14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 28
منزل عشق قسط 28
سالار گھر واپس آیا تو جنت کو اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوا جو بس خاموشی سے بیڈ پر بیٹھی تھی۔
" میری بے بی گرل کب آئی کسی نے بتایا ہی نہیں مجھے۔۔۔"
سالار نے اسکی ٹھوڈی پکڑ کر کہا لیکن ایمان کے آنسو اور اسکے ہاتھ میں وہ کالے کپڑے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
"کیا آپ سکندر ہیں سالار جس نے بہت سے لوگوں کو مارا ہے؟"
جنت کے سوال پر سالار خاموش ہو گیا اور ڈریسنگ کے سامنے آ کر اپنے کف لنکس کھولنے لگا۔
"ہاں میں ہی ہوں۔۔۔"
جنت جو یہ سوچ رہی تھی کہ وہ اسکی بات کو جھٹلائے گا یا صفائی دے گا اسکے اس طرح سے سچ کہنے پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"کیوں سالار کیوں کر رہے ہیں آپ ایسا؟"
جنت کی بات پر سالار مڑ کر اسکے پاس آیا اور اسکے ہاتھ سے سکندر والے کپڑے لے کر لاک میں رکھے۔
"نہیں بتا سکتا جنت بس اتنا سمجھو کہ میں کچھ غلط نہیں کر رہا۔۔۔"
سالار کی بات پر جنت غصے سے آگے بڑھی۔
"لوگوں کی جان لینا آپ کو غلط نہیں لگتا؟کیسے بے حس انسان ہیں آپ؟"
جنت نے اسکا گریبان پکڑ کر پوچھا تو سالار نے بس نرمی سے اسکے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹا دیے۔
"ایسے لوگ جو معصوموں کو جینے کے قابل نہیں چھوڑتے انکی زندگی ہی ان کے لیے جہنم بنا کر نا انصافی کی وجہ سے آزاد گھومتے ہیں اور مزید لوگوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔۔۔ایسے لوگوں کو مارنا بے حسی ہے نا جنت تو یہ مجھے ہزار مرتبہ قبول ہے۔۔۔۔"
سالار نے اتنا کہہ کر اسے چھوڑا اور اطمینان سے واش روم کی جانب چل دیا۔
"مم۔۔۔میں نہیں کرنے دوں گی ایسا میں ابھی جا کر سب سچ سچ بتا دوں گی بابا کو۔۔۔"
جنت نے دھمکی دی تو سالار بس اطمینان سے مسکرایا۔جنت فوراً دروازے کی جانب گئی لیکن دروازہ لاک تھا اور اسکی ہزار کوشش کے باوجود نہیں کھل رہا تھا۔
"مجھے جانیں دیں یہاں سے سالار۔۔۔"
جنت نے روتے ہوئے کہا تو سالار اسکے پاس آیا اور اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔
"نہیں جان اب اس کمرے سے تب تک نہیں جا سکتی تم جب تک اپنے شوہر پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھ لیتی۔"
سالار نے اطمینان سے اسکے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے کہا جبکہ جنت تو اب اسکی قربت سے بھی خوفزدہ ہو رہی تھی۔
"مجھے میرے بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔"
جنت نے یہ اتنی معصومیت سے کہا تھا کہ سالار کو اس پر ٹوٹ کے پیار آیا۔
"سمجھو کہ اب تم رخصت ہو کر آ چکی ہو جنت کیونکہ تمہیں آزادی دے کر نا غلطی کی ہے میں نے اب ز یہیں رہو گی تم میرے قریب۔۔۔۔"
سالار نے اسے سینے سے لگایا لیکن آج جنت کو ان پناہوں میں تحفظ کی بجائے خوف محسوس ہو رہا تھا۔
"پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔"
"آں ہاں بے بی گرل نکاح زندگی بھر کا ناطہ ہوتا ہے اب جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں بس تمہارا ہوں۔۔۔"
