عشق بلا خیز
عشق بلا خیز
از قلم ۔ شگفتہ ارم درانی۔ پشاور
قسط نمبر۔4
آج ارشی کو تاک الدنیا ہوئے 6 مہینے بیت چکے تھے۔ اس کا کھانا اس کے کمرے میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ ارشی کا سبق ختم ہو چکا تھا اور اسے نظر آنے والے خواب بھی اب بند ہو چکے تھے۔ آخری خواب میں اس نے مائی بختو کو دیکھا جا مسکرا کر اسے شفقت سے دیکھ رہی تھی اور کہہ رہی تھی۔'' شکر الحمدللہ تم نے سارا سبق مکمل کر لیا۔ تم اب اس قبل ہو کہ اس سے لڑ سکو۔ جاؤ، ڈرنا مت، خدا تمہارے ساتھ ہے اور میری دعائیں بھی۔۔۔۔۔۔!'' ارشی کا دل آج اتنے عرصے بعد پھر نوید سے ملنے کے لئے بے تاب ہونے لگا۔ وہ اپنے کمرے سے نکلی اور اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
'' امی آج میراکہیں جانےکو دل چاہ رہا ہے۔ کیوں نہ آنٹی لوگوں کے گھر چلیں۔''
'' کیوں نہیں بیٹا ضرور۔ میں تو دل سے چاہتی تھی کہ تم اس کوٹھڑی سے کبھی باہر بھی نکلو۔'' امی نے اس کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اچھا امی میں تیار ہو جاؤں۔ اور ارشی اپنے کمرے میں آکر تیار ہونے لگی۔
ٹھیک شام 6 بجے وہ لوگ نوید کے گھر پہنچے سب ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ لیکن ارشی کی نظریں جسے تلاش کر رہی تھیں وہ اسے ابھی نظر نہیں آیا تھا۔ '' آنٹی وہ نوید کہاں ہے؟'' ارشی نے دانستہ پوچھا۔
بیٹا وہ اپنے کمرے میں ہے۔ سارا دن وہیں قید رہتا ہے۔ ہم تو بہت پریشان ہیں اس کی وجہ سے۔ تم ذرا جا کر اسے بلا لاؤ۔ آنٹی نے کہا۔
جی اچھا۔ اور ارشی اٹھ کھڑی ہوئی۔
نوید کے کمرے کی لائٹ آف تھی ۔ ارشی نے دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اس کے کان میں مائی بختو کی آواز آئی۔ '' پہلے دن کا سبق تین بار پڑھ کر خود پر پھونک لو، پھر اندر جانا۔'' اور ارشی نے جلدی جلدی وہیں کھڑے ہو کر پہلے دن کا سبق جس میں سورۃ الناس اور سورۃ الفلق شامل تھیں، تین مرتبہ پڑھ کر خود پر پھونک لیا اور اللہ کا نام لے کر اندر قدم رکھ دیا۔ اندر لال رنگ کا زیرو وولٹ کا بلب جل رہا تھا ۔ جس نے ماحول کو کافی ہیبت ناک بنایا ہوا تھا۔ بیڈ پر نوید سر جھکائے بیٹھا تھا۔
'' ہیلو نوید۔'' ارشی نے اسے مخاطب کیا۔ جواب میں نوید نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اف خدایا! نوید کا چہرہ اس قدر خوفناک ہو گیا تھا کہ ارشی کانپ کر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں اور وہ ارشی کو قہر برساتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
'' تو کیوں آئی ہے یہاں۔ جا دفع ہو جا، ورنہ بھسم کر دوں گی تجھے۔'' نوید کی بجائے کسی عورت کی گرجدار آواز فضا میں گونجی۔ جو بظاہر نوید کے منہ سے ہی نکل رہی تھی۔ ارشی نے خوف سے جھرجھری لی۔
'' کک کون ہو تم؟''
'' تیری موت۔۔۔۔۔۔۔۔!'' یہ کہتے ہوئے نوید اٹھا اور ارشی کی طرف لپکا اس کے ہاتھ عجیب انداز میں اٹھے اور اس کے چہرے کی ہیئت بگڑ چکی تھی۔ اس کی آنکھوں ، ناک اور منہ سے چنگاریاں نکلیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ارشی کے قریب پہنچتا، ارشی کے گرد سبز رنگ کا ایک حصار قائم ہو گیا۔ جس سے ٹکراتے ہی نوید کے منہ سے دلدوز چیخیں خارج ہونے لگیں۔ وہ تکلیف اور اذیت سے کراہ رہا تھا۔ ارشی کی زبان سے خود بخود دوسرا سبق ادا ہونے لگا۔ وہ جوں جوں سبق پڑھتی گئی، فضا نوید کی چیخوں سے گونجتی رہی سب سبق پڑھ کر اس نے آخر میں نوید پر پھونک ماری تو نوید کو ایک جھٹکا لگا ۔ وہ ساکت ہو گیا اور بیڈ پر گر گیا، کمرے میں ٹیوب لائٹ کی روشنی پھیل گئی۔ ارشی نے محبت بھری نظر نوید کے وجود پر ڈالی۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے فوراً دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ حیرت انگیز طور پر نیچے سب لوگ پہلے کی طرح ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مشغول تھے۔
