Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 22

منزل عشق قسط 22
جانان"
شایان نے جانان کو اپنے پاس بلایا جو کمرے میں ان دونوں کے کپڑے طے کر کے الماری میں رکھ رہی تھی۔جنت والے اس واقعے کیلے بعد جانان نے شایان سے بات بھی نہیں کی تھی اور ابھی بھی اسکی بات کا جواب دیے بغیر ہی جانان باہر جانے کو تھی جب شایان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
"ناراض ہو مجھ سے جانان شاہ۔۔۔؟"
شایان نے اسکا چہرہ بہت محبت سے ہاتھوں میں تھام کر پوچھا تو جانان پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"آپ اور میں اچھے ماں بات نہیں بن پائے شایان اسی لیے معراج نے ہم دونوں کو چھوڑ کر اتنا بڑا قدم اٹھایا اور جنت کی خوشیاں آپ نے صرف اپنی انا کی وجہ سے اس سے چھین لیں آپ کو نظر نہیں آتا شایان ہماری چلبلی سی بیٹی اب نہ تو کچھ بولتی ہے اور نہ ہی ہنستی ہے۔"
جانان نے روتے ہوئے کہا تو شایان نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
"تم تو خود سے بھی زیادہ مجھ پر بھروسہ کرتی تھی جانان اب کیا ہوا پلیز ابھی بھی یہی کہوں گا کہ مجھ پر بھروسہ رکھو جو کر رہا ہوں اچھے کے لیے کر رہا ہوں۔"
شایان نے اسے یقین دلانا چاہا۔
"شایان آپ پلیز جنت کی شادی سالار سے کر دیں وہ بہت پسند کرتی ہے اسے اور شائید آپ بھول رہے ہیں کہ۔۔۔۔"
جانان ایک پل کو رکی اور اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ماضی کی وہ بات شایان کو یاد دلاتے اسے ڈر لگ رہا تھا۔
"کہ کبھی آپ نے ہی سالار اور جنت کی منگنی کی تھی۔۔۔وہ تو ہمارے پاس بچپن سے ہی سالار کی امانت تھی شایان۔۔۔۔بہت زیادتی کی آپ نے سالار سے کہ جنت کے کچے زہن سے اسکی ہر یاد مٹا دی۔۔۔"
جانان کی بات پر شایان نے گہرا سانس لیا۔
"اس رشتے کی آج کوئی اہمیت نہیں جانان حالات کیسے بدلے اس سے تم بھی واقف ہو۔"
شایان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔
"آپ نے جنت اور سالار کے ساتھ وہی کیا شایان جس سے کبھی ہم گزرے تھے اور اس بات کا مجھے سب سے زیادہ افسوس ہے۔۔۔"
جانان کی نم آواز میں کہی بات شایان کے دل کو چیر گئی تھی وہ کب ایسا ہو گیا کہ اپنی جانان کے آنسوؤں کی وجہ بن گیا۔شایان نے جانان کے پیچھے جانا چاہا جو اب شائید جنت کے پاس چلی گئی تھی۔تبھی ایک ملازم وہاں پر آیا۔
"سر سالار ملک صاحب باہر آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔"
ملازم کی بات پر شایان حیران ہوا پھر ہاں میں سر ہلا کر خود بھی ہال میں آ گیا جہاں سالار شان سے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
"کیا کام ہے تمہیں کیوں آئے ہو یہاں؟"
شایان کے سوال پر سالار اسکی جانب مڑا۔
"اپنی جنت سے ملنے آیا ہوں۔۔۔"
سالار کی بات پر شایان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔
"جنت تمہاری کب سے ہو گئی،بچپن کی باتوں کو یوں دل سے لگا کر نہیں رکھتے وہ تمہارا مقدر نہیں سالار ملک بھول جاؤ اسے۔۔۔"
شایان اتنا کہہ کر وہاں سے واپس جانے لگا۔
"جنت سے تو اسکی پیدائش سے محبت کرتا تھا میں شایان شاہ صاحب اب غلطی آپ کی ہے آپ نے ہی ہم میں دوری ڈال کر اسی محبت عشق بنا دیا۔۔۔۔ لازوال عشق اب میں جنت کو حاصل کر کے ہی دم لوں گا وہ کیا ہے نا جو میں چاہتا ہوں اسے پا ہی لیتا ہوں کیونکہ میں سالار ملک ہوں دراب خان نہیں۔"
سالار کے طنز پر شایان نے اسے آنکھیں چھوٹی کر کے گھورا۔
"چاہتا تو کب کا آپ کی ناک کے نیچے جنت کو چرا کر وہاں لے جاتا جہاں آپ تو کیا آپ کا سایہ بھی نہ پہنچ پاتا لیکن جنت کے نام پر ایک حرف بھی برداشت نہیں  کر سکتا میں۔۔۔"
سالار نے شان سے کہا۔
"فکر مت کرو سالار ابھی تمہاری یہ خوش فہمی میں دور کیے دیتا ہوں۔"
اتنا کہہ کر شایان نے پھرملازم کو بلا کر اسے جنت کو بلانے کا کہا۔کچھ دیر بعد ہی جنت اور جانان وہاں آ گئی تھیں۔
"جنت بیٹا یہ جو لڑکا یہاں بہت امید سے کھڑا ہے نا اسے بتا دو کہ آپ اس سے نہیں چاہتی وہ سب اس کے خیال سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔۔۔"
شایان کی بات پر جنت نے پہلے نم آنکھوں سے جانان کو دیکھا پھر سالار کو دیکھا جو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔جنت کو کچھ سمجھ نہ آیا تو بے بسی سے اپنا سر جھکا کر آنسو بہانے لگی۔
"جنت بتاؤ بیٹا۔۔۔"
شایان کی آواز پر جنت نے ایک نظر پھر سے سالار کو دیکھا اور پھر گھبراتے ہوئے بولی۔
"میں آپ سے پیار نہیں کرتی جو کچھ بھی ہمارے درمیان تھا وہ سب ایک جھوٹ تھا آپ بھول جائیں وہ سب"
جنت نظریں جھکائے اعتراف کر رہی تھی اور سالار اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
"سن لیا تم نے اپنے کانوں سے میری بیٹی نہیں چاہتی تمہیں اب جا سکتے ہو تم یہاں سے۔۔۔"
شایان نے جنت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور سالار کو باہر کے دروازے کی جانب اشارہ کیا جبکہ اسکے چہرے پر ایک فاتح مسکان تھی۔
"ٹھیک ہے شایان شاہ صاحب ابھی ثابت ہو جائے گا کہ آپ کی بیٹی مجھے چاہتی ہے یا نہیں ؟"
سالار کی بات پر شایان نے اسے نظریں چھوٹی کر کے دیکھا لیکن اسکی اگلی حرکت پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔
سالار پاس موجود کھڑکی کی جانب گیا اور اسکا شیشہ اپنا ہاتھ مار کر توڑ دیا جسکے نتیجے میں اسکے ہاتھ سے بری طرح سے خون نکلنے لگا۔
پھر سالار اپنا خون سے سنا ہاتھ اپنے سامنے کر کے مسکرایا اور اس بار اپنا سر اس کھڑکی سے مارا تھا۔
"سالار ۔۔۔۔"
جانان گھبرا کر آگے ہوئی اور سالار کو روکنا چاہا جبکہ جنت تو بند ہوتے دل کے ساتھ حیرت سے اس پاگل کو دیکھ رہی تھی۔