سالار پکوان اسکے گرد اپنی پکڑ مظبوط کی جبکہ جنت بس اسکی پناہوں میں بہت دیر روتی رہی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
معراج ایمان کو گھر لے جانے کی بجائے ایک سنسان جگہ پر لے آیا تھا۔اس نے ایمان کا ہاتھ چھوڑا تو ایمان سہم کر اس سے دور ہوئی تھی۔
"ت۔۔۔تم نے مار دیا۔۔۔ان سب کو مار دیا۔۔۔۔"
معراج نے بس ایک گہرا سانس لیا اور موبائل نکال کر کان سے لگایا۔
"سس۔۔۔سالار بھائی میں نے ااا۔۔۔اے کے کو مار دیا ۔۔۔ "
کچھ دیر تک سالار خاموش رہا۔
"تم کہاں ہو اس وقت؟"
"ااا۔۔۔اپنے سیکریٹ کواٹر۔۔۔"
معراج ابھی بھی ایمان کو دیکھ رہا تھا جو اسے پر خوف نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
"عرفان کی موت اور تمہاری غیر حاضری سے خادم تم پر ہی شک کرے گا۔۔۔۔ہمیں کچھ سوچنا ہو گا۔۔۔وہیں رہنا آ رہا ہوں میں وہاں۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر سالار نے فون بند کر دیا ۔ایمان کا خوف دیکھ کر معراج اسکے پاس آیا اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیے۔
"ڈڈ۔۔۔ڈرو مت ایمان۔۔۔مم۔۔۔میں تو فرینڈ ہوں نا تمہارا۔۔۔"
"نہیں ۔۔۔نہیں تم مونسٹر ہو بلکل ان کی طرح۔۔۔"
ایمان اتنا کہہ کر زمین پر بیٹھی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ جو بچپن سے جانوروں میں رہی تھی اسے لگا تھا کہ اسکا معراج اس کے جیسا ہے معصوم تھا لیکن وہ کتنی غلط تھی۔
"صص۔۔۔صحیح کہا تم نے ہوں مم۔۔۔میں مونسٹر۔۔۔اا۔۔۔اور تب تک مونسٹر ہی رہوں گا۔۔۔جج۔۔۔جب تک کوئی ایمان ااا۔۔۔اپنی آنکھوں سے اپنے ببب۔۔۔باپ کو اپنی ماں کی جج۔۔۔جان لیتے دیکھے گی۔۔۔تت۔۔۔تب تک جب تک ااا۔۔۔اپنے ہی گھر میں ااا۔۔۔۔ایک شیطان اس کو کک۔۔۔کھلونا بنا کر رکھے گا۔۔۔۔ہوں میں مونسٹر ایمان۔۔۔۔ااا۔۔۔اور ایسے لوگوں کے لیے ہہ۔۔۔ہمیشہ سکندر مونسٹر رہے گا۔۔۔"
معراج نے اپنی سبز آنکھوں سے ایمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو آج چشمے کے پیچھے چھپی ہوئی نہیں تھیں۔
"تت۔۔۔تم نے اپنی آنکھوں سے۔۔۔اا۔۔۔اپنی ماں کو مرتے ددد۔۔۔دیکھا تھا۔۔۔ااا۔۔۔اور میں نے اپنی مم۔۔۔ماں اور باپ دونوں کو ۔۔۔جج۔۔۔جانتی ہو کس نے مارا تھا انہیں؟"
معراج کے سوال پر ایمان نے بس اپنی پر خوف نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"تت۔۔۔تمہارے بابا نے۔۔۔"
معراج نے وحشت سے اپنی مٹھیاں کس لیں۔چودہ سال پہلے کا وہ واقع یاد کر کے معراج کا روم روم کرب میں مبتلا ہو جاتا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
(چودہ سال پہلے)
عشال معراج کو الماری میں چھپا کر گئی تھی جہاں وہ کب سے ڈرا سہما بیٹھا تھا پھر اچانک اپنے باپ کے چلانے پر وہ الماری میں سے نکلا اور بالکونی میں آ کر پلر کے پیچھے چھپ گیا۔وہ اس نقاب پوش اور اپنے ماں باپ کو دیکھ سکتا تھا۔
اس درندے نے اسکی آنکھوں کے سامنے اسکے باپ کو مار دیا لیکن معراج کا جسم خوف سے جم گیا تھا۔اسکے حلق سے کوئی چیخ بھی نہیں نکلی تھی بس خاموشی سے نم سبز آنکھوں سے وہ منظر دیکھتا جا رہا تھا۔
پھر اس نے عشال کو گولی ماری تو معراج اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ کو روکتا کمرے میں جا کر بیڈ کے نیچے چھپ گیا۔
