Tasmi_writes

Add To collaction

20-May-2022-سکون

یہ منظر ایک کلب کا ہے جہاں پر اندر جاںٔیں تو سامنے ڈانس فلور پر لڑکے اور لڑکیاں آس پاس کو بھولاے آپس میں ڈانس کرنے میں مصروف تھے ایسے میں وہ فلور کے ایک طرف رکھے صوفے پر بیٹھا سبھی سے بے نیاز شراب نوشی میں محو تھا جبکہ اسکا اسے شراب پینے سے منا کر رہا تھا۔کہ اسکا فون بجا۔

اسلام واعلیکم آنٹی"کال پک کرتا وہ سامنے والے کو گھورتے ہوئے بولا۔
وعلیکم السلام بیٹا وہ ذیشان آپکے ساتھ ہے کیا"دوسری طرف سے نور بیگم بولی جو کہ سامنے بے نیاز بیٹھے شخص کی ماں ہیں۔
جی آنٹی میرے ساتھ ہی ہے "ریہان بولا۔
اچھا بیٹا میں رکھتی ہوں اور آپ اسکا خیال رکھنا نہ جانے اس لڑکے کو کیا ہوگیا ہے"نور بیگم فکرمندی سے بولی۔
جی آنٹی ہم بس آ رہے ہیں آپ پریشان نہ ہو"وہ نرم لہجے میں بولتا کال کٹ کر گیا اور اسکی طرف متوجہ ہوا جو اب سو گیا تھا وہ اسے دیکھتا سر نفی میں ہلاتا اسے کندھے کے سہارے سے اٹھانے لگا۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  اسلام واعلیکم کیسے ہو مجھے تو بھول ہی گئے ہو تم تو"وہ اپنے روم میں بیڈ پر آری ترچھی لیٹی فون پر کسی سے بات کر رہی تھی
  میں تھک تم بتاؤ"فون کے دوسری طرف سے بھری آواز گونجی۔
  میں تو ہمیشہ کی طرح خوبصورت"وہ بیڈ پر سے اٹھتی چہک کر بولی۔
  ہاہاہاہا۔۔۔تم سے بس کوئی شوخی مروالے"سامنے والا منہ بن آکر بولا۔
  تم اتنے سڑو کیوں ہو گئے ہو"وہ افسوس کرتی بولی۔
  بس خیر تم کب آ رہی ہو"وہ بات بدلتے ہوئے بولا۔
  بس کل کی فلائٹ ہے"وہ اسے سرپرائز دیتے ہوئے بولی۔اور اپنی الماری کھول کر سب کپڑے نکالنے لگی۔
  کیا سچی یار۔۔۔۔م۔۔مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا"وہ شاک اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں بولا۔
  ہاں نہ سچی بہت رہے لیا تم لوگوں سے دور اب بس"وہ اسکی کیفیت جان کر مسکراتے ہوئے بولی۔
اچھا اب میں فون رکھتا ہوں اب جب تم آؤگی تبھی بات ہوگی"وہ اپنی کہتا کال کٹ کرگیا جب کہ سنایا فون کو گھورنے لگی جیسے فون نہ ہو ذیشان ہو۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت اپنے روم میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا کہ دروازہ نوک ہوا۔