سالار نے روتی ہوئی جانان کا ماتھا چوم کر اسے خود سے دور کیا اور پھر میز سے شیشے کی بوتل اٹھا کر اپنے دوسرے بازو پر مار کر توڑ دی۔تبھی جنت کی بس ہوئی تھی اسی لیے وہ روتے ہوئے سالار کے پاس گئی اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنا دوپٹہ سر سے نکلتے خون پر رکھا تھا جسے سالار نے سختی سے ہٹا دیا۔
"تم تو چاہتی نہیں نا مجھے پھر کیا پروا ہے میری جیوں یا مر جاؤں جو چاہے کروں تمہیں اس سے کیا۔۔۔"
سالار نے اسے خود سے دور کرنا چاہا تو جنت روتے ہوئے انکار میں سر ہلانے لگی۔
"نن۔۔۔نہیں سالار جھوٹ تھا وہ سب جھوٹ تھا۔۔۔۔بہت چاہتی ہوں آپکو۔۔۔جان سے بھی زیادہ۔۔۔نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر پلیز آپ ایسا نہیں کریں۔۔۔"
جنت روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور اپنا دوپٹہ اسکے سر پر رکھ رہی تھی جہاں سے ابھی بھی بہت زیادہ خون نکل رہا تھا۔
سالار نے ایک فاتح مسکان کے ساتھ شایان کو دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ جنت اب اسکی ہوئی۔شایان بس خاموشی سے مڑا اور وہاں سے چلا گیا۔
"غلام چچا گاڑی نکالیں ہم سالار کو ہاسپٹل لے کر جا رہے ہیں ۔۔۔۔"
جانان نے ملازم کو کہا اور جلدی سے جنت کے پاس آئی جو سالار کا ہر زخم دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
"شش میری جان رو مت کچھ نہیں ہو گا اسے ۔۔۔"
جانان نے اسے حوصلہ دیا اور پھر ملازم کی مدد سے اپنے پاگل بھانجے کو ہاسپٹل لے کر گئی۔سچ تو یہ تھا کہ سالار کا جنون اب جانان کو بھی ڈارنے لگا تھا۔
                   ❤️❤️❤️❤️
انس اپنی جاب پر واپس آ چکا تھا۔اتنا عرصہ غائب رہنے کی وجہ سے وہ سکندر کے جتنے قریب پہنچا تھا اب اس سے اتنا ہی دور جا چکا تھا۔
کمیشنر صاحب نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر اب بھی وہ لوگ سکندر کو نہیں پکڑ پائے تو یہ کیس ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اس لیے انس کو کسی بھی طرح سکندر کو پکڑنا تھا۔
دوسری طرف اس نے سوچ لیا تھا کہ اب مناسب موقع دیکھتے ہی وہ اپنی بہنوں کو وجدان کے گھر ہانیہ کو مانگنے کے لیے بھیجے گا لیکن وہ چاہتا تھا کہ اس سے پہلے وہ ہانیہ سے اس کا جواب مانگے۔پچھلی مرتبہ تو اس نے غصے میں آ کر ہانیہ کو اپنا حکم ہی سنایا تھا۔
اپنی پٹاخہ گڈی کو یاد کر کے انس کے ہونٹ اپنے آپ مسکرا دیے۔وہ چاہتا تھا کہ اسکا ٹرانسفر راولپنڈی ہو جائے تا کہ جتنا ہو سکے وہ ہانیہ کے قریب رہ سکے۔
بہت سوچ کر انس نے فون  ملا کر اپنے کان سے لگایا۔
"ہیلو کون؟"
ہانیہ کی آواز پر انس مسکرا دیا۔
"میں۔۔۔"
"سوری بکری سے بات کرنے کا موڈ نہیں میرا ابھی۔۔۔۔"
ہانیہ کا ٹکا سا جواب سن کر انس ہنس دیا۔
"تم کبھی سیدھا جواب نہیں دے سکتی کیا؟"
"جب آپ جانتے ہیں کہ میں ٹیڑھی لڑکی ہوں تو مجھ سے سیدھا جواب ایکسپیکٹ کرنا بس آپ کی بیوقوفی ہے ۔۔۔"
ہانیہ نے اترا کر کہا۔
"ملنا چاہتا ہوں تم سے کب ملو گی؟"