کتنی ہی دیر معراج بیڈ کے نیچے چھپا زارو قطار روتا رہا تھا پھر پولیس والے وہاں پر آئے اور اسے بیڈ کے نیچے سے نکالا۔
معراج نے نہ تو پولیس والوں کو اس واقعے کے بارے میں کچھ بتایا تھا نہ ہی شایان اور وجدان کو۔معراج نے تو اس سفاک شخص کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔
لیکن تین لفظ معراج کے معصوم ذہن پر نقش ہو چکے تھے ملک،سلطان اور سکندر۔معراج نے فیصلہ کیا کہ اسے ان سب میں سے سکندر بننا تھا وہ سکندر جو سلطان اور ملک کو انکے کیے کی سزا دے گا۔
اسی لیے معراج نے وجدان اور شایان سے سب سچ چھپایا کیونکہ وہ اس شخص کو خود مارنا چاہتا تھا۔اسکو اس حد تک بے بس کرنا چاہتا تھا جس حد تک اسکی ماں تھی۔
لیکن معراج کر بھی کیا سکتا تھا وہ تو کمزور تھا بہت زیادہ کمزور۔ایک ہکلانے والا کمزور سا لڑکا جو بڑا ہو کر بھی ویسا ہی رہتا۔
کیا کرتا وہ سکندر بن کر اسکے بولنے پر ہی اسکے دشمن ڈرنے کی بجائے ہنسنے لگتے۔اس دن پہلی مرتبہ معراج کو خود سے اور اپنی کمزوری سے نفرت ہوئی تھی بے تحاشہ نفرت۔
معراج مردہ آنکھوں سے اٹھا اور آئنے کے سامنے کھڑا ہوا۔
"مم۔۔۔۔میں سکندر ہوں۔۔۔۔"
ہکلانے پر اس نے معراج کے چھوٹے سے ماتھے پر بل آئے اور اسنے دوبارہ کوشش کی تھی۔
"مم ۔۔۔میں سکندر ہوں۔۔۔"
پھر سے ہکلانے پر معراج نے غصے سے ٹشو پیپر پکڑے اور یکے بعد دیگرے اپنے منہ میں ٹھوس کر خود کو سزا دی۔۔
ٹھھ۔۔۔ٹھیک سے بولو۔۔۔
اس نے ٹشوز کو منہ میں رکھ کر کہنا چاہا لیکن پر سے ہکلانے پر معراج نے روتے ہوئے وہ ٹشو اپنے منہ میں سے نکالے اور پھر سے بولنے کی کوشش کی۔
"سس۔۔۔سکندر۔۔۔"
اب کی بار غصے میں آ کر معراج نے اپنے گال پر پوری طاقت سے مکا مارا۔
"ٹٹ۔۔۔ٹھیک سے بولو ۔۔"
معراج مسلسل روتے ہوئے کہہ رہا تھا اور ہر بار ہکلانے پر اپنے منہ پر تھپڑ مارتا۔اس طرح وہ اپنا چہرہ لال کر چکا تھا لیکن اسکا ہکلانا بند نہیں ہوا تھا۔
اسی طرح وہ گھٹنوں میں چہرہ دے کر روتے ہوئے وجدان کو ملا تھا۔
"کیا ہوا معراج؟"
وجدان نے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر محبت سے پوچھا۔
"ددد۔۔۔دیکھیں نا ماموں۔۔۔مم۔۔۔میں کمزور ہوں بہت۔۔۔مم۔۔۔میں ہکلاتا کیوں ہوں۔۔۔ممم۔۔۔میں کمزور ہوں۔۔۔"
معراج اتنا کہہ کر پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔وجدان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔
"تم کمزور نہیں ہو معراج جسمانی کمزوری کسی کو کمزور نہیں بناتی۔۔۔ہمیں کمزور ہمارا دل ہمارا جزبہ بناتا ہے۔۔۔"
وجدان کی بات پر معراج نے حیرت سے اپنے جیسی سبز آنکھوں میں دیکھا۔
"تمہاری ماں ایک بہت زیادہ بہادر اور طاقت ور عورت تھی معراج۔۔۔یہ دنیا تو یہ بھی کہتی ہے کہ عورت کمزور ہے لیکن عشال نے اس بات کو جھوٹ ثابت کیا۔۔۔"
اب وجدان نرمی سے اسکے بالوں میں اپنا ہاتھ چلا رہا تھا۔
"وہ طاقت ور مردوں سے بھی زیادہ طاقتور تھی جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ اس نے اپنی کمزوری کو اپنے جذبے کے آڑے نہیں آنے دیا بلکہ اسکی کمزوری کو اپنی طاقت بنایا۔۔۔"
