بچپن
کچھ لوگوں کا بچپن حسین تو کچھ کا بہت سنگین اور ڈراؤنے خواب کی مانند ہوتا ہے۔ کچھ ساری عمر ٹھوکریں کھاتے ہیں ان کا بچپن بھی دنیا کی سختیوں میں گزرتا ہر کسی کے لیے مال و دولت خوشیاں سکون برتن میں رکھ کر تو نہیں دی جاتی۔
آج کا دن بھی انھیں دنوں میں سے ایک ہے جب مجھے اپنے زندگیوں کی سب تلخیاں یاد آتی ہے اور میں اس زہر کو پہلے خود ہی اپنے جسم سے نکالتا ہوں پھر قطرہ قطرہ اس کو پیتا ہوں۔
میرے والد مزدور تھے سارا دن محنت کر کے انکے جسم کا ہر عضا کمزور ہو چکا تھا اور ماں گھروں میں ملازمہ تھی۔ بچپن ہی سے تنگی دیکھی تھی اب جوں جوں ہم پانچ بہن بھائی بڑے کو رہے تھے خرچے مزید بھر رہے تھے۔
بچپن سے ہی سکھا دیا جاتا ہے ہم جیسے لوگوں کو کے بہنوں کی شادیاں ماں باپ کو حج ہم نے ہی کروانا ہے اور ہم ساری زندگی اسی کے لیے محنت کرتے ہیں
جیسے ہی میں چودہ سال کا ہوا تو ماں کے ساتھ جانے لگا۔ وہ گھر کی صفائی کرتی اور میں برتن دھوتا۔ ایک دن میں کام کر رہا تھا کہ مالک مکان کا بیٹا جو کہ میری عمر کا تھا اور مجھ سے ناجانے کیوں نفرت کرتا اور اس کی آنکھوں میں میرے لیے شدید حقارت ہوتی۔ میرا کبھی اس کو کچھ پکڑاتے ہوۓ ہاتھ لگ جاتا تو وہ سخت برا مناتا۔ ہمارے لیے اگر پانی یا کھانے کے لیے کچھ دیا جاتا تو علیحدہ اور ٹوٹے ہوۓ برتنوں میں دیا جاتا۔ میں اور میری والدہ زمین پہ بیٹھ کے کھانا کھا رہے تھے کہ ان کا بیٹا کچن میں داخل ہوا اور پانی مانگنے لگا میں اٹھا اور پانی کا گلاس لے کے گیا۔ جب میں نے پانی کا گلاس ہاتھ میں تھمانہ چاہا تو گلاس نیچے زمین پہ گر گیا اس نے گلاس پکڑا ہی نہیں۔ وہ مجھے بولنے لگا۔ آوازیں سن کر اس کے والد بھی کچن میں آن پہنچے ۔ میں نے اپنی صفائی پیش کی کے میں نے نہیں آپ کے بیٹے نے گلاس توڑا ہے۔ اس کے والد نے ایک زوردار تماچا میرے منہ پہ رسید کیا ۔ میں چپ کر گیا تھا میری آنکھو میں آنسو آگئے تھے ۔ مجھے اور میری ماں کو کام سے نکال دیا ۔ گھر آکے ماں نے مجھے مزید مارا اور باتیں سنائی کہ اگر تو یونہی اکڑ کے چلا تو بھر لیا ہم نے اپنا پیٹ پھر ہمارے لیے کوڑے کا بچا کھانا ہی رہے گا باقی پھر۔ اس دن سے میں نے سوچ لیا تھا میں بڑا آدمی بنو گا۔ پڑھ لکھ کر کامیاب ہوں گا ۔ اس ساری رات بہتے ہر آنسو کے ساتھ میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنی عزت خود کرواو گا۔ میں نے اٹھ جماعتیں پڑھ رکھی تھی اگلی صبح میں نویں جماعت کی کتابیں اٹھا لایا تھا۔ گھر پہ ہی پڑھنا شروع کیا۔ اب میں ابا کے ساتھ کام پہ جانے لگا دن میں مزدوری کرتا اور رات کو جب تک پڑھا جاتا میں پڑھتا رہتا۔میں نے ایسے ہی نویں دسویں کے پیپر دیے۔ اللہ کے کرم سے میرے بہت اچھے نمبر آۓ تھے ۔ میں نے اپنے باپ کو پہلی بار اتنا خوش دیکھا تھا ان کی آنکھو میں میرے لیے آنسو آگئے تھے۔ جہاں میں مزدوری کرتا تھا وہاں میرے ابا کا دوست تھا اس کے بیٹے نے بھی پرچے دیے تھے پر وہ پاس نہ ہو سکا تھا وہ مجھ سے یوں بھی حسد کرنے لگا تھا۔ نب موقع ملتا مجھے استاد سے بےعزت کراتا۔ ایک دن اس نے مجھ پہ چوڑی کا الزام لگا دیا تھا۔ اس نے لوہے کی چیزیں چڑا کر میرا نام لگا دیا میں اپنی صفائیاں دیتا رہا پر وہ استاد کا چیلا تھا اس نے مجھے مارا پیٹا اور کام سے نکال باہر کیا۔ میں اپنے آنسو اور زخم سمیٹے گھر آگیا۔ میں نے پیٹرول پمپ پہ کام کرنا شروع کر دیا۔ دن رات کام کرتا جب وقت ملتا پڑھتا۔ میں نے ایسے ہی ایف ایس سی کے امتحان دے۔ میں ہمیشہ سے ڈاکٹر بننا چاھتا تھا اور میری دعا تھی کے اللہ میرے لیے راستے آسان کردے۔ میں نے آگے مشکل سے پیسے جمع کیے اور انٹری ٹیسٹ کی تیاری شروع کی۔ دن کہا جاتا اور رات کب گزر کے ختن ہوجاتی پتہ نہ چلتا۔ ایف ایس سی کا رزلٹ بھی قابلِ تعریف آیا تھا میری امیدیں اور بھر گئی تھی۔ پر میں mcat کلیر نہ کر سکا۔ سب خواب ٹوٹ کے چکنا چوڑ ہوگئے تھے۔ سب کی باتیں سنتا ریتا سارا دن کہ اس کی شکل تھی ڈاکٹر بننے کی ۔ بڑا آیا ڈاکٹر بنے گا۔ جیسی۔ اوقات ہے ویسے ہی سوچ ہونی چاہیے انسان کی۔ مزدوری کریں اور بہنوں کو بیاۓ۔ سارا دن کچھ کرنے کو جی نہ کرتا اور تکلیف بھی بہت تھی۔ پھر کسی دوست نے ہمت دلائی تو میں نے بی اے کے امتحان بھی دے ڈالے اور وقت گزرتا رہا میں اپنے آپ سے بہت ناخوش تھا اب ماں باپ کو بھی زیادہ امید نہ تھی۔ میری بی اے کی ڈگری ختم ہوگئی۔ دوست کے کہنے پہ میں نے سی ایس ایس کا امتحان دینے کا سوچا۔میں نے اپنے سارے کام۔چھوڑ دۓ جتنی جمع پونجی تھی سب اس کی تیاری میں خرچ کردی ۔ ہر بندے سے گالیاں کھائی پر مجھے اب اگر کچھ کرنا تھا چاہیے تھا تو یہی چاہیے تھا۔ مجھے نہ کھانے کی فکر تھی نہ کسی اور چیز کی۔ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتا روز گھر والوں کے طعنے ایک کان سے سنتا دوسرے سے نکال دیتا۔ میں نے امتحان میں دسویں پوزیشن حاصل کی میں اپنی زندگی میں اتنا خوش کبھی نہ ہوا تھا جیسے ہی میں نے رزلٹ دیکھا میں وہی سجدہ ریز ہوگیا۔ مالک کا بہت کرم تھا۔ میں آج تک غموں پہ رویا تھا پر آج میں خوشی سے رویا تھا۔ میں نے انٹرویو کی تیاری کی امی سے دعایں لی اور دے آیا۔ اللہ سے اچھے کی امید تھی ۔ دل بہت گبھرا رہا تھا پر میں نے خود کو سنبھالا اور انٹرویو دیا۔ اور اس میں بھی کامیابی حاصل کر لی تھی۔ اج جیسے اللہ نے سارے غموں ٹھوکروں پر مرحم لگا دیا تھا۔ شاید اللہ نے مجھے یہاں تک پہچانے کے لیے ہی ہر طرح کی اذیتیں دکھائی تھی۔ میری خودمختاری تھی جو مجھے یہاں لے آئی ہے اللہ نے کسی انسان کو بھی غلام نہیں پیدا کیا کسی کو زلیل ہونے کے کیے پیدا نہیں کیا کسی کا کوئی حق نہیں ہے کے وہ آپ کو بے عزت کر یا حقارت کی نظر سے دیکھے۔
Sushi saksena
02-Jul-2022 01:49 PM
Good
Reply
Amir
01-Jul-2022 05:41 PM
bahut hi behtarin
Reply
Syeda Sadia Fateh
01-Jul-2022 03:13 PM
Bahoot khub
Reply