انس نے ہاتھ میں موجود پین کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے پوچھا۔
"کوئی خاص وجہ۔۔۔؟"
"سوچا کہ میری مدد کے لیے تم نے شکریہ ادا نہیں کیا تو وہ ہی کر دو گی تم اور میں۔۔۔"
انس کچھ سوچ کر مسکرا دیا۔
"اور آپ؟"
ہانیہ نے آہستہ سے پوچھا۔نہ جانے وہ انس سے کیا پوچھنا چاہتی تھی۔
"یہ ملو گی تو بتاؤں گا اگلے ہفتے ہی آ رہا ہوں تمہارے گھر اپنی بہن کو لے کر ہانیہ وجدان خان مقصد تمہیں ہانیہ انس راجپوت بنانا ہے اور ہاں میں جواب ہونا چاہیے تمہارا ورنہ۔۔۔"
انس جو کہ اسے مناسب طریقے سے پرپوز کرنے کا سوچ رہا تھا پھر سے جذبات میں آکر اپنا فیصلہ سنا چکا تھا۔
"ورنہ۔۔۔؟"
انس اب ہانیہ کی بڑھتی سانسوں کی آواز سن سکتا تھا۔
"ورنہ اٹھا کر لے جاؤں گا تمہیں۔۔۔پولیس والا ہوں میڈم انڈرریسٹیمیٹ نہ کرنا۔"
انس نے مسکرا کر کہا۔
"اب آپ زیادہ نہیں بن رہے۔۔۔"
ہانیہ نے جھنجھلا کر پوچھا کیونکہ انس کا یوں اس پر حق جتانا اسکے دل میں تباہی مچا رہا تھا۔
"پانچ سال بہت ہوتے ہیں انتظار کر لیے مس اب بندے کی بس ہو چکی ہے۔۔۔"
انس نے گہرا سانس لے کر آنکھیں موندتے ہوئے کہا۔
"ایک بات بتاؤں آپ کو آپ فوج میں اچھے تھے پولیس میں آ کر چھچھورے ہو گئے ہیں ویسے بھی ہانیہ وجدان خان کو پولیس والے نہیں پسند اس لیے آپ کا کوئی چانس نہیں۔۔۔"
انس ہانیہ کی آواز میں شرارت محسوس کر سکتا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا ہانیہ فون بند کر چکی تھی۔
"پٹاخہ گڈی جب اختیار میں آؤ گی تب بتاؤں گا کہ چھچھورا پن کسے کہتے ہیں۔"
انس نے خود سے کہا اور پھر اپنا دھیان ہانیہ سے ہٹا کر اپنے مشن پر لگانے لگا۔
                    ❤️❤️❤️❤️
"خطرناک دہشت گرد راگا کی موت آرمی کے ہاتھوں ہو چکی ہے جبکہ اس کے باقی ساتھیوں کو پاک فوج نے اپنی قید میں لے لیا۔کچھ دنوں پہلے ہی پاک فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں خطرناک اور مشہور دہشت گرد راگا مارا گیا۔مزید جانتے ہیں ہمارے نمائندے کی اس رپورٹ سے۔۔۔"
ہانیہ کمرے میں داخل ہوئی تو دیوار سے لگی ایل سی ڈی پر کوئی نیوز چینل لگا ہوا تھا اور وانیا روز کی طرح بت بنی بیڈ پر بیٹھی تھی۔وانیا کے واپس آنے سے ان کے گھر کی خوشیاں تو لوٹ آئی تھیں لیکن لیکن وانیا بلکل بدل چکی تھی۔
ہانیہ نے ٹی وی بند کیا اور آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔
"ہیے میری بگز بنی کیا سوچ رہی ہو؟"
ہانیہ نے شرارت سے کے گال کھینچ کر کہا لیکن دوسری جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی تاثر نہیں آیا۔
"وانی کچھ تو کہو مجھ سے بات کرو یار لیکن پلیز اس طرح چپ کرکے تو مت بیٹھو۔۔۔"
ہانیہ اس کا چہرہ تھام کر بہت بے بسی سے کہہ رہی تھی۔آج انہیں اس جگہ سے آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا لیکن وانیا کی حالت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا اور اب اس کی یہ حالت اس کی جڑواں کو بہت زیادہ پریشان کر رہی تھی۔
