Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 31

منزل عشق آخری قسط 31
سالار کی آنکھ کھلی تو اسکی پہلی نگاہ اپنی باہوں میں سوتی ہوئی جنت پر پڑی ۔سالار کے لب بے ساختہ طور پر مسکرائے تھے۔سوتے ہوئے تو اسکی بیبی گرل اور بھی زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔سالار نا جانے کتنی ہی دیر اسکے معصوم چہرے کو دیکھتا رہا تھا۔
پھر جب اسکا ایمان ڈگمگانے لگا تو سالار نے جھک کر اپنے ہونٹ بہت ہی نرمی سے اسکے ہونٹوں پر رکھے تھے لیکن جنت تو ہر چیز سے فراموش سکون سے سو رہی تھی۔
'تمہاری نیند تو بہت ذیادہ پکی ہے بیبی گرل۔'
سالار نے بہت محبت سے کہہ کر اپنے دہکتے لب جنت کی گردن پر رکھے۔
' مما سونے دیں نا سویاں تو مت لگائیں میرے گلے پہ۔'
جنت نے آنکھیں کھولے بغیر بہت لاڈ سے کہا تو سالار ہنس دیا۔
'نہیں میرا بچہ اٹھنے کا وقت ہو گیا ہے اب اٹھنا تو پڑے گا۔'
سالار نے پیار سے کہتے ہوئے اسکے گال کو ہلکا سا دانتوں سے کاٹا تو جنت ڈر کے جلدی سے بیڈ سے اٹھی۔
'اففف۔۔۔۔کیڑا۔۔۔۔'
جنت نے کھڑے ہو کر آنکھیں کھولے بغیر اپنا گال سہلا کر کہا اور ایسا کرتے ہوئے وہ حد سے زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔
'نہیں جان میں اب کیڑا تو نہیں۔۔۔'
سالار کی آواز پر جنت نے اپنی سنہری آنکھیں بڑی کر کے سالار کو دیکھا تو رات کا گزرا ہر ایک پل اسکی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔حیا کے مارے گال دہک اٹھے تھے نظریں خود بخود جھک گئی تھیں ۔ وہ خاموشی سے بھاگنے لگی مگر سالار نے عین وقت پر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچ کر خود پر گرا لیا۔
'کہاں بھاگنا ہے بیبی گرل؟'
جنت اپنی آنکھیں بند کیے کانپ رہی تھی اور سالار کی نظر بار بار ان کپکپاتے ہونٹوں پر جا رہی تھی۔
"سالار چھوڑیں ناں پلیز۔۔۔۔"
جنت نے کہا ہی اتنی محبت سے تھا کہ سالار اسکی بات مانیں بغیر نہ رہ سکا اور یہی موقع تو جنت کو چاہیے تھا اس لیے جلدی سے بھاگ کر ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔
"جنت یہ چیٹنگ ہے یار باہر آؤ۔۔۔"
سالار نے محبت سے پکارا۔
"بلکل نہیں پہلے آپ روم سے باہر جائیں پھر باہر آؤں گی میں۔۔۔"
جنت کی شرط پر سالار نے گہرا سانس لیا اور بیڈ سے اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا۔
"ٹھیک ہے جا رہا ہوں میں باہر اب آ جاؤ۔۔۔"
سالار نے دروازے کے پیچھے چھپ کر کہا۔جنت نے ڈریسنگ روم کا دروازہ کھول کر یہاں وہاں دیکھا پھر مسکراتے ہوئے باہر آ گئی لیکن تبھی سالار دروازے کے پیچھے سے نکل کر اسے اپنی پکڑ میں لے چکا تھا۔
"سالار چھوڑیں پلیز۔۔۔"
"اب تو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سانسوں سے زیادہ قریب ہو چکے ہیں اب ہم دونوں۔۔۔"
سالار نے اسکے کھلے بالوں میں چہرہ چھپا کر کہا۔تبھی فون بجنے کی آواز پر سالار نے گہرا سانس لیا اور جنت کو چھوڑے بغیر فون پکڑ کر کان سے لگایا۔
"جی بابا۔۔۔"
سالار نے اتنا کہتے ہوئے ہونٹ نرمی سے جنت کی گردن پر رکھے۔
"سالار بس بہت ہو گیا کیا کہا تم نے شایان سے کہ جنت کو پاس ہی رکھو گے فوراً واپس لے کو آؤ تم اسے۔۔۔"
عثمان کے ڈپٹنے ہر سالار مسکرا دیا۔
"ٹھیک ہے پاپا ہم دونوں تھوڑی دیر تک شایان انکل کے گھر پہنچتے ہیں۔۔۔"
عثمان نے ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا تو سالار نے جنت کو دیکھا جو اپنا سانس روکے کھڑی تھی۔
"لو آ گیا تمہاری آزادی کا پروانہ اب فریش ہو جاؤ پھر چلتے ہیں آپ کے بابا جانی کے پاس کیونکہ وہ میرے بابا جانی کے پاس جا کر ہڑتال کر بیٹھے ہیں ۔۔۔۔"
سالار نے اسے چھوڑا تو جنت جلدی سے بھاگ کر واش روم میں بند ہو گئی جیسے کہ بس کسی طرح بھی اس سے بچنا چاہ رہی ہو۔اسکی اس معصومیت پر سالار کھل کر مسکرا دیا۔
                     ❤️❤️❤️❤️
عماد وانیا کو لے کر واپس راولپنڈی آ گیا تھا کیونکہ اسے خبر ملی تھی کہ ویرہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔
"عماد تم ویرہ سے نہیں مل سکتے شائید تم بھول رہے ہو کہ تم سیکریٹ ایجنٹ ہو اور تمہاری اصلی پہچان آرمی کے علاؤہ کوئی نہیں جان سکتا۔"
جنرل شہیر نے عماد کو سمجھایا کیونکہ وہ ویرہ سے ملنا چاہ رہا تھا۔
"آئی نو سر لیکن میرا ویرہ سے ملنا ضروری ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو زبان اس نے پچھلے ایک مہینے سے نہیں کھولی وہ اب کھول دے اور رہی بات میری پہچان کی تو وہ میری زمہ داری ہے فکر نہ کریں آپ۔"
