Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 26

منزل عشق قسط 26
وانیہ کو ہوش آیا تو گزرا ہر منظر یاد کرکے ڈرتے ہوئے ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ارد گرد کا جائزہ لے کر مزید ڈر گئی۔
وہ شاید کسی پلین میں تھی لیکن یہ پیسنجر نہیں کوئی پرائیویٹ پلین تھا۔ہانیہ نے خوف نگاہوں سے یہ دیکھا لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا۔
"کیسا محسوس کر رہی ہو اب؟"
دروازے سے آنے والی آواز پر وانیہ نے جلدی سے وہاں پر دیکھا  لیکن وہاں پر میڈی کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ افسردہ ہوئی۔
"آآ۔۔۔۔۔آپ یہاں ۔۔۔۔۔میں یہاں کیسے آئی کیا ہوا تھا؟"
وانیہ کے گھبرا کر پوچھنے پر وہ مسکراتے ہوئے اس کے پاس آیا اور ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر اس کا ہاتھ نرمی سے تھام لیا۔
"ایک برا سا جن تمہیں اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا اس لئے میں اپنی بیوی کو اس جن سے چھین لایا۔"
"نن۔۔۔نہیں میں آپ کی بیوی نہیں میرا نکاح پہلے ان سے ہوا تھا اور نکاح پر نکاح نہیں ہوتا۔۔۔۔"
وانیہ کی بات پر میڈی کے لب بے ساختہ طور پر مسکرائے ۔
"تو کیا یہ وہی شخص ہے جس سے آپ کو محبت ہے؟"
وانیہ نے فورا ہاں میں سر ہلایا۔ اچانک میڈی اسکے کان کے قریب جھکا تو وانیہ کی جان ہوا ہوئی۔
"تو ٹھیک ہے میری افغان جلیبی میں وہ بن جائے گا جو تجھے پسند ہے۔۔۔۔"
اپنے کان کے قریب راگا کی آواز سن کر وانیہ حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔
یہ کیسا راز تھا کیا آپ کے پاس موجود شخص ہی راگا تھا لیکن اس کا چہرہ۔۔۔۔وانیہ کا سوچ کر دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔
"افسوس تو اس بات کا ہے جان راگا کہ میرے قریب آنے پر بھی تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں۔اپنی جان تک کو میری امانت سمجھتی ہو تو کیا صرف میری صورت سے محبت تھی تمہیں؟"
عماد نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔
"میری آنکھوں میں غور سے دیکھتی تو شائید پہچان جاتی مجھے۔۔۔۔"
وانیہ نے حیرت سے اس شخص کی سیاہ آنکھوں کو دیکھا۔وہ اسی کی آنکھیں تھیں اسکے عماد کی آنکھیں۔لیکن پھر وہ عماد ہوتے ہوئے بھی بلکل مختلف کیوں دکھ رہا تھا وانیہ کسی بھی بات کو سمجھنے سے قاصر تھی۔
"عماد؟"
عماد کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ آئی۔
"بہت دیر کر دی مہرباں پہچانتے پہچانتے پر شکر ہے جوانی میں ہی پہچان لیا مجھے تو شک تھا بیوی بوڑھا کر کے مانے گی اور میرے غریب بچے بس جنت سے ہمیں دیکھتے بدعائیں دیتے رہ جائیں گے۔۔۔۔"
عماد نے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے لیکن وانیا پر طاری غم اور الجھاؤ اس پر حاوی ہوا اور اچانک اسے سامنے بیٹھے شخص پر بے تحاشا غصہ آنے لگا۔بغیر سوچے سمجھے اس نے عماد سے دور ہو کر زور زور سے اسکے سینے پر مکے برسانا شروع کر دیے۔
"اتنے عرصے سے آپ میرے قریب تھے،مجھے روتے تڑپتے ہوئے دیکھتے رہے لیکن ایک بات سامنے آ کر مجھے نہیں بتایا کہ آپ زندہ ہیں کیوں کیا آپ نے ایسا؟"
غصے کی شدت سے وانیہ کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں جبکہ عماد نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ تھامے۔
"اب میرا بھی تو حق بنتا تھا نا جان تمہاری محبت کی شدت کو دیکھنے کا جس کا تم نے کبھی اظہار نہیں کیا۔۔۔۔"
عماد نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا لیکن وانیہ ابھی بھی غصے سے منہ بنا کر اسے دیکھ رہی تھی۔
"مجھے ہر بات بتائیں سچ سچ ابھی اور اسی وقت۔۔۔"
وانیہ نے اس سے دور ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔عماد نے گہرا سانس لیا اور پھر بولا۔
"میرا اصلی نام عماد بنگش ہے، شہریار علی بنگش کا بیٹا ہوں،جنرل شہیر کے نام سے فوج میں جانے جاتے ہیں وہ۔ کہنے کو میرا دبئی میں شو روم ہے لیکن آرمی انٹیلیجنس مجھے اور نام سے جانتی ہے۔"
عماد نے مسکرا کر وانیہ کو دیکھا جو ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔
"ایجنٹ بی۔۔۔"
                   ❤️❤️❤️❤️
 (چھے ماہ پہلے)
"تمہیں کیا لگا فوجی کہ تم نے مجھے پکڑ کر بہت بڑا تیر مار لیا۔۔۔ہوں۔۔۔۔دیکھنا بہت جلد آزاد ہو جائے گا راگا اور تو کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔"
جنرل شہیر راگا کی جیل میں کھڑے اسے گھور رہے تھے جو زنجیروں اور زخموں میں جکڑا بھی غرور کی انتہا پر تھا۔ابھی چند دن پہلے ہی آرمی نے اسے پکڑا تھا۔
"یہ تمہارا خواب ہے راگا اور یہ صرف خواب ہی رہے گا۔"
جنرل شہیر کی بات پر راگا قہقہ لگا کر ہنسا۔
"خوابوں میں جینے والے مجھے سچائی دیکھا رہے ہیں۔۔۔دیکھنا فوجی تیری آنکھوں کے سامنے جاؤں گا یہاں سے پھر تیرے اس وطن کی دھجیاں۔۔۔"
ابھی الفاظ راگا کے منہ میں ہی تھے جب جنرل شہیر نے اسکے منہ پر زور دار گھونسا مارا اور سپاہی کو اشارہ کرتے کمرے سے باہر آئے۔وہ سیدھا اپنے آفس میں آئے جب انکی نظر سامنے کرسی پر بیٹھے لڑکے پر پڑی۔
"تم یہاں کیسے آئے؟"
جنرل شہیر نے عماد کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"دروازے سے۔۔۔"
عام سا جواب دیتے عماد نے سامنے موجود کاغذات کو دلچسپی سے دیکھا۔
"دروازے پر تو گارڈز تھے انہوں نے تمہیں اندر کیسے آنے دیا؟"
"آپ کے گارڈز کو تو ابھی تک نہیں پتہ کہ میں یہاں ہوں کافی معصوم ہیں بے چارے نئے نئے بھرتی کیے ہیں کیا؟"
عماد نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے پوچھا اور ان کاغذات کو کافی غور سے دیکھنے لگا۔
"راگا نے زبان نہیں کھولی نا."