"ہانیہ بیٹا۔۔۔"
وجدان کی آواز پر ہانیہ مڑی اور نم آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھا۔
"کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔؟"
"بابا ہانی کو دیکھیں نہ کچھ بولتی ہے،نہ ہی ہنستی ہے اور نہ ہی روتی ہے نہ جانے کیا ہو گیا ہے اسے بابا۔۔۔"
ہانیہ کے رونے پر وجدان اسکے پاس بیٹھا اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔
"میں نے کہا تھا بیٹا کہ اسے کچھ وقت دو۔۔۔۔وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے انشاءاللہ تم دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔"
وجدان نے اسکا گال تھپتھپا کر کہا تو ہانیہ اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔
"بس تم ایسے ہی مسکراتے رہو اور دیکھنا وانیہ کی زندگی کی تمام خوشیاں لوٹ آئیں گی۔"
وجدان نے اسے یقین دلایا۔اپنی بیٹی کی حالت کو لے کر وہ بھی بہت زیادہ پریشان تھا لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل اسے زرش اور ہانیہ کو سنبھالنا لگ رہا تھا جو وانیہ کی حالت کی وجہ سے خود ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھیں۔
وجدان نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے اپنی اس بیٹی کی خوشیوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
                      ❤️❤️❤️❤️
معراج کالج سے واپس گھر آیا اور آتے ہی ایمان کے پاس گیا تھا۔
"ارے آ گئے تم ملنگ؟"
ایمان جلدی سے اسکے پاس آئی۔اسکا مسکراتا چہرہ دیکھ کر معراج کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہو رہا تھا وہ ہمیشہ یونہی اسے مسکراتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔
"ممم ۔۔۔۔۔میں نے تمہیں بہت مس کک ۔۔۔کیا ایمان۔۔۔"
معراج نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا تو ایمان بس اسکا ہاتھ پکڑنے پر ہی شرما کر اپنا سر جھکا گئی۔
"ملنگ ایک بات پوچھوں؟"
"ہہہ ۔۔۔۔ہاں پوچھو؟"
"تمہارا چھونا برا کیوں نہیں لگتا جب وہ چھوتا تھا ناں تو بہت برا لگتا تھا۔۔۔"
ایمان کی بات پر معراج نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیں۔
"ککک۔۔۔۔کون چھوتا ہے تمہیں؟"
ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا بس اپنا سر جھکا گئی تو معراج اسکے قریب ہوا اور چہرہ اپنی انگلیوں میں پکڑ کر اونچا کیا۔
"ببب۔۔۔۔بتاؤ ایمان کس نننن۔۔۔۔نے چھوا تمہیں؟"
معراج کے سوال پر ایمان کی آنکھوں میں خوف اترا۔
"وہ ۔۔۔وہ معراج۔۔۔"
"ارے واہ یہاں تو نئے نویلے جوڑے کا رومینس چل رہا ہے۔۔۔"
عرفان کی آواز پر وہ دونوں گھبرا کر ایک دوسرے سے دور ہوئے اور عرفان کو دیکھنے لگے جو دروازے میں سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