جی اندر آ جاںٔیں"وہ کش لیتا ہوا بولا لیکن سامنے موجود وجود کو دیکھتا اس نے سگریٹ کو زمین پر پھینک کر پیر سے مسل دیا۔
بیٹا وہ میں کہہ رہی تھی کہ اپنے اپنی یہ کیا حالت بنا لی ہے آپ پہلے تو ایسے نہیں تھے"نور بیگم اندر داخل ہوتی اسے دیکھتی بولی جو بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک ہاتھ میں برینڈیڈ گھری اور دوسرے میں بینڈز پہنے بکھرے ہوئے بال اور لال آنکھوں کے ساتھ بھی کسی کا بھی دل جتنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن اس کی یہ حالت دیکھ نور بیگم اپنے میں پی شرمندہ ہو گئی۔
یہ آپ ہی کی مہربانی ہے مسسز احمد"وہ انہیں دیکھتا تلخیص سے بولا۔
بیٹا مجھے معاف کر دو"وہ اسکی طرف بڑھتی روتے ہوئے بولی۔
آپ پلیز یہاں سے چلی جائیں ورنہ میں نے کچھ کہہ دیا تو آپ کے شوہر کو اچھا نہیں لگے گا"وہ ابھی بھی ہونز اسی انداز میں بولا۔
ذیشان وہ آپکے بھی بابا ہیں"نور بیگم بےبسی سے بولی۔
ہیں نہیں تھے وہ میرے لیے اسی دن مر گئے تھے جب انہوں نے مجھ سے میتی زندگی لی تھی"وہ تلخی سے بولتا باہر چلا گیا جبکہ نور بیگم وہی پر بیٹھتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی یہ انہیں کیا ہو گیا تھا انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو خود سے دور کردیا"یا اللّٰہ مجھے معاف کر دیں مجھے میرا بیٹا لوٹا دے یا اللّٰہ"وہ وہی پر بیٹھی روتے ہوئے اللّٰہ سے دعا کرتی سجدے میں چلی گئی۔
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  وہ گھر سے نکلتے ساتھ ہی رش ڈرائیونگ کرتا کلب پہنچا تھا اور اب کاؤنٹر پر بیٹھا ایک کے بعد ایک گلاس کھالی کیے جا رہا تھا کہ اسکا فون بجا جسے وہ بغیر دیکھے ہی کان سے لگا گیا۔
  ہیلو"دوسرا گلاس سامنے کرتے وہ موبائل میں بولا۔
  یار کہاں ہو تم۔۔تم مجھے لینے آنے والے تھے نہ"دوسری طرف سے خوبصورت سے خفگی سے بھرپور آواز گونجی۔
  آؤ شٹ یار سوری میں ابھی آ رہا ہوں پانچ منٹ میں"وہ یاد آنے پر جلدی سے کہتا باہر کہ طرف بڑھا لیکن اسکی چال میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔

وہ ریش ڈرائیونگ کرتا 10 منٹ میں اس سامنے موجود تھا اور اب اسے منانے میں لگا ہوا تھا۔
یار سوری میں بھول گیا تھا پلیز مان جا نہ اب"وہ منت کرتے ہوئے بولا۔
پہلے مجھے ایسکریم کھلاؤ پھر مانوں نگی"وہ منہ بنا کر بولی۔
اوکے میری ماں اب چلو گاڑی میں بیٹھو"وہ اسے بازو سے پکڑتا اپنے ساتھ لیے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
ایک منٹ ایک منٹ"وہ دونوں تھوڑا ہی آگے بڑھے تھے کہ سنایا اس سے اپنا ہاتھ چھڑواتی اس سے دور ہویٔ اور شاکی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی"وہ اسکے ایسے رکنے اور پھر خود کو ایسے دیکھتے پاکر آبرو آچکا کر بولا۔
تم۔۔تم نے ش۔ش۔شراب پی ہوئی ہے"وہ اسے شاک سے دیکھتی بولی۔
وہ یار۔۔ہاں یہ نا۔۔ابھی وہ کچھ بولتا کہ وہ اسکی بات کاٹتی زور سے بولی تو وہ گردن جھکا گیا۔ 
سوری یار"وہ اپنی صفائی دینے ہی لگا کہ وہ جاکر گاڑی میں بیٹھ گئی تو وہ بھی چپ چاپ گاڑی میں بیٹھتا گاڑی اسٹارٹ کردی۔
کب سے پی رہے ہو"پانچ ہی منٹ ہؤے تھے کہ گاڑی میں سنایا کی آواز گونجی۔
2 سال سے "وہ بصاف گوی سے بولا۔
واٹ اور تم نے مجھے کبھی بتایا نہیں اور اس ریہان کے بچے نے بھی مجھسے یہ بات چھپائی"وہ شاک سے بولی
کیا بتاتا کہ میں تمہارا دوست جس نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اب شراب پیتا ہے"وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
کیوں پیتے ہو"وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی جو گمسامنے دیکھتا گاڑی چلا رہا تھا۔
سکون"ایک لفظی جواب آیا۔
یہ سکون کا سمان نہیں ہے یہ زہر ہے جو تم اپنے اندر اتارتے ہو"وہ تلخی سے بولی۔
زہر ہے تو کیا ہوا لیکن مجھے سکون تو پہچاتا ہے نہ"وہ گاڑی روکتے ہوئے بولا جسکا مطلب تھا انکی منزل آ گئی ہے۔
تم پگل ہو گئے ہو"وہ اس سے غصے سے بولتی گاڑی سے باہر نکلی اور بغیر کسی سے ملے اپنے روم میں جاکر بند ہو گئی جبکہ ذیشان کی نظروں نے اسکا دور تک پیچھا کیا اور اسکے اوجھل ہوتے ہی وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھتا گاڑی بھگا لے گیا۔

