14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 21
منزل عشق قسط 21
ایمان کمرے میں بیٹھی سکیچ بنا رہی تھی جو وہ اکثر ہی بہتر محسوس کرنے کے لئے بنایا کرتی تھی۔تبھی اچانک خادم ملازمہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔خادم کو دیکھ کر ہی ایمان سہم کر جلدی سے کھڑی ہوئی تھی۔
"ایمان بیٹا یہ کپڑے لو اور چینج کرکے تیار ہو جاؤ آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔"
ایمان نے جلدی سے وہ کپڑے پکڑے اور ہاں میں سر ہلایا کچھ بھی ہو جاتا وہ اپنے باپ کو غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی۔خادم نے ملازمہ سے ایمان کو تیار کرنے کا کہا اور خود باہر چلا گیا۔
"خالہ مجھے یہ کپڑے کیوں دیے ہیں بابا نے؟"
ایمان وہ عروسی جوڑا پہن کر باہر آئی تو خادم کو وہاں نہ پاتے ہوئے ملازمہ سے پوچھنے لگی۔
"پتا نہیں بیٹا بس آپ تیار ہو جاؤ جیسا کہ صاحب نے کہا ہے۔"
ایمان خاموشی سے آکر آئینے کے سامنے بیٹھ گئی اور ملازمہ کے ساتھ موجود لڑکی اسے تیار کرنے لگی۔ایمان ویسے تو خاموشی سے بیٹھی تھی لیکن اس کا دل بہت زیادہ ڈر رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آگے اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔
ملازمہ اسے تیار کر کے باہر لائی جہاں بہت کچھ آدمی موجود تھے۔خادم نے ایمان کو دیکھا تو مسکرا کر اسکے پاس آیا۔
"میری جان بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔"
خادم نے ایمان کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔
"ببب۔۔۔۔بابا یہ کیا ہو رہا ہے؟"
ایمان نے سہم کر نظریں جھکاتے ہوئے پوچھا۔
"آپکا نکاح۔۔۔"
خادم کے جواب پر ایمان کا دل خوف سے بند ہوا تھا۔
"ننن۔۔۔نکاح۔۔۔؟"
"جی بیٹا نکاح اور وہ بھی آپ کے بیسٹ فرینڈ سے۔"
خادم کی بات پر ایمان کی آنکھیں مزید حیرت سے پھیل گئیں۔اس نے سامنے دیکھا جہاں پر معراج پینٹ کوٹ پہنے کھڑا تھا۔
"میرا نکاح معراج سے ہو رہا ہے؟"
اس سے پہلے کہ خادم ایمان کو کوئی جواب دیتا معراج آگے بڑھا اور ایمان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔
"تت۔۔۔تم کرو گی کیا ممم۔۔۔۔مجھ سے نکاح؟"
معراج نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
"لیکن تمہارا نکاح تو تمہاری کزن سے ہونا تھا ناں؟"
"ننن۔۔۔۔نہیں میرا نکاح صرف تتت۔۔۔۔تم سے ہو گا ااا۔۔۔۔اگر تم چاہو تو۔۔۔؟"
معراج کو دیکھ کر ایمان مسکرا دی جو اس سے بھی زیادہ گھبرایا ہوا تھا۔
"تم کبھی مجھے مارو گے تو نہیں ناں؟"
ایمان کے سوال پر معراج حیران ہوا پھر فوراً انکار میں سر ہلایا۔
"ککک۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔وعدہ"
ایمان کو شاید یہی جواب چاہیے تھا اس لیے وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
"کبھی مجھ سے دور نہیں جاؤ گے ہمیشہ میرے پاس رہو گے؟"
معراج نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا۔اگلا سوال پوچھنے سے پہلے ایمان نے خادم کی جانب دیکھا جو ان سے دور کھڑا مولوی سے کوئی بات کر رہا تھا۔
"مما کی طرح مر تو نہیں جاؤ گے ناں ؟"
ایمان کے اس سوال پر معراج ٹھٹھک گیا۔وہ سے کیا جواب دیتا زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں تو نہیں تھی ناں۔
"بولو ملنگ مما کی طرح اللہ تعالیٰ کے پاس تو نہیں جاؤ گے ناں؟"
ایمان کو جب اس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اسے ہلاتے ہوئے پوچھنے لگی۔
"ممم۔۔۔میں نہیں جانتا ایمان۔۔۔"
معراج کے جواب پر ایمان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
"لیکن یہ وعدہ میں کرتی ہوں معراج کہ اگر تم مر گئے نا تو ایمان بھی مر جائے گی۔۔۔"
ایمان کی بات پر معراج کا دل دہل گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا خادم وہاں آیا اور ایمان کے گرد اپنا ہاتھ رکھا۔
"چلو بچو اب نکاح شروع کرتے ہیں دیر ہو رہی ہے۔"
معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔معراج صوفے پر بیٹھا تو خادم نے ایمان کو بھی اس کے ساتھ بٹھا دیا۔نکاح خواں پہلے ایمان کی طرف متوجہ ہوا۔
"ایمان خادم ولد خادم شفیق آپ کا نکاح معراج سعد ولد سعد رفیق کے ساتھ حق مہر دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"
نکاح خواں کے سوال پر ایمان نے شرمیلی نگاہیں اٹھا کر معراج کو دیکھا تو معراج بھی شرما کر اپنی نگاہیں جھکا گیا۔
"قبول ہے۔۔۔"
ایمان نے آہستہ سے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا تو اس سے دستخط کے کر نکاح خواں معراج کی جانب مڑا۔
"معراج سعد ولد سعد رفیق آپ کا نکاح ایمان خادم ولد خادم شفیق کے ساتھ دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔"
"قبول۔۔۔"
"معراج۔۔۔!!!"
