Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 23

منزل عشق قسط 23
معراج بیڈ پر الٹا لیٹا ہوا تھا۔ایمان اس کے پاس آ کر بیٹھی اور نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر بہت نرمی سے رکھا۔
"درد ہو رہا ہے کیا ملنگ؟"
ایمان کے سوال پر معراج نے اپنے چہرے کا رخ کی جانب کیا اور مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔
"سب میری وجہ سے ہوا اگر میں پاگل نہیں ہوتی تو وہ تمہیں نہیں مارتے۔۔۔"
اتنا کہہ کر ایمان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
"نن۔۔۔نہیں ایمان رو مت۔۔۔۔یییی۔۔۔۔یہاں آؤ۔۔۔"
معراج نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے ساتھ لیٹا لیا اور بہت نرمی سے اس کے آنسو پونچھے۔
"تتتت۔۔۔۔تم پاگل نہیں ہو۔۔۔۔ااا۔۔۔اور تمہیں یہ سب بببب۔۔۔۔برداشت نہیں کرنا چاہیے بببب۔۔۔۔بلکہ اس سب کے بارے مممم۔۔۔۔میں اپنے بابا کو بتانا چاہیے۔۔۔۔"
اپنے باپ کے ذکر پر ہی ایمان کا رنگ اڑ گیا۔
"نہیں ملنگ انہیں کچھ مت بتانا تم۔۔"
ایمان کے اس خوف نے معراج کو حیران کیا۔
"کک۔۔۔کیوں؟وہ تمہارے ببب۔۔۔بابا ہیں ووو۔۔۔۔وہ عرفان کو منع ککک۔۔۔۔کریں گے۔"
ایمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں وہ منع نہیں کریں گے ۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے عرفان مجھے یونہی ہاتھ لگاتا جو مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا تھا اور جب میں اس سے منع کرتی تو وہ مجھے مارتا اور کہتا کہ اگر کسی کو بتایا تو مجھے اور مارے گا۔۔۔"
ایمان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور معراج بس حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"پھر ایک دن میں نے بابا کو بتا دیا۔۔۔اور پتہ ہے کیا ہوا بابا نے مجھے کہا کہ میں پاگل ہوں۔۔۔اس لیے عرفان کو انہوں نے ہی مجھے سدھارنے کو کہا ہے۔۔۔وہ جو چاہے میرے ساتھ کرے۔۔۔۔"
ایمان نے اپنے آنسو پونچھے اور معراج کو دیکھا جو بس خاموشی سے ہوش کی بات سن رہا تھا۔
"جب عرفان کو یہ پتہ چلا کہ میں نے بابا کو بتایا تھا تو اس نے۔۔۔۔اس دن اس نے پہلی بار مجھے بیلٹ سے مارا۔۔۔اور کہا کہ پاگلوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔"
ایمان پھر سے زارو قطار رونے لگی تھی۔معراج ابھی بھی بس خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔
"مم ۔۔۔میں پاگل نہیں ہوں ملنگ قسم کھائی ہوں۔۔۔بب۔۔۔بس جب وہ مجھے چھوتا ہے تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔"
ایمان نے معراج کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا وہ اسے یقین دلانا چاہتی تھی کہ وہ پاگل نہیں تھی۔
"تت۔۔۔تو وہ مونسٹر عرفان ہے؟"
معراج کے سوال پر ایمان اسکے کان کے قریب ہوئی۔
"عرفان چھوٹا مونسٹر ہے۔۔۔"
"تت۔۔۔تو بڑا مونسٹر کون ہے؟"
معراج کے سوال پر ایمان خاموش ہوگئی۔اسے آج سے دس سال پہلے کا وہ واقعہ یاد آیا جب وہ صرف سات سال کی تھی اور نیند میں اٹھ کر اپنی ماں کو تلاش کرتے ہوئے اس کے کمرے میں گئی تھی۔
جہاں اس نے دیکھا کہ اس کی ماں تڑپ رہی تھی اور اس کے باپ نے بہت زور سے تکیہ اسکی ماں کے منہ پر رکھا ہوا تھا۔
یہ منظر دیکھ کر وہ چھوٹی سی بچی جی جان سے کانپ گئی تھی۔جب اس کی ماں نے تڑپنا بند کر دیا تو اس کا باپ اس کے پاس آیا اور اسے بہت زور سے کندھوں سے پکڑ لیا۔
"تمہیں یہ دیکھنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔اب یہ بات کبھی بھی تمہاری زبان پر نہیں آنی چاہیے۔ورنہ جسے بتاؤں گی وہ بھی مر جائے گا اور تمہیں بھی یوں ہی مار دوں گا۔۔۔تم جانتی نہیں مونسٹر ہوں میں۔"