معراج بس خاموشی سے کھڑا اپنے ماموں کی باتیں سن رہا تھا اور انہیں ذہن نشین کر رہا تھا۔
"یاد رکھنا معراج طاقت ور وہ ہے جو اپنی کمزوری سے نفرت نہیں کرتا بلکہ فخر سے اس کمزوری کو اپنی طاقت بناتا ہے۔۔۔اب یہ تم پر ہے کہ تم کمزور ہو یا نہیں؟"
وجدان نے اسے سمجھا کر اسکا ماتھا چوما اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔معراج بہت دیر خاموشی سے کھڑا رہا پھر شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
"مم ۔۔۔میں سکندر ہوں۔۔۔"
اس مرتبہ معراج کو اپنا ہکلانا گراں نہیں گزرا تھا بلکہ وہ ہکلانا اسے اپنی طاقت لگا تھا۔
گزرے وقت کے ساتھ معراج نے اسے اپنی طاقت بنایا۔اپنے دماغ کی طاقت کو کمپیوٹر کے راز سمجھنے پر لگایا۔
ہر کوئی اس بات سے بے خبر تھا کہ فیل ہونے والا اور ہکلانے والا وہ ڈرپوک سا لڑکا ٹاپ کلاس ہیکر سکندر تھا جس نے صرف سترہ سال کی عمر میں بیٹھے بیٹھے دو منی لانڈرنگ کرنے والے سیاستدانوں کے اکاؤنٹ ہیک کر انہیں اجاڑا تھا اور وہ پیسہ حق داروں تک پہنچایا تھا۔
اور اپنی وہ پہلی ہیکنگ ہی معراج نے اتنی آؤٹ کلاس کی تھی کہ کوشش کے باوجود کوئی اس ہیکر کو ٹریک نہیں کر پایا تھا۔
معراج اپنی کلاس میں جان بوجھ کر فیل ہوتا یا کم نمبر لاتا تا کہ لوگ اسے بوندھو سمجھیں اور اسکی اصلی طاقت سے بے خبر رہیں۔
معراج کا اصلی نشانہ دو لوگ تھے ملک اور سلطان۔۔۔ملک تو وہ جانتا تھا کہ کون ہے لیکن وہ کینیڈا رہتا تھا جہاں معراج کا پہنچ پانا مشکل تھا لیکن سلطان معراج کے لیے بس ایک نام اور ایک آواز سے زیادہ کچھ نہ تھا۔
دو سال تک معراج یہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ سلطان کون ہے۔پھر ایک دن معراج کو پتہ چلا کہ اسکے پہلے دشمن عثمان ملک کا بیٹا پاکستان آیا تھا اور معراج نے اسے ہی اپنا پہلا شکار بنانے کا سوچا۔
بیٹے سے باپ تک پہنچنا آسان ہوتا۔
❤️❤️❤️❤️
سالار کو پاکستان آئے ہوئے ایک ہفتہ ہوا تھا اور ابھی بس وہ خاموشی سے ایک پارٹی کو جوائن کرنا چاہ رہا تھا۔سیاستدان بننا تو بس ایک دیکھاوا تھا وہ تو اس شخص تک پہنچنا چاہتا تھا جس نے اپنے گناہ کا الزام اپنے باپ پر لگا کر اسے برباد کیا تھا۔
اس دن سالار اپنے گھر کی جناب واپس جا رہا تھا جب اسکے موبائل پر ایک میسج آیا۔
"نیچے دیے گئے پتے پر آؤ۔۔۔"
وہ میسج پڑھ کر سالار کے ماتھے پر بل آئے تھے۔پھر ایک اور میسج پڑھ کر سالار تھوڑا پریشان ہوا۔
"تمہاری گاڑی میں بم ہے اگر شرافت سے جہاں کہا ہے وہاں نہ آئے تو ایک سیکنڈ لگے گا مجھے تجھے اڑانے میں۔۔۔"
سالار پہلے تو پریشانی سے ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے یہ وہی دشمن ہو جسکی وجہ سے وہ لوگ ملک بدر ہوئے تھے۔
اپنی بندوق کو سنبھالتا وہ اس جگہ پر آیا جو ایک سنسان سا گودام تھا۔سالار نے اپنا موبائل دیکھا جہاں ایک اور میسج تھا۔
"تمہاری پسٹل بے کار ہے شرافت سےا اسے فرش پر رکھ کر اپنے ہاتھ اوپر کرو۔۔۔"
سالار کے بات نہ ماننے پر ایک گولی اسکے کان کے پاس سے گزری تو سالار نے فوراً گن فرش پر رکھ کر ہاتھ اوپر کئے۔
"سامنے آ کر بات کرو مجھ سے تا کہ مجھے بھی پتہ چلے کون ہو تم یا اتنی ہمت نہیں تم میں؟"