ابھی الفاظ معراج کے منہ میں ہی تھے جب شایان کی آواز پر سب نے ٹھٹھک کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں شایان اور وجدان موجود تھے۔
"یہ کیا کر رہے ہو تم معراج؟"
وجدان نے سختی سے پوچھا تو ایمان سہم کر معراج ہے پیچھے چھپ گئی۔
"مم۔۔۔۔میں اس سے شادی کر ررر۔۔۔۔رہا ہوں ماموں جسے میں پپپپ۔۔۔۔پسند کرتا ہوں۔۔۔"
معراج کی بات پر وجدان تھوڑا آگے ہوا۔
"اور تم نے مجھ سے یا شایان سے پوچھنا تھا وغیرہ نہیں کیا کیا اتنے ہی غیر ہو گئے ہیں ہم دونوں تمہارے لیے؟"
وجدان کے سوال پر معراج نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا پھر کچھ دیر بعد اُس نے ہاں میں سر ہلایا.
"ججج۔۔۔۔جی غیر ہوگئے ہیں آآآآ۔۔۔۔۔آپ میرے لئے۔۔۔۔تت۔۔۔تب ہی ہو گئے تھے ججج۔۔۔جب آپ نے میرے ماما بابا کک۔۔۔۔کے قاتل کو معاف کیا۔۔۔۔ااا۔۔۔اب میں اپنی مرضی کا مالک ہوں۔۔۔۔جج۔۔۔۔جو چاہے کروں گا۔۔۔"
معراج کی بات سن کر وہ دونوں بہت زیادہ حیرت زدہ ہو گئے۔ان کے سامنے اس طرح کی باتیں کرتا معراج انکا تو نہیں تھا۔
"معراج بیٹا۔۔۔"
"نن۔۔۔نہیں بڑے بابا۔۔۔آآآ۔۔۔آپ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میرا اور آپ کا اب سے ککک۔۔۔۔کوئی تعلق نہیں۔۔۔"
اپنی نم ہوئی سبز آنکھوں سے یہ کہہ کر معراج نکاح خواں کی جانب مڑا۔
"ممم۔۔۔۔مجھے یہ نکاح قبول ہے۔۔۔ققق۔۔۔۔قبول ہے ،قبول ہے۔۔۔"
معراج نے ایک بار میں ہی کہا اور اپنے سائن سامنے رکھے نکاح نامے پر کر دیے۔خادم نے ایک فاتح مسکان شایان اور وجدان کی جانب اچھالی۔
"چلو شایان اب ہمارا یہاں کوئی نہیں۔۔۔ہمارے بیٹے کو آج کوئی اور اپنا بیٹا بنا چکا ہے لیکن وہ یہ بات ضرور یاد رکھے کہ اگر اس پر آنچ بھی آئی تو ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"
وجدان نے اسے اپنی سبز نگاہوں سے گھورتے ہوئے وارن کیا اور شایان کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔
❤️❤️❤️❤️
رات کو خادم نے معراج کو ایمان کے کمرے میں بھیجا۔معراج بہت زیادہ ہچکچا رہا تھا۔اسکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایمان کو کیا کہے گا۔
خیر کافی دیر دروازے کے باہر کھڑے ہونے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو ایمان آئنے کے سامنے کھڑی مسکراتے ہوئے خود کو دیکھ رہی تھی۔
"ارے ملنگ یہاں آؤ دیکھو میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں۔۔۔"
مراج کو دیکھتے ہی ایمان اس کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ آئینے کے سامنے لے گئی۔
"دیکھو میں تم سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی ہوں ناں؟"
معراج نے بھی مسکرا کر ایمان کو دیکھا جو سچ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔
"ہہ۔۔۔۔ہاں تم اس دنیا کی سسس۔۔۔سب سے زیادہ پیاری لڑکی ہو۔"
ایمان کھل کر مسکرائی اور اپنے قدم اونچے کر کے معراج کے گال پر اپنے ہونٹ رکھے۔ایمان کی اس حرکت پر معراج پہلے تو حیران ہوا پھر شرما کر اپنا چہرہ سائیڈ پر کر گیا۔
"شرما کیوں رہے ہو ملنگ۔۔۔؟"
ایمان نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
