Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 17

منزل عشق قسط 17
"چلو جنت باہر چلتے ہیں۔۔۔"
تقریبا آٹھ منٹ گزرنے کے بعد سالار نے جنت کو کہا تو وہ سونو کو گود سے اتار کر اس کے ساتھ باہر آ گئی جہاں ابھی بھی ستارے نکلے ہوئے تھے۔
"دو منٹ رہ گئے ہیں آپ کے پاس اور بارش ابھی تک شروع نہیں ہوئی میرے خیال سے مجھے گھر واپس۔۔۔"
ابھی جنت کے الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے جب تیز رفتار سے بارش کا پانی ان دونوں پر گرنا شروع ہو گیا۔پہلے تو اس نے بہت زیادہ حیرت سے ستاروں بھرے آسمان کی طرف دیکھا پھر اس کی نظر دیواروں پر لگے شاورز پر پڑی تو بے ساختہ طور پر منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔
"تو کیا کہہ رہی تھی تم؟"
سالار نے اس کے تھوڑا قریب ہوتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
"میں کہہ رہی تھی کہ نقلی بارش کی بات نہیں ہوئی تھی۔"
جنت نے ٹھنڈ سے بچنے کے لیے خود کے گرد بازو لپیٹتے ہوئے کہا۔
"بات بارش کی ہوئی تھی جواب ہو رہی ہے جانتی ہو کیوں؟ کیونکہ سالار ملک اپنی جنت کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔
سالار نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر کہا تو جنت اپنی نظریں شرم سے جھکا گئی۔
"مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں پھر میں نے ماما سے پوچھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ سے کہوں کہ۔۔۔۔"
جنت بولتے ہوئے ایک پل کو رکی اور سنہری آنکھیں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔
" میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی کیونکہ آپ میرے لئے بہت خاص ہیں،اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ محبت ہے تو محبت ہی سہی۔"
اتنا کہہ کر جنت اپنی پلکیں پھر سے جھکا چکی تھی۔
"سوچ لو جنت میری محبت میں تمہیں دنیا بھولنی پڑے گی،سب سے زیادہ اہمیت مجھے دینی ہوگی،تمہاری توجہ ،تمہارا وقت ،تمہارا ہر ایک جذبہ صرف میرے لیے ہوگا۔۔۔"
سالار نے اس کا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اونچا کرتے ہوئے کہا۔پہلے تو جنت خاموش رہی پھر کافی دیر سوچ کر آہستہ سے بولی۔
"سوچ لیا۔۔۔"
سالار جنت سے دور ہوا اور ہاتھ پھیلا کر اونچی سے چلایا۔
"یس ۔۔۔۔ ٹوڈے آئی بیکیم کنگ آف دس ورلڈ۔۔۔۔"
سالار کی اس حرکت پر جنت گھبرا کر اس کے قریب ہوئی۔
"کیا کر رہیں ہیں آپ سالار چپ ہو جائیں ۔۔"
لیکن سالار نے کہاں چپ ہونا تھا آج اس نے پورا جہان پا لیا تھا۔
"تم چپ ہونے کا کہہ رہی ہو میں تو پوری دنیا کو چیخ چیخ کر بتانا چاہتا ہوں کہ تم میری ہو۔۔۔۔یہ جنت صرف اور صرف سالار ملک کی ہے۔"
جنت اسکی بے باقی پر شرمائی تھی پھر ایک خیال کے تحت منہ کھول کر سالار کو دیکھنے لگی۔
"اففف۔۔۔۔میرے کپڑے بھیگ گئے اب گھر کیسے جاؤں گی؟"
جنت کے سوال پر سالار ہلکا سا ہنس دیا۔
"کہو تو پورا مال لا کر تمہارے قدموں میں رکھ دوں..."
