Alfia alima

Add To collaction

بہوا

بہوا
بہوا کے جانے کے تیسرے دن بھیا کی نئی نویلی دلہن بھی میکے چلی گئی۔ اب حقیقت تو خدا کو یا بہوا کو بہتر معلوم ہے لیکن اس کے اچانک چلے جانے سے ہمارے گھر میں عجب قسم کی خاموشی چھا گئی ہے۔ بھیا اپنا فٹ بھر لمبا سگار لے کر لان میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ حتی کہ ان کے منہ سے منے کے متعلق بھی کوئی بات نہیں نکلتی۔۔۔ اب آپ ہی بتائیے پہلے بھی کبھی یوں ہوا تھا؟ 

بہوا کے جانے سے پہلے تو بھیا چھین چھین کر منے کو بہوا سے لے جاتے تھے۔ کبھی اس کے لیے ہوائی جہاز بناتے۔ کبھی اس سے سرکس کراتے۔۔۔ تھک کر ان کی گود میں لیٹ جاتا تو گالیوں کی مشق کراتے لیکن اب وہ تو کرسی میں دھنسے یوں بے نیاز ہوگئے ہیں گویا منا اس گھر کا نہیں، ہمسائے کا بچہ ہے جو بھول کر یہاں آ گیا ہے۔۔۔ منا ان کی کرسی سے لگ کر آہستہ سے کہتا ہے، ’’جھا چاچا۔۔۔ جھا چاچا۔‘‘ لیکن مسکرا کر دیکھنے کے علاوہ ان کے منہ سے کوئی بات نہیں نکلتی اور میں سوچتی ہوں کہ آخر بات کیا ہے۔۔۔ دلہن میکے سے آتی کیوں نہیں۔۔۔؟ بہوا کو مہردین کیوں نہیں ڈھونڈ لاتا؟ بہوا تھی تو گھر آنگن سبھی سجا ہوا تھا۔۔۔ کانگڑے کے یہ مہاجر ہمارے گھر میں نوکر تھے۔ بہوا منے کو کھلاتی تھی اور کپڑے وغیرہ دھوتی تھی۔ مہردین باورچی کا کام کرتا تھا اور دونوں کی خوب گزران ہوتی تھی۔۔۔ بہوا کی بوڑھی ساس جس کا چہرہ چھریوں سے اٹا ہوا تھا، سارا دن نوکروں کے کوارٹروں کے سامنے نیم کے پیڑ تلے گڑگڑی پیتی اور بہوا کے کام میں کیڑے نکالتی تھی۔ 

یہ بھیا کی برات سے ایک دن پہلے کا ذکر ہے، بہوا پچھلے آنگن میں تار پر دھلے ہوئے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر ڈال رہی تھی۔ میں منے کے چھوٹے سے سرخ پائجامے میں ازاربند ڈال رہی تھی۔ ہر بار جب بہوا کپڑا نچوڑتی تو منہ کو بھی آستین سے پونچھ لیتی۔ کچھ دیر تو مجھے خیال نہ آیا۔ پھر میں اس کے قریب چلی گئی۔ بہوا رو رہی تھی۔ اس کی بڑی بڑی شربتی آنکھیں لال ہو رہی تھیں اور ناک کی موٹی سی تیلی پر ایک جھلملاتا آنسو پھسل رہا تھا۔ میں قریب پہنچی تو بہوا اور بھی تندہی سے کام میں مشغول ہوگئی۔ 

’’بہوا۔ ہوا کیا ہے آخر؟‘‘ 

’’بی بی جی! اب کبھو تک ان کی باتاں برداشت کروں جی؟‘‘ 

’’کن کی باتاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ 

’’مہر دین اور اس کی ماں۔۔۔‘‘ 

’’آخر بات کیا ہے؟ کچھ بتاؤ تو سہی۔۔۔‘‘ 

’’اب جی مہرا کہوے جی کہ جاتک کیوں نہ ہوا ابھے تک ہاں۔۔۔‘‘ 

یہ کہہ کر بہوا پھسک پھسک رونے لگی۔ میں اسے اس وقت تک تسلی دیتی رہی جب تک اماں نے مجھے اندر نہ بلا لیا۔ بہوا کی شادی کو تین سال ہو چکے تھے لیکن روپ وان عورت ابھی تک بچے کو ترس رہی تھی۔ منے کو سارا دن لیے پھرتی او رمیرا خیال ہے اگر میں اسے اجازت دیتی تو شاید وہ منے کو رات بھی اپنے ساتھ ہی سلاتی۔ کچھ تو بہوا کی بدنصیبی تھی اور کچھ مہردین اور اس کی ماں نے اس کا دل چھلنی کردیا تھا۔ جب کبھی وہ اکیلی بیٹھی مجھے نظر آئی، اس کی آنکھو ں میں ہمیشہ آنسو ہوتے۔ 

برات کی واپسی پر سب تھک ہار کر سوچکے تھے۔ صرف دوسری منزل میں دولہا دولہن کے کمرے میں بتی روشن تھی۔ مجھے نیند نہ آرہی تھی۔ خدا جانے کیوں میرا دل سرشام سے گھبرایا ہوا تھا۔ بھیا نے دلہن کو پہلی مرتبہ آج ہی دیکھنا تھا اور دلہن کی صورت واجبی اور رنگ گہرا سانولا تھا۔ وہ بے چاری جب خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی تو بھی لگتا تھا کہ جیسے مسکرائے جارہی ہے۔ ننھا سا ایک دانت نچلے لب پر کچھ اس انداز سے ٹکا ہوا تھا کہ اس کی ساری سنجیدگی کو چاٹے لیے جاتا تھا۔ پھر اوپر والی منزل سے کوئی بھاگ کر نیچے اترا تو میں منے کو سوتا چھوڑ کر برآمدے کی طرف چلی۔ بھیا کا سانس پھولا ہوا تھا اور وہ ڈریسنگ گاؤن کی ڈوریاں باندھنے میں مشغول تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا، ’’تم لوگوں نے میرے لیے اچھا نگینہ تلاش کیا۔۔۔‘‘ 