سالار نے کھلا چیلنج کیا تو تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے اپنے سر کے پیچھے بندوق کی نوک محسوس ہوئی۔تبھی سالار تیزی سے مڑا اور اس شخص کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بندوق اسکے ہاتھ سے گرا دی۔
کالے کپڑوں والے اس شخص نے فوراً سالار پر حملہ کر کے ایک گھونسہ اسکے منہ پر مارا۔سالار نے بھی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو دبوچا اور وہ نقاب اسکے چہرے سے ہٹا دیا۔
"معراج۔۔۔"
سالار کے لہجے میں حیرت تھی اور معراج اسکی زبان سے اپنا نام سن کر حیران ہوا۔
"تم مجھے کیوں مارنا چاہتے ہو؟"
سالار نے حیرت سے پوچھا لیکن معراج نے پھرتی سے اپنا آپ اس سے چھڑایا اور سالار کے گھٹنے پر شور سے پاؤں مار کر اسے فرش پر گرا دیا۔فورا ہی معراج نے اس کے پیچھے آ کر اس کی گردن کو دبوچا۔
"سس۔۔۔سکندر تجھے نہیں تیرے ااا ۔۔۔۔اس باپ کو مارنا چاہتا ہے جس سے وو۔۔۔وہ تیرے بدلے میں یہاں بلائے گا۔۔۔"
معراج کی بات پر سالار کے ماتھے پر بل آئے ضرور باقی سب کی طرح معراج بھی عثمان کو ہی قاتل سمجھتا تھا۔
"نہیں معراج تم غلط ہو میرے بابا نے نہیں مارا تمہارے ماں باپ کو۔۔۔"
سالار کی بات پر معراج نے اسکی گردن پر اپنی پکڑ مظبوط کی تھی۔
"جج۔۔۔جھوٹ مت بولو۔۔۔۔نن۔۔۔نہیں چھوڑوں گا ااا۔۔۔اسے اسکے گناہ کی سزا ضضض۔۔۔ضرور ملے گی۔۔۔"
سالار نے معراج کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے گرایا اور خود اپنا ہاتھ اسکی گردن پر رکھ کر اسے زمین سے لگایا۔
"میری بات سمجھو معراج نہیں مارا میرے بابا نے انہیں اگر وہ مارتے تو کیا اپنے خلاف ایک بھی ثبوت چھوڑتے وہ؟"
معراج ٹھٹک کر رکا اور اسکی بات پر غور کرنے لگا۔
"جس نے انہیں مارا تھا معراج اس نے جھوٹ بولا اپنے گناہ کا الزام میرے بابا پر لگایا تا کہ خود بچا رہے لیکن اب میں اسے نہیں چھوڑوں گا وہ جو کوئی بھی ہے میرے ہاتھ سے نہیں بچ سکتا۔"
معراج نے سالار کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اپنی گردن پر سے ہٹایا اور اٹھ بیٹھا۔
"مم۔۔۔میں تمہارا یقین کیوں کروں؟"
"کیونکہ ہمارا دشمن ایک ہی ہے بھائی جس نے تمہارے ماں باپ کی جان لی اور میرے ماں باپ کی زندگی اجاڑ دی۔۔۔اب وقت ہے معراج کے آنکھیں کھولو اور اس دشمن کو پہچانو کیونکہ وہ یہی چاہتا تھا کہ سب کا دھیان اس سے ہٹ کر میرے بابا پر رہے۔۔ "
معراج سالار کی بات پر خاموش ہو گیا۔سالار کی بات میں حکمت اور سچائی وہ محسوس کر سکتا تھا۔یعنی یہ سب کیا دھرا صرف سلطان کا تھا۔
"سسس۔۔۔سلطان۔۔۔۔سلطان نے مارا تھا انہیں۔۔۔"
معراج کی بات پر سالار نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"اا۔۔۔اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اسے مم۔۔ میرے ماما بابا کی جان لیتے۔۔۔چہرہ نہیں دیکھا تھا ککک۔۔۔کیونکہ سب نے چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔۔۔۔لل۔۔۔لیکن نام جانتا ہوں اسکا۔۔۔۔"
سالار اس بات پر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
"سلطان ضرور اسکا اصلی نام نہیں ہے معراج وہ ضرور کوئی اور ہے۔۔۔کیا تم کچھ اور نہیں جانتے کچھ بھی؟"
