Ahmed Alvi

Add To collaction

07-Jul-2022 طنزیہ غزل


فرض شوہر کا نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
پاؤں بیوی کی دباتے ہوئے مرجاتے ہیں

 امتی پانی بچاتے ہوئے مرجاتے ہیں 
عید کے عید نہاتے ہوئے مرجاتے ہیں 

فکر اپنی نہیں جن کی نہ نظریہ اپنا 
ہاں میں ہاں سب کی ملاتے ہوئے مرجاتے ہیں 

عقد ثانی کے لیے بیوہ ہی مل جائے کوئی 
پیٹھ قاضی کی کھجاتے ہوئے مرجاتے ہیں 

دودھ اک بوند میسر نہیں ہوتا لیکن
بھینس کو چارہ کھلاتے ہوئے مرجاتے ہیں

کتنے شاعر ہیں کہ جو معتبر استادوں سے
چربے اور سرقے کراتے ہوئے مرجاتے ہیں

اس زمانے میں وہی ہوتے ہیں داماد اصلی 
مال سسرال کا کھاتے ہوئے ہیں مرجاتے ہیں 

کتنے عاشق ہیں جو محبوبہ کے بھائی بن کر
اس کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس کو معلوم ہے اس شہر میں کتنے گنجے 
چاند پر بال اگاتے ہوئے مرجاتے ہیں

ہم نے دیکھا ہے کہ اقبال کے محمود و ایاز
جوتے مسجد سے چراتے ہوئے مرجاتے ہیں

کتنے اسٹیج کے یہ سیلیبریٹی شاعر
غزلیں استادوں کی گاتے ہوئے مرجاتے ہیں

   5
3 Comments

Gunjan Kamal

08-Jul-2022 12:43 AM

👌👏🙏🏻

Reply

Faraz Faizi

07-Jul-2022 07:20 PM

بہت عمدہ

Reply

Simran Bhagat

07-Jul-2022 06:21 PM

👌👌👌

Reply