میرا دل سینے میں زور زور سے اچھلنے لگا، ’’کیوں کیا بات ہوئی۔۔۔‘‘ 

’’بھابی! کچھ دیکھ تو لیا ہوتا۔۔۔ تمہیں اپنے دیور پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔‘‘ بھیا کی آنکھوں میں کچھ ایسے آنسو تھے اور آواز میں ایسی دکھ بھری تڑپ تھی کہ میرا اپنا جی دکھ گیا۔۔۔ لیکن جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ اب واویلا کرنے یا گلہ کرنے سے کچھ ہاتھ نہ آ سکتا تھا۔ میں نے منت سماجت کر کے بھیا کو اوپر بھیجا اور جی ہی جی میں دعائیں مانگنے لگی کہ یا اللہ! بھیا دلہن کی طبیعت کے اسیر ہو جائیں۔۔۔ بھیا اور دلہن کی یوں بنے کہ سارا گھرانہ جلے۔۔۔ لیکن صبح کی اذان ہوگئی اور میری آنکھ نہ لگی۔ صبح گجر دم جب بہوا منے کے لیے دودھ کی بوتل لائی تو اس نے جھک کر میرے کان میں کہا، ’’بی بی! بھیا تو لان میں گھوم روے ہیں۔۔۔ کیا دلہن من کو نہیں لگی اُن کے؟‘‘ 

یہ اس روز کا ذکر ہے جب اماں نے پہلے دن دلہن کا قدم بھاری جان کر سارے میں مٹھائی بانٹی تھی۔۔۔ ہم سب دلہن سے ہنسی مذاق کر رہے تھے اور وہ پلنگ پر بیٹھی کبھی بھیا کی طرف دیکھتی تھی اور کبھی اپنے پیروں کی طرف۔ پھر سرونٹز کوارٹرز کی طرف سے رونے پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں اور اماں بھاگی بھاگی ادھر کو لپکیں۔ نیم کے درخت کے نیچے مہردین کی ماں گڑگڑی لیے بیٹھی تھی اور مہردین کے ہاتھ میں بجھی ہوئی چھوٹی سی لکڑی تھی اور وہ بڑھ بڑھ کر بہوا کو پیٹ رہا تھا۔ میں نے مہردین کی بس ایک ہی بات سنی اور پھر وہ ہمیں دیکھ کر اپنے کمرے میں جا چھپا۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’دیکھتی نہیں۔ دو مہینے آئے کو نہیں ہوئے اور دلہن امید سے بھی ہو گئی۔ تجھ ایسی کوکھ جلی سے میں کب تک نباہ کروں گا۔۔۔ جا یہاں سے جا۔۔۔‘‘ 

اسی رات خدا جانے بہوا کہاں چلی گئی؟ پولیس میں رپٹ لکھوائی۔ مہردین کے تمام رشتے داروں میں تلاش کیا لیکن بہوا کا سراغ نہ ملا۔ اور پھر بہوا کے جانے کے تیسرے دن اچانک دلہن بیگم نے ٹانگہ منگوایا اور اپنے میکے رخصت ہوگئیں۔ میں نے بھیا سے پوچھا تو وہ بولے، ’’تم نے بہوا کو دیکھا تھا؟ اتنی خوبصورت عورت مہردین جیسا نکال سکتا ہے تو میں ہی ایسا پاگل رہ گیا ہوں کہ تمہاری دلہن کے ساتھ گزارہ کرتا رہتا۔‘‘ میں نے جھنجھلا کر کہا، ’’بھیا دیکھتے نہیں اللہ نے دلہن پر کیسی رحمت کی ہے۔‘‘ 

بھیا چبا چبا کر بولے، ’’جی ہاں۔۔۔ ایک ان ہی کو اس رحمت کی ضرورت رہ گئی تھی؟ پہلے جو ماشاء اللہ بہت خوبصورت تھیں، اب اور بھی چار چاند لگ جائیں گے۔‘‘ 

’’بھیا یہ کفرانِ نعمت ہے۔ توبہ توبہ، ڈرو اس کے قہر سے۔‘‘ 

’’قہر تو جی اس کا مجھ پر نازل ہوا ہی ہے۔۔۔ پہلے کم از کم اپنے جامے میں تو رہتی تھی۔۔۔ اب تو وہ بھی اترانے لگی تھیں۔۔۔ ایک اتراتی ہوئی بدصورت عورت تو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی۔‘‘ 

’’بھیا۔۔۔!‘‘ میں نے چلا کر کہا۔ 

’’پہلے اس کی چاکری ہی کیا کم تھی جو اب اس کے بچوں کو بھی پالتا پھروں۔۔۔ ٹھیک ہے اسے وہیں رہنے دو جی۔۔۔!‘‘ 

میں خاموش ہوگئی۔ مجھے یوں لگا جیسے بہوا اور دلہن دونوں ہاتھ پکڑے اور واپس نہ آنے کی قسم کھا کر دھرتی تلے اتر گئی ہوں! 

   1
0 Comments