"لگتا ہے نیا شوہر ملتے ہی ہماری رپنزل مجھے بھول گئی۔۔۔"
عرفان تھوڑا قریب ہوا تو ایمان سہم کر معراج کے پیچھے چھپی تھی۔
"میں نے سوچا کہ رپنزل مجھے یاد نہیں کرتی تو کیا ہوا میں خود ہی مل آتا ہوں اسے۔۔۔"
عرفان نے معراج کے پاس سے ہاتھ نکال کر ایمان کا گال چھونا چاہا تو ایمان سہم گئی۔
"مم۔۔۔۔مت چھوؤ مجھے۔۔۔"
ایمان نے روتے ہوئے کہا اور اپنے ناخن بہت زور سے عرفان کے ہاتھ پر مارے جس سے عرفان کے ہاتھ پر خراشیں آ گئیں۔
"ارے لگتا ہے میری رپنزل کو پھر سے پاگل پن کا دورہ پڑھ رہا ہے کوئی بات نہیں علاج ہے ناں میرے پاس۔۔۔"
عرفان نے اپنی بیلٹ نکالتے ہوئے کہا تو معراج نے گھبرا کر اسے دیکھا۔
"دلہے صاحب آپ زرا باہر جائیں تا کہ میں رپنزل کو پھر سے سدھار سکوں۔۔۔"
عرفان نے معراج کو کہا لیکن وہ ایمان کے سامنے سے نہیں ہٹا تھا۔
"نن۔۔۔۔نہیں آپ ایمان کککک۔۔۔۔کو کچھ نہ کہو وو۔۔۔۔وہ اب سے ایسا نہیں کک۔۔۔ کرے گی۔۔۔"
معراج نے گھبراتے ہوئے عرفان کو کہا۔
"سنا نہیں تم نے ٹھیک سے دلہے صاحب باہر جاؤ۔۔۔"
عرفان نے بہت زیادہ سختی سے کہا تو معراج خوف سے کانپ گیا۔
"جاؤ۔۔۔!!"
عرفان کے چلانے پر معراج اپنی جگہ سے اچھلا اور باہر کی جانب چل دیا۔ایک پل کو مڑ کر اس نے ایمان کو دیکھا جس کی آنکھوں میں بہت زیادہ خوف اور بے بسی تھی۔جیسے کہ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں معراج سے نہ جانے کی التجا کر رہی ہو۔
"تو رپنزل اپکا سبق شروع کرتے ہیں۔۔۔"
عرفان نے اپنے ہاتھ کے گرد بیلٹ لپیٹ کر کہا اور ہاتھ اٹھا کر پوری طاقت سے اس بیلٹ کو ایمان کو مارنا چاہا تو ایمان چیخ مار کر اپنی آنکھیں موند گئی۔
ایمان بیلٹ پڑنے کی آواز سن سکتی تھی لیکن جب اسے کچھ محسوس نہ ہوا تو حیرت سے آنکھیں کھول کر معراج کو دیکھا جو اسکے سامنے آ کر اسے پڑنے والی مار خود پر لے چکا تھا۔
"واہ دلہے میاں بچانا چاہتے ہیں اپنی بیوی کو تو ٹھیک ہے ۔۔۔"
اتنا کہہ کر عرفان نے پوری طاقت سے معراج کی کمر پر بیلٹ مارا جس سے معراج کو بس ایک جھٹکا سا لگا تھا لیکن اس کے منہ سے کوئی سسکی بھی نہیں نکلی ۔
ایمان حیرت سے نم آنکھیں کھولے معراج کی سبز آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور معراج بس اسکے معصوم چہرے کو۔
عرفان نے جب معراج کو ایمان سے دور ہوتے نہ دیکھا تو پوری طاقت سے معراج کو مارنے لگا لیکن اب معراج ایمان کی آنکھوں میں اس قدر کھو چکا تھا کہ خود کو دی جانے والی اذیت کی اسے کوئی پروا ہی نہ تھی۔
جب عرفان اسے مار مار کر تھک گیا تو اپنا بیلٹ غصے سے زمین پر پھینکا اور وہاں سے چلا گیا۔
ایمان اور معراج ابھی بھی بس ایک دوسرے کو ہی دیکھ رہے تھے۔ایمان نے معراج کا مظبوط بازو دیکھا جہاں سے شرٹ پھٹ چکی تھی اور جلد نیلی پڑ رہی تھی۔یہ دیکھ کر ایمان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"یہ کیا کیا تم نے ملنگ؟"