اس کی بات پر جنت کا منہ پھول کر مزید خوبصورت ہو گیا تھا۔
"سالار میں سیریس ہوں۔۔۔"
ایسے کہتے ہوئے وہ بہت زیادہ کیوٹ لگی تھی۔
"فکر مت کرو بے بی گرل میری وارڈروب میں تمہیں اپنی ضرورت کی ہر چیز ملے گی۔۔۔ایسا ہو سکتا ہے کہ میں اپنی جنت کی کسی بھی ضرورت کا خیال نہ رکھوں؟"
سالار کے سوال پر جنت شرمائی اور جلدی سے کمرے کی جانب چلی گئی۔سالار کا اس طرح سے اس کا خیال رکھنا اس کی ہر چھوٹی چھوٹی ضرورت کو مدنظر رکھنا جنت کو بہت زیادہ اچھا لگ رہا تھا۔
وہ معصوم اسے اور خود کو لے کر بہت سے خواب سجا چکی تھی اس بات سے بے خبر کہ قسمت کو خوشیاں گوارا ہی کہاں تھیں۔
                     ❤️❤️❤️❤️
"قیدی نمبر 255 کو کھانا دے آؤ۔۔۔"
ان کے سینئر نے آ کر انہیں کہا تو سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
"سر اس قیدی کو کھانا دینے کی ڈیوٹی سرفراز کی ہے اور وہ چھٹی پر گیا ہے۔۔۔"
ایک فوجی نے سینئر کو بتایا کیونکہ اس قیدی کو کھانا صرف سرفراز ہی دے کر آتا تھا اس کے علاوہ کسی اور کو اس قیدی کے پاس جانے کی اجازت تک نہیں تھی۔
"ہممم۔۔۔۔ٹھیک ہے آج کوئی اور اسے کھانا دے آئے۔"
ان کا سینیئر انہیں حکم دے کر وہاں سے چلا گیا۔
"لاؤ میں کھانا دے آتا ہوں اسے  ۔۔۔۔"
ایک سپاہی نے کہا اور کھانے کی ٹرے پکڑ کر سیل نمبر 255 کی جانب چل دیا جو باقی قید خانوں سے علیحدہ تھا۔ابھی وہ جیل کے قریب پہنچا ہی تھا جب دو سپاہیوں نے اس کا راستہ روکا۔
"میں قیدی کو کھانا دینے آیا ہوں جناب سپاہی بلال نام ہے میرا۔"
"لیکن اسے کھانا دینے کی ذمہ داری سپاہی سرفراز کی ہے۔۔۔۔۔"
ایک پہرے دار کے کہنے پر بلال نے ہاں میں سر ہلایا۔
"جانتا ہوں سر لیکن وہ چھٹی پر ہے اسی لیے کپتان صاحب نے مجھے بھیجا ہے۔"
سپاہیوں نے ہاں میں سر ہلا اور اسے آگے جانے دیا۔جیل کے قریب پہنچ کر اس نے دروازے میں لگی چھوٹی سی سلاخوں سے اندر اس آدمی کو دیکھا جو بیڑیوں میں جکڑا سر جھکائے بیٹھا تھا اور پھر دروازے کے نیچے سے کھانا اندر دھکیل دیا۔
"کھانا کھا لو ۔۔۔۔"
اس نے با رعب لہجے میں کہا تو اس قیدی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔اس قیدی کا چہرہ دیکھتے ہی ساتوں آسمان اس سپاہی پر ایک ساتھ گرے۔
ایسا کیسے ممکن تھا؟سپاہی نے خود سے سوال کیا اور کانپتی ٹانگوں سے وہاں سے واپس آ گیا۔جو اس نے دیکھا تھا وہ جلد از جلد اپنے سب ساتھیوں کو بتانا چاہتا تھا۔
                     ❤️❤️❤️❤️
سالار جنت کو رات کو ہی واپس چھوڑ کر جا چکا تھا اور وہ واپس آتے ہی سو گئی تھی لیکن صبح اٹھ کر رات کا گزرا ہر پل یاد کرکے وہ خود میں ہی مسکرائی تھی۔
"جنت اٹھنا نہیں میری جان کالج سے دیر ہو جائے گی۔۔"
جانان کی آواز پر جنت جلدی سے اٹھی اور خوشی سے چہکتے ہوئے جانان کو اپنے ساتھ پکڑ کر گھمانے لگی۔
"مما مما مما میں بہت زیادہ خوش ہوں۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے وہ اتنے اچھے ہیں کہ کیا کہوں۔۔۔بس دل کرتا ہے کی ہر پل ان کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرتی رہوں۔۔۔۔۔انہیں ہزار نخرے دکھاؤں اور وہ میرا ہر نخرہ اٹھائیں۔۔۔۔"
جنت نے دوپٹے کا سر پکڑ کر گھومتے ہوئے کہا اور اپنی پاگل بیٹی کو دیکھ کر جانان ہنس دی۔
"کیا اب مان گیا تمہارا دوست؟"
جانان نے شرارت سے پوچھا۔
"ماننا تو تھا ہی نا انہوں نے۔۔۔۔پتہ ہے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں انہیں پیار کرتی ہوں میں نے بھی کہا ہاں۔۔۔۔میں سب سے زیادہ آپ سے پیار کرتی ہوں ۔۔۔۔خود سے بھی زیادہ۔۔۔"
جنت نے پھر سے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔
"اور آپ کو پتہ ہے مما وہ کہتے ہیں کہ جنت صرف ان کی ہے اب میں ان سے ملوں گی نا تو کہوں گی کہ وہ بھی صرف جنت۔۔۔۔۔"