جنرل شہیر نے انکار میں سر ہلایا۔
"لیکن اس کے ساتھی خاموش بیٹھے ہیں جیسے کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
عماد نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔
"وہ خاموش نہیں بیٹھتے سر ضرور کچھ بڑا سوچ رہے ہوں گے کچھ ایسا جس کے بعد پاک فوج کے پاس راگا کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہ بچے۔۔۔"
جنرل شہیر نے عماد کی بات پر غور کیا تو نہیں اس وہ صحیح لگی۔
"تو پھر تمہارے خیال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟"
"بیک اپ۔۔۔۔اگر وہ کچھ بڑا سوچ رہے ہیں تو ہم اس سے بھی بڑا سوچیں گے۔میرے پاس ایک پلین ہے۔"
"کیسا پلین؟"
جنرل صاحب نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تو اطمینان سے عماد نے انہیں اپنا سارا پلان بتایا۔
"نو عماد اٹس ٹو ڈینجرس۔۔۔تمہارا راگا بن ان کے درمیان رہنا تمہاری جان کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے اگر انہیں پتہ چل گیا تو۔۔۔۔"
جنرل شہیر نے پریشانی سے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
"یہی تو بات ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا۔ٹرسٹ می سر ان کے درمیان رہ کر الو بناؤں گا انہیں اور اتفاق تو دیکھیں راگا اور میری آنکھوں کا رنگ بھی ایک ہی ہے۔۔۔"
عماد نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔
"ویسے بھی آرمی میں آنے کے بعد ایک سپاہی کی جان اس کی جان نہیں رہتی اس کی ہر چلتی سانس اس کے ملک کی امانت ہوتی ہے۔۔۔"
جنرل شہیر عماد کی بات پر خاموش ہوگئے۔
"اور تمہاری ماں کا کیا عماد بنگش اسکی اکلوتی اولاد ہو تم۔۔۔اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو کیا برداشت ہو گا اس سے؟اور یہ بات ایک جنرل نہیں ایک باپ تم سے پوچھ رہا ہے۔"
عماد نے مسکرا کر جنرل شہیر کو دیکھا۔
"آپ اور ماما مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں بابا لیکن کوئی اور ہے جو مجھے آپ دونوں سے بھی زیادہ پیارا ہے۔۔میرا یہ وطن بابا جسے ہر کوئی ڈسنے پر تلا ہوا ہے اور اگر میرے ملک پر اٹھنے والی ایک نگاہ بھی کچل دی نا میں نے تو سمجھوں گا کہ میرے پیدا ہونے کا حق ادا ہو گیا۔"
عماد کو دیکھتے ہوئے جنرل شہیر کی آنکھوں میں ایک خوف تھا۔ہوتا بھی کیوں نہ وہ انکی اکلوتی اولاد تھا لیکن اس خوف کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں میں بے پناہ فخر بھی تھا۔
"ٹھیک ہے عماد جیسا تم چاہو گے ویسا ہی ہو گا لیکن یہ ہمارا پلین بی ہو گا صرف اسی صورت میں اگر سچویشن ہمارے کنٹرول سے باہر ہوئی تو۔"
انکی بات پر عماد مسکرایا اور ہاتھ اٹھا کر اپنے مخصوص انداز میں انہیں سیلیوٹ کیا۔
"اوکے سر۔۔۔"
                  ❤️❤️❤️❤️
وہاں سے آتے ہی عماد نے خود کو سب سے علیحدہ کر دیا راگا کے بارے میں جتنی انفارمیشن ہو سکتی تھی اس نے اکٹھا کی۔اسکی آواز کو مکمل طور پر کاپی کیا اور اپنے بال بھی بڑھا لیے۔بس کچھ محنت کرنی پڑی تھی اسے اپنے  نقوش راگا کی طرح کرنے میں۔
راگا کے پکڑے جانے کے تین مہینے بعد تک ایک خاموشی چھائی رہی جیسے کہ واقعی اس کے ساتھیوں کو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بس دو چار جگہوں پر ان لوگوں نے دھماکے کروائے۔
لیکن پھر ایک دن وہ خاموشی ٹوٹی جب انہوں نے راولپنڈی کی مشہور یونیورسٹی پر حملہ کیا اور طالب علموں کی جان کے بدلے راگا کی رہائی کا سودا کیا۔
فوج کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ بھی اس بات سے پریشان تھی۔جنرل شہیر جب میٹنگ اٹینڈ کرنے گئے تو سب کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی فیصلہ کیا کہ راگا کو رہا کر دیا جائے۔
"ایک اور راستہ بھی ہے ۔۔۔۔"
جب جنرل شہیر کو کچھ سمجھ نہ آیا تو بول اٹھے۔
"کیا راستہ ہے جنرل شہیر؟"
چیف آف آرمی نے سوال کیا۔
"ہم راگا کو آزاد کریں گے لیکن ان کے پاس اصلی راگا نہیں بلکہ راگا کے بھیس میں ہمارا ایجنٹ جائے گا۔۔۔"
جنرل شہیر کی بات پر سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"لیکن یہ بہت زیادہ خطرناک کام ہے جنرل صاحب اور اس کے لیے بہت زیادہ صلاحیت درکار ہے۔۔۔"
"جانتا ہوں اسی لیے ہمارے بہت قابل ایجنٹ بی کافی عرصے سے اس کام کی تیاری میں لگیں ہیں اور ایجنٹ بی کی صلاحیت سے صرف میں ہی نہیں آپ سب بھی اچھی طرح واقف ہیں۔"
جنرل شہیر کی بات پر سب نے متفق ہو کر ہاں میں سر ہلایا۔
"ایجنٹ بی چالاکی،عقلمندی،بہادری اور طاقت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔"
ایک اور جنرل نے سب کو بتایا۔
"اور اسکا یہ فائیدہ بھی ہو گا کہ ان کے درمیان ہمارا ایک جاسوس ہو گا جو نہ صرف باقی کے دہشتگردوں کی گرفتاری کا باعث بنے گا بلکہ ان دہشتگردوں کے مددگار غداروں کا بھی پتہ لگا لے گا اور ان چھپے ہوئے غداروں کا پتہ لگانا ہی ایجنٹ بی کا مقصد ہے۔"
اس بات پر چیف آف آرمی نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔
"ٹھیک ہے ایسا ہی ہو گا یہ مشن اب ایجنٹ بی کا ہے وہی راگا کی جگہ ان لوگوں کے پاس جائیں گے اور انکی حفاظت کے لیے اس راز کو بہت زیادہ خفیہ رکھنا ہو گا تا کہ ہم میں چھپا کوئی غدار انکے لیے مشکل کا باعث نہ بنے۔"
باقی کے جنرل بھی چیف آف آرمی کی بات سے متفق تھے۔میٹنگ ختم ہونے کے بعد جنرل شہیر اپنے کمرے میں آئے پر بہت سوچنے کے بعد اپنا موبائل نکال کر انہوں نے عماد کو کال کی۔
