Add To collaction

27-Jun-2022 کوئے تمنّا دوسرا حصہ

                   کوۓ تمنّا

    از قلم ماریہ اکرم خان
 ڈسکرپشن۔
یہ کہانی ہے روایتوں کی بھینٹ چڑھے کچھ ایسے کرداروں کی جو وقت اور حالات کی گرد میں خواہشات کی تگ ودو میں الجھنوں میں جکڑ کر بلآخر قدرت کے فیصلوں پر سر خم تسلیم کر گئے
دوسری قسط۔

فجر کے بعد چہل قدمی کے غرض سے وہ لان میں چلی آئی۔ نم نم سی گھاس پر ننگے پاؤں چلتے اس نے سایہ فگن پلکوں کا باڑ اٹھا کر سورج سے پھوٹنے والی نرم سا تاثر بخشتی پہلی کرن کو دیکھا۔ دلکش لب اسے دیکھتے ہی نرم سا مسکراۓ ۔ اداسی سے گھلی مسکراہٹ ۔
" محبت !ہو جانے کے بعد یہ سب منظر کتنے بھلے لگتے ہیں۔ “
” دل کے کسی کو نے سے صدا آئی۔“
 ۔وہ گرے اور وائٹ کے امتزاج میں سادگی کا پیکر بنی کل کی مناسبت آج خاصی نکھری نکھری سی لگ رہی تھی ۔ کل شام نحل سے ہوئی گفتگو نے کافی حد تک پر سکون کر دیا تھا ۔ مگر ذہن میں اب بھی کہیں ہلکی سی بد گمانی کی گرِد باقی تھی ۔ جبکہ دل تھا کہ چند دنوں میں ہوۓ واقعات کو نظر میں رکھے اپنا ہی قصور گنوا رہا تھا ۔ وہ دل و دماغ میں چھائ سرد جنگ سے لڑتے ہوئے لان کے اطراف میں قطار میں لگے سرخ گلابوں کی طرف بڑھی ۔ گلاب کی مخصوص مہک فضا کو معطر کر رہی تھی ۔ وہ بے ساختہ دو تین گلاب توڑ کر گہرا سانس خارج کرتی ۔سرونٹ کوارٹر کو جاتیں سیڑھیوں میں آ بیٹھی ۔ صد شکر تھا نحل کی زیرک نگاہوں نے یہ منظر ہر گز نہ دیکھا تھا ۔ورنہ محض دو سے تین پھول توڑنے کی پاداش میں وہ اسے اگلے پندرہ منٹ کا لیکچر لازم ہی دیتی ۔ اور کوئی بعید نا تھی آئندہ ممکنہ طور پر اسکے لان میں قدم رکھنے پہ بھی پابندی عائد کر دیتی ۔وہ ہنوز دل و دماغ میں چھائی سرد سے لڑ تے بے دھیانی میں ہاتھ میں تھامے گلاب کی پتیاں توڑتی کس اور ہی جہاں میں کھوئی تھی. جہاں دماغ میں صدا گونجی ۔
"کیا وہ میری ایک ذرا سی خواہش کا احترام نہیں کر سکتا تھا"
جس پہ دل نے قریباً دھاڑتے نفی کی ۔
٫٫نہیں وہ تو مجھ سے محبت کرتا ہے اس نے تو بس حق جتایا تھا میں ہی غلط تھی جو اسے سمجھ نہ پائی ۔
٫٫مگر اسے سمجھ کر ہی تو جاب چھوڑی تھی میں نے پھر یہ بے رخی کیسی ،،
 دماغ نے ایک بار پھر اٹل عذر پیش کیا دل بے بسی کی انتہا کو چھونے لگا محبوب کا مقدمہ لڑتے لڑتے دل اب تکھنے لگا تھا جبکہ دماغ کے پاس پیش کرنے کے لیے اب بھی کئی جواز موجود تھے دل و دماغ میں چھائی سرد جنگ سے جھنھلاتے وہ سر جھٹکتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ایسا کر نے سے گود میں پڑی پتیا ادھردھر بکھر کر رہ گئیں۔۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتی گھر کے اندر جانے کا ارادہ کر ہی رہی تھی ۔ کہ پورچ کی طرف جاتے وجدان پہ نگاہ پڑی ۔ اسے دیکھتے ہی وہ جی جان سے کھل اٹھی تھی ۔ ملائمت سے مسکراتی سرعت سے چند قدموں کافاصلہ طے کرتی اس تک آئی