یہ اللّٰہ یہ کیا ہو گیا یہ سب وہ ایسا تو نہیں تھا جیسا ہو گیا ہے یہ اللّٰہ اسے سہی رہا پر لا دے اس سے اور گناہ نہ کروا وہ بہت اچھا ہے اللّٰہ بس بھٹک گیا ہے آپ اسے ہدایت دےدو"وہ اپنے روم میں اللّٰہ کے سامنے سجدے میں اس کے لیے فریاد کر رہی تھی جس سے اسکا کوئی رشتہ نہ ہوکر بھی بہت گہرا رشتہ تھا۔
بی بی جی وہ نیچے ذیشان صاحب آیے ہیں"وہ جاے نماز تہہ کر رہی تھی کہ اسکی ملازمہ نے آکر اطلاع دیا
آپ انسے کہو کہ بی بی جی کے سر میں درد ہے اور وہ ابھی سو رہی ہیں"سنایا الماری بند کرتی بولی کہ اتنے میں وہ خود ہی آ گیا۔
کیوں۔۔کیوں درد کر رہا تمہارا سر"وہ اسے دیکھتے ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں اڑوسے بولا۔
رضیہ بی آپ جائیں"وہ اسکی بات اگنور کرتی ملازمہ سے بولی تو وہ چلی گئی۔
میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہنی"وہ اسکے اگنور کیے جانے پر اسے بازو سے پکڑتے اپنے سامنے کرتے ہوئے بولا۔
مسٹر ذیشان تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے اپنے غلیز ہاتھوں سے چھونے کہ"وہ اس سے اپنا بازو چھڑواتی غصے سے بولی۔
تمہیں اب میرے چھونے سے بھی پروبلم ہے سہی ہے"وہ صدمے میں بولتا اپنے قدم پیچھے لینے لگا۔
جبکہ وہ رخ موڑے کھڑی رہی۔
تمہیں کوئی فرک نہیں پڑھتا نہ"وہ اس سے پوچھ رہا تھا جبکہ ہاتھ میں چاکو تھا جو وہ اپنے نس پر رکھے ہوئے تھا۔
یہ کیا کر رہے ہو ذیش "وہ اسکی آواز پر جیسے ہی موڑی اسے چاکو لیے دیکھ چکا کر بولی۔
تمہیں نہیں نہ فرق پڑھتا"وہ ابھی بھی اسی انداز میں پوچھ رہا تھا۔
ذیش میری جان چاکو پھی دو نہ دیکھو مجھے فرق پڑھتا ہے میں ہی تو ہوں جسے فرق پڑھتا ہے"وہ اس سے روتے ہوئے بولتی دھیرے دھیرے اسکی طرف بڑھنے لگی اور اسکے ہاتھ سے چاکو لے لیا۔جبکہ ذیشان اسکے گلے لگا رونے لگا چھ فٹ کا کسرتی جسامت رکھنے والا مرد ایک نازک لڑکی کے گلے لگے رو رہا تھا۔رو تو وہ بھی رہی تھی لیکن بے آواز
ذیش کیا ہو گیا ہے تمہیں تم ایسے تو نہیں تھے تم تو اتنے شراتی تھے پھر کیا ہوا جو تم ایسے ہو گئے"جب وہ اس سے الگ ہو کر جانے لگا تو وہ اسے بازو سے پکڑتی روکتے ہوئے بولی۔
ہنی پلیز مجھے ابھی جانے دو"وہ اس سے منت کر رہا تھا ابھی اسے سکون چاہیے تھا جو کہ اسے شراب سے ملنے تھی لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کہ حرام چیزیں کبھی سکون نہیں بخشتی وہ اور بے سکونی عطا کرتی ہیں۔
کہاں جانا ہے وہی نشہ"وہ اس سے سوال کر رہی تھی یہ طنز کر رہی تھی وہ سمجھ نہیں پایا لیکن سر اثبات میں ہلا دیا۔
نہ کرو وہ حرام ہے اسلام میں"وہ اب نرمی سے بول رہی تھی۔
مجھے ابھی سکون کی ضرورت ہے مجھے جانے دو"وہ اس سے جانے کی علتجا کر رہا تھا۔