ایمان اپنے باپ کا یہ روپ دیکھ کر بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئی تھی۔باپ جو ہر بیٹی کا محافظ ہوتا ہے اسکے لیے ایک جلاد تھا۔
"ااا۔۔۔ایمان بتاؤ نا کک۔۔۔۔کون ہے بڑا مونسٹر ؟"
معراج کے سوال پر ایمان نے انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں ملنگ نہیں بتا سکتی ورنہ وہ تمہیں بھی مار دے گا۔۔۔اور اگر میری وجہ سے تمہیں کچھ ہوگیا تو میں بھی مر جاؤں گی "
یہ بات کہتے ہوئے ایمان کی آنکھوں میں بہت زیادہ خوف تھا۔اس نے قریب ہو کر اپنا سر معراج کے کندھے پر رکھا۔
"مم ۔۔۔۔میری طرف دیکھو ایمان۔۔۔تتت۔۔۔تمہیں میرے ہوتے ہوئے کککک۔۔۔کسی سے نہیں ڈرنا مممم۔۔۔۔میں تمہیں کبھی کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔"
معراج اسے کہہ رہا تھا اور ایمان اس کی سبز آنکھوں کو دیکھ رہی تھی آج پہلی بار اس نے معراج کو بغیر چشمے کے اتنے قریب سے دیکھا تھا اس کی آنکھیں بہت زیادہ خوبصورت تھیں۔نہیں، وہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت آنکھیں تھیں۔
"اا۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"
معراج نے اسکا گال اپنے ہاتھ میں تھام کر پوچھا۔
"تم بہت پیارے ہو ملنگ۔۔۔"
ایمان نے شرمیلی مسکان کے ساتھ کہا اور مسکرا کر اسے دیکھتی رہی۔
"سس۔۔۔سوری ایمان۔۔۔"
معراج کی بات پر ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"کس لیے؟"
"ااا۔۔۔۔اس لیے۔۔۔"
معراج نے اتنا ہی کہا اور اپنے ہونٹ ایمان کے نازک ہونٹوں پر رکھ دیے۔معراج کے لمس میں بہت نرمی بہت محبت تھی لیکن ایمان اس نئے احساس کے تحت کانپ کر رہ گئی۔
معراج اس سے دور ہوا تو ایمان نے فوراً اپنا گلال چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا۔معراج نے بھی مسکرا کر اسے دیکھا۔
ہم دونوں دو جسم ایک جان ہیں ایمان ہمیں کوئی مونسٹر جدا نہیں کر سکتا۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔
معراج نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا پھر اسے اپنی آغوش میں لے کر سکون سے آنکھیں موند گیا ۔
                    ❤️❤️❤️❤️
وجدان کمرے میں آیا اور زرش کو دیکھا جو شاید سو رہی تھی۔وجدان نے اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھ کر دیکھا کہ کہیں اسے بخار تو نہیں۔
"آپ آ گئے وجدان؟"
وجدان کے ہاتھ رکھتے ہی زرش نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور اٹھ بیٹھی۔
"تم ریسٹ کرو زرش۔۔۔"
وجدان نے اسے کندھوں سے تھام کر واپس لٹانا چاہا۔
"بہت آرام کر لیا میں نے اب جب میری دونوں بچیاں میرے پاس ہیں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں۔۔۔"
زرش نے مسکرا کر کہا پھر کچھ سوچ کر وہ افسردہ ہوگئی۔
"وجدان وانیا کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے وہ کسی سے کوئی بات ہی نہیں کرتی۔۔۔۔وجدان مجھے اسکی بہت فکر ہو رہی ہے۔۔۔"
زرش نے بے چینی سے کہا تو وجدان نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"فکر مت کرو نور خان سب ٹھیک ہو جائے گا بس وقت دو اسے۔۔۔"
وجدان کی بات پر زرش کی آنکھیں نم ہو گئیں تو وجدان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا زرش؟"
"آج چودہ سالوں کے بعد آپ نے مجھے نور خان بلایا ہے وجدان آپ نہیں جانتے آپ کا ایسا کہنا میرے لیے کتنا حسین احساس ہوتا تھا۔۔۔"
زرش کی بات پر وجدان نے سختی سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔جانے انجانے وہ انہیں بہت تکلیف دے بیٹھا تھا جو اسے جان سے بھی زیادہ عزیز تھے۔وجدان سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ اسے کیا کہے۔