عماد کی بات پر جنرل شہیر سوچ کے عالم میں ڈوب گئے پھر ہاں میں سر ہلا کر عماد کو اجازت دے دی۔
"جسٹس بی کئیر فل۔"
عماد نے ہاں میں سر ہلایا اور ایک سپاہی کے ساتھ ویرہ کی جیل کی جانب چل دیا۔ویرہ کال کوٹھری میں قید زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔
"کہو ویرہ کیا کہنا تھا تمہیں مجھ سے۔۔۔"
راگا کی جانی پہچانی آواز پر ویرہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھنا چاہا لیکن اسکا چہرہ مکمل اندھیرے میں تھا۔ویرہ نے بے بسی سے اپنا سر جھکا لیا۔
"مرجان کیسی ہے؟"
عماد کو وہ شخص اپنی آواز سے بہت زیادہ بکھرا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔
"ٹھیک ہے دوست اسکی فکر مت کرو وہ اور اسکے گھر والے با حفاظت میرے پاس ہیں اور میری آخری سانس تک وہ حفظ و امان سے میرے پاس ہی رہیں گے ۔"
عماد کے بتانے پر ویرہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر بولا۔
"تم سے ایک کام تھا فوجی۔۔۔۔"
"ہاں کہو ویرہ۔۔۔"
عماد کی بات پر ویرہ پھر سے کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا اور اپنی مٹھیاں حد سے زیادہ زور سے بھینچ گیا۔
"میں جانتا ہوں کہ اب میرا مقدر ساری زندگی اس کوٹھری میں رہنا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ یہ زندگی مرجان میرے نام سے جڑ کر برباد کرے اس لیے تم مجھے طلاق کے کاغذات بنوا دو تا کہ میں اسے آزاد کر سکوں ۔۔"
یہ بات کہتے ہوئے ویرہ کی آواز میں کتنا کرب تھا عماد اسکا اندازہ بخوبی لگا سکتا تھا۔
"معاف کرنا دوست لیکن بہت دیر ہو گئی اب ایسا نہیں ہو سکتا چاہ کر بھی تم مرجان کو طلاق نہیں دے سکتے۔۔۔"
عماد کی بات پر ویرہ کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں ہوئے۔
"کیوں۔۔۔؟"
"کیونکہ مرجان تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے ویرہ ۔۔۔۔تم بہت جلد باپ بننے والے ہو۔۔۔۔"
پہلے تو ویرہ حیرت سے بس عماد کے اندھیرے میں چھپے چہرے کو دیکھتا رہا پھر کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔آج اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ غصے میں وہ خود کو کس حد تک برباد کر چکا تھا۔
وہ رات ویرہ کو یاد آنے لگی جب وہ راگا کے ساتھ واپس لوٹا تھا اور اتنے دنوں کے بعد اپنی مرجان کو دیکھ کر بے خود ہوتا اپنے آپ پر ایک سال سے باندھے ہر پہرے توڑ کر اسے اپنا بنا گیا تھا۔کاش کاش وہ ایسا نہ کرتا۔ مرجان کے ساتھ ساتھ وہ اس نھنی جان کی زندگی بھی تباہ کر چکا تھا جو ابھی پیدا  ہی نہیں ہوئی تھی اور اگر اسکی بیٹی پیدا ہوتی تو۔۔۔۔کیا ہوتا اس کا مستقبل وہ تو ساری زندگی ایک دہشتگرد کی اولاد کہلاتی۔
یہ سوچ آتے ہی ویرہ کرب سے چلاتا اپنے بال نوچنے لگا تھا۔عماد نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"جانتا ہوں ویرہ کہ جو تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت بڑا ظلم تھا لیکن خود پر ہوا ظلم ہمیں ظالم بننا تو نہیں سیکھاتا ویرہ۔۔۔اگر ظلم کرنا ہی ہے تو ان پر کرو جو اس قابل ہیں۔۔۔"
عماد کی بات پر ویرہ نے اپنے بال چھوڑے اور سر جھکا کر رونے لگا۔
"جانتے ہو کال کون تھا ویرہ ؟اسکا اصلی نام کمار شنکر ہے اور نام سے اندازہ لگا لیا ہو گا تم نے کہ اسکا تعلق کہاں سے ہے اور راگا ارف راگھوو کرشن بھی۔۔۔۔اپنے غصے میں تم اپنے ملک کے خلاف ہی کن کا ساتھ دیتے رہے ویرہ۔۔"
عماد کی بات پر ویرہ کا سر شرمندگی سے مزید جھک گیا تھا۔اسکی مسلسل خاموشی دیکھ کر عماد نے اسے اکیلے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔عماد ابھی جیل کے دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا جب اسکے کانوں میں ویرہ کی آواز پڑی۔
"مرجان کا بہت خیال رکھنا۔۔۔۔تمہیں اللہ کا واسطہ۔۔۔"
عماد نے ہاں میں سر ہلایا اور اس ہارے ہوئے انسان کو  اکیلا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
                   ❤️❤️❤️❤️
شادی کی تیاریاں زور و شور پر تھیں۔عثمان،شایان اور وجدان نے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہانیہ اور ایمان کی رخصتی ایک ہی دن کی جائے اور اس سے اگلے دن سب کا ولیمہ ہونا تھا۔
ابھی بھی سب مہندی کے فنکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے۔سب کے مہندی کے جوڑے ان کے سسرال سے آئے تھے اور ہانیہ کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ اس کا اور وانیا کا جوڑا بالکل ایک جیسا ہو۔لیکن وانیا ایسا نہ ہونے پر کافی خوش تھیں کیونکہ وہ اپنی بہن کی شرارتوں سے بخوبی واقف تھی۔