وہاں سکون نہیں ہے سکون یہاں ہے"وہ دل کی طرف اشارہ کرتی بے بسی سے بولی۔اور اسے پکڑے بیڈ پر لے آئی اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر دبانے لگی تو ذیشان بھی بغیر کچھ بولے اسکی گود میں چہرا چھپا گیا اسے بس سکون چاہیے تھا جو وہ اسے بخش رہی تھی کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں چلا گیا تو وہ اسکا چہرا دیکھنے لگی جو کہ سوتے ہوئے کتنا معصوم لگ رہا تھا لیکن نہ جانے کیوں اسکا سکون اس سے چھین لیا گیا اسنے اب تہہ کر لیا تھا کہ ریہان سے ضرور پوچھے گی کی ایسا بھی کیا ہوا ہے اسکی غیر موجودگی میں جو کہ ذیشان ایسا ہو گیا ہے۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   ہیلو ریہان میں تمہیں ایڈریس سینڈ کر رہی دس منٹ میں پہنچو"وہ ایک ہاتھ سے موبائل تھامے دوسرے سے اپنی پرس اٹھاتی باہر کی طرف پڑھتے ہوئے بولی۔
   کیوں خیریت ہے نہ سب"ریہان حیرت سے بولا کیونکہ سنایا اور سلام نہ کرے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔
   پہلے ملو پھر سب بتاؤ گی"وہ بولتی کال کٹ کر گئی۔
   وہ ریسٹورنٹ میں پہونچی تو ریہان کو اپنے انتظار میں پایا ریہان اسے آتے دیکھ کھڑا ہوت گیا 
   بیٹھ جاؤ ریہان"وہ اپنی جگہ پر بیٹھتی بولی۔
   ہہمم اب بولو کیا ہوا ہے اتنا پریشان کیوں ہو"وہ پریشانی سے بولا تینوں ہی بچپن کے دوست تھے جو کہ عمر گزرنے کے ساتھ انکی دوستی بھی گہری ہوتی گئی۔لیکن پانچ سال پہلے سنایا کو اپنی اسٹڈی کے لیے لندن جانا پڑا تھا اور جب واپس آئی تو یہ سب۔
   ذیش کو کیا ہوا ہے وہ ایسا کیوں ہو گیا ہے مجھے سب بتاؤ وہ بھی سچ سچ"وہ کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی اتنے میں ویٹر آ گیا سنایا کے آنے سے پہلے ہی ریہان نے کوفہ کا آڈر دے دیا تھا۔
   آووو تو تم اس لیے پریشان ہو"وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔
   ہہممم"وہ بولتی خاموش ہوگئی۔
   وہ دراصل تمہارے جانے کے چھ مہینے بعد ذیش ایک لڑکی سے ملا تھا جسکا نام سمبل تھا وہ بہت اچھی تھی دونوں کی ملاقات ہونے لگی پھر نا جانے کیسے دونوں کو پیار ہو گیا ذیش نے گھر پر بات کی تو انکل آنٹی راضی نہیں ہوئے کیونکہ سمبل ہمارے اسٹینڈرڈ کی نہیں تھی تو ذیش نے انہیں سوسایڈ کی دھمکی دی کہ اگر وہ نہیں مانے تو وہ خودکشی کرلے گا تو مجبوراً انہیں ماننا پڑا لیکن دوسری طرف انکل نے سمبل کو دھمکی دینا اسٹارٹ کردی لیکن تب بھی جب بات نہیں بنی تو انہوں نے اسکا ایکسیڈینٹ کروا دیا جسکی وجہ سے سمبل مر گئی لیکن جب یہ سب بات ذیش کو پتا چلی تو غصے میں سب کچھ تیس نہس کرتا کلب پہنچ گیا جہاں پر اسے عامیر نام کا ایک لڑکا میلا جو اسکا ہمدرد بن رہا تھا لیکن وہ تھا اس کا سب سے بڑھا دشمن وہ سمبل کا کزن تھا لیکن یہ بات ذیش کو نہیں پتا تھی پھر انکی دوستی بڑھنے لگی وہ اسے روز زبردستی شراب پلاتا اور وہ بے وقوف پی جاتا پھر اسکو شراب میں سکون نظر آنے لگا اور ایک دن نہیں پیتا تو پاگل ہونے لگتا ہے اور اب خود تمہارے سامنے ہے"ریہان اسے ساری بات بتاتے آخر میں لمبی سانس خارج کی۔
   اور۔۔۔تم۔کہاں تھے۔۔۔۔اسے پینے سے روک۔۔۔نہیں سکتے تھے"وہ روتے ہوئے بولی اب اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ یہاں سے گںْی ہی کیوں تھی۔