"تم پریشان مت ہو نور میں سب ٹھیک کر دوں گا۔ہماری وانیا پھر سے مسکرائے گی دیکھنا تم یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔"
زرش نے ہاں میں سر ہلایا۔
"اچھا تیار رہنا کل ہم سب شایان کے گھر جا رہے ہیں۔۔۔"
زرش نے حیرت سے وجدان کو دیکھا۔
"کیوں۔۔۔"
"یہ ایک سرپرائز ہے کل ہی پتہ چلے گا۔۔۔"
وجدان نے مسکرا کر اسکا گال تھپتھپا کر کہا تو زرش نے ہاں میں سر ہلا دیا اور اٹھ کر ہانیہ کو تیار ہونے کا کہنے چلی گئی جبکہ وجدان چاہ کر بھی اسے نہیں کہہ پایا کہ وہ اسکے پاس سے کہیں نہ جائے۔
                    ❤️❤️❤️❤️
تین سے چار گاڑیاں شایان کے گھر کے باہر رکی تھیں۔جن میں سے سالار اپنے گارڈز کے ساتھ باہر نکلا۔شایان کے چوکیدار نے انہیں روکنا چاہا لیکن سالار کے گارڈز نے اسے بے بس کر دیا۔
سالار نے اپنے گارڈز کو باہر رکنے کا کہا اور خود اندر گیا جہاں شایان اور جانان کے ساتھ ساتھ وجدان اور زرش بھی موجود تھے۔سب ہی بہت زیادہ خوش نظر آ رہے تھے۔
وہ سب دیکھنے سے تو یہی لگ رہا تھا کہ لڑکے والے ابھی وہاں نہیں پہنچے تھے۔سالار نے ان سب کو نظر انداز کیا اور سیدھا جنت کے کمرے کی جانب چل دیا۔جہاں پارلر والی جنت کو تیار کرنے کے بعد اب ہانیہ کو تیار کر رہی تھی۔
"سالار۔۔۔"
جنت نے سالار کو دیکھتے ہی حیرت سے کہا تو سالار آگے بڑھا اور جنت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے وہاں سے باہر لے جانے لگا۔
"ہیے مسٹر چھوڑو میری کزن کو۔۔ "
ہانیہ نے آگے ہو کر سالار کو روکنا چاہا لیکن وہ سب کو نظر انداز کرتا باہر کی جانب چل دیا۔
"یہ کیا کر رہے ہو تم؟"
شایان نے آگے ہو کر سالار کا راستہ روکتے ہوئے پوچھا۔
"لے جا رہا ہوں اپنی جنت کو یہاں سے جب آپ شرافت سے نہیں مانتے تو یوں ہی سہی۔"
سالار نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اور جنت کو وہاں سے لے جانے لگا۔
"نہیں سالار میں اسی سے نکاح کروں گی جس سے میرے بابا میرا نکاح کرنا چاہیں گے۔۔۔"
جنت کی بات پر سالار نے فوراً اسکا ہاتھ چھوڑا اور حیرت سے مڑ کر اسے دیکھا جو اس لال شرارے میں سجی ہوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی۔
"سن لیا اب ہو گئی تسلی کہ میری بیٹی میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرے گی۔۔۔"
شایان کی بات پر سالار نے جنت کو سوالیہ نظروں سے دیکھا لیکن وہ بس اپنی نظریں چرا رہی تھی۔
"آج یہ نکاح نہیں ہو گا جو کر سکتے ہیں کر لیں آپ۔۔۔"
"یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو مسٹر میرے بیٹے کا نکاح ہے تمہیں کس نے اختیار دیا اسے روکنے کا۔۔۔"
ایک آدمی کی آواز پر سب نے ٹھٹھک کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں عثمان اور حمنہ کھڑے تھے۔
"آپی۔۔۔"
جانان حمنہ کو دیکھتے ہی جا کر اسکے گلے لگ کر رونے لگی تھی اور زرش کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے اس کے قدم زمین میں جما دیئے ہوں۔
سالار نے حیرت سے شایان اور وجدان کو دیکھا جو مسکرا رہے تھے۔حمنہ جانان کو خود سے دور کر کے زرش کے پاس آئی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔اج چودہ سال بعد وہ بہنیں ایک دوسرے سے مل کر بہت روئی تھیں۔
"کیا ہوا میرے شیر تمہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا؟"
عثمان نے سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے کہا۔
"بابا یہ سب۔۔۔؟"
"چلو سب اندر جا کر بیٹھتے ہیں اور آرام سے بات کرتے ہیں جانتا ہوں کہ بہت کچھ بتانا ہے مجھے۔"
وجدان نے سب سے کہا تو سب ہال میں آ کر بیٹھ گئے۔حمنہ تو بس اپنی بہنوں کو دیکھ کر آنسو بہاتے جا رہی تھی۔