ابھی پالر والی نے سب کو تیار کیا تھا اور جنت،ہانیہ اور وانیا ساتھ سیلفیز لے رہی تھیں جبکہ ایمان بس مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"تم بھی آؤ نا ایمان یار شرما کیوں رہی ہو۔۔"
جنت نے ایمان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا لیکن وہ پھر بھی ہچکچا رہی تھی۔جانان،زرش اور حمنہ کمرے میں آئیں تو اپنی بچیوں کو یوں ہنستا مسکراتا دیکھ کر شکر ادا کرنے لگیں۔جانان نے ایمان کو دیکھا جو بس اوپر سے ہی مسکرا رہی تھی۔
"آپی زرش آپ جنت اور ہانی وانی کو لے جائیں میں ایمان کو لے کر آتی ہوں۔۔۔"
زرش اور حمنہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور ان پریوں کی طرح سجی ہوئی لڑکیوں کو ساتھ لے گئیں۔جانان نے ایمان کے پاس آ کر اسکا چہرہ بہت محبت سے تھاما۔
"کیا بات ہے میری جان تم خوش نہیں ہو کیا؟"
جانان کے سوال پر ایمان کی پلکیں بھیگ گئیں۔
"نہیں آنٹی میں بہت خوش ہوں بس۔۔۔وہ میرا اپنا کوئی بھی نہیں ہے ناں میرے ساتھ تو مما کی یاد آ رہی تھی۔۔۔"
ایمان کا دکھ دیکھ کر جانان کی پلکیں بھی بھیگ گئیں اور اس نے اپنے ہونٹ ایمان کے ماتھے پر رکھے۔
"میری جان افسردہ مت ہو میں تمہاری مما ہی تو ہوں اور سب تم سے بہت پیار کرتے ہیں کیونکہ تم ہمارے معراج کی محبت ہو اس لیے ہمیں دل و جان سے عزیز ہو۔۔۔"
جانان کی محبت دیکھ کر ایمان نے مسکراتے ہوئے اپنے آنسو پونچھے اور ہاں میں سر ہلایا۔جانان اسکا چہرہ چوم کر اسے اپنے ساتھ باہر لائی جہاں سب لڑکے اپنی اپنی متاع جان کا انتظار کر رہے تھے۔
اس سے پہلے کہ وہ زرش ہانیہ اور وانیہ کو آگے لے کر جاتی عماد خود آگے بڑھا اور وانیا کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کر لیا۔
"افف یہ دلربا کے جلوے ماڑا فنکشن کے بعد کمرے میں چلے گا ناں تو فرصت سے بتاؤں گا کہ کیسا لگ رہا ہے۔۔۔"
عماد اسکے کان میں سرگوشی کر کے وانیہ کے گلال کو مزید بڑھا گیا تھا جبکہ انس نے انگوٹھا اور انگلی ساتھ ملا کر ہانیہ کو کمال کا اشارہ کیا تو جواب میں ہانیہ نے اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر الٹی والا اشارہ دے کر انس کو آگ لگائی تھی۔
"بس ایک رات رہ گئی ہے میری پٹاخہ گڈی کل ہر شرارت کا حساب بے باک کروں گا میں۔۔۔"
انس نے آہستہ سے خود سے ہی وعدہ کیا ۔
سالار تو بس بنا پلکیں جھپکائے جنت کو دیکھ رہا تھا جیسے کہ وہ کوئی خواب ہو جو پلکے جھپکنے پر غائب ہو جائے گی۔
"میاں اب اپنی دلہن کو سنبھال بھی لو یا بس یہاں کھڑے ہو کر اسے دیکھ دیکھ کے رات گزار دو گے۔۔۔"
عثمان نے سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو سالار ہلکا سا ہنسا اور آگے بڑھ کر جنت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔
"کیسی لگ رہی ہوں؟"
جنت کے پوچھنے پر سالار اسکے کان کے قریب ہوا۔
"رات کو تمہارے روم میں آ کر بتاؤں گا کہ کیسی لگ رہی ہو بس تم جاننے کے لیے تیار رہنا۔"
سالار کے شرارت سے کہنے پر جنت نے اسے گھورا تھا۔اب بس ایمان رہ گئی تھی جو جانان کے ساتھ کھڑی معراج کو ڈھونڈ رہی تھی۔
"مما معراج کہاں ؟"
ابھی الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب اسکی نظر سامنے آتے معراج پر پڑی تو پلٹنا ہی بھول گئی۔ہمیشہ عینک پہن کر خود کو بوندھو دیکھانے والا معراج اس وقت گاڑھی براؤن کلر کی شلور قمیض پہنے،قمیض کے بازوؤں کو کوہنی تک فولڈ کیے اور ایک سکن کلر کی چنری گلے میں ڈالے کہیں کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔
معراج نے قریب آ کر مسکراتے ہوئے ایمان کی ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسکا منہ بند کیا۔
"بب۔۔۔بس کر دو لڑکی نظر لل۔۔۔لگاؤ گی کیا؟"
معراج کے سوال پر ایمان نے پلکیں جھپک کر معراج کے بدلے ہوئے تیور دیکھے۔
"ملنگ تمہیں کیا ہو گیا ایک رات میں ہی اتنے پیارے کیسے ہو گئے؟"
ایمان کی بات پر ساتھ کھڑی جانان بھی ہنس دی۔
"ااا۔۔۔اب اپنی شادی پر تو اچھا دد۔۔۔دیکھنے دو مجھے۔۔۔بب۔۔۔بڑی مما اسے مجھے دیں اور آآا۔۔۔آپ جائیں۔۔۔"
معراج نے جانان کی جانب مڑ کر کہا تو اس نے مسکرا کر ایمان کا ہاتھ معراج کو تھما دیا اور خود شایان کے پاس چلی گئی۔
"تت۔۔۔تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔"