"ایجنٹ بی ہمیں پلین بی کے مطابق چلنا ہے۔"
                      ❤️❤️❤️❤️
وہ لوگ جیل سے راگا کو لے کر نکلے تھے اور اپنی آزادی پر کا غرور دیکھنے کے قابل تھا لیکن وہ اس بات سے غافل تھا کہ اس کی خوشی بہت جلد غم میں بدلنے والی تھی۔
راگا کو لے کر جانے والی گاڑی اچانک ہی باقی گاڑیوں سے علیحدہ ہو کر دوسری طرف مڑ گئی اور سیدھا آ کر ایک سنسان سے گیراج میں رکی۔
راگا کو گاڑی سے باہر نکالا گیا تو وہ حیرت سے اردگرد کا منظر دیکھنے لگا۔
"یہ تم لوگ مجھے کہاں لایا ہے فوجی زیادہ چلاکی کی نا تو انجام اچھا نہیں ہوگا یہ جانتے ہو تم لوگ۔۔۔"
راگ اس جنرل شہیر کی طرف مڑتے ہوئے انہیں دھمکانے لگا جبکہ جنرل شہیر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔
"پتہ لگ جائے گا راگا حوصلہ رکھو۔"
جنرل صاحب نے مسکرا کر کہا تبھی وہاں ایک اور گاڑی آئی جس سے نکلنے والے شخص کو دیکھ کر راگا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ بلکل اس کے جیسا ہی تو تھا۔وہی بال،ویسی ہی داڑھی یہاں تک کے نقش بھی ویسے ہی تھے۔
"کیا ہوا ماڑا اتنے میں ہی ڈر گیا تم تو ابھی تو اس راگا نے اپنا جلوہ بھی نہیں دیکھایا۔"
اس شخص کے بولنے پر راگا کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ اس کی آواز بھی بالکل راگا جیسی تھی۔
"کون ہو تم؟"
راگا نے گھبراتے ہوئے پوچھا تو وہ شخص مسکرا کر اس کے قریب آیا۔
"میں وہ ہوں راگا جو تیری جگہ لے کر تیرے ان گھٹیا کاموں اور ساتھیوں کو جہنم واصل کرے گا۔۔۔۔میں اس ملک کا مجاہد ہوں۔۔۔۔اس سر زمین کا محافظ۔۔۔"
عماد کے ایسا کہنے پر راگا نے ایک زور گھونسہ اس کے منہ پر مارا۔سپاہیوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو عماد نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں قریب آنے سے روک دیا۔
اب راگا اسے مار رہا تھا اور وہ خاموشی سے کھڑا مار کھا رہا تھا۔پھر اچانک کافی مار کھانے کے بعد عماد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ہونٹ پر موجود خون کو انگوٹھے سے صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا۔
"اب میری باری۔۔۔"
اتنا کہہ کر عماد نے ایک ہی زور دار مکا راگا کے منہ پر مارا جس کی شدت سے راگا زمین پر گر گیا اور اسکی ناک سے بری طرح خون نکلنے لگا۔
"شکریہ ماڑا کسی زخم کے بغیر تیرے ساتھیوں کے پاس جاتا تو شک کرتے نا مجھ پر اچھا ہے تو نے یہ شبہ بھی مٹا دیا۔۔۔"
عماد نے ہنس کر کہا تو فوجیوں نے واپس راگا کو اپنی حراست میں لے لیا۔
"ویرہ کو پتہ لگ جائے گا وہ تجھے نہیں چھوڑے گا بہروپئے نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔"
راگا چلاتا رہا اور وہ سپاہی اسے وہاں سے لے گئے۔عماد اس بات پر مسکرا دیا کہ جانے انجانے وہ اسے اپنے ساتھی کا نام بتا چکا تھا۔
"چلو بیٹا۔۔۔"
جنرل شہیر نے عماد کے پاس آ کر کہا تو عماد نے بیڑیاں پہننے کے لئے اپنے ہاتھ ان کے سامنے کر دیے۔
"میں تیار ہوں بابا۔۔۔"
پھر وہ لوگ عماد کو راگا بنا کر یونیورسٹی لے کر گئے۔جنرل شہیر نے سوچا کہ یہاں آئے دہشتگردوں کو تو پکڑ ہی لیں گے اسی لیے انہوں نے ان دہشتگردوں پر اٹیک کرنے کا کہا لیکن ان بزدلوں نے وانیا کو اپنی ڈھال بنایا اور وہاں سے فرار ہو گئے۔
وجدان نے وانیا کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ایسے راستے سے فرار ہو چکے تھے جو یونیورسٹی سے بہت فاصلے پر تھا اور ہر طرف ناکہ بندی ہونے کے باوجود وہ انہیں نہیں پکڑ پائے۔
وانیا کی کوئی خبر نہ ملنے پر وجدان غصے کے عالم میں جنرل شہید کے پاس آیا۔
"ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے سر ہم ان پر حملہ کریں گے کسی بھی حال میں اپنی بیٹی کو واپس لاؤں گا میں۔آپ پرمیشن دیں سر ہم کسی بھی طرح انہیں ٹریک کر لیں گے ۔۔۔۔۔"
وجدان کی پریشانی دیکھ کر جنرل شہیر بھی پریشان ہو چکے تھے۔
"تم فکر مت کرو وجدان پولیس اور فوج انہیں ڈھونڈ رہی ہے تمہاری بیٹی کا پتہ ضرور لگا لیں گے۔۔۔"
"کیسے فکر نہ کرو میں میری بیٹی ہے ان کے پاس ہمیں ان پر حملہ کرنا ہوگا سر جب تک ہم ان تک نہیں پہنچ جاتے کسی بھی دہشت گرد کو نہیں چھوڑیں گے ہم۔۔۔"
وجدان غصے سے کہہ رہا تھا۔
"میں نے کہا ناں وجدان کہ ایک ٹیم اس کو ڈھونڈتی رہے گی لیکن فی الحال ہم کسی بھی دہشتگرد پارٹی پر حملہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔"
"کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا چاہتے ہیں آپ کے بس خاموش تماشائی بنا رہوں نہیں میں اپنی بیٹی کو ڈھونڈ کر رہوں گا اگر آپ اجازت نہیں دیتے تو بھاڑ میں گئی یہ نوکری۔"
وجدان غصے سے کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔
"وجدان تم سمجھ کیوں نہیں رہے تمہاری بیٹی ٹھیک ہے اور جلد ہی تمہارے پاس ہو گی لیکن ابھی ہم حملہ نہیں۔۔۔۔"
"آپ کیسے جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہو گی۔۔۔؟سر دہشتگردوں کی پکڑ میں ہے میری بیٹی تو وہ کیسے محفوظ ہو سکتی ہے ۔۔۔؟"
وجدان نے غصے سے میز پر اپنے ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا۔
"کیونکہ جو راگا انکے ساتھ گیا ہے وہ اصلی راگا نہیں ہے لیفٹیننٹ وہ ہمارا ایجنٹ ہے ۔۔۔۔ایجنٹ بی"
اس بار جنرل شہید کے آہستہ سے کہنے پر وجدان نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