"میں اور شایان ہمیشہ سے جانتے تھے کہ عثمان نے عشال اور سعد کو نہیں مارا۔بس اس وقت ہم دونوں جزبات میں بہہ گئے تھے لیکن جب میں نے اس بارے میں سوچا تو یہ اندازہ لگایا کہ اگر یہ کام عثمان جیسے چالاک سیاست دان نے کیا ہوتا تو وہ اپنے خلاف ایک بھی ثبوت نہیں چھوڑتا نہ کہ وہ اپنے خلاف ہی ثبوتوں کا ڈھیر لگا دیتا۔۔۔"
وجدان کی بات پر سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"میں اور وجدان سمجھ گئے کہ عثمان کے ساتھ وہی ہوا ہے جو کبھی میرے ساتھ ہوا تھا دشمنی کی خاطر اسے صرف اس سب میں پھنسایا گیا تھا۔"
 شایان نے سب کو بتایا۔
"اسی لیے ہم نے ہی عثمان کو یہاں سے دور جانے کا کہا کیونکہ ہم اس دشمن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔اس لیے سوچا کہ اگر اس دشمن جو یہ لگے کہ وہ جیت گیا ہے تو ہی بہتر ہے کہیں وہ اس بار عثمان اور اسکے گھر والوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔ہم نے سب سے یہ بات چھپائی کیونکہ جتنے کم لوگ یہ راز جانتے اتنا ہی بہتر تھا۔"
 شایان نے بات کو جاری رکھتے ہوئے انہیں بتایا۔
"لیکن اتنے سال ہر طرح کی کوشش کے باوجود ہم اس کا کچھ پتہ نہیں لگا پائے۔اس کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے نام تک نہیں اور تو اور اس نے کوئی بھی ثبوت نہیں چھوڑا تھا ۔اسی کوشش میں میں نے غلط لوگوں پر بھروسہ کیا اور اُنہوں نے ہی میرے ایجنٹ ہونے کا راز فاش کر دیا لیکن ہماری ہر جدوجہد ناکام گئی۔"
وجدان اپنی بے بسی بتاتے ہوئے اپنی مٹھیاں ضبط سے بھینچ چکا تھا۔سب خاموش تھے جب اچانک سالار بولا۔
"مجھے خادم شفیق پر شک ہے۔۔۔"
عثمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
"خادم بہت اچھا انسان تھا سالار مجھے خود سے زیادہ بھروسہ ہے اس پر۔۔۔"
عثمان نے فوراً خادم کی حمایت کی کیونکہ خادم نے اسے کبھی شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں دی تھی۔
"شائید سالار ٹھیک کہہ رہا ہے عثمان کیونکہ دیکھا جائے تو تمہاری بربادی کا سب سے زیادہ فائدہ اسے ہی ہوا ہے۔۔۔"
وجدان نے بھی سالار کی حمایت کی لیکن عثمان مطمئین نہیں تھا۔
"اگر تو خادم ہی وہ دشمن ہے تو اس وقت ہمارا معراج بہت بڑے خطرے میں ہے اور وہ اس سے واقف بھی نہیں۔۔۔"
شایان نے پریشانی سے کہا۔
"صرف شک کی بنا پر کچھ نہیں کیا جا سکتا شایان خادم بہت بڑا سیاستدان ہے ہمیں پختہ ثبوت چاہیے ہوں گے اس کے خلاف۔"
وجدان نے اپنا مدعا بیان کیا لیکن زرش اب بہت زیادہ الجھ چکی تھی۔اگر وجدان بھی عثمان کو بے گناہ سمجھتا تھا تو اس بے رخی کی وجہ کیا تھی؟زرش کے صرف دیکھنے سے ہی وجدان اسکی آنکھوں میں موجود سوال پڑھ چکا تھا۔
"کیونکہ میں ڈر گیا تھا نور خان مجھے لگا کہ تم اور ہانی وانی مجھے ضرورت سے زیادہ چاہنے لگی ہو اتنا کہ میرے بغیر تم لوگ جی ہی نہیں پاتی اور میں جس کی زندگی ہر پل ہی نیزے پر رہتی تھی،میں نہیں چاہتا تھا کہ مجھے کچھ ہو جانے پر تمہارا وہ حال ہو جو حمنہ کا ہوا۔۔۔اس لیے سوچا کہ اپنی بے رخی سے اس محبت کی شدت کو کم کر دوں جو تم اور میری بیٹیاں مجھے سے کرتی تھیں۔"
وجدان کی بات پر زرش کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔وہ اسے کیسے بتاتی کہ وجدان کچھ بھی کر لیتا زرش کے دل سے اسکا مقام کبھی بھی کم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
"آپ کو کیا لگا بابا کہ آپ کے ایسا کرنے سے وہ محبت کم ہو گئی؟ نہیں بابا اس بے رخی نے بس وہ بہت آہستہ آہستہ کیا جو آپکے وسوسوں میں ہوا تھا۔"
ہانیہ جو بہت دیر سے سائیڈ پر کھڑی ہر بات خاموشی سے سن رہی تھی بول اٹھی تو وجدان اس کے پاس گیا اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔
"مجھے معاف کر دو میرا بچہ جانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی لیکن جان سے زیادہ چاہتا ہوں تم تینوں کو بس چلے تو کبھی کوئی تکلیف تم لوگوں کے قریب بھی نہ آنے دوں۔۔۔"
وجدان کی آواز میں بہت غم تھا اور ہانیہ تو باپ کی محبت بھری آغوش ملنے پر ہی اپنا ہر غم ہر شکوہ بھلا چکی تھی۔
"لیکن میرے ساتھ یہ سب کرنے کی وجہ ؟اگر آپ بابا کو گنہگار نہیں سمجھتے تھے تو جنت اور میرے درمیان فری کے ولین کیوں بنتے رہے؟"
سالار نے شایان کو طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ اس کے سوال پر شایان کے ہونٹ مسکرا دیئے۔
"کیونکہ اپنی بیٹی کو لے کر تمہارے جنون سے ڈرتا تھا میں۔مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ تم اسے بہت چاہتے ہو لیکن ڈرتا تھا کہ کہیں اپنے جنون میں اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا دو۔۔۔اسی لیے تو میں نے جنت اور معراج کی نکاح کے بات کی تھی تاکہ یہ دیکھ سکوں کہ تم میرے جگر کے ٹکڑے کے قابل بھی ہو یا نہیں۔۔۔؟"
شایان کے بتانے پر سالار نے ہم اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورا جیسے کہ اسے سمجھنا چاہ رہا ہو۔
"لیکن کل تم نے یہ ثابت کردیا کہ کچھ بھی ہو جائے تم خود کو تو نقصان پہنچا سکتے ہو لیکن جنت کے نام پر کبھی ایک حرف بھی نہیں آنے دو گے۔۔۔"
شایان نے مسکرا کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"تو اب سب ٹھیک ہو گیا ہے تو کیا ہم نکاح شروع کریں؟"
جانان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"بس میرے کچھ مہمان آنے والے تھے نہ جانے کہاں رہ گئے۔۔۔؟"
وجدان نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تبھی دروازے سے جنرل شہیر اور ان کی اہلیہ ہال میں داخل ہوئے تو وجدان مسکراتے ہوئے ان دونوں کی جانب بڑھا۔
"زرش ہانیہ ان سے ملو یہ میرے جنرل ہیں شہیر سر اور یہ انکی بیوی ہیں آئمہ۔۔۔"
وجدان نے مہمانوں کا زرش سے تعارف کروایا تو وہ خوش دلی سے مسکراتے ہوئے ان سے ملی۔
"اور یہ ہیں میری جان سے پیاری زوجہ زرش اور اس سے بھی پیاری بیٹی ہانیہ۔۔۔۔"
وجدان نے آنکھوں میں محبت کا جہاں سمیٹ کر دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"بہت خوشی ہوئی وجدان تمہاری فیملی سے مل کر بلکہ مجھے افسوس ہے کہ اتنا عرصہ ہم نے اپنے گھر والوں کو ہی دوسرے سے نہیں ملوایا ورنہ ہماری دوستی مزید گہری ہو جاتی۔۔۔اچھا کیا تم نے مجھے اپنے اس فیملی فنکشن پر انوائیٹ کر کے۔۔۔"
وجدان نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلاتے ہوئے ان کی بات میں حامی بھری۔تبھی داخلی دروازے سے ایک لڑکا وہاں آیا تو سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔
سٹائلش سے بالوں اور داڑھی سے پاک چہرہ لیے وہ سرخ و سفید رنگت کا مالک لڑکا بہت زیادہ خوبرو تھا۔نیلی جینز کی پینٹ پر سفید ہاینک شرٹ اور براؤن لیدر کی جیکٹ اسکی پرسنیلٹی کو مزید چار چاند لگا رہی تھیں۔
"اور یہ ہے میرا بیٹا۔۔۔"
"میڈی ۔۔۔"
میڈی نے خود اپنا ہاتھ وجدان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو وجدان نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔
"دبئی میں ہوتا ہے وہاں اس کا اپنا گاڑیوں کا شو روم ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے واپس آیا ہے۔"
وجدان کے ساتھ ساتھ زرش نے بھی مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور انہیں لے کر سب کے درمیان آ گئے۔
"چلیں اب نکاح کی تقریب شروع کرتے ہیں جانان ہانیہ بیٹا جاؤ جنت کو لے آؤ۔"