معراج کی بات پر ایمان نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا۔معراج اسے لے کر باقی کپلز  کے پاس آیا جو تصویریں بنوا رہے تھے اور اسکے بعد بہت دیر تک رسموں کا سلسلہ چلتا رہا۔
"چلیں بھئی اب زرا رونق لگائیں ہماری مہندی پر اس لیے میں نے ڈیسائیڈ کیا ہے کہ مما پاپا،جانو خالہ شانو خالو اور حمنہ خالہ اور عثمان خالو ہمیں کپل ڈانس کر کے دیکھائیں گے۔۔۔"
اچانک سے ہانیہ نے اٹھ کر فرمائش کی تو سب ہونٹنگ کرنے لگے۔ حمنہ تو فوراً انکار میں سر ہلانے لگی تھی لیکن عثمان اسکا ہاتھ تھام کر سب کے سامنے لے آیا تھا۔
"شرم کریں عثمان اب جوان نہیں ہم کیا کرتے ہیں آپ؟"
عثمان نے حمنہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر موو کرنا شروع کیا تو حمنہ ہچکچا کر بولی۔
"بیٹھے کی شادی ہے آج بیگم آپ کو تو  خوشی سے جوان ہو جانا چاہیے۔۔۔"
عثمان نے سب کو سناتے ہوئے کہا تو سب ہنس دیے لیکن حمنہ شرما کر اس سے دور ہوئی تھی۔پھر شایان جانان کا ہاتھ تھام کر آگے ہوا اور جانان نے تو کبھی بھی ہچکچانا سیکھا ہی کہاں تھا۔سب کو اپنی اچھی خاصی ڈاسنگ دیکھا کر وہ دونوں وجدان اور زرش کو اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔
"وجدان نہیں کرنا ڈانس بتا رہی ہوں میں۔۔۔"
زرش نے وجدان کو وارن کیا لیکن۔ وجدان اسے نظر انداز کرتا اپنے قریب کر گیا۔
"بچوں کی خوشیوں میں شامل تو ہونا ہی پڑے گا ناں نور خان۔۔۔"
وجدان اسکی مزاحمت کو نظر انداز کرتا اسے اپنے ساتھ آہستہ آہستہ ڈانس کروانے لگا۔
"میں خدا کا لاکھوں شکر ادا کرتا ہوں زرش محبت کے اس سفر کو عشق کی منزل پر پہنچانے کے لیے ہمارے بچوں کی خوشیوں کے لیے۔۔۔"
زرش وجدان کی بات پر مسکرا دی اور اپنا سر اسکے کندھے پر رکھا۔ان خوشیوں کے لیے وہ جتنی بھی شکر گزار ہوتی وہ کم ہی تھا۔
                    ❤️❤️❤️❤️
آج ایمان اور ہانیہ کی رخصتی تھی۔عماد فنکشن پر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔وانیا اپنی بہنوں کے ساتھ پارلر گئی تھی اور عماد بس اسے دیکھنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا۔وہ جو اپنا جی جان اپنے وطن کو ہی سمجھتا تھا اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی اسے اس قدر عزیز ہو جائے گا کیونکہ بغیر ایک پل بھی جینا دشوار لگے گا۔
"عماد۔۔۔"
جنرل شہیر کی آواز پر عماد انکی جانب مڑا۔
"جی بابا۔۔۔؟"
جنرل شہیر نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا جو سادہ سی شیروانی میں بہت زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔
"خوشخبری ہے بیٹا مجھے ابھی ہیڈ کوارٹر سے فون آیا تھا انہوں نے کہا ہے کہ ویرہ اپنا ہر راز آرمی کو بتا کر آرمی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے اور یہی نہیں وہ آرمی کے جاسوس کے طور پر کام کر کے باقی دہشتگردوں کو بھی پکڑوانے میں مدد کرے گا۔۔۔"
جنرل شہیر کی بات پر عماد کے چہرے پر ایک خوشگوار حیرت آئی۔
"اس کے بدلے میں اسے کیا چاہیے؟"
"بدلے میں وہ صرف آزادی چاہتا ہے عماد اپنی غلطیوں کو سدھار کر گناہوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔وہ بس اپنی زندگی جینا چاہتا ہے۔۔۔۔"
عماد مسکرا دیا کیونکہ وہ ویرہ کی خواہش کا مقصد جانتا تھا۔
"کیا لگتا ہے اگر آرمی اس پر بھروسہ کر کے اسے آزاد کرتی ہے تو کب تک کر دے گی؟"
عماد کے سوال پر جنرل شہیر سوچ میں ڈوب گئے۔
"اتنی جلدی تو نہیں بیٹا کم از کم تین چار سال بہت محنت کرنی ہو گی اسے بھروسہ دلانے کے لیے۔"
عماد نے ہاں میں سر ہلایا۔
"میری گارنٹی پر اگلے سال ہی آزاد کروائیں اسے اور اسکے آزاد ہوتے ہی اسے میری اسسٹینسی میں دے دیجیے گا۔۔۔"
عماد کی بات پر جنرل شہیر حیران ہوئے۔
"لیکن تم اس پر اتنا بھروسہ کیسے کر سکتے ہو عماد؟ہو سکتا ہے یہ اسکی کوئی سازش ہو۔۔"
عماد بس مسکرا دیا اور پرفیوم خود پر سپرے کیا۔
"کر سکتا ہوں میں اس پر بھروسہ۔۔"کیونکہ ایک دیوانہ دیوانے کو پہچان لیتا ہے۔
آخری بات عماد نے دل میں کہی۔ویسے بھی وہ چاہتا تھا کہ جب ویرہ کا بچہ دنیا میں آئے تو ویرہ اسکے پاس ہو۔
"چلیں اب دیر ہو رہی ہے وہی نہ ہو کہ ہم جب پہنچیں تب بس برتن دھونے کا کام بچے وہاں۔۔۔"
جنرل شہیر اپنے بیٹے کی بات پر ہنس دیے اور پھر وہ سب فنکشن میں آئے جہاں دلہا دلہن پہلے سے ہی سٹیج پر بیٹھے تھے۔
دونوں دلہنیں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھیں لیکن عماد کی نظر بس اپنی وانیہ پر تھی۔