"وجدان “!
 دریکتا کی جانب پشت ہو نے کے باعث وہ اسے نہیں دیکھ پا یا تھا تبھی گاڑی کا لاک کھولتے عقب سے پکار پر مڑا ۔ بلیوں پینٹ اور گرے شرٹ میں ملبوس بالوں کو جیل سے سیٹ کیے خاصا خوبرو لگ رہا تھا ۔ صبح ہی صبح اسے اپنے روبرو دیکھ کر اسکے رگ و پہ میں ایک پرسوز سی لہر دوڑ گئی ۔مگر آنکھوں میں شرارت رقصاں تھیں ۔ تبھی باظاہر تاثرات چھپاتے وہ کافی سنجیدہ لگ رہا تھا۔
”وجدان مجھے آپ سے کچھ بات کر نی ہے “
 دھیرے سے کہتے
انگلیاں مروڑتی وہ تذبذ کا شکار لگ رہی تھی اسے سمجھ نہ آیا کہ بات کا آغاز کہاں سے کیا جائے ۔
 دل ہی دل میں سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دریکتا کے اس انداز پہ محظوظ بھی ہوا تھا ۔ مگر اسے ابھی مزید تنگ کرنے کی خواہش ابھری تبھی چہرے پہ مصنوعی سرد تاثر سجائے گویا ہوا
”سوری آئی ایم گیٹنگ لیٹ “
کہنے کے ساتھ اسے دیکھے بنا ہی گاڑی میں بیٹھ چکا ۔ جبکہ اسکی سرد مہری پر وہ دل مسوس ہو کر رہ گئی حلق میں آنسوؤں کا گولا اٹک سا گیا ہو ۔ خود وہ گاڑی اسٹارٹ کرتے وہاں سے جا چکا تھا۔ جبکہ خود پہ ضبط کرتے آنکھوں میں در آئی نمی کو اندر اُتارتے بے دردی سے لب کاٹ گئی ۔ جس سے حلق میں نمکین ذائقہ سا گھلا ۔ عین اسی لمحے دماغ نے ایک بار پھر استہزایہ لہجا اپنایا ۔
"کہا تھا وہ ایک انا پرست مرد ہے جسے محبت سے کوئی سروکار نہیں۔“
دماغ جیسے اب کی بار دھاڑا تھا مگر دل میں ایک گہرا سکوت چھا گیا تھا کیونکہ دینے کے لیے دل کے پاس اب کوئی دلیل نہ تھی.
     ✩☆☆☆☆☆☆☆
"تمھارے تایا جان نے ضارب اور تمھارے رشتے کی بات کی ہے تھمارے بابا سے ۔ “
 فرحین بیگم نے پالک پنیر کی تیارکرتے خوشی سے اسے مطلع کیا
"جانتی ہوں “
اپنے لیے کافی بناتے وہ بنا تاثر گویا ہوئ ۔
"تو کیا تم راضی ہو۔“
پنیر کرش کرتے ہوئے انھوں نے نحل کی مرضی جاننی چاہی۔
"کیا فرق پڑتا ہے امی ۔“
پھرتی سے کافی بیٹ کرتے نحل کی طرف سے سرسری جواب آیا۔ اسکی ساری توجہ کافی کی جانب تھی۔
"اس کا مطلب تمھیں کوئی اعتراض نہیں “
اسکی بات کو کسی اور ہی رو میں لے جاتے وہ بے اختیار خوش ہوئی ہوئی تھیں ۔
 انکے نزدیک بھلا ضارب سے بہتر انکی بیٹی کے لیے کون ہو سکتا تھا ۔ بیٹی انکی نظروں کے سامنے رہتی اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی تھی بھلا ۔
جبکہ نحل نے اُن کے لہجے میں کھنکتی خوش کو محسوس کر کے حیرت سے اُنکا چہرہ دیکھا ۔
"ایک پر کٹا پرندہ چاہے جتنی ہی اونچی اُڑان کی خواہش ہی کیوں نہ کر لے امی ۔
مقدر میں تو قید ہی ہوتی ہے نہ ۔ یہاں رہنے والے بھی قید ہی ہے ۔ اور آپ یہ بات مجھ سے بہتر جانتی ہے "۔
 وہ اذیت سے بولتی لمحے بھر کو رکی ۔
"پھر مجھ سے میری مرضی جان کر وقت کیوں ضائع کر رہی ہیں بس قید کا دن مقرر کر کے بتا دیے گا “
وہ زخمی مسکراہٹ سے کہتی وہاں سے جا چکی تھی ۔
