Ahmed Alvi

Add To collaction

24-Jun-2022 تنقیدی مضمون


نشاط و نشتر کا مزارع احمدعلوی 

طنز اپنی کیفیت میں طبیب کا عمل جراحی ہے تو مزاح نشتر سے پیدا شدہ زخم کو مندمل کرنے کا نام. فکاہیہ ادب میں یہ دونوں کیفیات تشخیص مرض سے لیکر صحت یابی افاقے کی علامتیں ہیں، حفظان انبساط کی روایت وجود انسانی سے علاقہ رکھتی ہے.
اندازہ ہے کہ انسان پہلی بار جب کسی تکلیف سے رویا ہوگا تو اسی لمحہ فطرت نے کسی بہانے اس کے ازالے کی بھی صورت پیدا کی ہوگی گویا مسرت درد کی کوکھ سے جنم لینے والی کیفیت ہے جو غم سے شیر و شکر ہو کر صحت مند زندگی کا تصور اجاگر کرتی ہے. تمدن کے ارتقائی عمل میں طنز کا کلیدی اشاریہ حیات سے گلو خلاصی کی شکل میں ہمیشہ موجود رہا ہے.
اردو ادبیات میں اولاََ یہ روایتیں گرچہ درباری سطح پر معرض وجود میں آئیں اور پھر یہ عوامی دھارے میں تبدیل ہو گئیں. شعراء کی ایسی چشمکوں نے اس کا قافیہ تنگ کرنا چاہا اور وہ سوتے ہجو، معاصرانہ چشمکوں اور ہزلیات کی راہ سے پھوٹے تھے. غالب اودھ پنج، اور اکبر الہ آبادی تک متوج آبشار کی صورت میں تبدیل ہو گئے. نشاط و نشتر کی انجمن آج بھی قائم ہے اور اس کے دھارے آج بھی معاشرت کو حشو زائد سے ابھرنے کا حوصلہ فراہم کر رہے ہیں.
احمد علوی ماضی کی اسی توانہ روایت کا حصہ ہیں. اور طبیب کی طرح حفظان انبساط کے فرائض سے نبرد آزما ہیں. تحفیظ انبساط تردید مکدرات چاہتی ہے معالج کے نشتر کی طرح ناسور کے خون کا بہاؤ ہی صحت و توانائی لاتا ہے. احمد علوی پچھلی دو دہائیوں سے تطہیر معاشرت میں منہمک ہیں، اور شعوری طور پر ان زخموں کو کریدتے ہیں جو حیات و کائنات کو مجروح کر رہے ہیں.
ایسا کرتے ہوئے ان کا فن جعفر زٹلی کی بیباک روایت اور حق پرستی کا امین ہو جاتا ہے. چند اشعار دیکھئے داڑھی کو طالبانی علامت کہنے کے پس منظر میں.

چھوڑ کاغذ قلم و کمپیوٹر
لیکے ہاتھوں میں استرا یارو
رام دیو کے من موہن سنگھ کے
ہے تعاقب میں عدلیہ یارو

مبارک ہو نیائے مورتی کو
تمہارے نیائے کا کوئی ہے ثانی
اگر داڑھی ہے طالبانی سمبل
تو ہے پی ایم اپنا طالبانی

بش کو جوتے سے نوازے جانے پر

وہ ہے دنیا کا نامور غنڈہ
اس پہ تنقید کس کے بوتے کی
اس کو کیسے کہوں سپر پاور
جس کی اوقات ایک جوتے کی
امن کا نوبل پرائز براک اوبامہ کو ملنے پر

سوچتا ہوں امن کا کیسے فرشتہ بن گیا
جس کا کلچر ہی ہمیشہ سے رہا بندوق کا
امن کا نوبل پرائز مل گیا کیسے اسے
قتل گردن پر ہے جس کی ان گنت مخلوق کا

زعفرانی سیاست پر گجرات کے پس منظر میں

سرخ گجرات میں کیسر کی ہے رنگت یارو
کتنی مکروہ ہے ووٹوں کی سیاست یارو
یہ ہنر آتا ہے اپنے وطن میں مودی کو
کس طرح ہوتی ہے لاشوں حکومت یارو

نکسلی اور کشمیری رویے کے پس منظر قومی صحافت پر.