"ہاں وجدان وہ راگا نہیں ہمارا مجاہد سپاہی ہے اور ان پر حملہ کرنا اس سپاہی کی جان لینے کے مترادف ہے۔فوج کے وہاں پہنچتے ہی وہ سب سے پہلا شک اسی پر کریں گے کہ یہ فوج سے ہاتھ ملا کر انہیں یہاں لایا ہے اور مار دیں گے اسے۔۔۔"
جنرل شہیر کی بات سن کر وجدان نے اپنا سر جھکا لیا۔
"لیکن میری بیٹی ہے انکے پاس سر۔۔۔۔وہ بہت معصوم ہے۔۔۔۔بہت نازک دل کی ہے۔۔۔"
نم آواز میں کہتا وجدان اس وقت ایک ہارا ہوا باپ لگ رہا تھا۔جنرل شہیر نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"فکر مت کرو وجدان وہ حفاظت سے رہے گی ایجنٹ بی اپنی جان سے زیادہ خیال رکھے گا اسکا۔"
"یہ بات آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟"
وجدان نے انہیں حیرت سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"کیونکہ ایجنٹ بی کوئی اور نہیں میرا بیٹا عماد ہے اور اپنے بیٹے کو جانتا ہوں میں۔۔۔"
جنرل شہیر نے اسکا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا جبکہ وجدان حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دشمنوں میں بھیج دیا تھا۔
"تو آپ چاہتے ہیں کہ میں کچھ نہ کروں بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں۔۔؟ "
وجدان کے لہجے میں بہت زیادہ بے بسی تھی۔
"ہمت کرو وجدان بالکل ویسے ہی جیسے میں نے کی ہے۔تم یہ سمجھو کہ تم نے اپنی بیٹی کو اس ملک کی حفاظت پر لگایا ہے۔۔۔سمجھو کے وہ بھی ہماری طرح ایک سپاہی ہے۔۔۔۔کیونکہ وجدان وہ اس بہادر سپاہی کی محافظ ہے اور وہ اسکا محافظ ہو گا۔"
جنرل شہیر کی بات پر وجدان بے انتہا بے بس ہو چکا تھا ہر بس خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا لیکن اس کے بعد اس نے وانیا کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی بس اپنی بیٹی کو خود کی طرح مجاہد سمجھ کر اس کی زندگی کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔
اور ویسا ہی ہوا تھا جیسا جنرل شہیر نے کہا عماد نے راگا بن کر وانیہ کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔کال کے پسندگی ظاہر کرنے پر عماد نے سردار ہونے کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے وانیہ کو اس سے چھین لیا لیکن جب بعد میں پھر سے وانیا اس کے چنگل میں بری طرح سے پھنس گئی تو عماد کے پاس اس سے نکاح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
اسی طرح اپنے لیفٹیننٹ کی بیٹی جو عماد کے لیے ایک ذمہ داری تھی اس کی متاع جان،اسکی منزل عشق بن گئی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
ایک مہینے تک سب ٹھیک چلتا رہا۔عماد نے کسی کو بھی خود پر شک ہونے نہیں دیا تھا اور ان ہی کے درمیان رہ کر وہ ان کا ہر راز جانتے ہوئے سلطان کے بھی بہت قریب پہنچ چکا تھا۔
لیکن پھر ایک دن اچانک وہ توازن خراب ہوا جب عماد خبر پہنچانے پہاڑ کے پاس موجود سپاہی کے پاس آیا اور اس نے اسے بتایا کہ راگا قید سے بھاگ چکا ہے اور کسی بھی وقت یہاں پہنچتا ہوگا۔
عماد کو کیسے بھی راگا کو پکڑنا تھا اگر راگا ویرہ یا کال میں سے کسی کے پاس بھی پہنچ جاتا تو عماد کا بچنا ناممکن ہو جانا تھا۔
"یا اللہ میری مدد کرنا۔۔۔"
عماد نے دعا کی اور اپنی بندوق سنبھالتا راگا کو تلاش کرنے لگا۔کچھ ہی دیر بعد گولیوں کی آواز سے اس نے اندازہ لگایا کہ آرمی بھی وہاں پہنچ چکی ہے۔
تبھی عماد کی نظر پہاڑ کی جانب سے آتے ایک آدمی پر پڑی جس کے پیچھے دو فوجی تھے جن میں سے ایک کو اس نے مار دیا تھا جبکہ دوسرے کی ٹانگ میں گولی مار کر اسے بھی اپنے نشانے پر لے چکا تھا۔
عماد نے غصے سے دانت کچکچا کر آگے بڑھنا چاہا۔
"رک جائیں ایسا مت کریں۔۔۔۔"
وانیا کی آواز پر عماد کی جان ہوا ہوئی۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ راگا وانیا کو کوئی نقصان پہنچائے لیکن اس وقت وہ ان سے بہت زیادہ فاصلے پر تھا۔لیکن راگا کے منع نہ ہونے پر وانیا کی اگلی حرکت سے عماد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"رک جائیں ورنہ گولی مار دوں گی۔۔۔"
عماد نے حیرت سے اپنی معصوم جان کو دیکھا جو کانپتے ہاتھوں میں پسٹل تھامے راگا کو ڈرا رہی تھی۔اپنی بندوق کو سیدھا کرتے ہوئے عماد نے راگا کا نشانہ لیا اگر وہ وانیا یا اس فوجی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا تو عماد وہیں اسے مار دیتا۔
"ایک چڑیا کے ڈر سے راگا اپنا شکار نہیں چھوڑے گا۔"
راگا نے شان سے کہتے ہوئے بندوق واپس فوجی پر کی اور عماد نے خود کو گولی چلانے کے لیے تیار کیا لیکن اس سے پہلے ہی وانیہ راگا کو گولی مار چکی تھی۔
عماد نے حیرت سے اسے دیکھا جو اب راگا کو مارنے کے باد اسکے پاس جا کر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اسکا نکلتا خون بند کرنا چاہ رہی تھی۔عماد کچھ دیر کھڑا اپنی محبت کو وہاں روتے ہوئے دیکھتا رہا۔اسکا ایک ایک آنسو اسکی محبت کا گواہ تھا۔
پھر کچھ دیر بعد اسکی بہن اور ایک لڑکا اسے اور فوجی کو وہاں سے لے گئے تو عماد راگا کے جسم کے قریب آیا اور اسکی گردن پر اپنا ہاتھ رکھ کر دیکھا۔
راگا سچ میں مر چکا تھا۔عماد نے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا اور اس خفیہ غار سے ہوتا ہوا کافی فاصلے پر کھڑی آرمی کی گاڑیوں کے پاس آیا۔
راگا کے ایک جسم کو کندھے پر ڈال کر لاتا دیکھ سب فوجیوں نے اس پر بندوقیں تان دیں۔جنرل شہیر بھی اس کو پریشانی سے دیکھ رہے تھے۔
عماد نے راگا کا جسم لا کر جنرل شہیر کے قدموں میں پھینکا اور مسکرا کر انہیں دیکھا۔جبکہ جنرل شہیر تو یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ سامنے موجود شخص راگا تھا یا ان کا بیٹا۔
