غزل
ہر سوال کا اُن کو ہم جواب کرتے ہیں
اور چہرۂ دلبر، ماہتاب کرتے ہیں
ہم پہ اس لیے غلبہ، سخت مرحلوں کا ہے
ہم بھی بحرِ ظلمت کا انتخاب کرتے ہیں
ساتھ اب کِسی کے بھی، گفتگو نہیں کرتے
عشق کے مریضوں سے بس خطاب کرتے ہیں
اب پڑھا نہ جائے گا، ہم سے کوئی بھی مضمون
چشمِ یار ہی کو بس، ہم نصاب کرتے ہیں
اُن کا لہجہءِ شیریں، چاشنی سے ہے بھرپور
ہر گھڑی وہ کیوں ہم سے اجتناب کرتے ہیں؟
کوئی بھی نشہ ہم پر، حاوی اب نہیں ہوتا
یار کی جو نظروں کو ہم شراب کرتے ہیں
ان سے مل نہ پائے ہیں ہم کبھی بھی خلوت میں
سامنے وہ آئیں تو ہم حجاب کرتے ہیں
✍️۔از۔ شفق شمیم شفق
Anees shahi lakheem puri
18-Jun-2022 09:40 AM
محبت کہتے ہیں اس کو رولاتی ہے جو انسان کو انیس شاہی لکھیم پوری
Reply