سرخ نکسل وادیوں کی ذہنیت تو زرد ہے
ان کی دہشت گردیوں پر سب کا لہجہ سرد ہے
ہم نوا کشمیریوں کا کیا کوئی ہمدرد ہے
پتھروں سے لڑنے والی قوم دہشت گرد ہے
نکسلی اپنے ہیں دشمن وادی کشمیر ہے
ملک میں قومی صحافت کی یہی تصویر ہے

متذکرہ تلمیحات میں فن کا مشاہدہ نہ صرف ملک اور گرد و پیش کا سماج ہے بلکہ ملکی اور غیر ملکی عالمی مسائل کی نا ہمواریاں ایک ساتھ ان کے فکاہیہ وجدان کا حصہ بن گئی ہیں. جو ملک اور عالمی معاشرت کو اصلاحی اقدام پر ابھارتی ہیں.
ہر عہد کے مخصوص ماحول موضوعات اور مزاج کی نمائندگی کے عنوان سے احمد علوی کے یہاں تنوعات کی کمی نہیں احمد علوی کا ہائی ٹیک عہد ان کی مزاحیہ شاعری میں پوری طرح عیاں ہے. برانڈ کا خبط ہو یا ملاوٹ کی لعنت یا ٹنڈے حاجی کی آڑ میں چوری ہیرا پھیری سیاست کرسی کا کرشمہ میزائل کا خوف روبہ زوال امریکی معیشت یا پڑی لکڑی کی صورت میں تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کا قضیہ یا روس کی نادانیاں اسرائیل کے تباہ کن مستقبل کی پیش گوئی، مودی کے ہاتھوں مسلم نسل کشی کا ماجرا اور حق و باطل کی جنگ میں موسی کے مقابل فرعون کا سبق آموز حشر ڈنڈے کی کرامت کی صورت میں پولس نظام کا محاسبہ لوک پال کا شور غوغا اردو اور اہل اردو کی کشف و کرامت غرض نگار خانہ علوی



 میں دنیا عقبہ کا شاید ہی کوئی موضوع ہو جو ان کی سرچ لائٹ سے بچ سکا ہو. یہ وہی سرچ لائٹ ہے جو کسی فن پارے کے نقد و تنقید ناقد اپناتا ہے. فن کا دائرہ اس معنی میں زیادہ کشادہ ہے کہ وہ محض کسی فن پارے کے توسط سے اپنی پسند و نا پسند کا اظہار نہیں کرتا بلکہ اس کا سبجیکٹ حیات و کائنات میں آباد تمام انفاس و اقدار ہوتے ہیں. سرچ لائٹ بنیادی طور پر ان گوشوں کو سامنے لاتی ہے جنہیں عام انسانی نظریں بہ آسانی نہیں دیکھ پاتیں، یا جو کمیاں غیر محسوس طور پر صدیوں سے ہماری روایت کا حصہ ہونے کے سبب معیوب نہیں لگتیں، ان پہلوؤں پر مضحک روشنی قاری کو کچوکے لگاتی ہے،اور غلطی کا احساس کراتی ہے. احمد علوی کی سرچ لائٹ میں فطری ظریفانہ چمک محض ہنسی کے جذبے کو تحریک دینا نہیں ہے،اس فن کے ذریعے فطری جذبہ تفریح کو اس طور پر تحریک دینا ہے کہ انسان کی طبیعت میں خود بخود انبساط و طرب کی کیفیت پیدا ہو جائے یعنی جذبہ تفریح کے فطری التزام کو جبراََ ضائع نہ کیا جائ جس طرح ہنسانے کے لئے فن کا نہیں انگلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی بقول اعجاز حسین "یہ محسوس نہ ہو کہ فن کار گدگدانے کے لئے ہاتھ بڑھا رہا ہے"


"لکنت، چارپائی، پکاسو کے گدھے، خراٹے، کھٹے انگور، قطار، شوہر کی تلاش، ہم جنسیت، تہلکہ، کاغذی شیر، بوتل کا جن، کنوینروں کے کسرت، گھر کے نہ گھاٹ کے واسطے، نہلے پہ دہلہ، وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جو عام ہوتے ہوئے بھی اپنے جلو میں انفرادیت بردار ہیں. بادی النظر میں ان موضوعات کے تئیں جو تاثر قائم ہوتا ہے عموماً احمد علوی کے یہاں سے شے دیگر نکلتی ہے مثال کے طور پر کسرت کی طنابیں نماز قیام رکوع و سجود سے حاصل ہونے والی جسمانی اور طبعی افادیت ٹوٹتی ہے اور کسرت کا عمومی تصور ریزہ ریزہ ہوکر
مزاح کا محرک بن جاتا ہے.
انگریزی الفاظ و مصطلحات جنہیں احمد علوی کے یہاں تخلیق مزاح کا وصیلہ بنایا گیا ہے ان میں ایڈیٹ، ہنی مون، اپ ڈیٹ ڈفالٹر، سوائن فلو، برانڈ، بلینک چیک، پن ڈرائیو، بٹر، فوٹو، فون نمبر، انٹیروگیشن، ڈراکیولا قابل ذکر ہیں. یہ سبھی کسی نہ کسی صورت میں ہماری زبان اور معاشرت کا حصہ ہیں اور عہد جدید کی ہنگلش کلچر کی نمائندگی بھی لہٰذا اردو کو شعرو ادب میں ان سے پہلو تہی کرنا چاہئے یا نہیں یا اس کی حدیں کیا ہیں وغیرہ جیسے اختلافی امور سے قطع نظر یہ بات خوش آئند ہے کہ احمد علوی کے فکاہیہ فن پاروں میں الفاظ و مصطلحات سلام ع کا البرق فی ا لدجا کا درجہ رکھتی ہیں. حیرت تب ہوتی ہے جب ایسے اشعار اور بند بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو کلیتاََ انگریزی بنا رکھتے ہیں.

