Alfia alima

Add To collaction

قیدی

قیدی
یہ سزا کی پہلی رات تھی۔ عبد الوحید سو نہ سکے۔ ساری رات جاگتے ہوئے گزار دی۔ 

وہ ایک امیر خاندان کے نونہال تھے۔ ان کو کھانے پینے کی پرواہ نہ تھی، کئی مکانات تھے۔ کئی دوکانیں تھیں۔ بنکوں میں روپیہ بھی جمع تھا۔ ان کی زندگی شاہزادوں کی زندگی تھی۔ وہ اپنی بیوہ ماں کے اکلوتے لڑکے تھے۔ 

آج سے چند دن پہلے وہ نہایت بیش قیمت کپڑے پہنتے تھے۔مخملی گدوں پر سوتے تھے۔ موٹروں میں چڑھتے تھے۔ گلیوں میں شریک ہوتے تھے۔ ٹینس کھیلتے تھے۔ صاحب لوگوں کو دعوتیں دیتے تھے۔ مگر آج ان کی حالت کس قدر تبدیل ہو چکی تھی۔ وہ قیدی تھے۔ انہوں نے عدم تعاون کیا تھا۔ ان کے دروازے پر بدیشی کپڑوں کی ہولی منائی گئی۔ انہوں نے پرجوش تقریریں کی تھیں۔ لوگ ان کی جادو بیانی پر لٹو ہو گئے تھے۔ 

وہ ابھی تک کنوارے تھے۔ ان کی شادی ایک قریبی رشتہ دار کی حسین لڑکی سے ہونے والی تھی۔ لڑکی کے باپ نے شادی پر زور دیا۔ عبد الوحید ہنسے۔ ان کا ارادہ نہ تھا کہ ایسے پر آشوب ایام میں شادی کی جائے لیکن لڑکی کے باپ نے نہ مانا۔ شادی ہو گئی۔ برات نے کھدر کا لباس پہنا ہوا تھا۔ 

رات کا وقت تھا۔ عبد الوحید اپنی بیوی کے پاس بیٹھے ہوئے اس کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس چہرے میں کیسا حسن تھا۔ کیسی دلفریبی اور اتنا ہی نہیں۔ اس پر بھولا پن کھیلتا تھا۔ عبد الوحید مسرت سے جھومنے لگے۔ وہ جوش بیتابانہ سے آگے بڑھے اور پیارسے بیوی کا ہاتھ تھام کر بولے ’’رضیہ!‘‘ 

یکایک کسی نے دروازے پر ہاتھ مارا۔ عبد الوحید چونک کر پرے ہٹ گئے۔ سہمی ہوئی دلہن ایک کونے میں دبک گئی۔ عبد الوحید نے کہا ’’کون ہے؟‘‘ 

ان کی بڑی بہن گھبرائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور بولی ’’باہر پولیس کے آدمی کھڑے ہیں۔‘‘ 

عبد الوحید کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہ تھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’معمولی بات ہے۔ میں ہر لمحہ اس کےلئے تیار تھا۔‘‘ 

دوسرے دن مقدمہ پیش ہوا۔ عبد الوحید نے کسی سوال کا جواب اوربیان دینے سے انکار کر دیا۔ مجسٹریٹ نے انہیں چھ ماہ کی قید بامشقت کی سزا دی۔ یہ فیصلہ سن کر بوڑھی ماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لیکن عبد الوحید کا چہرہ پھول کی طرح شگفتہ تھا، انہوں نے ہنس کر کہا۔میں منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ 

اب وہ سزا یافتہ قیدی تھے۔ پہلی رات ان کو قید کا تلخ تجربہ ہوا۔ زمین نمدار تھی۔ کمبل سوئیوں کی طرح چبھتے تھے۔ گملوں سے بدبو آتی تھی۔ رات جاگتے کٹ گئی۔ مگر صبح کے وقت ان کی آنکھ لگ گئی۔ 

خواب میں وہ اپنی بیوی کے پاس تھے۔ جہاں حسن شگفتہ تھا۔ دوشیزۂ بہار تھی۔ تبسم درخشاں تھا۔ آزادی کا جلوہ تھا۔ عبد الوحید پر جذبے کا عالم طاری تھا۔ یکایک آنکھ کھل گئی۔ بیداری نے حقیقت کا احساس دیا۔وہ محض ایک قیدی تھے۔ 

تھوڑی دیر کے بعد ایک صاحب آئے۔ ان کا گورنمنٹ میں بڑا رسوخ تھا۔ وہ عبد الوحید سے بولے۔ ’’عبد الوحید! تمہاری حالت پر مجھے رونا آتا ہے۔ تم اتنہائی درجہ کے امیر ہو۔ تمہاری شرافت کا شہر میں غلغلہ ہے، تمہاری شادی ابھی پرسوں ہوئی ہے۔ تمہاری بیوی نے عروس کا جوڑا ابھی تبدیل نہیں کیا۔ معافی مانگ لو۔رہا ہو جاؤ گے۔ 

عبد الوحید نے سر جھکا لیا۔ دور شہر میں انہوں نے اپنے عالی شان مکان کا، بوڑھی ماں کا، نئی دلہن کا اور زندگی کی مسرتوں کا تصور کیا۔ دل تذبذب میں پڑ گیا۔ گذری ہوئی رات کا خیال آیا۔ کمزوری نے پرزور حملہ کیا۔ استقلال کی دیوار لرزنے لگی۔ 

یکایک عبد الوحدی کو اپنی تقریر کا ایک حصہ یاد آگیا۔ 

’’وطن کی خدمت پھولوں کا بستر نہیں۔ یہ جوانی کی موت مرنے کے مترادف ہے۔ اس راستہ پر چلنا اسی کا کام ہے۔ جس نے اپنے آپ پر قابو حاصل کر لیا ہو اور ہر قسم کی تکلیفیں، صعوبتیں اور آفتیں برداشت کرنے کے لئے تیار ہو۔‘‘ 

ارادہ بدل گیا۔ گرتی ہوئی دیوار تھم گئی۔ عبد الوحید نے ہاتھوں کی مٹھیاں کس لیں اور فیصلہ کن لہجہ میں جواب دیا۔ 

’’میں رہائی نہیں چاہتا‘‘ 

   1
0 Comments