جبکہ فرحین بیگم کی خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گی ۔ ضارب لاکھ اچھا ہی کیوں نہ سہی کیا وہ اپنی اولاد کے لیے فیصلے کا حق بھی نہیں رکھتی تھی۔ وہ یاسیت سے سوچتے خود کو بےبسی کی انتہاؤں پہ محسوس کر رہی تھیں ۔
          ✩ ✩☆☆☆☆☆☆☆
"عطائے ابر سے انکار کرنا چاہیئے تھا
میں صحرا تھی مجھے اقرار کرنا چاہیئے تھا
لہو کی آنچ دینی چاہیئے تھی فیصلے کو
اسے پھر نقش بر دیوار کرنا چاہیئے تھا
اگر لفظ و بیاں ساکت کھڑے تھے دوسری سمت
ہمیں کو رنج کا اظہار کرنا چاہیئے تھا
اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی
تو پھر سائے سے اپنے پیار کرنا چاہیئے تھا
سمندر ہو تو اس میں ڈوب جانا بھی روا ہے
مگر دریاؤں کو تو پار کرنا چاہیئے تھا
دل خوش فہم کو صبح سفر کی روشنی میں
شب غم کے لیے تیار کرنا چاہیئے تھا
شکست زندگی کا عکس بن کر رہ گیا ہے
وہی لمحہ جسے شہکار کرنا چاہیئے تھا"
(یاسمین حمید)
"اُفق ! پہ پھیلے شام کے دھندلکے ایبٹ آباد شہر کو مزید حسین بنا رہے تھے ۔سورج گہرے نارنجی رنگ میں پہاڑ کی دوسری جانب ڈوبنے کو تھا۔ چرند پرند بھی اپنے آشیانوں کو ہجرت کرنے میں مشغول تھے ۔ نیلگوں آسمان آج بھی بادلوں کے بوجھ سے بلکل آزاد دیکھائی دیتا تھا۔ بلا شبہ یہ ایک مکمل حسین منظر تھا مگر دو معصوم دلوں کے لیے نہیں ۔وہ دونوں اس وقت قدرتی حسن سے مالا مال کٹھا جھیل پہ موجود تھے ۔ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے ٹکی ٹکی باندھے اداسی سے ڈوبتے سورج کو دیکھ رہے تھے ۔ نجانے کیوں ڈوبتا سورج انھیں اپنے مختصر تعلق کی طرح لگا دھیرے دھیرے اختتام کی جانب گامزن ۔مگر نہیں ڈوبتے سورج انکے چھوٹتے ساتھ میں واضح فرق تھا ۔ سورج کو کچھ گھنٹوں بعد ایک روشن صبح کے ساتھ ایک بار پھر نمودار ہونا تھا ۔ مگر ان کا ساتھ وہ تو محض اب چند گھنٹوں پہ مشتمل تھا ۔ جسے گھنٹوں بعد ایک خوبصورت یاد میں ڈھل کر ماضی ہو جانا تھا ۔
"ضارب“!
خاموشی سے سرکتے لمحوں میں ۔
 "امتشال "
کی آواز ابھری تھی یہ خاموش لمحے جیسے اسے اندر ہی اندر کاٹ کھا نے کو تھے۔ ضارب شاہ کے فیصلے سے تو وہ پہلے ہی آگاہ تھی پھر کیوں ناداں دل میں موہوم سی امید باقی تھی ۔ کیوں دل آج بھی وہی سننے پہ بضد تھا جو ہمیشہ سنتا آرہا تھا ۔
"ضارب "!
عجب سناٹے تھے جو دھیرے دھیرے وجود میں اتر رہ رہتے تھے ۔ جن سے عاجز آتے ایک بار پھر ضارب کو پکارا گیا ۔
" ہممم"!
 اس کی نگاہوں کے کا مرکز اب بھی ڈوبتا سورج ہی تھا ۔ اسکی طرف سے نگاہیں اٹھانے سے مکمل احتراز برت رہا تھا ۔
"ضارب"!
کتنا دلکش ویو ہے ۔ وہاں اور تم ہو کہ کب سے یہاں منہ بسورے کھڑے ہو۔ چلو وہاں چلتے ہیں۔ اسنے سامنے جھیل کے خوبصورت منظر کی طرف اشارہ کرتے ضارب کا دہکتا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔ جھیل کی خوبصورتی کو آنکھوں میں قید کرتے خون خون ہوتے دل کے ساتھ ایک اٹل فیصلہ وہ بھی کر چکی تھی ۔ اب تو جیسے ہر صورت عمل کرنا تھا اسے ۔
