غزل
غزل
زمین پھولوں کی ہے آسمان پھولوں کا
اگر ہے ساتھ تو سارا جہان پھولوں کا
وہ جس کو ڈھال دیا خوشبوؤں کے پیکر میں
اسی پہ پھبتا ہے طرز بیان پھولوں کا
مہک رہے ہیں کئی پھول ابھی شاخوں پر
بہار چھوڑ گئی ہے نشان پھولوں کا
بھری نہ ہوتیں یہ راہیں نکیلے خاروں سے
رکھا جو ہوتا ذرا بھی دھیان پھولوں کا
مہکنا چھوڑا نہ پھولوں نے دھوپ کے ڈر سے
لیا نہ دھوپ نے کب امتحان پھولوں کا
تراش تیرے لبوں کی گلاب جیسی تھی
ترے لبوں پہ تھا سب کو گمان پھولوں کا
ہر اک زمیں میں لگائے گلاب کے پودے
ہمارا آپ کا ہے خاندان پھولوں کا
سماعتوں میں شہد جیسے گھول دے کوئی
کیا جو اردو زباں میں بیان پھولوں
لگا رہے ہیں اسے آگ باغباں اس کے
بنایا ہم نے تھا ہندوستان پھولوں کا
Ahmed Alvi
05-Jul-2022 10:24 AM
محترم قارئین اپنی رائے سے ضرور نوازیں آپ کی ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہے.
Reply