اظہار محبت
ادھی رات کا وقت تھا میں میرے باقی کزن ہم سب چھت ہر دادا جان کے ساتھ موجود تھے۔ دادا جان اپنا حقہ لگائے بیٹھے تھے ۔ سب باتوں میں مشغول تھے اور میں چاند کو تک رہا تھا ۔ سردیوں کی سرد ہوائیں چل رہی تھی ساتھ کچھ کوئلے جلا رکھے تھے ان کی گرمائش سے اس ٹھنڈ میں بیٹھنا کچھ ممکن تھا ۔ باقی گھروں میں خاموشی کا راج تھا۔ ہر سو ویرانہ پھیلا ہوا تھا ۔ ہمارے گھر میں بھی سب سو چکے تھے سوائے ہم لوگوں کے ۔ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے دادا جان اپنی جوانی کے قصے سب کو سنا رہے تھے پر میرا دھیان تو بس چاند کی روشنی پہ تھا۔ اور سب نے جیسے میری خاموشی کو محسوس کر لیا تھا دادا جان کا دھیان میری طرف ہوا وہ اپنا حقہ پیتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوۓ پت کی گل اے ؟ بڑا چپ بیٹھا ایں ؟ میں نے ہنسی میں بات ٹالنے کی کوشش کی مگر ناکام ہی رہا۔ میرے ساتھ بیٹھے اسد نے مجھے کہنی ماری اسد کے ساتھ بیٹھے علی نے گلا کھنکھارا ۔ وہ سب مجھے یوں چھیرنے لگے میں نے اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھ لیا۔ دادا جان بولے کی گل اے مینوں وی تے دسو یا میں پھرا لاٹھی۔ علی بولا کچھ نہیں دادا جان محبت دی گلا نے تسی کی جانو۔ داداجان بولے لہ تے تو ہور اینج ای جم گیا سے۔ محبتاں تے ساڈے زمانے چے ہندیاں سن تانو کی پتہ محبت دا سواد کی ہندا۔ داداجان سانوں وی تے دسو کیری سی او ۔ داداجان مسکرانے لگے کہنے لگے کی یاد کرا دیتا ای ۔ چن ورگی سی او ایڈا حسن طے ہلے تک کیسی چے نہیں ہوسکدا۔ بس اللہ دے کام نے ۔ داداجان اس عمر میں بھی یاد کر کے افسردہ ہوگۓ تھے ۔ داداجان تانو او لبی نہیں ؟ داداجان بعل پڑے نہیں یار بس کی کریے بزدلی لے ڈوبی سوچیا سی کہ کہہ دوا گا جدو لبے گا موقع پر فیر میں شہر چلا گیا چار دن بعد واپس آیا تے پتہ لگا اونوں تہ کوئی ہور لے گیا۔ میرے دل کی دھڑکن اچانک سے بہت کم ہوگئی تھی دل ڈوبنے لگا تھا۔ داداجان ابھی بھی بول رہے تھے۔ افسوس بس اس چیز دا اے کہ میں اظہار نہیں کرسکا۔ اور اچانک بجلی بحال ہوگئی تھی جو سارے دن سے گئی ہوئی تھی۔ اور ایک دم سے شور سا مچ گیا کہ چلو آ تو گئ بجلی اور سب اپنے کمرے کی جانب اٹھ گئے۔ میں بھی کمرے میں آگیا کروٹیں لیتا رہا سوچتا رہا بار بار لگتا دل ابھی باہر کو آجاۓ گا ۔ داداجان کی باتیں کانوں میں گونج رہی تھی ۔ اور دماغ تھا کہ ایک ہی سوچ پر اٹک گیا تھا اگر میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوگیا تو۔ نہیں نہیں میں بزدل تھوڑی ہوں ۔ دم گھٹنے لگا تھا کمرے میں ۔ باہر صحن میں آگیا تہجد کا وقت تھا ۔ اچانک کچن سے کوئی کھٹاک کی آواز آئی ۔ میں گبھراتا ہوا کچن کی جانب دیکھا ۔ کچن کے جالی واے دروازے سے مجھے اس کا ۔۔۔ اس کا خوبصورت چمکتا ہوا چہرا نظر آیا۔ دل کی بجھتی دھڑکنیں تیز ہوگئیں تھیں میں کچن کے دروازے پاس آگیا ہم نے یک دم ایک ہی سوال پوچھا سوۓ نہیں ؟ وہ مسکرا دی ۔ میرے تو ہونٹوں سے شاید مسکراہٹ جا ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے اپنی خوبصورت پلکے اٹھا کے دیکھا وہ سات چولہ جلانے کی کوشش کر رہی تھی پر گیس جا چکی تھی میں نے پوچھا کیا کر رہی ہو ؟ چاۓ بنانے آئی تھی پر گیس جا چکی ہے اب دوسری tea bag والی بنانی پڑے گی۔ میں بس اس کو کام کرتا دیکھ رہا تھا اس نے چاۓ کے لیے گلاس نکالنا چاہا بے دھیانی میں ایک گلاس کے ساتھ دوسرا بھی باہر نکل کر فرش پر گر کہ ٹوٹ گیا میں ہڑبڑا سا گیا میں نے جھک کے ٹوٹے ہوا گلاس اٹھانا چاہا پر شیشے کی نوک میرے ہاتھ پہ پھر گئی تھی میرے ہاتھ سے خون نکلنے لگا تو ماریہ پریشان ہوگئی اس نے جلدی سے اپنا دوپٹہ میرے زخم پر رکھ دیا تاکہ خون نہ نکلے ۔ یہ کیا کیا آپ نے ؟ دیکھ کے نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ سب میری غلطی ہے ۔ اوہو نہیں تو کیا ہوگیا ابھی رک جاۓ گا خون میں نے اس کا دوپٹہ ہٹا کہ اسے دکھایا ۔ یہ دیکھو کچھ بھی نہیں ہوا۔
رات جو ہوا اس وقت اس لمحے میں نے سوچ لیا تھا مجھے اگر کسی کے ساتھ رہنا ہے تو وہ ماریہ ہی ہوگی وہ میرے چچا کی اکلوتی بیٹی ہے چاچا اور چاچی کا انتقال میرے بچپن میں ہی ہوگیا تھا ۔ ماریہ تب سے ہمارے پاس ہی رہتی رہی تھی۔ اور وہ مجھے بچپن سے اچھی لگتی تھی۔ میں نہا کے باہر آیا تو دیکھا امی بہت خوش تھی۔ حسنین آو بیٹا آو آج تو میں بےحد خوش ہو انھوں نے مجھے اپنے پاس بیٹھا لیا اور مجھے پیار کرنے لگی میں مسکراتا ہوا ڈائنگ ٹیبل سے اپنے لیے بریڈ پر جیم لگانے لگا۔ امی میرے لیے چاۓ تیار کرنے لگی ساتھ مجھ سے گویا ہوئی آج مس عالیہ اور ان کی پوری فیملی آرہی ہے ہمارے گھر تم رات کو ٹائم سے گھر آجانا ۔ خاص مہمان ہے میرے ۔ میں نے سر ہاں میں ہلا دیا۔
سارے دن کی تھکاوٹ بعد جب میں گھر پہنچا تو دیکھا ڈرائنگ روم سے مہمانوں کی آواز آرہی تھی اور میں لیٹ تھا میں نے اپنا فون دیکھا تو وہ ڈیڈ ہوچکا تھا مطلب کے آج امی سے کلاس پکی تھی۔ میں فورا کمرے میں داخل ہوا سب سے معزرت کی اور سلام کیا امی کا غصہ ان کی نظروں سے صاف پتہ چل رہا تھا۔امی کے ساتھ ایک خوبصورت پر کافی عمر کی خاتون بیٹھی تھی اور ان کے ساتھ ان کی بیٹی جو کافی گڈ لوکنگ تھی بیٹھی تھی۔میں داداجان اور ابو کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہی پھر موضوع گفتگو میں بن گیا۔ امی میرے بارے میں انھیں سب بتا رہی تھی۔ انکی بیٹی مجھے کافی غور سے دیکھ رہی تھی جع کہ مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا۔پھر اسی کی باتیں سب کرنے لگ گئے تھے۔ میں شدید بور ہو رہا تھا پر بیٹھنا میری مجبوری تھی۔ ناجانے کیوں مجھے انتہائی عجیب لگنے لگ گیا تھا جیسے یہ کوئی معمولی مہمان نہیں ہے پھر امی نے مجھے ان کی بیٹی سے بات کر لینے کو کہا تو ایک دم مجھے سب سمجھ میں آنے لگا تھا غم و غصے سے میرا منہ لال ہورہا تھا۔ میں نے اس سے بات کرنے سے صاف انکار کردیا امی نے جیسے بات ٹال دی یہ کہ کر کے میرا بیٹا ویسے ہی بہت شرمیلا ہے۔ میرا خون کھول اٹھا تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں ہر چیز اٹھا کے توڑ دو۔ میرے کانوں میں امی کی آواز آ رہی تھی ۔ مجھے تو آپکی بیٹی بہت پسند آئی۔ مجھے بھی آپکا بیٹا بہت اچھا لگا ماشاللہ ۔ تو پھر کوئی رسم نہ کر لی جاۓ۔ میں نے حیرانی سے امی کی طرف دیکھا یہ کیا ہو رہا تھا میرا دل باہر آنے کو تھا۔ امی ؟ امی نے ایک ڈبی سے رنگ نکالی ۔ میں صوفے سے اٹھ گیا ۔ امی ؟ امی یہ کیا ہورہا ہے ؟ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا امی مجھے نہیں کرنی شادی کسی اور سے سب اپنی جگہوں سے اٹھ گئے تھے۔ آنٹی کی آواز آ رہی تھی یہ آپ کا بیٹا کیا کہ رہا ہے۔ یہ تم کیا بول رہے ہو حسنین ؟ تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا؟ امی پلیز یہ مت کریں میں ۔۔۔ میں ۔۔ میں امی ۔۔۔ میں ماریہ سے پیار کرتا ہوں۔ اسی لمحے ماریہ کمرے میں داخل ہوئی تھی اس کے ہاتھ سے چاۓ کی ٹرے گر گئی ۔ بس سرریا بہت ہو گیا اس سے زیادہ میں اپنی اور اپنی بیٹی کی بےعزتی برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ گھر سے جانے لگی۔ امی ان کے پیچھے پیچھے چل پری ان سے معزرت کرنے لگی۔ ماریہ حیران کھڑی تھی ابو بھی مایوسی سے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے ۔ ماریہ کچن میں بھاگ گئی ۔ داداجان نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ پتر اے کی کیتا تو ؟ تینو او پسند سی تع مینو بولدا تے صحیح میں نے داداجان کے گود میں سر رکھ لیا ۔ دادا جان پیار سے میری کمر پہ ہاتھ پھیرنے لگے۔ کچھ نہیں ہوندا ہن تو پریشان نہ ہو۔ تو چنگا کیتا سب نع دس دیا اے۔ تو پریشان کانو ہوندا تیرا دادا ہلے جیندا اے۔ دادا جان اگر امی نہ مانی مجھے تو ماریہ کی رضا بھی نہیں پتہ ۔ داداجان کہنے لگے کوئی اعتراض کر کے تے وکھاۓ۔ پت دل نہ چھوٹا کر تو اک و اک پت ہے ماں پیو دا او تری گل نہیں سنن گے تے کدی سنا گے۔ سب تو وڈی گل اے ہے تو موقع تے بولیا تا یے تو اپنی محبت دا اظہار تے کیتا ای نا۔ باقی سب تو میرے تے چھڈ دے۔ ترے ماں پیا نو تے میں ویکھ لا گا میرے اک و اک پوتے نال زیادتی کر کے وکھان ۔
میں نے ماریہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا اس نے دروازہ کھولا وہ نظریں چرا گئ ۔ میں کمرے میں اگیا اندر کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آرہی تھی پردے ہل رہے تھے۔ میں نے بات کا آغاز کیا ماریہ میں ایسے نہیں سب کرنا چاہتا تھا پر میں مجبور ہو گیا تھا میرا دل بند ہونے کع تھا مجھے جو سمجھ آیا میں نے کر دیا ماریہ مجھے اس چیز کی پروا نہیں ہے کہ تم ہاں کرو یا نہ یہ تمہاری مرضی ہے پر میں تمہیں اپنے دل کا حال ضرور سناو گا ماریہ۔ میں تم سے بہت محبت کرتا یوں ماریہ میں تمہارے بغیر رہنا تصور بھی کرتا ہو تو جسم کانپنے لگ جاتا ہے۔ سانس رکنے لگ جاتا ہے ماریہ۔ میری طرف دیکھو ماریہ میری آنکھوں میں دیکھو کیا ان میں کچھ نہیں دکھتا۔ ماریہ نے پلکیں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔ میں نے اظہار کر لیا ہے ماریہ اب تمہاری باری ہے اب تمہاری آزمائش ہے۔
Milind salve
26-Jun-2022 02:22 PM
Good
Reply
Ayan khan
26-Jun-2022 02:10 PM
Good
Reply
fiza Tanvi
26-Jun-2022 02:03 PM
Bahut khoob
Reply