رات تو تھکاوٹ کا بہانہ کر کے سو گئی تھی ناں افغان جلیبی آج نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
عماد نے اسکو دیکھتے ہوئے سوچا اور مسکرا کر اسکی جانب چل دیا جہاں ان سب کی خوشیاں منتظر تھیں۔
                     ❤️❤️❤️❤️
 معراج کمرے میں جانے لگا تو سامنے ہی وانیا اور جنت کو کھڑا دیکھ کر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
"کک۔۔۔کتنا لوٹنا ہے دونوں نے؟"
معراج نے اکتا کر والٹ نکالتے ہوئے پوچھا۔
"زیادہ نہیں شارٹ سرکٹ بس پچاس ہزار میرا اور پچاس ہزار وانی آپی کا اور ہاں یاد آیا پچاس ہزار ہانی آپی کا بھی انہوں نے کہا تھا کہ انکے حصے کے سارے نیگ لیں ہم دونوں۔"
جنت کی بات پر معراج کا منہ حیرت سے کھل چکا تھا۔یعنی کھڑے کھڑے ایک لاکھ پچاس ہزار کا خرچہ۔معراج نے مڑ کر بے چارگی سے سالار کو دیکھا جو اسکی حالت پر ہنس رہا تھا۔
"بیبی گرل تم نے اپنے سونو کو دیکھا ہے کیا مجھے لگتا ہے بھیڑ کا فائیدہ اٹھا کر گھر سے نکل گیا وہ۔۔۔"
سالار کی بات پر جنت ایک پل میں گھبرا کر اسکے پاس بھاگ گئی اور اسکا ہاتھ پکڑا۔
"چلیں پھر ڈھونڈیں اسے ہائے میرا بچہ۔۔۔"
اپنے پلین کی کامیابی پر سالار نے معراج کو آنکھ ماری اور وہاں سے چلا گیا۔اب معراج وانیا کی جانب مڑا۔
"ووو۔۔۔وانی آپی عماد بھائی ڈڈ۔۔۔ڈھونڈ رہے تھے آپ کو بب۔۔۔بہت غصے میں تھے۔۔۔"
وانیا کی آنکھیں ایک پل میں پھیل گئیں۔
"افف انہوں نے کہا تھا کہ تیار ہو کر سب سے پہلے انہیں دیکھاؤں اور میں نے سارا دن بات بھی نہیں کی ان سے اب بہت زیادہ والا ناراض ہوں گے۔۔۔"
وانیا بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے جا چکی تھی اور معراج اپنی چالاکی پر مسکراتا کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ لاک کر کے سکھ کا سانس لیا۔سامنے ہی اس ملنگ کی معصوم سی ملنگی منہ بنائے بیٹھی تھی۔
"کک۔۔۔کیا ہوا ایمان تم دکھی کک۔۔۔کیوں ہو؟"
معراج کے سوال پر ایمان نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"جنت کہتی ہے تم اس کے بیسٹ فرینڈ ہو لیکن تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ میرے بیسٹ فرینڈ ہی رہوگے۔اب تم جنت کو بتا دو کہ تم بس میرے بیسٹ فرینڈ ہو ورنہ ناراض ہو جاؤں گی میں تم سے۔۔۔"
معراج مسکراتا ہوا اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
"ببب۔۔۔بیٹ فرینڈ تو میں جنت کا ہی ہوں ملنگی تت۔۔۔تمہارا تو ہزبینڈ ہوں ناں ۔۔۔"
"نہیں تم سب کچھ بس میرے ہو میرے ہزبینڈ بیسٹ فرینڈ کزن بھائی سب بس میرے ہو۔۔۔"
ایمان کے چلانے پر معراج نے اپنی سبز آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
"بب۔۔۔بھائی؟"
ایمان کو اپنی کہی بات سمجھ آئی تو دانتوں تلے زبان دبا گئی لیکن پھر معراج کو قہقے لگا کر ہنستے ہوئے دیکھ کر خود بھی ہنس دی۔
"آآآ۔۔۔آنکھیں بند کرو۔۔"
ایمان نے فوراً اپنی آنکھیں میچ لیں۔معراج نے جیب سے ایک خوبصورت سا بریسلٹ نکالا اور ایمان کی نازک کلائی میں پہنا دیا۔
"اف ملنگ بہت پیارا ہے یہ تھینک یو سو مچ ۔۔۔"
ایمان اس خوبصورت بریسلٹ کو دیکھ کر خوشی سے چہکتے ہوئے معراج کے گلے لگ گئی۔معراج جو اس کی خوشی پر مسکرا رہا تھا اپنی گردن پر اس کے آنسو محسوس کر کے ٹھٹھک گیا۔
"کک۔۔۔کیا ہوا ایمان؟"
معراج نے اسکا چہرہ بہت محبت سے تھام کر پوچھا۔
"میں نے کبھی سوچا نہیں تھا ملنگ کہ میری زندگی میں بھی اتنی خوشی آئے گی مجھے اتنے چاہنے والے ملیں گے مجھے تو لگتا تھا کہ میرے مقدر میں بس دکھ اور تکلیف ہے۔۔۔"
معراج نے اپنی معصوم بیوی کی آنسو بہت نرمی سے صاف کیے۔
"نن۔۔۔نہیں ایمان دکھ کی ایک ہی۔۔۔اا۔۔۔اچھی بات ہے وہ کبھی ہمیشہ نن۔۔۔نہیں رہتا ہم دونوں نے انہیں ککک۔۔۔کھویا جو ہمارے لیے سب سس۔۔۔سے قیمتی تھے اا۔۔۔اسی لیے خدا نے ہمیں مم۔۔۔ملایا ایمان کیونکہ ہم دونوں اا۔۔۔ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔۔۔"
ایمان نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔معراج کتنی ہی دیر اسکا معصوم سا چہرہ دیکھتا رہا پھر آگے ہو کر نرمی سے اسکی بھیگی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
"معراج۔۔۔"
ایمان اتنے میں ہی بہت زیادہ گھبرا گئی تھی لیکن معراج اب آنکھوں کے بعد اپنے ہونٹ اسکے گال پر پھر ہونٹوں کے کونے پر رکھ چکا تھا۔
"بہت محبت کرتا ہوں تم سے ایمان بہت۔۔۔"
ایمان معراج کو بے بتانا چاہ رہی تھی کہ اپنی بات کہتے ہوئے وہ اٹکا نہیں تھا لیکن معراج اسے بولنے کا موقع دیے بغیر ہی اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔
معراج کا لمس محبت اور عقیدت سے بھرا ہوا تھا لیکن یہ نیا احساس ایمان کی سانسیں روک رہا تھا۔اس نے معراج کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کیا۔
"نہیں ملنگ۔۔۔"
"کک۔۔۔کیوں ڈر لگتا ہے مجھ سے ؟"
معراج کے سوال پر ایمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا ایک وہی تو تھا اس دنیا میں جس سے وہ بلکل بھی نہیں ڈرتی تھی۔
"خود سے لگ رہا ہے۔۔۔"
اس معصوم اعتراف پر معراج مسکرایا اور اسے مزید کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر اس نازک وجود کو اپنی پناہوں میں چھپا گیا۔
ایمان کا ہر ڈر ہر خوف معراج نے اپنی محبت سے سمیٹا تھا۔گزرتی رات ان دونوں کی محبت کو امر کر چکی تھی۔
                    ❤️❤️❤️❤️
سالار جنت کو لے کر کمرے میں آیا تو وہ سامنے ہی سونو کو دیکھ کر سالار کا پلین سمجھ گئی۔
"چیٹر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر پیسے کھا لیے میری اب آپ دیں گے مجھے پچاس ہزار۔۔۔"
جنت نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورتے ہوئے کہا تو سالار نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔
"افف یار ایسے تو مت گھورو عام سا انسان ہوں بہت آسانی سے بہک جاؤں گا اور آج تو تم لگ بھی کمال رہی ہو۔۔۔"
سالار شرارت سے کہتا جنت کا سکون غارت کر چکا تھا۔جنت نے پیر پٹخا اور سونو کے پاس آ کر اسے باہوں میں اٹھا لیا۔
"چلو سونو ہم سو جاتے ہیں یہاں کچھ گندے لوگ ہیں جن سے ہم بات نہیں کریں گے۔۔۔"
جنت سونو کو لے کر بیڈ پر آئی اور اسے اپنے ساتھ لیٹا کر کپڑے بدلے بغیر ہی خود پر کمبل اوڑھ لیا۔سالار مسکرا کر اسکے پاس آیا اور سونو کو اٹھا کر کمرے سے ہی باہر نکال دیا۔
"سالار واپس لائیں میرے سونو کو کہاں جائے گا وہ۔۔۔"
جنت نے منہ بسور کر کہا تو سالار اسکے پاس آیا اور اسے بیڈ پر لیٹا کر اپنی گرفت میں لے لیا۔
"سونو کو چھوڑو بیبی گرل اور شوہر پر دھیان دو روز قیامت میری خدمت کا جواب دینا ہے تم نے۔۔۔"
سالار محبت سے کہتا اسکی گردن پر جھک چکا تھا۔
"جی ور آپ نے تو جیسے جواب ہی نہیں دینا ناں بچو بیوی کے پیسے کھانے والے کو بھی جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔۔۔"
جنت نے اسکا چہرہ گردن سے نکالا اور اس سے دور ہوتے ہوئے کہنے لگی۔
"اچھا کیا کرنا تھا تم نے ان پیسوں کا۔۔۔؟"
"فریم کروا کر دیوار پر لگانے تھے تاکہ کل کو اپنے بچوں کو دیکھا سکتی کہ دیکھو تمہاری کنجوس ماموں سے لوٹے تھے میں نے۔۔۔۔"
جنت کی بات پر سالار قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"اچھا کتنے بچوں کو دیکھاؤ گی تم وہ؟"
"جتنے ہوں گے۔۔۔۔"
جنت نے کندھے اچکا کر کہا۔اچانک ہی سالار نے کھینچ کر اسے واپس اپنی گرفت میں لے لیا۔
"اتنا دور رہو گی تو ایک بھی نہیں ہو گا۔۔۔"
سالار نے اسکے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دبا کر کہا۔
"چھوڑیں سالار سخت موڈ آف ہے میرا ابھی۔۔۔"
جنت نے گھبرا کر کہا لیکن سالار اسے نظر انداز کرتا اپنی گرفت میں کے چکا تھا۔
"موڈ اچھا کرنا میرے سر ہے بس موقع تو دو تم۔۔۔"
اتنا کہہ کر سالار نے اسکا دوپٹہ اس سے دور کیا اور اسکی ہر معصوم مزاحمت کو نظر انداز کرتا اسے اپنی بے تحاشا محبت سے باور کروانے لگا۔
                     ❤️❤️❤️❤️
انس آخر کار اپنے دوستوں سے جان چھڑوا کر اب اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا لیکن سامنے ہی اپنی تینوں بہنوں کو دیکھ کر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
"بھائی پہلے ہمارا نیگ دیں ہمیں پورے ساٹھ۔۔۔"
اس سے پہلے کہ سب سے بڑی بہن حنہ اپنی بات مکمل کرتی انس نے پورا والٹ اسکے ہاتھ میں پکڑایا اور انہیں سائیڈ پہ کر کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
سامنے ہی بیڈ پر لال سوٹ میں بیٹھی ہانیہ اسکے دل میں اتر رہی تھی۔انس مسکراتے ہوئے اسکے پاس آیا اور مسہری کو ہٹا کر اسکے پاس بیٹھنے لگا۔
لیکن انس بیٹھتے ہی کچھ ٹوٹنے کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھ گیا اور بیڈ شیٹ ہٹا کر ان پلاسٹک کے پرتوں کو دیکھا جن کے ٹوٹنے سے آواز آئی تھی۔
"ہاہاہا۔۔۔۔"
ساٹھ بیٹھی ہانیہ قہقے لگا کر ہنسنے لگی اور ساتھ ہی انس کے ایکسپریشن کی موبائل پر تصویر بنا لی۔
"وہ کیا ہے ناں میرے پولیس بابو میں نے سوچا کیوں نہ آپکو بھی شادی کا تحفہ دے دوں۔۔۔"