"امتشال "!
 اسنے حیرت وتاسف کےملے جلے احساس سے اسے پکارا اسے امتشال کا یہ انداز قطعی سمجھ نہ آیا ۔
"میں جانتی ہوں ضارب تم مجھ سے شادی نہیں کر سکتے ۔ مجھ تم سے کوئی شکایت نہیں۔ "
غلافی آنکھوں میں در آئی نمی کو اندر اُتارتے وہ آر زدگی سے مسکرائی ۔
وہ مبہوت سا اسکی شدِت ضبط سے سرخ پڑتی آنکھوں کے طلسم میں کھوہ سا گیا ۔ کیا تھی
 "امتشال مستنصر "وہ جو ہر بار ملنے پر دل میں پنپتے کئی خدشات کا اظہار کیا کرتی تھی آج اُسی امتشال کو ضارب سے کوئی شکایت نہیں تھی وہ اسے آزمائش سے نکال رہی تھی یہ پھر آزمائش میں ڈال رہی تھی ۔ اسی سوچ کے ساتھ اسکا سانس ہر سانس کے ساتھ ڈوبنے لگا ۔
" امتشال "!تم کچھ ۔۔۔۔
اسنے کچھ کہنا چاہا مگر الفاظ منہ میں رہ گئے جب کے دل نے فقط ایک ہی دعا کی کی کہ وقت یہی ٹھہر جائے کبھی نہ بیتنے کے لیے مگر نادان تھا اسکا جو یہ خواہش کر بیٹھا۔
بھلا وقت کو کب سروکار تھا انسان سے یہ اسکے مسائل سے اسے تو بس گزرنا ہی ہوتا ہے اپنی مخصوص رفتار سے۔
"محبت حا صل کر لینے کا نام تو نہیں ضارب"
اسکی گھور سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتے کئی سوالات کا جواب ایک ہی جملے میں دیتی آسودہ سی مسکراہٹ سجائے جھیل کی طرف چل دی ۔
جب کہ سمے بنا کسی کی دہائی پر کان دھرے نیلی شام سے تاریک رات میں تبدیل ہو چکا تھا ۔
           ✩☆☆☆☆☆☆☆
اپنے لیے کافی کا مگ تیار کیے وہ کچن سے نکلی تھی ایک لمحے کو دریکتا کے کمرے کی طرف جانے کا ارادہ کیا پھر اگلے ہی پل کسی سوچ کے تحت ارادہ ترک کرتی لان میں چلی آئی لان میں چلتی ٹھنڈی ہوا کے باعث ٹھنڈ کے احساس سے دوچار ہوتے وہ شانوں کے گرد پھیلی مہرون رنگ کی شال کو ایک بار پھر اچھے سے درست کرتی .لاونج اور لان کے درمیان دو اسٹیپس کی بنی سیڑھیوں میں آکر بیٹھ گئی ۔ پلانٹس پہ لگی فیری لائٹس رات کے وقت روشن ہونے کے باعث بےحد خوبصورت لگ رہی تھیں۔ ساتھ کافی سے اُٹھتی بھینی بھینی خوشبوں اس کے تھکن زدہ اعصاب پہ بھلا اثر ڈال رہی تھی ۔ گھر کے سبھی مکین رات کے کھانے سے فراغت پا کر اپنے کمروں کا رخ کر چکے تھے۔ جبکہ وہ اس وقت ٹھنڈی ہوا میں بیٹھی کافی کے ساتھ بھر پور انصاف کر رہی تھی ۔ ابھی اسے یہاں آکر بیٹھے کچھ ہی دیر گزری ہی تھی کہ اسے مین گیٹ سے وجدان کی گاڑی اندر آتی دیکھائی دی اسنے زرہ سی گردن ترچھی کرتے گاڑی کو پورچ جانب جاتے دیکھا وجدان بھی اسے وہاں موجود دیکھ چکا تھا ۔ تبھی کار پارک کرتے مسکراتا اُس کی طرف ہی چلا آیا تھا۔ وہ اسلام آباد سے ابھی ابھی ہی لوٹا تھا۔
"اتنی ٹھنڈ میں یہاں کیا کر رہی ہو تم "
اور اب اس کے سر پہ کھڑا استفسار کر رہا تھا ۔
"بس ایسے ہی بیٹھی ہوں بھائی اندر گھٹن کا احساس ہو رہا تھا "
