Mchoudhary

Add To collaction

وہ طوفانی رات بقلم ملیحہ چودھری


وہ طوفانی رات 


کبھی کبھی زندگی ایسا موڑ اختیار کرتی ہے کہ ہم جو سانسیں بھی لے رہے ہیں نہ وہ بھی ایک مذاق لگنے لگتا ہے۔ 
رات کے دس بج رہے تھے وہ بیٹھی کسی کا نے صبری سے انتظار کر رہی تھی...... کیا تھا کیوں تھا یہ تو ہر محبّت کرنے والا بخوبی جانتا ہے 
محبت احساس خوبصورت کہتے ہیں
محبت کی خوشبوں بہت دور تک مہکتی ہے
محبت میں بے رنگ بھی رنگین ہوتا ہے
محبت بھول جانا کٹیھن ہوتا ہے
محض ساتھ نبھانے کے لیے الفاظ استعمال ہوتے ہیں
دل کے کہی تہہ خانے میں تو جیسے ویران ہوتے ہیں
محبت لفظ سے ہی نفرت سی ہونے لگتی ہے
میں کیسے بھول گئی کہ یہ دنیا ظالم ہے
اور اُسنے بھی تو اس ہی دنیا میں جنم لیا ہے

کتنی دیر کِتنی دیر وہ سپاٹ چہرے سے اپنے میسیج سین کرتے دیکھ رہی تھی لیکن جواب کوئی نہیں ملا 
کتنے دعوے سے کہتا تھا کہ "مایوس نہیں ہونا ساتھ ہوں تیرے"

اور آج آج جب سب سے زیادہ ضرورت اُسکی محسوس ہو رہی تھی تو آج وہ دور کیا بہت دور تھا آنکھوں سے دور بہت ......

مسلسل تکلیف سے بہتے آنسووں کیوں تکلیف ہوتی ہے ۔محبت کی دہلیز پر سوال تھے ذہن میں جو سوچنا نہیں چاہتی تھی پر جب انسان کو محبّت ہوتی ہے نہ تو خوف اُس سے زیادہ طاری وجود پر ہوتا ہے

"آپکو بات نہیں کرنی__؟" پھر سے میسیج کے رپلائی کا انتظار کرتے ہوئے دوبارہ میسج کیا گیا۔ لیکن بے سود
شائد وہ شخص بھول جانا چاہتا تھا......

صحیح کہا ہے کسی نے "تمنے نہ جانے کس لفڑے میں خود کو ڈال لیا ہے"

"ہہہہ صحیح تو کہا تھا اُسنے مجھے کیونکہ وہ خود اس انجام کو دیکھ چکا تھا ... 
میری خواہش مجھ پر بھاری پڑ گئی ہے"
میں کیا بتاؤں آپکو کہتے ہیں نہ قبر کا حال مردہ جانے اور محبت بھی کچھ ایسا ہی احساس ہے یہ مل جائے تو زندگی اور نہ ملے تو مردہ کر دیتی ہے.......

وہ طوفانی رات  طوفانی بارش کی تھی اور وہ روتے ہوئے کب سوئی نہیں جانتی تھی مُشکِل سے آدھا گھنٹہ سوئی ہوگی پھر سے اٹھ بیٹھی ....

پھر سونے کی کوشش کی گئی نیند آنکھوں سے کوسوں دور "کہی مصروف ہوگے" دل میں سوچتے ہوئے اُسنے ڈیٹا آن کر کے چھوڑ دیا اگر آن ہوئے گے تو ضرور کال کرے گے " دل کو بہلانے کا ایک اور راستہ چھوڑ دیا.... 

لیکن ان آنکھوں اور دل کے درد کو کیسے برداشت کر سکتی تھی... یہ آنسوں تو صرف اُسکی خواہش مانگ رہا تھا اور اب کیا کرتی اس طوفانی بارش میں جو اس قدر تیز تھی کہ نہ جانے کن غموں کو بھلا دینا چاہتی تھی اُنکو بہہ دینا چاہتی تھی .... 

ایسے ہی یہ طوفانی رات کی زد میں بہتے اُسکے آنسوں صبر مانگ رہے تھے........

وہ سکون کی فوار مانگ رہی تھی پر نہیں ملی......

ضبط غم سے سوا ملال ہوا
اشک آئے تو جی بحال ہوا
پھر سے بجھنے لگی ہے بنیائی
پھر تیری دید کا سوال ہوا 
اِک ذرا چاند کے ابھرنے میں
دیکھ سورج کا رنگ لال ہوا
کتنے لوگوں کا ملنا جلنا تھا 
خود سے ملنا بھی محال ہوا
میں نے ماضی کا ہر ورق پلٹا
مجھکو تو ہر بات پر ملال ہوا
میں تو اک ٹک دیکھتی رہی اسکو
رائگیاں  لمحہ وصال ہوا
درد اشعار میں اُتر آیا لوگ کہنے لگے کمال ہوا

بقلم ملیحہ چودھری


   16
9 Comments

Shnaya

28-May-2022 02:01 PM

👌👌

Reply

Reyaan

28-May-2022 09:52 AM

👏👌

Reply

Arshik

26-May-2022 09:02 PM

Nice👏

Reply