جانان نے ہاں میں سر ہلایا اور جنت کو لے کر باہر آئی جو شرماتے ہوئے ان کے ساتھ آ رہی تھی جبکہ وانیا بس ہانیہ کا ہاتھ تھامے خاموشی سے بت بنے ساتھ چلتی آ رہی تھی۔
جنت کو لا کر سالار کے سامنے موجود صوفے پر بیٹھایا گیا۔سالار پر نظر پڑتے ہی جنت نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا۔
تو اپنے باپ کے ساتھ مل کر میرے خلاف پلیننگ بھاری پڑے گی بے بی گرل اب تو حق میں بھی آ رہی ہو تم۔
سالار نے اسکو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا اور نکاح خواں نے اپنا رخ جنت کی جانب کیا۔
"جنت شاہ ولد شایان شاہ آپ کا نکاح سالار ملک ولد عثمان ملک کے ساتھ چالیں لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"
"قبول ہے۔۔۔"
جنت نے آہستہ سے کہا تو سب کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے۔
وانیا خان ولد وجدان خان آپکا نکاح عماد بنگش ولد شہریار بنگش حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟
قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔
وہ پل یاد کر کے وانیا کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔اس نے سب کو خوشیوں میں ڈوبا دیکھا اور اپنے آنسو چھپاتی جلدی سے وہاں سے بھاگ کر لان میں آ گئی۔
اس برے شخص کو یاد کر کے وانیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
"سب نکاح کی خوشیوں میں مصروف ہیں اور آپ یہاں آ کر رو رہی ہیں اسکا کیا مطلب سمجھوں؟"
ایک شخص کی آواز پر وانیا گھبرا کر مڑی اور اس انجان شخص کو دیکھا جو اس کے پیچھے اپنی پینٹ میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
"میرے خیال سے آپ اپنی کزن سے جیلس ہو رہی ہیں کہ اسکا اٹھارہ کی عمر میں نکاح ہو گیا اور آپ بیس کی بھی کنواری ہیں۔۔۔"
"کون ہیں آپ تنہا چھوڑ دیں مجھے۔۔"
وانیا نے جھنجھلا کر پلٹتے ہوئے کہا۔
"نام ہے میڈی اور تنہا چھوڑ کر آپکو رونے دوں اس سے بہتر یہ نہیں کہ آپ رونے کی وجہ بتا دیں مجھے۔۔۔چلیں انٹرو سے شروع کرتے ہیں میرا نام میڈی ہے اور آپ کا؟"
میڈی نے وانیا کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے پوچھا لیکن وانیا نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔
"واؤ ینگ لیڈی کمال کا ایٹیٹیوڈ ہے بھئی انٹرو تک نہیں کروانا چاہتیں آپ تو۔۔۔"
میڈی نے اپنا ہاتھ واپس لیتے ہوئے کہا لیکن تبھی ہانیہ وہاں آئی تھی۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
اس نے میڈی کو طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ میڈی کھلے منہ کے ساتھ کبھی ہانیہ تو کبھی وانیا کو دیکھ رہا تھا۔
"واؤ یار تم دونوں تو کاربن کاپی ہو ایک دوسرے کی بلکل سیم ٹو سیم ٹونز۔۔۔۔"
"تعریف کا شکریہ اب آپ میری بہن کے پاس سے تشریف لے جا سکتے ہیں۔۔۔"
ہانیہ نے اپنے دونوں ہاتھ واپس اندر کی جانب کرتے ہوئے کہا۔
"ویسے آپ کی اس ٹوین کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے کیا  یہ بات نہیں کرتیں۔۔۔؟"
میڈی وانیا کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا جو بہت آنکھوں سے سامنے دیکھتی جا رہی تھی۔
"کرتی ہے لیکن صرف مجھ سے ہر ایرے غیرے سے بات نہیں کرتی وہ ۔۔۔"
اس بات پر میڈی کے ہونٹوں پر دلفریب مسکان آئی۔
"پھر تو ان سے بات کرنا بہت زیادہ انٹرسٹنگ ہو گا۔۔۔۔"
میڈی کی آنکھوں میں وانیا کو دیکھتے ہوئے ایک انوکھی چمک تھی جو ہانیہ کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔
"میرے خیال سے اب آپ کو یہاں سے جانا چاہیے۔۔۔۔"
"جی بالکل جا رہا ہوں میں لیکن صرف ابھی کے لیے ۔۔۔"
میڈی اتنا کہہ کر ایک آخری نگاہ وانیا پر  ڈالتا واپس چلا گیا۔