""ااا۔۔۔۔اب تمہیں تو شرم آتی نننن۔۔۔۔نہیں تو کوئی تو ششش۔۔۔۔شرمانے والا کام کر لے نن۔۔۔نا ہم میں سے۔۔۔"
معراج کی بات پر ایمان ہنسنے لگی پھر ہنستے ہوئے خود کو پھر سے آئنے میں دیکھا۔
"ویسے تم زرا پیارے نہیں میرے چشمو ملنگ لیکن قسمت دیکھو اتنی پیاری لڑکی بیوی بن گئی تمہاری۔"
ایمان نے اترا کر کہا۔پھر موبائل پکڑ کر معراج کو پکڑایا۔
"چلو اب سیلفی بناؤ ہم دونوں کی۔"
معراج نے وہ موبائل پکڑا اور ان دونوں کی تصویریں بنانے لگا۔بہت سی تصویریں بنانے کے باوجود ایمان کا دل نہیں بھر رہا تھا۔
"چچچ۔۔۔چلو اب ہم سوتے ہیں۔۔۔۔ددد۔۔۔۔دیر ہو گئی ہے ایمان۔۔۔"
معراج نے موبائل بند کر کے ساتھ موجود ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تو ایمان مسکرا دی۔
"پتہ ہے ملنگ آج میں کتنی خوش ہوں اتنی خوش ہوں جتنی میں مما کے زندہ ہونے پر ہوا کرتی تھی۔"
اپنی ماں کو یاد کر کے ایمان پھر سے افسردہ ہو گئی آنکھیں آنسوؤں سے اور خوف سے بھر چکی تھیں۔
"کک۔۔۔۔کیا ہوا تھا آنٹی کو؟"
معراج کو اس کے چہرے کی افسردگی ایک پل کے لئے بھی اچھی نہیں لگی تھی جبکہ اس سوال پر ایمان بہت دیر تک چہرہ دیکھتی رہی پھر آگے ہو کر معراج کے کان میں سرگوشی کی۔
"مونسٹر نے مار دیا تھا انہیں۔۔۔۔"
ایمان نے آہستہ سے کہا۔
"کک۔۔۔۔کون مونسٹر؟"
معراج نے گھبرا کر پوچھا۔
"نہیں بتا سکتی۔۔۔"
"کیوں؟"
"کیونکہ پھر وہ مونسٹر تمہیں بھی مار دے گا۔"
ایمان نے اتنا کہا اور اٹھ کر کپڑے بدلنے چلی گئی جبکہ معراج وہیں کھڑا بہت دیر اسکی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
خادم شان سے اپنے کمرے میں بازو پھیلائے صوفے پر بیٹھا آنکھیں موندے مسکرا رہا تھا۔چہرے پر بلا کا سکون تھا۔
"کیا ہوا سر؟ آج بہت خوش نظر آ رہے ہیں آپ؟"
عرفان نے مسکراتے ہوئے پوچھا جو آج تقریباً ایک ہفتے کے بعد خادم کے دیے کام سے واپس آ رہا تھا۔
"خوش تو ہوں گا میں عرفان وہ ہو گیا جو میں نے چاہا تھا۔۔۔"
خادم نے مسکراتے ہوئے کہا جب کہ عرفان اس کی بات پر حیران ہوا۔
"ایسا کیا ہوگیا سر آج؟"
"میں نے ایمان کا نکاح معراج سے کروا دیا۔"
یہ بات کہتے ہوئے جہاں خادم کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی تھی وہیں عرفان کے چہرے کا ہر رنگ اڑ چکا تھا۔
"ارے اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو عرفان تم تو پہلے سے جانتے تھے کہ میں معراج کو اپنے ساتھ کیوں لایا تھا کیونکہ میں اس کا نکاح ہمیشہ سے اپنی اکلوتی بیٹی ایمان سے کرنا چاہتا تھا۔"
خادم نے اتنا کہہ کر شراب کا گلاس اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگایا۔
"ہاہاہاہا اور وہ معصوم بچہ کتنا خوش ہو رہا ہے جیسے کہ پورا جہان مل گیا ہو اسے۔۔۔۔میری خاطر اپنے تایا اور ماموں کو بھی چھوڑ دیا ہاہاہا۔۔۔"
خادم کے چہرے پر اس وقت سفاکی اور بہت زیادہ چالاکی تھی۔
"بے چارہ نہیں جانتا کہ جس کو بیوی بنا بیٹھا ہے اس کا باپ ہی اس کے ماں باپ کا قاتل ہے۔۔۔۔ہاہاہا بے چارہ نہیں جانتا کہ وہ سلطان کا داماد بن چکا ہے۔۔۔"
خادم پھر سے ہنسا اور شراب کا گلاس ابے ہونٹوں سے لگایا۔