معراج نے یاد کرنے کی کوشش کی اتنے سال پہلے کی باتیں یاد کرنا کہاں آسان تھا۔
"وو۔۔۔وہ کہہ رہا تھا۔۔۔کک۔۔۔کہ مما نے اسکے دو ببب۔۔۔بھائیوں کو مارا تھا۔۔۔۔ااا۔۔۔اسی لیے وہ انہیں مارنا چاہتا تھا۔۔۔"
معراج اپنی بات پر خود ہی مسکرایا اور جلدی سے اس میز کے پاس گیا جہاں اسکا لیپ ٹاپ پڑا تھا۔چودہ سال پہلے کی ہسٹری چیک کر کے اسے ان دو بھائیوں کی لسٹ ملی تھی جن کا انکے گھر میں قتل ہوا ہو۔
"یہی دونوں تھے وہ جن کو تمہاری مما نے مارا۔۔۔۔دیکھو نیوز میں ہے کہ یہ دونوں ریپ کیس سے آزاد ہو گئے تھے اسکے بعد کسی نے انکے گھر جا کر انہیں مار دیا۔"
معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔
"لل۔۔۔لیکن ان کی فیملی ڈیٹیل مم۔۔۔ میں کسی بھائی کا۔۔۔۔ذذذ۔۔۔ذکر نہیں۔۔۔"
سالار معراج کی بات پر خاموش ہو گیا۔
"اسکا مطلب ضرور اس نے اپنا تعلق ان دونوں کے ساتھ مٹا دیا تا کہ اسکا نام خراب نہ ہو۔۔۔یعنی اس سلطان کی پہنچ کافی زیادہ ہے۔۔۔ "
سالار نے اپنا خدشہ ظاہر کیا لیکن معراج کے چہرے پر بس ایک مسکان آئی۔
"ہہ۔۔۔ہر جگہ سے نہیں۔۔۔"
معراج نے فوراً نادرا کی ڈیٹیلز ڈھونڈنا چاہیں کیونکہ وہ شخص کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو نادرا کی ہسٹری نہیں بدل سکتا تھا۔
کچھ ہی دیر لگی تھی معراج کو نادرا کا سسٹم ہیک کر کے وہ ڈیٹیل نکالنے میں۔
"ککک۔۔۔کمال شفیق سب سے چھوٹا بھائی۔۔۔۔ااا۔۔۔مان شفیق اس سے بڑا ببب۔۔۔بھائی۔۔۔"
معراج ایک پل کو خاموش ہوا۔
"خخخ۔۔۔خادم شفیق سب سے بڑا بھائی۔۔۔"
خادم شفیق کے نام پر سالار بھی حیران ہوا کیونکہ خادم نہ صرف بہت بڑا سیاستدان تھا بلکہ ماضی میں عثمان کا بہت قریبی اور بھروسے مند ساتھی بھی تھا۔
"اس کا مطلب میرے بابا کو دھوکا دینے والا ان کا سب سے قریبی دوست تھا۔۔۔۔"
سالار نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔
"زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔"
"ننن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔"
معراج کے منع کرنے پر سالار نے اسے حیرت سے دیکھا۔
"ااا۔۔۔اسے مار کر ہمیں ککک۔۔۔کوئی فائیدہ نہیں ہو گا۔۔۔للل۔۔۔لوگوں کی نظر میں یہ شش۔۔۔شیطان بہت عظیم ہے۔۔۔۔ہہ۔۔۔ہمارے مارنے سے وہ۔۔۔۔ااا۔۔۔ایک ہیرو بنے گا اور سکندر شیطان۔۔۔۔۔ہہہ۔۔۔ہم سب کو اسکا اصلی چہرہ ددد۔۔۔دیکھائیں گے تاکہ لوگ ااا۔۔۔۔اس کا اچھائی کا لبادہ اترے۔۔۔۔"
معراج کی بات پر سالار نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔
"اور میں اس میں تمہارا ساتھ دینا چاہوں گا معراج۔"
معراج نے انکار میں سر ہلایا اور لیپ ٹاپ کو بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"مم۔۔۔۔مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔۔۔"
سالار نے آگے بڑھ کر معراج کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"جانتا ہوں میرے بھائی اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں تمہیں کمزور سمجھتا ہوں بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک سے بھلے دو لوگ ہوتے ہیں معراج تمہارا دماغ اور میری آواز مل کر اس سلطان کی بربادی بنے گی۔۔۔۔"