پھر عماد نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں سیلیوٹ کیا تو جنرل شہیر کی آنکھیں خوشی اور فخر کے آنسوؤں سے نم ہو گئیں۔بے ساختہ طور پر انہوں نے بھی اپنا ہاتھ ماتھے تک لے جا کر عماد کو سیلیوٹ کیا۔
"تم نے اسے مار دیا ایجنٹ؟"
وجدان نے حیرت سے پوچھا کیونکہ راگا کا زندہ ہونا مردہ ہونے سے زیادہ قیمتی تھا۔
"نہیں سر آپ کی بیٹی نے مار دیا۔"
"ہانیہ۔۔"
وجدان نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"نہیں سر میری وانیہ نے۔۔۔"
عماد کی آواز میں موجود غرور اور اس کے میری وانیا کہنے پر وجدان ٹھٹھک گیا لیکن یہ وقت سوال جواب کا نہیں تھا۔
"بس اب ایجنٹ بی بھی ہمارے ساتھ ہے اور میری بیٹی بھی با حفاظت یہاں سے جا چکی ہے سر اب ہم ان لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔حملے کی اجازت دیں سر۔۔۔"
وجدان نے جنون سے گاؤں کی جانب نگاہیں گاڑھ کر کہا۔
"نہیں سر اس گاؤں میں صرف دہشتگرد نہیں بستے بلکہ بہت سے معصوم لوگ بچے اور عورتیں بھی ہیں ہمیں ان کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا ہے۔"
عماد کی بات پر جنرل شہیر اپنے بیٹے کی جانب مڑے۔
"تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ایجنٹ بی۔۔۔۔؟"
"میرے اشارے کا انتظار کریں سر اور اشارہ ملتے ہی حملہ کر دیجیے گا۔۔۔۔۔"
جنرل شہیر نے ہاں میں سر ہلایا اور عماد واپس گاؤں میں آیا جہاں ویرہ سب آدمیوں کے ساتھ ہتھیار سے لیس تیار تھا جبکہ کال تو ایک دن سے غائب تھا۔
"کہاں تھے تم راگا؟ ان آرمی والوں میں اتنی ہمت آ گئی ہے کہ ہم پر یہاں حملہ کردیا لیکن فکر مت کرو یہ غلطی ان کی آخری غلطی بنا دیں گے۔۔۔۔"
ویرہ نے ایک آدمی کو اشارہ کیا۔
"میں بھی انہیں کا جائزہ لینے گیا تھا ویرہ وہ تعداد میں ہم سے زیادہ ہے اگر انہوں نے ہم پر پہلے حملہ کیا تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔اسی بہتر یہی ہے کہ ہم ان پر پہلے حملہ کریں۔۔۔۔"
عمار کی بات سن کر ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
"ہمیں ہوشیاری سے کام لینا ہوگا۔ ہمارے جتنے بھی آدمی ہیں سب کو ساتھ لو۔  آدھے آدمی ان پر شمال سے حملہ کرو اور ویرہ تم اور میں جنوب سے ان پر حملہ کریں گے۔"
ویرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور آدمیوں کو اشارہ کرتا آدھے آدمیوں کے ساتھ عماد کے ساتھ چل دیا۔
"مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ہم میں کون سا ایسا جاسوس ہے جس نے فوج کو  ہمارا ٹھکانہ بتایا ۔۔۔۔اگر پتہ چل گیا نا راگا تو وہ موت مانگے گا اور اسے موت بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔"
ویرہ وحشت سے کہتا عماد کے ساتھ چل رہا تھا۔اچانک ایک سنسان جگہ پر آ کر عماد رک گیا۔
"کیا ہوا راگا؟"
ویرہ نے حیرت سے پوچھا۔
"کچھ نہیں ویرہ تمہیں بس یہ بتانا تھا کہ وہ جاسوس میں ہی ہوں۔۔۔"
اس سے پہلے کہ ویرہ عماد کی بات سمجھتا گھاس اور درختوں کے پیچھے چھپے فوجیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور سب دہشتگردوں کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر وہ سب کو یا تو مار چکے تھے یا حراست میں لے چکے تھے۔
ویرہ نے حیرت سے ارد گرد کا نظر دیکھا اور اپنی بندوق فوراً عماد پر تان دی۔
"غدار۔۔۔۔"
ویرہ نے گولی چلائی لیکن عماد عین وقت پر جھک کر اپنے آپ کو اس گولی سے بچا چکا تھا۔پھر خود فورا آگے بڑا اور ایک ٹانگ ویرہ کے بازو پر مار کر اسکی بندوق کو گرایا۔
ویرہ نے اپنا ہاتھ بہت زور سے عماد کے گال پر مارنا چاہا لیکن عماد اس سے بھی بچتا ویرہ کی ٹانگ پر اپنی ٹانگ مار کر اسے زمین پر گرا گیا اور اسکی گردن کو دبوچ لیا۔
"نہیں ویرہ میں غدار نہیں ہوں بلکہ غدار تو تم ہو جو خود پر ہوئے ظلم کا  بدلہ لینے کے لیے اپنے وطن سے ہی غدار ہو گیا۔۔۔لیکن اس کا غداری کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے ویرہ۔۔۔۔معصوموں کی جان لے کر تمہارے گھر والوں کی روح کو سکون نہیں ملا ویرہ انہیں تکلیف ہوئی ۔۔۔۔"
ویرہ غصے سے چلایا اور عماد کی پکڑ سے نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ پکڑ بہت مضبوط تھی۔
"ہاں ویرہ اپنے بیٹے کو قاتل بنا دیکھ وہ انصاف پسند آدمی بہت دکھی ہوا ہو گا۔۔۔ابھی بھی وقت ہے سمجھ جاؤ دوست۔۔۔۔انصاف کی تلاش میں تم نے غلط راہ چنی۔۔۔۔۔"
عماد اسے کہہ رہا تھا اور ویرہ اس کی گرفت میں مچلتا چلا رہا تھا۔
"نہیں۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا کسی کو نہ ان خاموش تماشائی بن کر موت دیکھنے والوں کو اور نہ ہی زندگیوں کا سودا کرنے والوں کو۔۔۔"
ویرہ عماد کی گرفت میں پھڑپھڑاتا غصے سے چلایا۔غم اور غصہ اس پر حاوی ہو چکے تھے۔اس وقت وہ کوئی بے قابو جانور لگ رہا تھا جسے سنبھالنا عماد کے لیے بھی مشکل تھا۔
"عبداللہ۔۔۔"
مرجان کی آواز پر ویرہ کا مزاحمت کرنا بند ہوا اور اس نے آرمی کے ساتھ موجود مرجان کو دیکھا جو پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔عماد نے جھک کر ویرہ کے کان کے قریب سرگوشی کی۔
"ابھی بھی وقت ہے سوچ لو عبداللہ۔۔۔۔اور کسی کے لیے نہ سہی مرجان کے لیے۔۔۔مر جائے گی وہ تمہاری لاش دیکھ کر۔۔۔۔"
عماد کی بات پر ویرہ کی ساری مزاحمت ساری لڑائی بند ہوئی۔وہ بس سامنے کھڑی مرجان کو زارو قطار روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
"جانتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت بڑا ظلم تھا اور اس نے ظلم نے تمہیں ظالم بنا دیا دوست۔۔۔ان ظالموں سے بھی زیادہ ظالم تو کیا فرق رہا ان میں اور تم میں۔۔۔۔؟"
عماد کی بات پر ویرہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا اور پھر چلا چلا کر رویا شاید اسے احساس ہو چکا تھا کہ انتقام کی آگ میں وہ کیا کر گزرا تھا۔
عماد نے فوجی کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر ویرہ کو زنجیر پہنائی اور اس بکھرے شخص کو اپنے ساتھ لے گیا۔
                        ❤️❤️❤️
عماد وہاں سے سیدھا ہیڈکوارٹر آیا جہاں اس نے ساری انفارمیشن آرمی کو دی لیکن ایک بات وہ ان سے چھپا چکا تھا۔جسے اب بتانے کے لئے وہ جنرل شہیر کے پاس آیا لیکن وہاں وجدان کو دیکھ کر وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔
"کانگریچولیشن ایجنٹ اپنے مشن کی کامیابی پر تم سچ میں بہت بہادر جوان ہو۔"
وجدان نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"تھینک یو سر۔۔۔"
عماد نے اسے سیلیوٹ کر کے کیا اور پھر جنرل شہیر کی جانب مڑا۔
"مجھے آپ کو کچھ بہت ضروری بتانا ہے سر۔۔۔۔"
"تم بتا سکتے ہو وجدان پر پورا بھروسہ ہے مجھے۔۔۔"
عماد نے ہاں میں سر ہلایا۔
"سر یہ راگا اور اس کے جیسے اور بہت سے دہشت گرد ہیں جو صرف ایک کٹھ پتلی ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔۔۔"
عماد کی بات پر ان دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ شخص کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ اپنے ہی وطن کا ایک باشندہ ہے جو اپنے مفاد کے لئے نہ صرف معصوموں کی جانوں سے کھیل رہا ہے بلکہ ہر برا کام اسکی کی بدولت ہوتا ہے۔۔۔۔"
عماد کے ایسا کہنے پر وجدان میں ضبط سے اپنی مٹھیاں کس لیں۔
"کون ہے وہ؟"
"سلطان۔۔۔۔لیکن یہ سلطان کون ہے یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا کیونکہ سچ جاننے کے باوجود میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔۔۔اگر راگا بھاگتا نہیں تو ثبوت بھی ہوتا میرے پاس۔۔۔"
عماد کی بات پر جنرل شہیر پریشان ہوئے۔
"لیکن تم جانتے ہو کہ سلطان کون ہے؟"
عماد نے ہاں میں سر ہلایا۔
"چہرہ نہیں دیکھا تھا اسکا صرف آواز سنی تھی اور آواز بدلنے والا ہی کسی کی آواز نہ پہچانے ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟"
"ٹھیک ہے۔۔۔مجھے بھروسہ ہے تم ہر تم جلد ہی اس سلطان کے خلاف ثبوت بھی ڈھونڈ لو گے۔"
جنرل شہیر نے پاس آ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"اب اس سب کی پریشانیاں چھوڑو اور گھر چلو تمہاری ماں بہت زیادہ پریشان ہے کیونکہ میں ان سے آتے ہوئے کہہ کر آیا تھا کہ اپنے بیٹے کے لیے دعا کریں۔۔۔"
جنرل شہیر کی بات پر عماد مسکرایا۔
"انہی کی دعائیں میری محافظ ہیں بابا۔۔۔"
جنرل شہیر نے فخر سے اپنے بیٹے کی جانب دیکھا تو عماد مسکراتا ہوا وجدان کی جانب مڑا ۔
"آپ کو کچھ بتانا ہے سر اور شائید وہ سن کر آپ مجھے گولی مار دیں۔۔۔۔"
عماد کی بات پر وجدان بہت حیران ہوا لیکن وانیا کے نکاح کا جان کر سچ میں وجدان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔
"کوئی بات نہیں وہ رشتہ تم نے مجبوری میں باندھا ایجنٹ اسکی کوئی اہمیںت۔۔۔۔"
"نہیں سر اسکی اہمیت پر کبھی بھی سوال نہیں اٹھائیے گا وانیہ میرا سب کچھ ہے وہ میری بیوی ہے اور اس سچائی کو آپ تو کیا کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔۔۔۔"
عماد کے سختی سے کہنے پر وجدان حیران ہوا لیکن اس سے پہلے کہ وہاں سے کچھ کہتا جنرل شہیر سامنے ہوئے۔
"ارے یہ اتنا بڑا مسلہ بھی نہیں لیفٹیننٹ،میرا بیٹا قابل ہے ہر لحاظ سے آپکی بیٹی کے میں باپ ہونے کی حیثیت سے آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگتا ہوں اور ویسے بھی جب دونوں بچے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو پھر مسئلہ ہی کیا ہے۔۔۔؟"
جنرل شہیر کی بات  پر وجدان سوچ کے عالم میں ڈوب گیا اور سامنے موجود لڑکے کو دیکھنے لگا جو سچ میں ہر لحاظ سے اس کی بیٹی کے قابل تھا کیوں کہ نا صرف اس نے اس کی بیٹی کی حفاظت کی تھی بلکہ وہ اس کی آنکھوں میں وانیا کے لیے وہی جذبات دیکھ سکتا تھا جو اس کی آنکھوں میں زرش کے لئے تھے۔
"چلیں ٹھیک ہے میں وانیہ سے بات۔۔۔"
"ارے نہیں انکل آپ اس سے ابھی بات مت کیجیے گا بہت ستایا ہے آپکی بیٹی نے مجھے اب زرا اسکی باری ہے۔۔۔۔"
عماد نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو جنرل شہیر ہنس دیے اور وجدان بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔
                    ❤️❤️❤️❤️
(حال)
وانیہ جو تب سے مسکراتے ہوئے عماد کی بات سن رہی تھی اسکے خاموش ہونے پر منہ بنا کر اسے دیکھنے لگی۔
"اچھا تو آپ نے جان بوجھ کر مجھے ایک مہینہ ستایا؟"
اتنی سب باتوں کے بعد اسکا یہ سوال پوچھنے پر عماد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"ہاں میری افغان جلیبی جان بوجھ کر ستا رہا تھا تمہیں جس عشق کی آتش میں میں جلتا رہا اس میں تمہیں بھی تو جلتا دیکھنا تھا۔"
عماد وانیا کو کھینچ کر خود کے قریب کر چکا تھا۔
"بہت برے ہیں آپ ساتھ ہی بابا بھی انہوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا۔۔۔ناراض ہوں میں آپ دونوں سے۔۔۔۔"
وانیا نے اس فاصلہ قائم کرنا چاہا جو اسکے لیے ناممکن تھا۔