جیسے انہیں کسی چیخ کی آواز ہی نہ آئی ہو۔ ارشی نیچے اتری
'' ابو وہ ذرا گاڑی کی چابی چاہئے۔'' اس کی آواز پر سب چونکے۔
'' کیوں بیٹا خیریت ؟'' ابو نے پوچھا۔
'' جی ابو خیریت ہے وہ میری سہیلی کا فون آیا تھا۔ میں ابھی اس سے مل کر آتی ہوں۔ ضروری کام ہے اس کا''
'' بیٹا اس وقت،۔۔۔۔۔ کل چلی جانا۔''
'' نہیں ابو ابھی ضروری ہے پلیز۔۔۔۔'' ارشی نے ضد کی۔
'' اچھا لو لیکن جلدی آنا۔۔۔۔۔۔۔!'' اور ارشی چابی لے کر باہر چلی گئی جبکہ وہ لوگ دوبارہ باتیں کرنے لگے۔
۔
ارشی گاڑی تیزی سے چلا رہی تھی۔ اسے فوراً گاؤں پہنچنا تھا۔ اس وقت رات کے 8 بج رہے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا اس لئے سڑکیں ویران تھیں اور ہر طرف گہری خاموشی اور سناٹے کا راج تھا۔ لیکن ارشی کو ذرا برابر بھی ڈر محسوس نہ ہوا کیونکہ وہ لگاتار کلامِ الٰہی کا ورد کر رہی تھی۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمایاں تھے۔ اسے گاؤں پہنچنے کی جلدی تھی۔ وہ بار بار گاڑی میں نصب گھڑی پر نظر ڈال لیتی ۔ اسے فکر تھی تو اس بات کی کہ کہیں اسے پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔
وہ گاؤں 9:30 بجے پہنچ گئی۔ اس نے اپنی زندگی کی تیز ترین ڈرائیونگ کی تھی لیکن خدا کی مدد سے وہ صحیح سلامت گاؤں پہنچ گئی۔
گاؤں میں ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ ہر طرف ویرانی اور خاموشی تھی۔ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں بستروں میں دبکے ہوئے تھے۔ ارشی گاڑی سے اتری اور چلتی ہوئی مائی بختو کی مخصوص جگہ پر جا پہنچی جہاں اس کی سفید چادر تو موجود تھی لیکن مائی بختو کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ ارشی وہاں بیٹھ گئی اور مائی بختو کا انتظار کرنے لگی۔ اس کی نظریں بدستور کنویں پر مرکوز تھیں۔ چند لمحوں بعد ہی مائی بختو ایک طرف سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ ارشی اٹھنے لگی لیکن مائی بختو نے اسے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا۔ اس نے سفید لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ جس سے مسحور کن خوشبو ابھر رہی تھی اس کے چہرے پر حد درجہ اطمینان اور سکون تھا اور وہ ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ ارشی کو دیکھ رہی تھی۔ مائی بختو کے ہاتھ میں وہی مخصوص تسبیح تھی۔ وہ آرام سے چلتی ہوئی آئی اور اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گئی۔
'' شاباش بیٹا۔ تم نے پہلا امتحان پاس کر لیا۔ اب جاؤ اوراسے ختم کر دو۔''
انہوں نے کنویں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ارشی اٹھی اور کنویں کے قریب جا کر زمین پر بیٹھ گئی۔ اس کے اور کنویں کے درمیان اب دس قدم کا فاصلہ تھا۔ برگد کا درخت اپنی جگہ کھڑا لہرا رہا تھا۔ رات کے اس پہر یہ منظر انتہائی روح فرسا تھا۔ لیکن ارشی عشق کے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی، اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے منہ میں کچھ پڑھا اور کنویں اور درخت پر پھونکا۔ اچانک تیز ہوا چلنے لگی ہر طرف مٹی کے بگولے اڑنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے برگد کا درخت اور کنواں اس گرد کے بادل کی لپیٹ میں آ گیا۔ دھواں چھٹا تو ایک انتہائی خوبصورت لڑکی درخت کے تنے سے ٹیک لگائے کھڑی ارشی کو غضبناک انداز سے گھور رہی تھی۔