"لیکن سر آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ایمان میری ہو گی۔۔۔"
عرفان نے بہت زیادہ افسردگی سے کہا اسے یہ غم بھول ہی نہیں رہا تھا کہ ایمان آج اس بونگے کی ہو چکی تھی۔
"صبر عرفان صبر ویسے بھی چند دن کا مہمان ہے بیچارا۔۔۔۔۔ایک بار میرا مقصد پورا ہو جائے گا تو اسکے ماں باپ کے پاس پہنچا دوں گا اس سے بھی۔"
خادم نے دانت پیس کر کہا۔
"لیکن سر آپ مجھ پر بھی تو بھروسہ کر سکتے تھے۔۔۔"
"ہاہاہا۔۔۔اف میرے عارف خان ارف اے کے تمہیں کیا لگتا ہے دو سو کروڑ کی جائیداد کے لیے میں تم پر بھروسہ کرتا جو دنیا سے اپنا اصلی نام تک چھپا کر عرفان بنا ہوا ہے۔۔۔"
اچانک سے ماضی یاد کر کے خادم کے ہاتھ کی گرفت گلاس کے گرد مضبوط ہوئی تھی۔
"اپنے امیر باپ کی اکلوتی اولاد تھی ایمان کی ماں اور اسی امید سے میں نے اس سے شادی کی کہ یہ ساری جائیداد کل کو میری ہو گی لیکن کمینی کو مجھ پر شک ہوگیا اور ساری کی ساری جائیداد اس نے ایمان کے نام کردی اس شرط سے کہ ایمان بھی وہ جائیداد اپنے شوہر اور اولاد کے علاوہ کسی کے نام نہیں کر سکتی۔۔۔۔لیکن وہ جانتی نہیں تھی میں بھی سلطان ہوں کچی گولیاں نہیں کھیلیں میں نے۔۔۔۔"
خادم نے گلاس اٹھا کر دیوار میں مارا۔
"میں غریب پیدا ہوا تھا اے کے۔۔۔اپنے غریب باپ کا سب سے بڑا بیٹا تھا زندگی کی مار کھانے والا ،لوگوں کے تانے سننے والا اور اس غربت میں میں نے بس ایک خواب دیکھا تھا اس ملک کا بادشاہ بننے کا خواب۔۔۔مجھے اپنے نام جیسا خادم نہیں بننا تھا مجھے سلطان بننا تھا۔۔۔۔سلطان۔۔"
خادم اپنی جگہ سے اٹھا اور میز پر پڑی اپنی اور اپنی بیوی کی تصویر کو اٹھایا۔
"بہت تلوے چاٹنے پڑے تھے مجھے اس عورت کے تاکہ اس کو اپنی محبت کے جال میں پھانس لوں۔۔۔اور ہماری شادی کے بعد جب منزل قریب آئی۔۔۔عثمان ملک کے بعد میں پارٹی کا سربراہ بن گیا وہ بادشاہ بننے کی راہ پر چل پڑا جسکا خواب میں نے بچپن سے دیکھا تھا۔"
خادم شان سے مسکرایا۔
"لیکن اس گھٹیا عورت نے اپنی ساری دولت میرے ہاتھ سے چھین لی وہ بھی تب جب مجھے اس کی ضرورت تھی۔۔۔۔اور جب مجھے یہ پتہ چلا کہ اس نے سب کچھ ایمان کے نام کردیا ہے۔۔۔۔۔ہاہاہا میں نے مار دیا اے کے میں نے اسکے منہ پر تکیہ رکھ کر اسے مار دیا۔۔۔۔"
خادم کی آنکھوں میں اب وحشت اتر چکی تھی۔
"لیکن وہ سب ایمان نے دیکھ لیا۔۔۔۔اور اسے تو میں مار بھی نہیں سکتا تھا اگر مار دیتا تو ساری دولت اس کمینی کی وصیت کے مطابق چیرٹی میں چلی جاتی۔۔۔۔"
خادم نے پھر سے دانت کچکچاتے اور عرفان کی جانب مڑا۔
"اسی لیے میں نے سات سال کی عمر سے ایمان کو ڈرا کر رکھا۔۔۔کبھی اسے گھر سے بھی نہیں نکلنے دیا۔۔۔اسے خود سے اتنا ڈرا دیا کہ میرا حکم نہ ماننے کی اس میں جرات ہی باقی نہ رہے۔۔۔۔اسی لیے تو میں نے تمہیں بھی اسے ڈرانے کا کہا تھا۔۔۔۔اور دیکھو آج تک سچ ایمان کی زبان پر نہیں آیا۔۔۔"
عرفان نے ہاں میں سر ہلایا۔
"ہاں ڈرتی تو وہ ہم دونوں سے ہے لیکن اب وہ معراج۔۔۔"