"اب یہ دوریاں ناممکن ہیں لخت جگر۔۔۔"
عماد نے اسی سختی سے خود میں بھینچتے ہوئے کہا۔
" اور ویسے بھی میں چاہتا تھا کہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے تمہیں اپناؤں تاکہ کل کو کوئی تمہاری کردار کشی نہ کر سکے۔۔۔"
اس بات پر وانیا نے اسکے سینے پر سر رکھ کر اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا۔پھر ایک خیال آتے ہی اس سے دور ہو کر پھر سے اسے گھورنے لگی۔
"آپ مجھے بھگا بھی تو سکتے تھے نا مجھے سچ بتا دیتے اور اپنے ساتھ لے جا کر مجھے میرے بابا کے پاس چھوڑ آتے۔۔۔"
وانیا کی معصومیت پر عماد نے مسکرا کر اسکا سر چوما۔
"اور باقی سب کو کیا جواب دیتا چھوٹی سی لڑکی میری قید سے بھاگ گئی۔۔۔۔اتنا آسان نہیں تھا جان ویرہ میری ہر ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔اسے شک تھا کہ کہیں فوجیوں نے راگا کو اپنے ساتھ تو نہیں ملا لیا اسی لئے تو اس دن میں نے وہ بکواس کی تھی کیوں کہ ویرہ کو لگا تھا کہ تم راگا کی کمزوری بن چکی ہو ۔۔۔"
وانیا نے ہاں میں سر ہلایا اب وہ اسکی ہر بات کا مقصد سمجھ چکی تھی۔
"اگر تمہیں بتاتا تو جتنی تم بہادر ہونا میری جان بندوق دیکھ کر ہی تم نے میرے بارے میں سب سچ سچ بتا دینا تھا۔۔۔۔"
وانیا نے منہ پھلایا۔
"اب اتنی بھی ڈرپوک اور بے وقوف نہیں ہوں میں۔۔۔"
عماد قہقہ لگا کر ہنسا۔
"اچھا اسی لیے میرے دو مرتبہ تمہیں بھاگنے کا موقع دلوانے کے باوجود تم بھاگ نہیں سکی الٹا زیادہ مصیبت میں پھنس گئی۔۔۔"
"وہ آپ تھے جو مرجان کی مدد سے میری بھاگنے میں ہیلپ کر رہے تھے؟"
"جی ہاں میری جان لیکن آپ اتنی چالاک ہیں کہ دونوں مرتبہ کامیابی سے پکڑی گئیں۔"
عماد نے اسکی ناک دبا کر کہا۔وانیا نے مسکراتے ہوئے جھک کر اسکے سینے پر اپنا سر رکھا۔
"عماد اصلی راگا سچ میں مر گیا تھا کیا؟"
"ہاں میری جان وہ سچ میں مر چکا تھا لیکن تم دکھی مت ہو وہ اسی قابل تھا۔۔۔وہ راگا بہت برا تھا میری جان اس کے بارے میں سوچو بھی مت تم بس اپنے اس راگا کے بارے میں سوچو جو ہمیشہ تمہارا راگا رہے گا۔"
عماد نے نرمی سے اسکے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔
"تو کیا ویرہ بھائی ہمیشہ قید رہیں گے یا انہیں موت کی سزا ہو جائے گی۔۔۔۔عماد کیا آپ انکے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟مرجان بہت پیار کرتی ہے ان سے مر جائے گی ان کے بغیر ۔۔۔"
وانیہ کی پلکیں نم ہوتی دیکھ عماد نے انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں میری جان میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن وہ خود کر سکتا ہے اگر اس سب سے توبہ کر وہ ہمیں ہر راز بتا کر ہمارا ساتھ دینا چاہے تو۔۔۔۔ویرہ کا کرائم کی دنیا میں بہت نام ہے میری جان اسکی مدد سے بہت سے دہشتگردوں کو پکڑا جا سکتا ہے۔۔۔اگر وہ مدد کرے تو ہو سکتا ہے کہ اسکی سزا میں کمی ہو۔"
عماد نے گہرا سانس لیا۔
"قصور ویرہ سے زیادہ نا انصافی کے اس دور کا ہے جو نہ جانے کتنے ہی عبداللہ کو دہشت بننے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔۔"
وانیا نے پوری بات سمجھ کر افسردگی سے ہاں میں سر ہلایا۔
"خدا کرے وہ آپ کی بات کو سمجھ جائیں۔۔۔"
پھر اسے ارد گرد کے ماحول کا خیال آیا تو اس پرائیویٹ پلین کو دیکھتے ہوئے عماد سے پوچھنے لگی۔
"ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔"
"ابھی پتہ لگ جائے گا افغان جلیبی سرپرائز ہے تمہارے لیے۔۔۔ویسے بھی ہم بس پہنچ چکے ہیں۔۔۔"
عماد نے اسے واپس اسکی سیٹ پر بیٹھا کر سیٹ بیلٹ پہنائی۔پلین کے لینڈ ہونے کے بعد عماد نے اسکو اپنی جیکٹ پہنائی اور اپنے ساتھ لگاتے ہوئے وہاں سے باہر لے آیا۔
اتنے اندھیرے میں وانیا کچھ دیکھ نہیں پا رہی تھی اس لیے جگہ کا اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن وہ ائیر پورٹ کافی کھلی جگہ پر واقع تھا۔وہاں سے آ کر انہوں نے ایک گاڑی لی اور پھر گاڑی کے رکنے پر عماد نے اسے آنکھیں بند کرنے کا کہا۔
"کیوں کروں آنکھیں بند؟"
وانیا نے منہ بنا کر پوچھا تو عماد شرارت سے اسکے کان کے قریب جھکا۔
"کیونکہ کھلی آنکھوں سے میری حرکتیں دیکھو گی نا تو نہ جانے کب تک آئینے میں خود سے نگاہیں نہیں ملا پاؤ گی۔۔۔"
اس بات پر وانیا کا چہرہ گلال ہوا اس نے فورا اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں۔عماد نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور اونچے نیچے راستوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔
"اب اپنی آنکھیں کھول لو جان۔۔۔ "
وانیا نے فوراً اپنی آنکھیں کھول لیں اور حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگی۔اک پل لگا تھا اسے وہ جگہ پہچاننے میں۔وہ ان پہاڑوں میں اسکا اور عماد کا وہی گھر تھا جہاں وہ پہلے رکے تھے۔
"پہلے یہ گاؤں دہشت گردوں کی حکومت میں تھا لیکن اب یا تو وہ مارے جا چکے ہیں یا فوج کی قید میں ہیں۔ اب یہ گاؤں صرف ایک گاؤں ہے اور اس گاؤں میں یہ چھوٹا سا گھر تمہارا اور میرا تھا۔اسی لیے اسے خرید لیا میں نے تاکہ یہ ہمیشہ ہمارا ہی رہے۔"
عماد کی بات پر وانیہ نم آنکھوں سے مڑی اور بھاگ کر عماد کے سینے سے لگ گئی۔
"تھینک یو عماد یہ بہت اچھا گفٹ ہے۔۔۔"
عماد نے ہنستے ہوئے اسکی چھوٹی سی ناک کو چوما۔
"گفٹ یہ نہیں میری جان تمہارا گفٹ تو یہ ہے۔۔۔"
پاس پڑے میز سے ایک ریڈ کور میں لپٹا  باکس اٹھا کر عماد نے وانیا کے ہاتھ پر رکھا۔وانیا نے اسے کھولنا چاہا تو عماد نے اسکے ہاتھ پکڑ لیے۔