ایمان نے نرمی سے اسکا بازو چھوتے ہوئے پوچھا اور اسکی تکلیف محسوس کر کے مزید رونے لگی۔
"مم۔۔۔ میاں بیوی ایک ددد۔۔۔دوسرے کا لباس ہوتے ہیں ایمان۔۔۔۔ووو۔۔۔۔وہ ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔۔۔۔مم۔۔۔۔مر جاؤں گا ایمان۔۔۔لللل۔۔۔۔لیکن تمہیں کبھی کچھ ننن۔۔۔نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"
معراج کی بات پر ایمان نے اپنا سر اسکے چوڑے سینے پر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔آج دس سالوں کے بعد کوئی ایسا آیا تھا جس نے اسے تکلیف سے بچایا تھا کوئی ایسا جسے سہی معنوں میں ایمان اپنا کہہ سکتی تھی۔
                      ❤️❤️❤️❤️
سالار اپنی محبت کی فتح حاصل کر کے گھر واپس آیا تھا۔چاہتا تو کچھ بھی کر کے اپنی جنت کو سب سے چھین لیتا اور یہاں سے بہت دور لے جاتا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ جنت کے نام پر کوئی انگلی بھی اٹھائے۔وہ جنت پر پوری عزت سے حق حاصل کرنا چاہتا تھا۔
اور آج جنت نے اسے محبت کا مان بخش کر اسکی منزل کو بہت زیادہ آسان کر دیا تھا۔
اچانک سے سالار کا فون بجنے لگا جسے اٹھا کر اس نے کان سے لگایا۔
"ہیلو۔۔۔؟"
"کیسے ہو سالار ملک بہت خوش ہو رہے ہو گے اپنے اس ڈرامے کے بعد؟"
شایان کی آواز پر سالار مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
"اور آپ اپنی جھوٹی انا کو بھینٹ چڑھتا دیکھ بہت افسردہ ہو رہے ہوں گے شایان شاہ صاحب۔۔۔۔اور تو اور آپ کا لاڈلا بھی آپکو ٹھکرا کر کسی اور کا ہو گیا۔۔۔سو سیڈ شایان شاہ جب مصیبتیں آتی ہیں تو چاروں طرف سے آتی ہیں۔۔۔"
سالار نے طنز کیا۔
"ارے میں کیوں افسردہ ہوں گا کل نکاح ہے میری بیٹی کا میں تو بہت خوش ہوں۔۔۔"
شایان کی بات پر سالار ٹھٹھک کر اٹھ بیٹھا۔
"یہ کیا کہہ رہے۔۔۔؟"
"ارے فکر مت کرو تمہیں دعوت دینے کے لیے ہی بلایا ہے میں نے ضرور آنا تم تمہارے بنا سب ادھورہ رہے گا آخر جنت کے کزن ہو تم۔۔۔"
شایان اتنا کہہ کر سالار کو ایک آگ میں جلتا چھوڑ فون بند کر چکا تھا۔
"اب تم نے حد ختم کر دی شایان شاہ۔۔۔مجھے مجبور مت کرو کہ جنت کو تم سے چھین کر لے جاؤں۔۔۔"
سالار نے مٹھیاں بھینچ کر کہا اور اپنا موبائل بہت زور سے دیوار میں مار کر توڑ دیا۔
"نہیں ہو گا یہ نکاح میں نہیں ہونے دوں گا۔۔۔جنت صرف میری ہے شایان شاہ صرف میری۔۔۔"
سالار کی آواز میں بہت زیادہ جنون تھا۔
"جمال جمال ۔۔۔۔"
سالار کے آواز دیتے ہی جمال بھاگ کر کمرے میں آیا۔
"جی بھائی۔۔۔؟"
"تیار رہنا کل جمال کسی دلہے کی شادی کا دن ہی اسکی موت کا دن بنانا ہے۔۔۔دیکھا دوں گا میں شایان شاہ کو کہ کیا ہوتا ہے جب کوئی سالار ملک سے اسکی جان چھیننا چاہتا ہے۔۔۔"
سالار نے غصے اور جنون سے کہا اور اسکا جنون دیکھ کر جمال بھی گھبرا گیا۔
                      ❤️❤️❤️

   0
0 Comments