معراج نے سالار کی بات پر غور کیا۔اگر وہ خود سلطان تک پیغام پہنچاتا تو سلطان کو اس کے ہکلانے کی وجہ سے اس پر شک ہو جاتا لیکن کسی اور کا یہ کرنا معراج پر ہلکا سا بھی شک نہ جانے دیتا اور معراج ایک معصوم شکار بن کر اسکا بھروسہ جیت سکتا تھا۔
"سسس۔۔۔۔سکندر کی آنکھیں سبز ہیں۔۔۔"
معراج کی بات پر سالار مسکرا دیا۔
"کانٹیکٹ لینسز بھی کمال کی چیز ہیں نا ویسے۔۔۔لوگ خوبصورت بننے کے لیے استعمال کرتے ہیں میں سکندر بننے کے لیے کر لوں گا۔۔۔"
معراج نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اس خادم کو تباہ کرنے کی شروعات وہ دونوں آپس میں مل کر ہی کر چکے تھے۔
❤️❤️❤️❤️
سالار نے معراج نے مل کر سلطان کے ہر قریبی آدمی کا خاتمہ کیا تھا لیکن معراج کو اسکا بھروسہ جیتنا تھا۔اس لیے جب معراج کو یہ پتہ چلا کہ خادم اسکے کالج میں آ رہا ہے تو معراج نے یہ پلین بنایا۔
سالار نے ہی اپنے ایک آدمی سے خادم پر گولی چلوائی اور معراج نے اسے بچا کر اسکی توجہ حاصل کی۔پھر وہی ہوا جو معراج نے سوچا تھا خادم نے اسے بہت آسان شکار سجھا۔
ایمان سے پہلی ملاقات پر ہی اس کا یہ خوف معراج کو کھٹکا تھا اسی لئے معراج نے سب سے پہلے اس کے کمرے میں کیمرے چھپائے تھے اور اس رات ایمان پر وہ ظلم ہوتا دیکھ معراج کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا۔
بغیر کچھ سوچے سمجھے وہ وہاں گیا اور عرفان کے سر پر شاپر ڈال کر اسے ویسے ہی مارا جیسے اس نے ایمان کو مارا تھا لیکن خادم کا سچ سامنے لانے میں عرفان کا کردار بہت اہم تھا اس لیے معراج اسے مار نہیں سکتا تھا۔
سالار کو جب معراج کی اس حرکت کی خبر ہوئی تو وہ بہت حیران ہوا کیونکہ معراج اپنے ہی پلین کے برعکس گیا تھا۔
"اگر کچھ گڑبڑ ہو جاتی معراج تو؟"
سالار نے اپنا خدشہ ظاہر کیا یوں عرفان کو جا کر مارنا اپنا پلین آگ میں جھونکنے کے برابر تھا۔
"کک ۔۔۔کچھ نہیں ہوتا بھائی ۔۔۔۔بب۔۔۔بھروسہ رکھیں مجھ پر ۔۔۔۔ممم۔۔۔میں نے کچھ بولا نہیں تھا۔۔۔"
معراج نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔ابھی بھی اس کا دل کر رہا تھا کہ عرفان کے وہ ہاتھ توڑ دے جنہوں نے اس معصوم پر ظلم کیا تھا۔
"بھروسہ ہے تم پر معراج خود سے بھی زیادہ۔۔۔بس کچھ ثبوت معراج پھر اس خادم کا گھٹیا چہرہ دنیا کے سامنے ہو گا۔۔۔"
معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔
"وو۔۔۔ویسا ہی ہو گا جیسا ہم نن۔۔۔نے سوچا ہے بھائی۔۔۔۔بہت جلد شیطان اپنے انجام کو ہو گا۔۔۔۔"
معراج نے مسکرا کر کہا۔خادم کو لگتا تھا کہ سب اسکے منصوبے کے مطابق چل رہا ہے،معراج اسکی مٹھی میں ہے اور وہ اسے اپنا کھلونا بنا کر استعمال کرے گا لیکن وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ خادم وہ کر رہا تھا جو معراج چاہتا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
(حال)
ایمان ابھی بھی سہمے ہوئے کونے میں بیٹھی تھی۔معراج تب سے بس خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
"مجھے لگا تم اچھے ہو۔۔۔مجھے لگا کہ تم میرے بابا جیسے شیطان نہیں۔۔۔لیکن تم بھی ویسے ہی نکلے۔۔۔۔"