"ارے ابھی نہیں میری جان ابھی رک جاؤ پہلے میرے ساتھ چلو تم۔۔۔"
عماد اسے لے کر گھر کی پچھلی جانب آیا جہاں پر ایک بالکونی سی بنی تھی لیکن وہ کافی وصیح تھی اور اس بالکونی سے پورا گاؤں دیکھائی دیتا تھا۔
وانیا وہ خوبصورت منظر دیکھ کر مسکرا دی۔تبھی برفباری شروع ہوئی اور سرد ہوا کی ایک لہر وہاں آئی تو عماد نے اسکا کپکپاتا وجود اپنی آغوش میں بھر لیا۔
"کیسا لگا میرا سرپرائز؟سوچا زندگی کی شروعات اسی جگہ سے کرتے ہیں جس جگہ پر ہم پہلی بار ملے۔۔۔"
وانیا نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔
"نہیں جی آپ کو ٹھیک سے یاد بھی نہیں ہم پہلی مرتبہ میری یونیورسٹی میں ملے تھے چلیں وہاں چل کر زندگی کی شروعات کرتے ہیں۔۔۔"
وانیا نے شرارت سے کہا تو عماد کا قہقہ انکے گھر میں گونجا۔
"جو میں نے کرنا ہے نا جان وہ سب یونیورسٹی میں نہیں کر سکتے۔"
عماد نے ہنس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسکی کان کی لو کو دانتوں میں دبایا تو وانیہ کانپ اٹھی۔
"عع۔۔۔۔عماد بابا ماما۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے گھر چلتے ہیں نا۔۔۔"
وانیا اسکی پناہوں سے نکلنے کے لیے بہانے گھڑنے لگی۔
"تمہارے بابا سے پورے ہفتے کی چھٹی لے کر آیا ہوں میں۔اب ایک ہفتے کے بعد تمہاری بہن کی رخصتی کے ساتھ ساتھ ہمارا ولیمہ ہوگا اور یہ عرصہ تم ہر پل میری پناہوں میں گزارو گی میری افغان جلیبی۔۔۔بولا تھا نا کامیاب ہو کر تمہیں اپنی آغوش کا پھول بناؤں گا۔۔۔"
عماد نے اسے پورے ارادے سے باخبر کرتے ہوئے اسکے وجود پر موجود اپنی جیکٹ اتار دی تو سردی کی شدت سے بچنے کے لیے وانیا اسکی پناہوں میں چھپ گئی۔
"عماد۔۔۔"
عماد نے اسکا سر اپنے سینے سے نکال کر اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے تو وانیا نے گھبرا کر اسے پکارا لیکن اسے ہوش ہی کہاں تھا۔
"عماد پلیز۔۔۔"
اپنی شرٹ کے پیچھے موجود زپ کھلتی محسوس کر وانیا کانپ کر اسکی پناہوں میں چھپی تھی۔عماد نے پیچھے سے اسکی گردن پکڑ کر اسکا سر اونچا کیا۔
"اپنے ایک ایک پل کی تڑپ کا حساب لوں گا تم سے آج۔۔۔تیار کر لو خود کو بہت لمبی رات ہے یہ۔۔۔"
اتنا کہہ کر عماد نے نازک ہونٹوں کو بہت شدت سے اپنی محبت کا نشانہ بنایا۔
کچھ دیر بعد وہ اس سے دور ہوا تو کپکپاتے وجود کے ساتھ وانیا اس کی باہوں میں چھپ گئی۔
"چلو تمہارا گفٹ کھولتے ہیں۔"
عماد نے اسے اندر لا کر وہ ریڈ باکس اسکے ہاتھ میں پکڑ آیا تو وانیا نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے وہ گفٹ کانپتے ہاتھوں سے کھولنا شروع کر دیا۔
کوور اتار کر اس نے وہ ڈبا کھولا تو اسے اندر کالے رنگ کا کپڑا نظر آیا۔وانیا نے اس کپڑے کو پکڑ کر دیکھا تو اسکا چہرہ چھوڑ کر پورا وجود ہی گلال ہو گیا۔
"یہ گفٹ ہے عماد؟"
وانیہ نے صدمے سے پوچھا۔
"ہاں لخت جگر یہی گفٹ ہے تمہارا شوہر بہت زیادہ کنجوس ہے اس لیے اسی پر گزارا کرو۔۔۔"
وانیہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔
"آپ تو سچ میں بھی بہت زیادہ بے شرم ہیں۔۔۔"
عماد نے قہقہ لگا کر اسے اپنی باہوں میں بھر لیا۔
"ہاں میری افغان جلیبی اس میں بے شرمی کی میں نے ایکٹنگ نہیں کی تھی۔یہ تمہاری بری قسمت ہے کہ تمہارا شوہر سچ میں بہت بے شرم ہے۔۔۔۔اف تمہاری آدھی زندگی تو شرمانے میں ہی گزرنے والی ہے۔"
عماد نے اسکے ہونٹوں کو اپنے دانتوں میں لیتے ہوئے کہا تو وانیہ گھبرا کر اپنی آنکھیں میچ گئی۔
"اب شرافت سے جاؤ اور اسے پہن کر آؤ ورنہ خود پہنانا زیادہ اچھا لگے گا مجھے۔۔۔۔"
وانیا نے اسے بے چارگی سے دیکھا لیکن اس ظالم کو کہاں احساس آنا تھا۔
"چلو ٹھیک ہے میں ہی پہنا دیتا ہوں۔۔۔"
عماد نے اسکے کندھے سے شرٹ کو سرکاتے ہوئے کہا تو وانیہ گھبرا کر اس سے دور ہوئی اور بھاگ کر دوسرے کمرے میں بند ہو گئی۔عماد کا قہقہ گونجا۔
"جلدی سے باہر آؤ جان ورنہ میں وہاں آ گیا تو اچھا نہیں ہو گا۔"
پندرہ منٹ بعد بھی جب وانیہ باہر نہیں نکلی تو عماد نے آواز لگائی۔وانیہ جو کب سے گھٹنوں سے بھی اوپر تک آتا وہ سلیو لیس لباس پہنے کھڑی تھی عماد کی بات پر کانپ اٹھی۔
مرتی کیا نہ کرتی وہ آخر کار دروازہ کھول کر باہر آئی تو عماد کی نظریں اس پر پڑتی پلٹنا ہی بھول گئیں۔
اسے سر تا پیر دیکھتا عماد آگے بڑھا اور باہوں میں بھر کر بیڈ پر لے آیا۔
"عماد۔۔۔۔سو جاتے ہیں نا۔۔۔بہت سردی ہے"
وانیہ کی معصوم سی کوشش پر عماد مسکرایا اور ہاتھ میں کب سے پکڑا وہ ڈائمنڈ کا چھوٹا سا نیکلیس اسکی گردن میں پہنا کر اسکی گردن کو چومنے لگا۔
"سونا تو بھول ہی جاؤ نا آج افغان جلیبی اور فکر مت کرو آج آگ کے بغیر سردی مٹائے گا تیرا یہ راگا۔۔۔۔بہت صبر کیا تمہارے اس جن نے پری اب یہ تمہیں قراقرم کے پہاڑوں میں نہیں اپنی محبت میں قید کر لے گا۔"
اتنا کہہ کر عماد نے اپنی شرٹ اتاری اور اسکے کندھوں پر جھکا اپنی شدت اسکے نازک وجود پر بکھیرنے لگا۔
"عماد ۔۔۔۔"
جب اسکی شدتیں وانیہ کی برداشت سے باہر ہو گئیں تو روتے ہوئے اسکی پناہوں میں چھپ کر خود کو اس سے بچانا چاہا۔
"عماد۔۔۔"
"آج مظبوط کرو خود کو لخت جگر کیونکہ تمہارا راگا آج اپنی افغان جلیبی کو کھا کر ہی چھوڑے گا۔۔۔۔"
عماد نے اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اپنے سینے سے نکالا اور اسکے وجود پر اپنی پکڑ مظبوط کی۔ اسکی گھبراہٹ اور معصوم مزاحمت کو بے بس بناتا اسکا پور پور اپنا بنا گیا۔

   0
0 Comments