"ہاہاہا تم اس کی فکر کر رہے ہو اے کے۔۔۔۔وہ جو کالج کے بچوں سے بھی مار کھاتا ہے اور اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔۔۔۔اسے ایمان کے قریب لانے سے پہلے اس کے بارے میں سب معلوم کیا تھا وہ میری پلین کے لئے بالکل پرفیکٹ ہے۔۔۔۔"
خادم نے عرفان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"فکر مت کرو اے کے۔۔۔اگلے مہینے ایمان 18 سال کی ہو جائے گی تب اس سے یہ ساری دولت میں معراج کے نام کرواؤں گا اور معراج جتنا ڈرپوک ہے نا ایک پل میں وہ ساری دولت میرے نام کر دے گا۔۔۔۔اس کے بعد میں اسے بھی ویسے ہی ماروں گا جیسی اس کی اس کمینی ماں کو مارا تھا۔۔۔۔پھر ایمان تمہاری جو مرضی کرنا اس کے ساتھ میری بلا سے۔۔۔۔"
خادم کی باتوں سے کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایمان کا سگا باپ تھا اس سے بہتر تو بہت سے سوتیلے باپ ہوتے لیکن وہ بھی تو سلطان تھا درندگی کی جیتی جاگتی مثال۔
"لیکن آپ نے معراج کے ماں باپ کو کیوں مارا اگر آپ کو پارٹی کا سربراہ بننے کے لیے عثمان ملک کو راستے سے ہٹانا تھا تو آپ ایسے بھی تو مار سکتے تھے؟"
عرفان نے کب سے اپنے ذہن میں آتا سوال اس سے پوچھا۔
"کیونکہ معراج کی ماں کوئی اور نہیں سکندر تھی اے کے وہی سکندر جس نے میرے بھائیوں کو مارا۔۔۔۔"
خادم کی بات پر عرفان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"ہاں میرے دو چھوٹے بھائی جن میں سے ایک نے ایک لڑکی کو اس کی اوقات دکھائی اور دوسرے نے اس کی تصویریں لیں تو اس سکندر نے ان کے گھر میں گھس کر دونوں کو مار دیا۔۔۔۔۔چھپ کر دیکھ رہا تھا میں سب لیکن کچھ نہیں کر پایا کیونکہ میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا وہ مجھے بھی مار دیتی۔۔۔۔لیکن قسم کھائی تھی میں نے اپنے بھائیوں کے جنازے پہ کہ اس سکندر کو جس کی سچائی صرف میں جانتا تھا اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"
خادم نے دانت پیس کر کہا۔
"بہت دیر میں مناسب موقع کی تلاش میں رہا اور وہ موقع مجھے تب ملا جب اس نے عثمان ملک آفس سے میں نے عثمان کو اسے دھمکی دیتے سنا۔"
خادم کے چہرے پر شیطانی واضح تھی۔
"ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کا فیصلہ کیا میں نے اس سکندر سے اپنا بدلہ بھی لے لیا اور عثمان کو بھی اپنے راستے سے ہٹا دیا۔۔۔۔اور دیکھو آج میں کہاں ہوں اور وہ کہاں۔۔۔"
اتنا کہہ کر خادم قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا تھا۔
"کیسے مارا تھا آپ نے اسے؟"
عرفان نے دلچسپی سے پوچھا کیونکہ اسے اب اس کہانی سے بہت مزہ آ رہا تھا جبکہ اس سوال پر وہ رات پھر سے یاد کرتے ہوئے خادم کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی۔
❤️❤️❤️❤️
(چودہ سال پہلے)
سعد بے انتہا خوشی کے عالم میں عشال کا ہاتھ تھامے کمرے میں داخل ہوا جہاں معراج بیڈ پر لیٹا سو رہا تھا۔
"باپ اتنا خوش ہے اور بیٹا سو رہا ہے زرا خوشی اسے بھی تو ہو نا۔"
سعد مسکرا کر کہتے ہوئے معراج کی جانب بڑھا۔
"نہیں سعد اسے سونے دیں صبح سکول بھی جانا ہے اس نے پلیز اسے نہیں اٹھا۔۔۔۔"
لیکن عشال کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی سعد سات سالہ معراج کو جگا کر اپنی گود میں بیٹھا چکا تھا۔