 وہ ہلکا سا مسکرا کر گویا ہوئ تھی ۔
"نحل!
" طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمھاری "
اسکی ہلکی سرخ ہوتی آنکھوں میں جھانکتے تفکر سے پوچھا ۔
 "کچھ نہیں بھائی بس ہلکا سا سر درد تھا ۔ مڈیسن لی ہے اب بہتر ہوں "
"سر میں درد ہے تو یہاں ٹھنڈ میں کیوں بیٹھی ہو اندر چلو "
اب کی بار ہلکا سا ڈپٹتے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لے جاناچاہا ۔
"اب میں ٹھیک ہوں بھائی تھوڑی دیر بیٹھنے دیں نہ پلیز "
نرمی سے ہاتھ چھڑاتے وہ لجاجت سے بو لی۔ جس پہ وجدان نے اس کہ سر پہ ہلکی سی چپت رسید کرتے "اچھا ٹھیک ہے "کہہ کر کی جانب بڑھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ۔ اچانک کچھ یاد کرتے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"بھائی "!
ہمممم۔۔؟
"آپ نے دریکتا سے پھر کچھ کہا ہے نہ۔؟"
آنکھیں سکیڑ تے سے سوال کر رہی تھی ۔
 اُوووں۔!
 نحل کے سوال پہ بہ ساختہ اسکے ہونٹ سٹی والے انداز سکڑے اور صبح ولا واقع ذہن کے پردے پہ جھلملایا ۔
"کیوں اسنے کچھ کہاں ہے تم سے..؟"
اب کی بار پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ گُھساۓ وجدان کی طرف سے معنی خیزی سے سوال پوچھا گیا ۔
"نہیں تو صبح سے وہ اپنے روم سے نہیں نکلی اسی سے اندازہ لگایا ہے میں نے
"اُو اچھا "
"جی "
"جی " کو کھینچتے نحل کا انداز استہزایہ تھا۔
" کیوں کرتے ہیں آپ ہمیشہ اس کے ساتھ ایسا کتنی مشکل سے سمجھایا تھا اسے میں نے کر دیا پھر سے ناراض "
نحل کی بات پہ ایک پل کے لیے اسے ملال ہوا
تھا اسے واقع یہ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
"اچھا میں منا لوں گا اسے "
وہ ہلکے پھلکے سے انداز میں گویا ہوا ۔ پر شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ زندگی ہر بار ہمیں تلافی کا موقع مہیا نہیں کرتی ۔
"ٹھیک ہے " اسنے شانے جھٹکتے مسکرا کہاں اچھا "سنے بھائی ایک اور بات " اسے پھر کچھ یاد آیا تھا ۔ ساتھ وجدان کے اندر بڑھتے قدم ایک بار پھر رکے
"اب کیا ہے ؟
!والے انداز میں اسے دیکھا
"بھائی وہ بابا آپ کا پوچھ رہے تھے کچھ بات کرنی تھی آپ سے "
"ہممم "!
 ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں مگر تم بھی جلدی اندر آجانا اوکے "
وہ بائیں ہاتھ بندھی گھڑی پہ نگاہ ڈالکر اسے جلدی اندر آنے کی تاکید کرتا جا چکا تھا ۔جبکہ اسنے
" ٹھیک ہے بھائی "
کہہ کر اسے گھر اندر داخل ہوتے دیکھا ہاتھ میں تھامے مگ میں پڑی بچی کچی تھوڑی سی کافی ٹھنڈی یخ ہوچکی تھی وہ اب خالی الذہنی کیفیت سے مگ کے کنارے پہ انگلیاں پھیرنے لگی تھی ۔
       ✩☆☆☆☆☆☆☆
                   

   17
13 Comments

Sumaiyya Umeema

15-Aug-2022 11:19 AM

nice

Reply

Khan

02-Jul-2022 06:56 PM

Nyc

Reply

Chudhary

01-Jul-2022 06:38 PM

Nice

Reply