   میں بھی کچھ مہینوں کے لیے آؤٹ اوف سیٹی تھا"وہ سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔
   اتنا کچھ ہو گیا اور تم لوگوں نے مجھے بتایا بھی نہیں"وہ ہونذ روتے ہوئے بولی۔
   تم ہرٹ ہوتی نہ یہ سن کر کہ ہو کسی اور کو"وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا جو اسکی بات پر اسے حیرت سے دیکھنے لگی تھی۔
   ایسے حیرت سے نہ دیکھو مجھے پتا تھی تمہاری یہ آنکھیں"وہ اسکی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتا کندھے آچکا کر بولا تو وہ نظریں جھکا گئی۔
   اچھا اب میں چلتا ہوں میری ایک ضروری میٹینگ تھی تمہاری لیے چھوڑ کرا یا تھا"وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا تو وہ بھی ساتھ میں کھڑی ہو گئی۔
   شکریا آنے کے لیے"گاڑی کے پاس پہنچتی وہ دھیرے سے بولی۔
   کبھی ضرورت پڑے تو بتانا اللہ حافظ"وہ مسکرا کر کہتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔جبکہ وہ اسے جاتا دیکھنے لگی۔
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ابھی وہ گھر پہنچی ہی تھی کہ اسکا فون رنگ ہوا۔
    ہیلو جی کون"فون اٹھاتی وہ انجان آواز سنتی بولی۔
    جی ہاں میرا دوست ہے کیوں کیا ہوا"وہ حیرت سے بولی جبکہ اسکے چلتے قدم رک چکے تھے۔
    آپ پلیز اسے کچھ مت کہیے گا میں ابھی آتی ہوں"وہ دوسری طرف سے ملنے والی انفورمیشن پر جلدی سے بولتی دوبارہ گاڑی کی طرف بھاگ اور پانچ منٹ کے اندر وہ پولیس اسٹیشن میں موجود تھی۔
    آپکے یہ دوست نشے میں ڈرائیونگ کر رہے تھے اور انکا ایکسیڈینٹ ہوتے ہوتے بچا ہے"پولیس آفیسر نے ذیشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
    سوری سر آپ پلیز کیس نہ بنائیں"وہ لجاجت سے بولی۔
    کیا تو بن گیا ہے محترمہ"آفیسر اپنی چںٔیر پر بیٹھتے بولا۔
    سر پلیز آپ یپسے لیں لیں لیکن یہ کیس بند کر دیے آںٔندہ نہیں ہوگا"وہ منت کر رہی تھی وہ جانے کبھی کسی سے منت نہیں کہ آج اسکے لئے منت کر رہی تھی لیکن اسے تو جیسے فرق ہی نہیں پڑھ رہا تھا۔
    تھیک ہے میڈم بٹ یہ لاسٹ وارنینگ ہے اور میں رشوت نہیں لیتا"آفیسر شاید نرم دل تھا اس لیے اسکی آنکھوں میں اسکے لئے محبت اور آنسو دیکھ کر مان گیا اور اسے لے جانے کی اجازت دے دی۔
    شکریا سر آپکا"وہ تشکر سے بولتی اسکی طرف بڑھی جو ابھی بھی شراب کی بوتل ہاتھ میں لیے ہوئے تھا۔وہ اسے بازو سے پکڑتی بامشکل کھڑی ہوتی سہارہ دیتے گاڑی تک لای اور فرنٹ دروازہ کھول کر بمشکل اسے بیٹھاتی دوسری طرف آکر گاڑی اسٹارٹ کرتی گھر کی طرف موڑ دی۔
با مشکل اسے روم میں لاتی بیڈ پر لیٹا کر اسکے شوز وغیرہ اتارنے لگی کہ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
ہنی تمہیں پتا ہے وہ مجھ سے نہ بہت پیار کرتی تھی اور بھروسہ بھی لیکن میں نے کیا کیا میں نے اسکا بھروسہ توڑ دیا میں اسے نہیں بچا سکا"ذیشان اسکا ہاتھ پکڑتا بچوں کی طرح بتانے لگا ۔
مجھے سب پتا ہے ذیش تم آرام کرو"وہ اپنے آنسو جو کہ نکلنے کے بے تاب تھے انہوں اندر ہی اتارتے ہوئے بولی۔