"معراج بابا کی جان میرے پاس آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔۔۔۔آپکو پتہ ہے آپکو ایک بہن ملنے والی ہے۔۔۔"
سعد کی بات پر معراج کی سبز آنکھیں نیند کی شدت سے بند ہونے لگیں۔
"ججج۔۔۔۔جنت جیسی بہن۔۔۔ککک۔۔۔۔کہاں ہے۔۔۔؟"
معراج نے ہکلاتے ہوئے پوچھا اور اسکی اس عادت کو لے کر عشال بہت زیادہ پریشان تھی اس نے نہ جانے کتنے ہی ڈاکٹروں سے معراج کا علاج کروایا تھا لیکن اسکا ہکلانا ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔
"بلکل جنت جیسی چھوٹی سی پیاری سی ہو گی لیکن ابھی نہیں ابھی کافی مہینوں کا وقت ہے۔"
سعد نے عشال کو دیکھتے ہوئے آنکھ دبا کر کہا جو اسے گھورنے میں مصروف تھی۔
"ایجنٹ جی میرے معصوم بچے کو اپنی ایسی باتوں سے دور ہی رکھا کریں۔"
عشال نے معراج کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تو وہ فورا آگے بڑھ کر عشال کے سینے سے لپٹ گیا۔
"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں نے معراج کے سامنے ہی تمہیں۔۔۔"
عشال نے سعد کو گھورتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ معراج کے کانوں پر رکھ دیے تو سعد قہقہ لگا کر ہنسا اور اٹھ کر ان دونوں کے پاس آیا جو اسکا کل جہان تھے۔
"تھینک یو میری جان مجھے خوشیوں اور محبت سے بھری یہ زندگی دینے کے لئے۔"
سعد نے دونوں کو اپنی باہوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تو عشال بھی اپنے ہونٹ معراج کے سر پر رکھ کر مسکرا دی۔
تبھی نچلے پورشن سے آنے والی کھٹ پٹ اور انجان لوگوں کی سرگوشیوں نے دونوں کا دھیان اپنی طرف کھینچا۔
"سعد آئی تھنک کوئی ہمارے گھر میں ہے۔۔۔"
عشال نے معراج کو خود میں بھینچتے ہوئے پریشانی سے کہا جبکہ سعد اب تک سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھ چکا تھا جہاں سے اس نے اپنی پسٹل نکالی۔
"میں دیکھتا ہوں تم معراج کے پاس رہو ۔۔۔"
سعد اتنا کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا عشال کچھ دیر معراج کو اپنے ساتھ لگائے پریشانی کے عالم میں وہیں کھڑی رہی۔
"آآآآہ۔۔۔۔"
سعد کی چیخ سن کر عشال نے فوراً معراج کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور کمرے میں موجود ڈریسنگ روم کی الماری میں اسے چھپانے لگی۔
"معراج میری جان آپ یہیں چھپنا اور جب تک مما یا پاپا نہ بلائیں آپ نے باہر نہیں آنا اوکے۔۔۔۔"
عشال جلدی سے اسے الماری میں چھپاتے ہوئے کہہ رہی تھی نہ جانے کیوں اسے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔
"ممم۔۔۔۔مما مجھے ڈر لگ۔۔۔۔لگے گا۔۔۔"
معراج نے ڈرتے ہوئے کہا لیکن عشال نے اسکے ہاتھ پکڑ کر اسکے کانوں پر رکھ دیے۔
"ششش مما کی جان بس آپ چپ رہنا بلکل چپ اوکے۔۔۔۔اور یہاں سے باہر نہیں آنا۔"
معراج کے ہاں میں سر ہلاتے ہی عشال الماری بند کر کے کمرے میں آئی اور اپنے موبائل سے وجدان کو میسج کرنے لگی۔
ہمارے گھر کوئی گھس آیا ہے جلدی سے آ جائیں بھائی۔
میسج کر کے اس نے جلدی سے اپنا ریوالور نکالا اور کمرے سے باہر نکل کر ریلنگ کے پاس آئی اور ایک پلر کے پیچھے چھپ کر نیچے موجود ہال میں دیکھنے لگی۔