"لوفر کہیں کا۔۔۔"
ہانیہ نے اسے لقب سے نوازا اور وانیا کے پاس آ کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔
"کیا بات ہے وانی یار مجھ سے شئیر کرو نا ہوا کیا ہے؟"
ہانیہ نے التجا کرتے ہوئے پوچھا تو وانیا اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"انہوں نے سب تباہ کر دیا ہانی وہ حال کیا میرا کہ ان سے آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہو پا رہی۔۔۔۔میں کیا کروں ہانی کیا کروں۔۔۔؟"
وانیا کی باتیں ہانیہ کو مزید پریشان کر چکی تھی۔
"پوری بات بتاؤ وانی ہوا کیا تھا؟"
ہانیہ کے پوچھنے پر وانیا نے روتے ہوئے ہر بات بتا دی اور وہ سب ان کر ہانیہ بھی پریشان ہو چکی تھی۔
"ششش۔۔۔۔بگز بنی رو مت پلیز ابھی آنسو پونچھو اور اندر چلو سب کے پاس چلتے ہیں۔۔۔اور بس اللہ تعالی پر بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
ہانیہ نے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
"ہانی کیسے ٹھیک ہو گا؟ انہیں اپنی یادوں سے نہیں نکال پا رہی۔۔۔"
وانیا اس وقت بے بسی کی انتہا پر تھی۔
"میں کہہ رہی ہوں نا وانی وقت دو اسے وقت سب مٹا دیتا ہے۔۔۔ابھی چلو اپنی چھوٹی بہن کی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں۔"
ہانیہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وانیا نے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا اور ہانیہ کا ہاتھ تھام کر اندر آ گئی جہاں اب نکاح کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔
                   ❤️❤️❤️❤️
"ہانیہ بیٹا۔۔۔"
وجدان کی آواز پر جنت اور سالار کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہانیہ جلدی سے اٹھ کر وجدان کے پاس آئی۔
" جی بابا؟"
ہانیہ نے وجدان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وجدان نے مسکرا کر ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے سامنے کیا۔
"تمہارے لیے یہ چھوٹا سا گفٹ۔۔۔"
ہانیہ نے حیرت سے اس کاغذ کو دیکھا پھر اسے ہاتھ میں پکڑ کر کھولا تو وہاں لکھے الفاظ دیکھ کر ہانیہ کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے نم ہو گئیں۔وہ کاغذ اس کے آرمی کو جائن کرنے کے آڈرز تھے۔
"بابا۔۔۔"
ہانیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے آج اس کا سب سے بڑا خواب پورا ہوا تھا۔
"تمہارے خواب سے نا واقف نہیں تھا ہانیہ بس ڈرتا تھا کیوں کہ میں تمہیں عشال کی طرح کھونا نہیں چاہتا تھا لیکن آج اس ڈر کو میں نے خود سے کھینچ کر دور کر دیا ہے میں چاہتا ہوں کہ میری بہادر بیٹی سب سے بہادر مجاہد بن کر میرا نام روشن کرے۔۔۔"
وجدان کی بات سن کر ہانیہ جلدی سے آگے سینے سے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"تھینک یو بابا تھینک یو سو مچ۔۔۔۔"
وجدان نے ہانیہ کا چہرہ اپنے سینے سے نکالا اور مسکراتے ہوئے اس کے آنسو پونچھ دیئے۔
"اب بہت جلد تمہیں ہانیہ خان سے کیپٹن ہانیہ خان بنتے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔"
ہانیہ نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور جلدی سے ایک بار پھر اس کے سینے سے لگ کر جنت اور وانیہ کے پاس بھاگ گئی اب اسے یہ خوشخبری سب کو سنانی تھی۔
                   ❤️❤️❤️❤️
"سر عثمان ملک پاکستان واپس آ چکا ہے میں نے ابھی ٹی وی پر دیکھا اور تو اور عثمان ملک نے اپنے بیٹے کا نکاح بھی اس کی خالہ زاد کے ساتھ کر دیا ہے۔۔۔۔"
عرفان کی بات سن کر خادم کے ماتھے پر بل آتے تھے۔
"ایسا کیسے ہوگیا جہاں تک مجھے یاد ہے بولو تو عثمان ملک کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے پھر اب یہ سب۔۔۔؟"
