07-Jul-2022 طنزیہ غزل
فرض شوہر کا نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
پاؤں بیوی کی دباتے ہوئے مرجاتے ہیں
امتی پانی بچاتے ہوئے مرجاتے ہیں
عید کے عید نہاتے ہوئے مرجاتے ہیں
فکر اپنی نہیں جن کی نہ نظریہ اپنا
ہاں میں ہاں سب کی ملاتے ہوئے مرجاتے ہیں
عقد ثانی کے لیے بیوہ ہی مل جائے کوئی
پیٹھ قاضی کی کھجاتے ہوئے مرجاتے ہیں
دودھ اک بوند میسر نہیں ہوتا لیکن
بھینس کو چارہ کھلاتے ہوئے مرجاتے ہیں
کتنے شاعر ہیں کہ جو معتبر استادوں سے
چربے اور سرقے کراتے ہوئے مرجاتے ہیں
اس زمانے میں وہی ہوتے ہیں داماد اصلی
مال سسرال کا کھاتے ہوئے ہیں مرجاتے ہیں
کتنے عاشق ہیں جو محبوبہ کے بھائی بن کر
اس کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس کو معلوم ہے اس شہر میں کتنے گنجے
چاند پر بال اگاتے ہوئے مرجاتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے کہ اقبال کے محمود و ایاز
جوتے مسجد سے چراتے ہوئے مرجاتے ہیں
کتنے اسٹیج کے یہ سیلیبریٹی شاعر
غزلیں استادوں کی گاتے ہوئے مرجاتے ہیں
Gunjan Kamal
08-Jul-2022 12:43 AM
👌👏🙏🏻
Reply
Faraz Faizi
07-Jul-2022 07:20 PM
بہت عمدہ
Reply
Simran Bhagat
07-Jul-2022 06:21 PM
👌👌👌
Reply