ایمان نے روتے ہوئے کہا تو معراج کے ماتھے پر بل آ گئے۔
"خخخ۔۔۔خاموش رہ کر تمہیں کیا مل گگ۔۔۔گیا ایمان بس ظلم؟"
معراج کے سوال پر ایمان نے اپنا سر جھکا لیا۔
"ااا۔۔۔۔اچھائی اور معصومیت بھی ایک حد تتتت۔۔۔۔تک ہونی چاہیے ایمان خاموش رر۔۔۔۔رہنے سے ظلم بڑھتا ہے۔۔۔تت۔۔۔تم جیتی جاگتی مثال ہو۔۔۔۔"
معراج کی بات پر ایمان شرمندگی سے سر جھکا گئی ہاں کیا صلہ ملا تھا اسے خاموشی سے ظلم سہنے کا مزید ظلم۔۔۔اچانک باہر سے آنے والی آوازوں پر معراج نے اندازہ لگایا کہ سالار وہاں آ چکا ہے اس لیے اس نے ایمان کو کمرے میں بند کیا اور خود باہر آ گیا۔
"معراج کیا ہوا؟"
سالار کے بے چینی سے پوچھنے پر معراج نے اسے پوری بات بتا ی تو سالار مسکرا دیا۔
"فینٹاسٹک۔۔۔ایک شیطان تو پہنچا اپنے انجام کو۔۔۔۔اب دوسرے کی باری۔۔۔"
سالار کی بات پر معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔
"اا۔۔۔۔ایمان کمزوری ہے اس کی۔۔۔۔وہ کچھ بھی کرے گا اس کے لیے۔۔۔۔"
"اور وہ اب ہماری پکڑ میں ہے۔۔۔یہ پیغام خادم تک پہنچانا ہو گا اور پھر خادم خود ہمارے پاس آئے گا۔۔۔۔"
معراج نے ہاں میں سر ہلایا۔
"لیکن ابھی نہیں معراج زرا دو دن اسے بے چین ہونے دو تب تک تم دونوں یہیں رہنا پھر ہم خادم کو اپنے جالیں پھانس لیں گے۔"
"جج۔۔۔جی بھائی۔۔۔"
سالار نے معراج کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"مجھے فخر ہے تم پر معراج ۔۔۔"
سالار نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔معراج نے کچھ سوچ کر سالار کا لایا کھانا لیا اور ایمان کے پاس کے آیا۔
"کک۔۔۔۔کھانا کھا لو ایمان۔۔۔"
معراج کی آواز پر بھی ایمان بس خاموش رہی تھی اور اسکی اس حالت پر معراج کو اسکی فکر ہونے لگی۔
"سات سال کی تھی میں جب انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میری مما کو مار دیا ۔۔۔۔"
ایمان کی آنکھوں سے دو آنسو چھن سے ٹوٹ کر گرے۔
"تم جانتے ہو کہ کیسا لگتا ہے جب کوئی تمہاری کی آنکھوں کے سامنے تمہارے پیارے کو مارے لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ کیسا لگتا ہے جب وہ قاتل تمہارا اپنا باپ ہو۔۔۔۔۔"
ایمان کی آواز میں بہت کرب تھا۔
"میں نے ہمت کی تھی معراج ۔۔۔۔ایک بار دل کیا کہ انہیں مار دوں۔۔۔۔لیکن میں ڈر گئی تھی۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔۔"
ایمان لے پھوٹ پھوٹ کر رونے پر معراج نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔
"تت۔۔۔تم بہادر ہو ایمان۔۔۔۔اا۔۔۔اتنا سب برداشت کر کے بھی زندہ ہونا ہہ۔۔۔ہی تمہاری بہادری ہے۔۔۔۔"
ایمان آگے بڑھی اور اسکے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔معراج نے بس اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"انہیں مت چھوڑنا ملنگ وہ برے ہیں بہت برے۔۔۔۔"
ایمان نے رو کر کہا تو معراج نے ہاں میں سر ہلایا اور اسکے آنسو پونچھ دیے۔
"ببب۔۔۔س دو دن ایمان۔۔۔"
ایمان نے ہاں میں سر ہلایا پھر بس خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔اتنا تو وہ بھی سمجھ چکی تھی کہ اسکا شوہر شیطان ہے تو بس ان کے لیے جو ظلم کرتے ہیں۔