اس وقت ہال میں تقریباً بیس کے قریب آدمی تھے جن میں سے دو آدمیوں نے زخمی سعد کے ہاتھ جکڑے تھے اور ایک اسکے سر پر بندوق تانے کھڑا تھا۔
"تجھے کیا لگا سعد رفیق کہ تیری بیوی سکندر بن کر میرے بھائیوں کو مارے گی اور میں کچھ نہیں کروں گا؟""
ایک آدمی کی آواز عشال کے کانوں سے ٹکرائی لیکن وہ اس آدمی کو دیکھ نہیں پائی تھی کیونکہ اس نے اپنا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا لیکن حلیہ بلکل عثمان جیسا تھا۔
"اب دیکھ نا میں یہاں ہوں تیرے گھر میں اور تو میری گرفت میں ہے لیکن تیری بیوی کہاں ہے؟چھوڑ پہلے تیرا کام تمام کر دیتا ہوں۔"
اس آدمی نے قہقہ لگا کر کہا اور پھر بندوق تھامے آدمی کو اشارہ کیا جس نے وہ بندوق سعد کے سر کے پیچھے رکھی تھی۔تبھی ایک گولی کی آواز آئی اور سعد کے سر پر بندوق تانے کھڑا آدمی زمین پر ڈھیر ہوا۔گولی کا نشان اسکے ماتھے پر موجود تھا۔
سب نے اپنی بندوقوں کا رخ اوپر موجود بالکونی کی طرف کیا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔
"کون ہو تم سامنے آؤ فوراً۔۔۔"
ایک آدمی نے دھمکی دی لیکن جواب میں ایک گولی سیدھا اسکے سینے کو چیر چکی تھی۔
تبھی سلطان خود آگے بڑا اور اپنی بندوق سعد کے ماتھے پر رکھ دی۔
"سامنے آ سکندری ورنہ اس کی کھوپڑی اڑا دوں گا۔۔۔۔"
یہ سن کر عشال نے پہلے بےبسی سے سعد کو دیکھا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر پلر کے پیچھے سے سامنے آئی ۔وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے ان کے باس کو کچھ کیا تو وہ لوگ سعد کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
وجدان کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچتا ہو گا عشال کو بس انکا وقت ضائع کرنا تھا۔
"کیا بات ہے کس نے سوچا تھا کہ خونخوار سکندر اتنی حسین عورت ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔"
سلطان نے طنزیہ مسکان کے ساتھ کہا اور پھر عشال کو بندوق گرانے کا اشارہ کیا تو اتنے سارے لوگوں کو دیکھتے ہوئے عشال نے بے بسی سے بندوق نیچے گرا دی۔
"سلطان کے دو بھائیوں کو مارا تو نے تو بول کیا سزا ہو تیری سوچتا ہوں تیرے شوہر کو ۔۔۔۔۔"
سلطان نے بندوق سعد کے سر کے پیچھے رکھتے ہوئے اپنے سامنے موجود اس عورت کو کہا جس کی سبز آنکھوں میں ابھی بھی خوف نہیں تھا بلکہ بے انتہا بہادری تھی۔ویسے بھی بھائیوں کا ذکر سن کر عشال سمجھ چکی تھی سامنے چہرہ چھپائے موجود انسان اور کوئی نہیں عثمان ملک کا پی اے تھا۔
"اس نے نہیں میں نے مارا تیرے بھائیوں کو تو ہمت ہے تو مجھے مار۔۔۔"
عشال کی بات پر کمرے میں موجود ہر آدمی قہقہ لگا کر ہنسنے لگا۔
"واہ اتنی بہادر عورت آج تک نہیں دیکھی لیکن افسوس ہے کیسی بہادر عورت کو ختم کرنا پڑے گا۔۔۔"
اتنا کہہ کر سلطان نے اپنی بندوق کا رخ سعد کی طرف کیا تو عشال انتہائی تیزی سے آگے بڑھی اور اپنا پاؤں بہت زور سے سلطان کے گھٹنے پر مارا اور ایک ہاتھ سے جلدی سے اس کی بندوق چھین کر دوسرے ہاتھ سے اس کی گردن کو دبوچتے ہوئے وہ ریوالور سلطان کی کنپٹی پر رکھ دی۔