ہی از پریکٹیکل مین
آئی ایم ڈریم پرسن
ہی از ٹچ دی اسکائی
آئی ایم گوپال ٹھن ٹھن

ارباب مزاح کے لئے لفظ میں پوشیدہ امکان و ذو معنویت کو بروئے کار لانے کے لیے ذیل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں

کار عظمت کی علامت بن گئی ہے آج کل
چودھری افسر ہیں لیڈر یا کہ ٹھیکیدار ہیں
کار والے کار آمد ہیں یقیناً دوستو
اور جو ان کے علاوہ ہیں ابھی بے کار ہیں

سویرا ہوتے ہی پائے کھائے بکرے کے
اڑد کی دال کو سبزی کو دربدر کر دے
مجھے بھی اہلیہ پائے کا مان لے شاعر
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے

برسوں کی تحقیق نے ثابت کردی ہے یہ 
الٹے ناموں کے ہوتے ہیں ہستی پر اثرات

نام کے الٹے اثر کی یوں بھی ہوتی ہے تصدیق
کام گواہی کا کرتے ہیں صادق اور صدیق

اپنے شہر میں جتنے بھی تھے ایک سے ایک خراب
کچھ کے نام شہنشاہ نکلے کچھ کے نام نواب

کوڑہ چنتا بازاروں سے جس کا نام نفیس
بھیک مانگتا درگاہوں پر دیکھا گیا رئیس

متذکرہ اشعار میں کار اور بے کار میں کیف اور بے کیفی پائے کی لذت اور اس کے وصیلے سے شاعر کی معتبریت پر شب خون مارا گیا ہے وہ دیدنی ہے اور مزاح کی افزودگی کا باعث ہے. اسی طرح ناموں کے معکوس اثرات پڑھتے ہوئے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے. اور ہنسی دندان کا قفل توڑ کر قہقہہ زار بن جاتی ہے. 
تخلیق مزاح کا ایک توانہ حربہ پیروڈی ہے احمد علوی نے اس سے بھی بخوبی نباہ کی ہے اور مقبول فلمی نغموں کو اپنے تحریفی ذوق کے نرغے میں لیکر اس کا کیریکیچر بنایا ہے.

قیمے کی قورمے کی یا شامی کباب کی
اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی

آپ کی نظروں نے سمجھا ووٹ کے قابل مجھے
ڈاکوؤں اور رہزنوں میں کردیا شامل مجھے

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
اچھی طرح سکا ہوا شامی کباب ہو

امید قوی ہے کہ احمد علوی اردو کی فکاہیہ شاعری میں اپنا ایک منفرد مقام بنائیں گے. اور ناقد فکر فکر کی وسعت سے تھوڑا وقت اس امر پر بھی ضرور صرف کریں گے کہ بالا خر نقد و تنقید کی بے رخی کے باوجود تضحیک و تعریض تباہ کن سنجیدگی سے کیوں نبرد آزما ہے. قہقہہ جان لیوہ سکوت کے خلاف کیوں بر سر پیکار ہے. اور اتاہ گہرے سمندر کا سکوت کنکری کی ضرب سے کیوں مضطرب ہو اٹھتا ہے. اور ماحول کی بے کیفی کو کیف و سرور کی تلاش کیوں ہے اگر یہ ادوار لائقِ اعتناء ہیں تو احمد علوی کی آواز کو توانا سمجھا جائے.
ڈاکٹر امتیاز وحید
 شعبہ اردو کلکتہ یونیورسٹی 

   1
0 Comments