جنت جو خوشی سے چہکتے ہوئے بولتی چلی جا رہی تھی اچانک اس کی نظر سے میں کھڑے شایان پر پڑی تو فوراً خاموش ہو گئی اور سہم کر جانان کو دیکھا۔
"کس کی بات ہو رہی ہے ؟"
شایان نے جنت کے پاس آ کر پوچھا تو جنت نے فوراً اپنا سر جھکا دیا اور اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔
"وو۔۔۔۔۔وہ انکا نام سالار ملک ہے بابا۔۔۔۔وہ بہت اچھے۔۔۔"
"اچھا؟یہ کیا کہہ رہی ہو تم جنت اچھے برے کی پہچان بھی ہے تمہیں۔۔۔؟"
شایان کے چلانے پر جنت بری طرح سے سہم چکی تھی اور اس کا غصہ دیکھ کر جانان فوراً شایان کے پاس آئی۔
"شایان میری بات۔۔۔"
جانان نے کچھ کہنا چاہا لیکن شایان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روکا۔
"ببب۔۔۔۔بابا وہ۔۔۔۔وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔پلیز آپ ان سے ایک بار ۔۔۔"
"چپ جنت بلکل چپ جس سالار کی بات کر رہی ہو نا تم قاتل کی اولاد ہے وہ۔۔۔معراج کے ماں باپ کو مار دیا تھا اس ظالم نے اور تم چاہتی ہو کہ میں ان لوگوں سے رشتہ جوڑوں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"
شایان کے غصے سے کہنے پر جنت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
"اور بتاؤ کیا ایسی تربیت کی تھی میں نے تمہاری کہ تم اپنے ماں باپ سے چھپ چھپا کر ایک لڑکے سے ملتی رہی۔۔۔"
"بس شایان ۔۔۔۔"
جانان جو تب سے خاموش کھڑی تھی اب کی بار اپنی بیٹی کے سامنے آ کر بول اٹھی۔آخر کب تک خاموش رہتی وہ۔
"میری تربیت پر سوال مت اٹھائے گا کبھی بھی۔۔۔۔جنت جس دن پہلی بار سالار سے ملی تھی اسی دن اس نے آ کر مجھے ہر بات بتائی تھی اور میرے اجازت دینے پر ہی وہ سالار سے ملنے جاتی تھی۔۔۔۔"
جانان کی بات پر شایان نے حیرت سے اپنی بیوی کو دیکھا۔
"جانان تم۔۔۔"
"جی شایان شاہ صاحب میں نے ہی جنت کو سالار سے ملنے بھیجا تھا اور وجہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔۔۔"
جانان اتنی سی بات سے اسے بہت کچھ باور کرا چکی تھی۔شایان نے ایک نگاہ جانان پر ڈالی اور پھر جنت کو دیکھا جو سر جھکا کر روتی چلی جارہی تھی۔
"میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا یاد رکھنا تم دونوں۔۔۔۔میرے دوست کی جان لی تھی اس شخص نے اور تمہاری محبت کی خاطر معاف کر دیا اسے جانان لیکن اس کے ساتھ ہمارا کوئی رشتہ نہیں اور نہ ہی میں اس سے کوئی رشتہ جڑنے دوں گا۔۔۔۔"
شایان نے اتنا کہا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ جانان اب روتی ہوئی جنت کو اپنے سینے سے لگا کر دلاسہ دے رہی تھی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
کالج سے واپس آتے ہی معراج کی نظر شایان پر پڑی جو اپنے گھر کے آفس میں کرسی پر بیٹھا گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔معراج مسکرا کر اسکے پاس آیا۔
"ااا۔۔ اسلام و علیکم بب۔۔۔۔بڑے بابا۔۔۔۔"
"و علیکم السلام کیسے ہو میرے شیر؟"
معراج کو دیکھتے ہی شایان نے مسکرا کر پوچھا۔
"مممم۔۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں آآآ۔۔۔۔آپ کل گھر کیوں ننن۔۔۔۔نہیں آئے تھے؟"
معراج نے اس کے پاس موجود کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"بس بیٹا کچھ کام تھا۔۔۔"
معراج نے اثبات میں سر ہلایا اور بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے شایان کو خادم شفیق کے ہاں رشتہ لے جانے کا کہے۔
"بب۔۔۔بڑے بابا وہ۔۔۔۔"
"مجھے تم سے کچھ کہنا ہے معراج۔"
ابھی معراج نے کچھ کہنا ہی چاہا تھا جب شایان اس کی بات کاٹ کر بولا۔
"جج۔۔۔جی کہیں۔۔۔ "
معراج نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"جب میں نے تمہیں وجدان سے مانگا تھا تو یہی سوچا تھا کہ تم میرے اپنے بیٹے ہو۔ہمیشہ سے میں نے تمہیں اپنی سگی اولاد سمجھا ہے معراج اور تمہارے اس گھر میں آتے ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ ایک دن تمہیں صحیح معنوں میں اپنا بیٹا بناؤں گا۔"