"تو جانتا نہیں سکندر کو تجھ جیسوں کے لئے موت ہے وہ۔۔۔۔۔"
عشال نے اپنی آواز ایک مرد کی طرح بھاری کر کے کہا۔اس کی سفاک آواز پر سلطان کی روح تک کانپ گئی تھی۔عشال نے سلطان کے چہرے پر موجود نقاب ہٹانا چاہا لیکن تبھی سلطان کے ایک آدمی نے اپنی بندوق اُٹھائی اور پیچھے سے عشال کی کمر پر گولی چلا دی۔
"عشااال۔۔۔۔"
گولی کی آواز پر خود کو بے چینی سے چھڑواتے ہوئے سعد نے عشال کی طرف جانا چاہا لیکن چار آدمیوں نے آگے بڑھ کر اسے دوبارہ دبوچ لیا۔
"پہلی بار کسی عورت کی بہادری بے انتہا پسند آئی لیکن افسوس۔۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر سلطان نے اپنے ایک آدمی سے بندوق پکڑی اور سعد کی طرف بندوق کر کے ایک گولی سیدھا اسکے دماغ میں مار دی۔
"آآآہہہہہ۔۔۔۔۔"
عشال ایک بھوکی شیرنی کی طرح چلاتے ہوئے اپنی تکلیف نظر انداز کر سلطان کی جانب بڑی اور اسکا گریبان اپنے ہاتھ میں جکڑ لیا۔
"نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں گھٹیا انسان۔۔۔۔"
عشال چلائی اور اسکی آنسوؤں سے تر سبز آنکھوں میں آگ دیکھ کر سلطان خوف سے کانپ اٹھا تبھی اس کے ایک اشارے پر ایک آدمی نے دو گولیاں عشال پر چلائیں جسکے بعد وہ زمین پر ڈھے گئی۔
"چلو اس چالاک عورت نے ضرور کسی کو بلا لیا ہو گا۔۔۔۔"
سلطان نے اپنے آدمیوں سے کہا اور ایک پل کے لیے یہ عشال کے قریب آیا۔
"ویسے تجھے مارا میں نے ہے لیکن مروانے والا عثمان ملک ہے۔۔۔۔تو نے اسے دھمکی دے کر اچھا نہیں کیا اب بھگت۔۔۔"
اتنا کہہ کر سلطان اپنے آدمیوں کے ساتھ اس گھر سے باہر نکل گیا۔وہ چاہتا تھا کہ اگر کوئی اس عورت کے زندہ ہونے تک آئے تو اس کے سامنے عثمان کا نام لے
۔
ابھی انہیں گئے کچھ منٹ ہی گزرے تھے جب پریشان حالت میں وجدان کئی پولیس والوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔
"وہ لوگ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے ڈھونڈو انہیں۔"
انسپکٹر نے گھر کی حالت دیکھ سپاہیوں کو حکم دیا لیکن وجدان بے جان ٹانگوں کے ساتھ عشال کے خون میں سنے وجود کی جانب بڑھا۔
"عشال۔۔۔"
وجدان نے اسے اپنی باہوں میں دبوچا۔جانا پہچانا لمس محسوس کر ایک پل کو عشال کی آنکھیں کھلیں اور اس نے چند سانس بھرے۔
"مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ہار۔۔۔۔گئی بھائی۔۔۔۔میرے معراج کا۔۔۔۔خخ۔۔۔۔خیال۔۔۔۔"
عشال اتنا ہی بول پائی اسکی چلتی سانسیں رک رہی تھیں۔
"کس نے کیا یہ عشال؟"
وجدان نے پوچھا تو عشال نے اسے سلطان کو بتانا چاہا لیکن وہ تو بس ایک کٹ پتلی تھا سب کیا دھرا تو عثمان ملک کا تھا۔
"ملک۔۔۔"
عشال نے وجدان کو مزید سلطان کا بھی بتانا چاہا لیکن بس اس ایک لفظ کے بعد اسکی سانسیں اکھڑنے لگیں اور قدرت نے اسے مزید کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔پولیس والوں کو معراج منہ پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے بیڈ کے نیچے سے ملا تھا۔شائید وہ لوگ معراج کے بارے میں جانتے نہیں تھے یا اسے اہم نہیں سمجھتے تھے جو بھی تھا اس گھر میں بس وہی زندہ تھا۔عشال اور سعد کی نشانی۔
❤️❤️❤️❤️