ہانیہ نے ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کہا تو انس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا اور کمر کے گرد ہاتھ لپیٹ کر اپنی پناہوں میں لے لیا۔
"پٹاخہ گڈی کیا میری ساری زندگی تمہارے یہ پرینک دیکھ کر ہی گزرے گی؟"
ہانیہ نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔
"بلکل اب میرے جیسی لڑکی پسند کی ہے تو بھگتنا تو پڑے گا ناں۔۔۔"
ہانیہ نے لاڈ سے کہا پھر ایک بات یاد آنے پر انس کو پریشانی سے دیکھا۔
"انس نیکسٹ منتھ سے میری آرمی میں ٹریننگ سٹارٹ ہو رہی ہے تو کیا آپ مجھے اسکے لیے مری جانے کی اجازت دیں گے؟"
ہانیہ جو ایک خود مختار اور آزاد خیال لڑکی تھی اسکا اسطرح سے اجازت مانگنا انس کو بہت اچھا لگا تھا۔
"نہیں۔۔۔"
انس کے جواب پر ہانیہ کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئیں۔
"میں اپنا ٹرانسفر مری کروا لوں گا میری جان پھر ہم دونوں وہاں ساتھ ساتھ رہیں گے۔۔۔پولیس والے کی پٹاخہ فوجی۔۔۔"
انس نے اسکی ناک دبا کر کہا تو ہانیہ خوشی سے اسکے گلے لگ گئی۔
"تھینک یو سو مچ آئی لو یو ہیرو۔۔۔۔"
ہانیہ نے خوشی کے عالم میں کہا لیکن پھر اپنی بے باکی پر شرما کر انس سے دور ہونا چاہا لیکن اب ایسا کہاں ممکن تھا۔انس اسے واپس کھینچ کر اپنی پناہوں میں لے چکا تھا۔
"یہ پانچ سال تم نے مجھے بہت تڑپایا ہے ہیرو کی جان لیکن اب حساب بے باک کرنے کا وقت ہے آج میں دیکھوں گا کہ میری پٹاخہ گڈی کتنی بولڈ ہے؟"
انس کی بات پر ہانیہ کے گال دہک اٹھے لیکن ایک پل کے لیے وہ اپنی بولڈنیس کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔
"ہاں تو بہت بہادر ہوں میں کچھ بھی کر لیں مجھے شرم نہیں آنے والی پیدائشی بے شرم ہوں میں۔۔۔"
ہانیہ نے اسکے گلے میں باہیں ڈال کر کہا اور اس کھلے چیلنج پر انس عش عش کر اٹھا۔اسی لیے اس نے ہانیہ کی نازک کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کھینچا اور اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی پر شدت گرفت میں لیا۔
ایک سیکنڈ لگا تھا ہانیہ کی بولڈنیس گل ہوتے۔وہ تو اپنے شوہر کے جنون پر گھبراتی اسکی پناہوں میں سمٹنے لگی تھی لیکن تب بھی انس دور نہ ہوا تو ہانیہ اسکے سینے پر مکے برسانے لگی۔
یونہی اس پر جھکے انس اسکا دوپٹہ پنوں سے آزاد کر کے اس جدا کر چکا تھا اور اب اسکے ہاتھ کرتی کی ڈوریوں میں الجھ چکے تھے۔
"انس؟"
ہانیہ نے گھبرا کر اسے پکارا اور اپنا چہرہ اسکے چوڑے سینے میں چھپا دیا۔
"کیا ہوا ہار گئی چیلنج؟"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
"جی ہار گئی نہیں ہوں میں بولڈ اب پلیز چھوڑیں مجھے۔۔۔"
انس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور اس نے ہانیہ کو اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لیٹایا۔
"ابھی کہاں جان ابھی تو مجھے اور بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔۔۔اپنی ملکیت کہا تھا تم نے انس راجپوت کو آج تمہارا انس تمہیں مکمل طور پر اپنا بنا لے گا۔۔۔"
انس نے اسکے کندھے سے کرتی سرکا کر کہا۔ہانیہ کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔انس کی بے باکیوں پر اس نے بند باندھنے کی کوشش کی لیکن اب یہ ناممکن تھا۔پانچ سالوں کی محبت اور جنون تھا جس سے انس نے اسے پوری رات باور کروایا تھا۔
                     ❤️❤️❤️❤️
وانیا جو عماد کے غصے سے ڈرتی کمرے میں داخل ہوئی تھی اسے کمرے میں نہ پا کر سکھ کا سانس لیا اور وہ ہیوی سا ڈریس اتارنے کا سوچا تا کہ عماد کے آنے سے پہلے پہلے خود کو ایزی کر لے۔
اس نے دوپٹہ بیڈ پر رکھا اور ہاتھ کمر پر کے جا کر اپنی ڈوریاں کھول رہی تھی جب اچانک اپنی کمر پر کسی کی انگلیوں کا لمس محسوس کر کے گھبرا کر پلٹی۔
"آپ کب آئے کمرے میں آئے؟"
وانیا نے اپنے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کیونکہ فراک ڈوریاں کھلنے کی وجہ سے ڈھیلا ہو چکا تھا۔
"سارا دن مجھے نظر انداز کرنے کی گستاخی کم تھی کیا جو اب اپنی اس سجاوٹ کو میری محبت سے بچا کر ایک اور گناہ کر رہی ہو ارے یہ تو سوچا ہوتا کہ سزا کیسے سہو گی اتنی۔۔۔"
عماد نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ باندھا اور اسے اپنے قریب کیا۔
"عع۔۔۔عماد چھوڑیں مجھے تھک گئی ہوں ناں میں۔۔۔"
"روز روز ایک ہی بہانا ماڑا افف اس نہیں کا کوئی علاج نہیں روز کہہ دیتے ہو آج نہیں۔۔۔"