معراج شایان کی بات کا مطلب سمجھنا چاہ رہا تھا لیکن شایان کی بات وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا۔
"معراج میں تمہارا اور جنت کا نکاح کرنا چاہتا ہوں بیٹا۔۔۔۔ہمیشہ سے میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کے لیے سوچا ہے۔"
شایان نے اپنے الفاظ سے ساتوں آسمان معراج پر گرائے تھے۔
"بب۔۔۔۔بڑے بابا۔۔۔۔"
"میں نے یہ بات اتنے مان سے اس لئے کہی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری خوشی میری خوشی ہے میں ہے۔۔۔۔ایسا ہی ہے نا بیٹا ۔۔۔؟"
جی ان کے سوال پر معراج اپنا سر جھکا گیا۔دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر ہتھیلیوں پر گرے لیکن وہ کیسے منع کرتا شایان کا مان تھا وہ۔بچپن سے ہی جنت سے بھی زیادہ شایان نے اس سے پیار کیا تھا۔ایک پل کو ایمان کا معصوم مسکراتا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔
"جج۔۔۔جیسا آپ چاہیں ببببب۔۔۔۔بڑے بابا۔۔۔ممم۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔"
شایان نے فوراً اٹھ کر معراج کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
"شکریہ بیٹا میں جانتا تھا کہ تم میرا مان ضرور رکھو گے۔۔۔تم غرور ہو میرا بیٹا بلکل اپنے بابا کی طرح۔۔۔"
شایان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا تو معراج ہلکا سا مسکرا دیا۔ہاں وہ شایان شاہ کا مان رکھنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا اپنی زندگی بھر کی چاہ کو بھول سکتا تھا۔
                    ❤️❤️❤️❤️
کال کا ہاتھ اب کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا اور اس نے راگا سے اس بات کا انتقام لینے کی ٹھان لی تھی۔اسی مقصد کے ماتحت صبح ہوتے ہی وہ اپنے ایک آدمی سے ملنے سکردو آیا تھا۔اس وقت وہ دونوں ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔
"کہو کال کیا چاہیے تمہیں مجھ سے۔۔۔"
کال کے خاص آدمی نے اس سے سوال کیا ۔
"راگا کی بربادی۔۔۔۔دیکھ کیا کیا اس نے میرے ساتھ اب میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ جس جہنم سے اسے نکالا تھا اب سے وہیں واپس بھیج کر رہوں گا۔"
"مطلب تو راگا کو آرمی کے حوالے کرنا چاہتا ہے؟"
کال کا مقصد جان کر وہ آدمی خوف سے کانپ اٹھا کیونکہ وہ راگا سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔
"ہاں میں اسے فوج کے حوالے کر دوں گا لیکن اس سے پہلے اسے بے بس کر کے اسکی آنکھوں کے سامنے اس دو ٹکے کی لڑکی کی دھجیاں اڑا دوں گا۔"
کال نے دانت کچکچا کر کہا پھر سامنے موجودہ آدمی کو دیکھا جو خوف سے کانپ رہا تھا۔
"اور تو اس میں میرا ساتھ دے گا ورنہ جانتا ہے نا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔"
کال کی بات پر اس شخص نے تھوک نگلا اس کے لئے تو ایک طرف کواں تھا اور ایک طرف کھائی کیونکہ نہ تو وہ کال سے دشمنی مول لے سکتا تھا اور نہ ہی راگا سے۔
"ٹٹ۔۔۔ٹھیک ہے کال میں تیرا ساتھ دوں گا لیکن اگر تیرا یہ منصوبہ فیل ہو گیا نا تو میرا نام نہیں آنا چاہیے۔"
کال نے اس کی بزدلی پر گہرا سانس لیا اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا کال کی نظر کچھ فاصلے پر بیٹھے وجود پر پڑی تو ایک پل کے لیے اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں ہوا۔
وہ لڑکی ہو بہو وانیا کے جیسی تھی وہی آنکھیں،وہی مسکان لیکن وہ وانیا نہیں تھی۔وانیا تو اس وقت راگا کی قید میں تھی اور ویسے بھی حسن لڑکی کی آنکھوں میں وانیا جیسا خوف بھی نہیں تھا۔
کون تھی وہ آخر؟
                     ❤️❤️❤️❤️

   0
0 Comments