Add To collaction

غزل

کام سارے ہی بدستور کیے جاتے ہیں

اور تُجھے یاد بھی بھرپور کیے جاتے ہیں

شبِ ہجراں میں ہمیشہ تری یادوں کو ہم
خاک میں ڈال کے کافور کیے جاتے ہیں

بزم میں تیری جفا کا تو کوئی ذکر نہیں
بے وفا ہم ہیں یہ سب شور کیے جاتے ہیں

ہجر کی شب کی اذیت کا بتا کر سب کو
خود کو ہم ایسے بھی مشہور کیے جاتے ہیں

جو ہو ظاہر تو ہے رُسوائی ہماری قسمت
اس لیے پیار کو مستور کیے جاتے ہیں

 چھوڑ کر جب سے گیا ہے وہ ہمیں، تب سے شفق
 عام فرقت کا ہی دستور کیے جاتے ہیں


از ۔✍️۔ شفق شمیم شفق 

   11
5 Comments

Rahman

14-Jul-2022 11:14 PM

Mst

Reply

Chudhary

14-Jul-2022 10:10 PM

Nice

Reply

नंदिता राय

14-Jul-2022 09:54 PM

👌👌👏

Reply