عماد نے شعر بولتے ہوئے اسکے کان کی لو کو چوما جو سارا دن بھاری جھمکے سنبھالنے کی وجہ سے سرخ ہو چکے تھے۔
"اف عماد آپ ناں بہت ہی بے شرم ہیں کبھی کبھی سوچتی ہوں راگا بن کر آپ پھر بھی بہتر تھے کم از کم حد میں تو رہتے تھے۔۔ "
وانیا نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرتے ہوئے کہا تو عماد نے ایک ابرو اچکا کر اسے دیکھا پھر وانیا کو بالوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور ہونٹوں کو بہت وحشت سے اپنی گرفت میں لیا۔
وانیا اسکی اس وحشت پر کانپ کر رہ گئی جس میں وہ وانیا کی پرواہ بھی نہیں کر رہا تھا بس اسے خود میں بھینچتا اپنا جنون بڑھاتا جا رہا تھا۔
"عماد۔۔۔"
وانیا اس سے ڈر کر اسکے سینے میں چھپ گئی۔
"کیا ہوا ماڑا ڈر کیوں گیا تم ابھی تو اس راگا نے بس اپنی جھلک دیکھائی ہے افغان جلیبی کو فلم تو ابھی دیکھانا باقی ہے۔۔۔"
عماد کی بات پر وانیا کانپ کر رہ گئی۔
"نہیں آپ میری عماد ہی ٹھیک ہیں مت بنیں آپ راگا۔۔۔"
وانیا نے اسکے سینے سے چہرہ نکالے بغیر کہا۔عماد نے مسکرا کر اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔
"دیر ہو گئی افغان جلیبی آج اب تم اپنے جن کو جنون دیکھو جسکو تم نے للکار کر جگایا ہے۔۔۔"
عماد نے اسے بیڈ پر لیٹایا اور دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں تھام کر اسکی گردن پر جھکا۔اب جو جنون وانیا کو سہنا پڑھ رہا تھا وہ اس پر کبھی گھبراتی تو کبھی خود میں ہی سمٹتی لیکن اپنے جس جن کو اس نے جگایا تھا سے سری رات بھگتنا تھا۔
                      ❤️❤️❤️❤️
اگلے دن سب ولیمے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور آج ہانیہ کی دلی خواہش پوری ہوئی تھی۔وجدان نے انکے ولیمے کے کپڑوں کا بندوبست کیا تھا اور اس لیے اس کے اور وانیا کپڑے جیولری جوتے سب کچھ بالکل سیم تھا۔گلابی رنگ کے ایک جیسے جوڑے پہنے وہ ایک دوسرے کا عکس دیکھائی دینے لگی تھیں۔
جنت کی میکسی لائٹ بلو کلر کی تھی اور اس میں سجی جنت چاند کا ٹکڑا ہی تو لگ رہا ہے تھی جبکہ ایمان کا پیروں تک آتا فراک سلور کلر کا تھا جس میں وہ ایک پری ہی لگ رہی تھی۔
جانان،حمنہ اور زرش نے اپنی بیٹیوں کو دیکھو تو انکے صدقے واری جانے لگیں وہ لگ ہی اتنی پیاری رہیں تھیں۔
"چلو لڑکیو سب ہال میں کب سے انتظار کر رہے ہیں ہمارا۔۔۔"
حمنہ نے انکو پکڑتے ہوئے کہا اور انہیں اپنے ساتھ سٹیج کی جانب لیں گئیں جہاں انکے دلہے گاڑھے نیلے تھری پیس میں ملبوس ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہے تھے۔
سب سے پہلے حمنہ نے جنت کا ہاتھ سالار کے ہاتھ میں تھاما دیا اور جانان نے ایمان کو معراج کے حوالے کیا تھا لیکن عماد اور انس حیرت سے منہ کھولے ہانیہ اور وانیا کو دیکھ رہے تھے جو بلکل ایک جیسی لگ رہی تھیں۔
"یار ان میں سے میرے والی کون ہے ہو تمہارے والی کون؟"
انس نے عماد کے قریب ہو کر پوچھا جو آنکھیں چھوٹی کر کے دونوں کو گھور رہا تھا۔
"تو میرے بھائیو ٹیسٹ ہے آج آپ کا بتائیں کون کس کی وائف ہے اور اگر غلط گیس کیا ناں تو سزا دینے والی میں کون ہوتی ہوں بیویوں سے ہی مل جائے گی۔۔۔"
جنت نے ہنستے ہوئے کہا تو سب اسکی بات پر ہنس دیے۔عماد جو کب سے ان دونوں کو آنکھیں چھوٹی کیے دیکھ رہا تھا آگے بڑھا اور ہانیہ کا بازو پکڑ لیا۔
وانیا کا منہ فوراً بن گیا کیونکہ اسکے عماد نے اسے نہیں پہچانا تھا۔عماد سٹیج پر گیا اور ہانیہ کا ہاتھ انس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
"یہ رہی بھائی تمہارے والی میرے والی کے اگر ہزار عکس بھی ہوں ناں تو بھی اسے پہچان جاؤں میں کیونکہ مجھے اس کے چہرے سے نہیں اسکی روح سے محبت ہے۔۔۔"
عماد کی بات پر جہاں نیچے کھڑی وانیا شرم سے سرخ ہوئی تھی وہیں سب نے ہوٹنگ کر کے عماد کے ڈائیلاگ کو داد دی تھی۔عماد آگے بڑھا اور وانیا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر ہونٹوں سے لگایا۔
"You can never hide from me love, try if you want to,,, I'll always find you because you are destination of my love."
(تم مجھ سے کبھی نہیں چھپ سکتی چاہے تو کوشش کر لو،،میں تمہیں ہمیشہ ڈھونڈ لوں گا کیونکہ تم میری منزل عشق ہو)
عماد نے اس سے محبت سے کہا اور باقی سب کے ساتھ اسے بھی سٹیج پر لے آیا۔اج وہ سب خوشیوں بھرے موڑ پر پہنچ چکے تھے وہ موڑ جو انکے عشق کے اس سفر کی منزل تھا کیونکہ عاشق کی منزل تو وہیں ہے جہاں اسکا محبوب ہو۔۔۔
                   ❤️❤️❤️❤️
ختم شد

   0
0 Comments