خادم بات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"سر ہمیں کہیں ان سے کوئی خطرہ تو نہیں۔۔۔"
"ہمیں ان سے کیا خطرہ ہوگا۔سلطان کو کسی سے بھی کیا خطرہ ہوگا؟یہاں تو کوئی سلطان کا نام تک نہیں جانتا۔۔۔کسی کو یہ تک نہیں پتہ کہ راگا اور اس کے جیسے بہت سے دہشت گرد تو صرف  سلطان کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہیں۔۔۔"
خادم نے ہنستے ہوئے شراب کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگایا۔
"اسے پولیٹکس کہتے ہیں اے کے دنیا کے سامنے میں خادم شفیق ہوں بہت ہی اچھا اور عوام کی فلاح کے بارے میں سوچنے والا حکمران لیکن ان معصوم لوگوں کو تو دیکھو نہیں جانتے کہ میں ہی سلطان بھی ہوں جو اس ملک میں سمگلنگ،دھماکوں اور بہت سی موتوں کی وجہ بھی ہے۔۔۔۔ہاہاہا سلطان کر خود ہی سب کرواتا ہوں اور خادم بن کر ان ہزار لوگوں میں سے ایک کا نقصان کی بھرپائی کر کے انکا ہیرو بن جاتا ہوں۔۔۔"
اپنے شیطانی ارادے بتا کر خادم قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"اب دیکھو نا ستارہ پارٹی کا رہنما میرے مقابلے پر آ رہا تھا لیکن بے چارہ آج زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔۔۔بہت جلد ٹی وی پر اس کی موت کی خبر ہمارے لیے خوشی کی خبر بن جائے گی۔۔۔"
خادم کی بات پر عرفان بھی مسکرا دیا۔کچھ دیر کے بعد ہی ان کہ ایک آدمی نے انہیں ٹی وی چلا کر دیکھنے کا کہا تھا۔
"آ گئی نا خوشخبری۔۔۔"
خادم نے شان سے مسکراتے ہوئے کہا ریموٹ پکڑ کر ٹی وی چلایا لیکن سامنے ہی وہ شخص زخموں سے چور حالت میں پڑا تھا جسے اے کے نے ستارہ پارٹی کے رہنما کی جان لینے بھیجا تھا۔
ایک کالی پینٹ پر کالی ہڈی پہنے اور کالے رومال سے چہرہ چھپائے آدمی نے اپنا پاؤں اس کی گردن پر رکھا تو وہ آدمی درد سے کراہنے لگا۔
"مم ۔۔۔میں نہیں مارنا چاہتا تھا۔۔۔۔ستارہ پارٹی کے رہنما کو مارنے کی کوشش میں نے نہیں کی ۔۔۔وہ سلطان کے کہنے پر کیا میں نے یہ سب۔۔۔۔اور قسم سے میں نہیں جانتا سلطان کون ہے۔۔۔۔"
وہ آدمی زاروقطار روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"وہ۔۔۔بس انہیں مروانا چاہتا تھا۔۔۔بدلے میں اس کے آدمی نے پیسے دئیے مجھے ۔۔۔۔یہ سب سلطان نے کروایا تاکہ اس الیکشن میں ستارہ پارٹی کا رہنما نہ جیتے ۔۔۔۔اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔"
اس آدمی نے اپنی بات کہہ دی تو کالے کپڑوں والے آدمی نے اپنے پاؤں کا دباؤ بڑھا کر اس کی گردن کو توڑ دیا۔
"یہ پیغام تمہارے لئے سلطان۔۔۔سکندر سب جانتا ہے کہ تم کون ہو اور کہاں ہو اور سکندر کے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی ناپاک منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔۔۔بہت جلد تمہارا گریبان سکندر کے ہاتھ میں ہوگا سلطان تیار رہنا۔۔۔"
وہ دونوں بس سکندر کی سفاک آواز سن سکتے تھے اور اس کی خطرناک سبز آنکھیں دیکھ سکتے تھے۔اتنا کہہ کر ٹی وی سسٹم کو ہیک کرکے چلائی گئی وہ ٹرانسمیشن بند ہوگئی تھی۔
"آہہہہہہ۔۔۔۔"
خادم غصے سے بھری ایک چیخ کے ساتھ اٹھا اور ٹی وی کو پٹخ کر توڑ دیا۔
"کون ہے یہ سکندر آخر کون ؟؟؟"
خادم اس وقت غصے سے پاگل ہو رہا تھا کیوں کہ سکندر نے نہ صرف پھر سے اس کے راستے میں ٹانگ اڑائی تھی بلکہ سلطان کا نام بھی وہ پوری دنیا کے سامنے لا چکا تھا۔
"کہیں سے ڈھونڈ اس سکندر کو   اے کے ورنہ تجھے نہیں چھوڑوں گا میں۔۔۔۔"
خادم کی بات پر عرفان نے ڈرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔سکندر کو پکڑنا سچ میں بہت ضروری ہو چکا تھا ورنہ وہ سب کچھ برباد کر دیتا۔

   0
0 Comments