نہیں مجھے بھی اسکے پاس جانا ہے تم اللّٰہ سے کہو نہ وہ تمہاری بات سنتا ہے"وہ روتے ہوئے بولا۔
اللّٰہ نا کرے ذیش تمہیں کچھ ہو اور پلیز سو جاؤ"وہ بھی اب روتے ہوئے بولی۔ابھی وہ کچھ کہتا کہ اسنے کے کردی
یا اللّٰہ ذیش جب سمبھالی نہیں جاتی تو کیوں پیتے ہو وہ صدمے سے بولی۔
رضیہ بی آپ باہر سے گارڈ کو بلا دیں پلیز"رضیہ بی جو کی روم میں ہی تھی وہ انسے بےبسی سے بولی تو وہ باہر چلی گئی۔کچھ ہی دیر میں وہ گارڈ کے ساتھ آی۔
کلیم انکل آپ زرا انکا یہ ڈریس چینج کردے پلیز"وہ الماری سے ایک لوور اور ٹی شرٹ نکال کر انہیں دیتے ہوئے بولی۔
اوکے بی بی جی"وہ اس سے کپڑا لیتے ہوئے بولے تو سنایا رضیہ بی کو لیے باہر نکل گئی۔
بی بی جی صاحب جی کو کیا ہوا ہے"رضیہ اپنی بی بی جی کو پریشان دیکھ بولی۔
کچھ نہیں رضیہ بی بس انکی طبیعت خراب ہے"وہ ان سے نظر چراتے ہوئے بولی۔
تو آپ انہیں انکے گھر کے کر کیوں نہیں گئی"رضیہ بی نے تجسس سے پوچھا۔
بی بی جی کردیا'ابھی وہ کچھ بولتی کہ کلیم انکل باہر نکلتے ہوئے بولے۔
شکریہ کلیم انکل وہ انکا جواب دیتی روم میں آکر دروازہ لاک کر دیا۔اور سامنے بیڈ پر پڑے وجود کو دیکھنے لگی جو آپ سکون سے سو رہا تھا۔وہ بھی صوفے پر جا کر لیٹ آنکھیں موندے گئی۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
   آہ میرا سر"ابھی وہ اٹھا تھا کہ اسکی نظر سامنے صوفے پر سوی سنایا پر پڑی۔
   میں یہاں کیسے کب"وہ اپنے دماغ پر زور دے رہا تھا کہ اسے سب یاد آ گیا کہ اسنے کل کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ 
   افففف سوری ہنی تم کیوں مجھے کے آی"وہ ابھی خود سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ سنایا کی بھی نیند کھل گئی۔
   تم اٹھ گئے اب کیسا فیل کر رہے"سنایا اسے اٹھا دیکھ جلدی سے اٹھتے ہوئے بولی اور دوپٹہ اپنا سہی کیا جو کہ ایک طرف دھلک گیا تھا جبکہ ذیشان ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
   ذیش میں تم سے پوچھ رہی"جواب نہ پاکر وہ دوبارہ بولی اب کی وہ صوفے سے اٹھ چکی تھی اور اسکے سامنے کھڑی تھی۔
   ہہہہ۔۔میں تھیک ہوں "وہ ہوش میں آتے ہوئے بولا۔
   اچھا تم فریش ہو جاؤ میں ناشتہ بھیجتی ہوں"وہ بول کر جانے لگی کہ اسنے اسکا ہاتھ پکڑ لیا جس پر وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
   وہ۔۔مجھ سے شادی کروگی"اس نے یہ سوال کیوں کیا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا بس دل نے کہا اور اسنے کہہ دیا۔
   تم ہوش میں ہو نہ ذیش کیا کہہ رہے ہو"وہ شاک سی حالت میں بولی۔
   ہاں میں ہوش میں ہوں مجھسے شادی کرلو میں جب بھی تمہارے پاس رہتا ہوں تو سکون میں رہتا ہوں ان پانچ سالوں میں مجھے پہلی دفعہ سکون ملا ہے پلیز مجھسے شادی کرلو"کیا اظہار تھا اظہار تھا کہ منت اسے سمجھ نہیں آیا لیکن اس نے ہاں کر دی۔
   پھر اسی دن چند گواہوں میں انکا نکاح ہو گیا یہ سب اتنا جلدی ہوا کہ دونوں کو ہی کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔

ابھی وہ اپنے روم میں بیٹھی تھی اور اپنے ساتھ ہوے آج کے واقع کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ دروازہ نوک ہوا اور پھر وہ اندر آیا۔
سوری میں نے تمہیں بہت پریشان کیا ہے"وہ نظریں جھکا کر اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔
تم نے تو مجھے بہت پریشان کیا ہے کتنا سوری کروگے"وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
کیا تم مجھے معاف نہیں کروگی"وہ اسے دیکھتے ہوئے دھرے سے بولا آج وہ بہت بدلا ہوا تھا شاید یہ نکاح کا اثر تھا یہ پھر کچھ اور۔
کوئی بات نہیں تم بس خوش رہو"وہ ابھی بھی اسکی ہی خوشی دیکھ رہی تھی۔
کیا تم مجھے اپنے گھر نہیں لے کر جاؤ گے"وہ اسے خاموش دیکھ بولی۔
وہ میرا گھر نہیں ہے وہاں میرا کوئی نہیں ہے"وہ ابھی بھی نظریں جھکا کر بولا۔
ایسے بول دینے سے کبھی رشتے نہیں ختم ہوتے ذیش اور ہم آج ہی جائیں گے۔
اچھا"وہ بس اتنا آہی بول سکا۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  ذیش تم نماز پڑھو اور اللّٰہ سے دعا کرو تمہیں سکون ملے گا"ابھی وہ دونوں گھر اے تھے اور اپنے روم میں تھے جب سنایا بولی۔
  میری نماز اور دعا نہیں قبول ہوتی"وہ بیڈ بر بیٹھا اپنے ہاتھ کی لکیر دیکھتے ہوئے بولا۔
  ایسا کیوں کہتے ہو وہ سب کی سنتا ہے ایک دفعہ اسے سنا کر تو دیکھو"وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
  اچھا"وہ اتنا بول کر خاموش ہو گیا۔
  ابھی دیکھو آذان ہوئی ہے جاؤ نماز پڑھ کر آؤ میں بھی ہرھ لیتی ہوں"وہ اسے کھڑا کراتے ہوئے بولی اگر اللّٰہ نے مجھے دھتکار دیا تو میں تو بہت گنہگار ہوں نہ"وہ اپنا سر اسے بیان کر رہا تھا۔
  مجھ پر بھروسہ ہے نہ بس جاؤ وہ نہیں دھتکارے گا یقین کرو"وہ اسے آنکھو سے یقین دلاتی دربارہ اللّٰہ کی طرف بلا رہی تھی۔اور وہ بھی اسکا یقین کرتے نماز پڑھنے چلا گیا۔
  آج اتنے سالوں بعد وہ وہاں پر کھڑا تھا جہاں پر آنا اسنے کب کا چھوڑ دیا تھا آنسو اسکے آنکھوں سے تراتر سے بہہ رہے تھے اسکے لب کپکپا رہے تھے وہ کچھ نہیں کہہ رہا تھا بس رو رہا تھا اللّٰہ سے اپنے ہر کیے کی معافی مانگ رہا تھا وہ وہاں ہر معافٹمانگ رہا تھا جہاں سے معافی معاف کر دیا جاتا ہے وہ کتنا خوش قسمت تھا کہ اسے دوبارہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا موقع ملا۔اب وہ چہرے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور سکون سکون تو اب اسکے انگ انگ سے جھلک رہا تھا اسے سکون میسر ہو گیا تھا وہ جسے اتنے سالوں سے ڈھونڈ رہا تھا آج مل گیا تھا۔
  وہ مسکراتے ہوئے روم میں داخل ہوا تو اسے دعا مانگتے پایا۔
  کیا ہوا بڑے خوش ہو"وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ مسکرا کر بولی۔
  شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے مجھے سکون عطا کرنے کے لیے پلیز اب کبھی میری زندگی سے مت جانا اب میں تمہیں نہیں کھو سکتا میرے ساتھ رہو گی نہ ہمیشہ"وہ اسکا ہاتھ تھامے اس ہمیشہ ساتھ رہنے کی تصدیق مانگ رہا تھا جبکہ اسنے مسکرا کر سر ہاں میں ہلا دیا اور اس کے سینے سے لگ گئی۔




   
   
  

   20
6 Comments

Asha Manhas

08-Sep-2022 12:24 PM

It's Amazing🤩🤩

Reply

Sona shayari

06-Sep-2022 10:58 PM

واہ واہ بہت خوبصورت لکھا ہے آپ نے 🔥🔥🔥

Reply

Arshi khan

06-Sep-2022 08:16 PM

بہت بہت زبردست لکھا ہے🔥🔥

Reply