عبادت
رُخ یار کی ہو زیارت، عبادت
ملے جو یہ مجھ کو سعادت، عبادت
گریں ان کی آنکھوں سے بس اشک پیہم
میں ہاتھوں میں بھر لوں امانت ،عبادت
جبیں پر مری لمس جاناں تمہارا
ہو اس بات کی گر اجازت ،عبادت
تری ہر صدا پر جھکاؤں میں سر کو
ہے میرے لیے یہ اطاعت، عبادت
ترے ہر مخالف سے ہے روبرو یاں
مری جو بظاہر بغاوت ،عبادت
تغافل پہ تیرے تُجھے تکتے رہنا
یہ ناچیز کی ہے حماقت،عبادت
کہ پہلو میں تیرے کھڑا دوسرا شخص
یہ احساس ہے بس رقابت،عبادت
سماعت میں میری یہ آواز تیری
ہے رب کی طرف سے عنایت، عبادت
ترے چہرے کے نقش کو یوں ہی پڑھنا
شفؔق کے لیے ہے عبادت، عبادت
✍️۔از۔شفق شمیم