Arshi khan

Add To collaction

عشق بلا خیز

عشق بلا خیز

از قلم ۔ شگفتہ ارم درانی۔ پشاور
قسط نمبر۔5
آخری قسط
'' کیا چاہتی ہے تو؟ کیوں تنگ کر رہی ہے مجھے؟''
اس کی گرجدار آواز فضا میں گونجی۔ جو بالکل اس آواز جیسی تھی جو ارشی نے نوید کے منہ سے سنی تھی۔
'' نوید کی جان چھوڑ دے۔'' ارشی نے اطمینان سے کہا۔
'' کیوں چھوڑ دوں اسے؟ تو کون ہے اس کی؟ سن لے لڑکی غور سے سن لے۔ تجھے میری طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ اپنی جان عزیز ہے تو یہاں سے چلی جاؤ، ورنہ تجھے بھسم کر دوں گی۔''
'' نوید کے لئے ایک بار تو کیا سو بار بھسم ہونے کو تیار ہوں۔ لیکن تجھے اسے چھوڑنا ہو گا۔''
'' ہاہاہاہاہا آگ اور مٹی کا کوئی مقابلہ نہیں، لڑکی جا چلی جا خواہ مخواہ جان سے جائے گی۔''
''مقابلہ آگ کا مٹی سے نہیں، آگ کا آگ سے ہے۔ تو سراپا آگ ہے، تیرا خمیر آگ ہے جبکہ میری روح آگ ہے، میرا عشق آگ ہے۔ اور عشق کی یہ آگ تیرے سارے وجود کو جلا دے گی۔''
'' تو لے مقابلہ کر'' اس نے دونوں ہاتھ کنویں کی طرف کئے جہاں سے کئی تیر فضا میں بلند ہوئے اور برق رفتاری سے ارشی کی طرف بڑھنے لگے۔ ارشی اس حملے کے لئے قطعی تیار نہ تھی۔ وہ جھک گئی لیکن ایک تیر اس کے ہاتھ میں پیوست ہو گیا۔ ارشی کے منہ سے دلدوز چیخ نکلی۔ دوسری طرف وہ لڑکی کھڑٰی قہقہے لگا رہی تھی۔ ارشی نے زخم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کچھ پڑھا اور اس پر پھونکا تو اس پر غیبی خنجر برسنے لگے ۔ اس نے دونوں ہاتھ ارشی کی طرف کر کے جھٹکا دیا تو ان میں سے لال رنگ کی شعاعیں نکلیں اور ارشی کی طرف بڑھیں۔ لیکن ارشی اب تک سنبھل چکی تھی۔ اس نے جلدی سے کچھ پڑھ کر شعاعوں کی طرف دیکھ کر پھونک ماری تو ان کا رخ کنویں کی طرف ہو گیا۔ شعاعیں جیسے ہی کنویں پر پڑیں ، وہاں راکھ کا ڈھیر بن گیا۔
'' آہ'' اس لڑکی کی شکل ایک دم تبدیل ہو گئی اس کے منہ سے ایک دلدوز چیخ فضا کو چیرتے ہوئے خارج ہوئی۔۔
'' یہ کیا کیا تو نے؟ میری برسوں کی محنت یوں خاک میں ملا دی میں تجھے نہیں چھوڑوں گی۔''
چند لمحوں میں وہاں خوبصورت لڑکی کی بجائے ایک کریہہ صورت بڑھیا کھڑی تھی جس کی رنگت کوئلے کی طرح کالی تھی۔ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور ناخن قدرے لمبے اور بھدے ہو گئے تھے۔
وہ بھاگ کر ارشی کی طرف دوڑی لیکن ارشی کے قریب پہنچتے ہی اسے بجلی کا کرنٹ سا لگا کیونکہ ارشی کے گرد سبز رنگ کا حصار قائم ہو گیا تھا۔ ارشی نے بڑھیا کو دیکھا اور کچھ پڑھ کر اس پر پھونک دیا۔ اب کی بار اس عورت کے جسم میں آگ بھڑک اٹھی وہ چیختی ہوئی ادھر ادھر دوڑ رہی تھی۔ اس کی چیخوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا گیا۔ برگد کے درخت میں بھی بڑھیا کے جسم کی طرح آگ بھڑک اٹھی تھی۔
وہ جل رہا تھا۔ ارشی کے جسم سے کافی مقدار میں خون بہہ چکا تھا تیر اب تک اس کے ہاتھ میں پیوست تھا۔ مائی بختو فوراً وہاں پہنچی اور تیر ارشی کے ہاتھ سے نکال دیا۔
ارشی کے والد کے فون کی گھنٹی بجی ، انہوں نے نمبر دیکھا تو وہ سول ہسپتال کا تھا۔ انہوں نے اوکے کر کے بات شروع کی اور دوسری طرف سے بات سنتے ہی فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔
ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہو گئے۔ انہوں نے فون بند کیا اور سب کو ساتھ لئے سول ہسپتال آ پہنچے۔ ارشی آپریشن تھیٹر میں تھی۔ اس کے جسم میں خون کی کمی کی وجہ سے تین بوتلیں چڑھائی گئیں۔
'' ڈاکٹر صاحب ارشی کیسی ہے؟''
'' مبارک ہو آپ کو، آپریشن کامیاب رہا۔''
'' کیا ۔'' ارشی کی امی غش کھا کر گر پڑیں۔
'' ڈاکٹر صاحب اس کی جان تو۔''
'' جی جی بالکل اللہ کا شکر ہے۔ اگر وہ بر وقت ہسپتال نہ پہنچتی تو اس کی جان بھی جا سکتی تھی۔''
'' ڈاکٹر صاحب اسے یہاں کون لایا؟''
'' ایمبولینس۔ دراصل ہمیں ساڑھے نو بجے ایک کال آئی اورکسی نا معلوم ہستی نے حادثے کی خبر دی۔ تب ساتھ والے گاؤں جا کر انہیں لایا گیا۔''
''گاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ارشی کے والد نے حیرت سے پوچھا۔
'' جی۔ ہاں'' اور ڈاکٹر چلے گئے جبکہ ارشی کے والد سوچتے ہی رہ گئے۔
نوید سو کر اٹھا تو اسے ایسا لگا جیسے وہ گہری نیند سے جاگا ہو، وہ خکود کو بہت ہشاش بشاش اور ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ گھر میں کسی کو نہ پا کر اسے تشویش ہوئی۔ اس نے اپنے والد کے نمبر پر کال کی تو اسے ساری صورتحال کا علم ہو گیا اور وہ چند لمحوں بعد ہی ہسپتال پہنچ گیا۔
ارشی کو ہوش ایا تو سب سے پہلے اس کی نظر اپنی ماں کے چہرے پر پڑی۔ '' امی میں کہاں ہوں'' سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور خدا کا شکر ادا کر نے لگے۔
تھوڑی دیر بعد ارشی کے والد نے اس سے پوچھا۔
'' بیٹا تم گاؤں کیوں گئی تھی؟ اور تمہارے زخمی ہونے کی اطلاع ہسپتال میں کس نے دی؟''
'' مائی بختو نے''۔ اور ارشی نے مختصراً سارا قصہ ان کے گوش گزار کر دیا۔
'' ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔! تمہاری ساری باتوں سے مجھے اتفاق ہے لیکن مائی بختو والی بات کچھ حلق سے نیچے نہیں اترتی۔ کیونکہ انہیں فوت ہوئے تو اج دسواں دن ہے۔''
'' کیا؟'' اور ارشی حیرت و غم کے ملے جلے جذبات چہرے پر سجا کر رہ گئی۔
( ختم شد)

   1
0 Comments