑ کر اپنا گھٹنا اسکے پیٹ میں مارا اور اسے کراہتا ہوا چھوڑ کر انس کی جانب بڑھی جو خود چار آدمیوں کی پکڑ میں پھڑپھڑا رہا تھا۔
"چھوڑو اسے۔۔۔"
ہانیہ نے آگے ہو کر اسے چھڑانا چاہا لیکن وہ آدمی اسے بھی اپنی گرفت میں پکڑ چکے تھے۔
"ہممم تو تم ہمارے سردار کو مارے گا راگا کو مارے گا تم۔۔۔۔"
زرخان آگے بڑھا اور ایک زور دار مکا انس کے منہ پر مارا تھا۔
"تم یہاں خود نہیں آیا میرا آدمی لایا تمہیں یہاں جب تم شگار راگا کا پوچھ رہا تھا۔۔۔۔اب بول کیا چاہیے تجھے مارا سردار سے۔۔۔"
زرخان نے انس کا منہ دبوچ کر پوچھا۔
"بھاڑ میں جاؤ۔۔۔"
اس نے فوراً ایک اور مکا انس کے منہ پر مارا تو ہانیہ ان آدمیوں کی گرفت میں مزید جھٹپٹانے لگی۔
"زرخان یہ لڑکا پولیس والا ہے آئی بی ہے۔۔۔"
ایک شخص نے انس کے والٹ میں موجود کارڈ دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہممم ۔۔۔تو فوجیوں نے بھیجا ہے تم دونوں کو پھر تو تم دونوں کی لاشیں بہت اچھا جواب ہوں گی فوجیوں کے لیے کہ راگا سے ٹکرانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔"
زرخان کی بات پر ہانیہ نے پریشانی سے انس کو دیکھا۔
"زرخان میرے خیال سے ہمیں راگا سردار کو اس کی خبر دینی چاہیے۔۔۔"
ایک آدمی نے کہا۔
"نہیں ان کو مار کر یہیں دفنا دیتے ہیں پھر راگا کو بتائیں گے کہ ان کے دشمنوں کا کیا حال کیا ہم نے۔۔۔"
زرخان نے ہنستے ہوئے کہا اور اپنی بندوق نکال کر ہانیہ کے ماتھے پر رکھ دی۔۔۔
"خدا کو یاد کر لو بچی۔۔۔"
زرخان کی بات پر آج پہلی بار ہانیہ وجدان خان کی خوف سے روح کانپ اٹھی تھی اسے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی۔