Alfia alima

Add To collaction

باغبان

باغبان
ندی کے کنارے ایک چھوٹا سا باغ تھا۔ 

باغ کی سطح ذرا نیچی تھی، اور کبھی کبھی برسات میں ندی کا پانی باغ کے نشیبی حصوں میں پہنچ جاتا تھا۔ پاس ہی سے سڑک گزرتی تھی،جہاں سے باغ کامنظر قابل دید تھا۔ راہ گیر جاتے جاتے ضرور نظر بھر کر پھولوں کے تختے کو دیکھ لیتے اور بچے ندی کے پل پر بیٹھ کر پھلوں پر للچائی ہوئی نظریں ڈالتے۔ 

ندی آہستہ آہستہ بہتی، اور درختوں کاسایہ اس پر لرزتا ہوا معلوم ہوتا۔ ہوا چل کر ٹہنیوں کو ہلاتی اور پھول رقص کرنے لگتے۔ انسان کا تھکا ہوادماغ دن بھر کے کام کاج کے بعد فطرت کی ان دلکشیوں میں کس قدر لطف پاتا ہے۔ 

اس باغ کامالک جب دن بھر کی محنت کے بعد اس باغ میں آتا ہے تو اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہ ہوتی۔ 

لیکن ایک ہستی ایسی بھی تھی، جس کو اس باغ سے بے پایاں محبت تھی۔ وہ اس باغ کا مالی تھا۔۔۔ اس باغ کا مالی جس نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے ان پودوں کو پالا پوسا تھا۔ گرمیوں میں ان کو پانی دیا تھا، دن دن بھر ان پودوں کی تراش خراش کی تھی اور ان کی زندگی اورترقی کا خیال اس کا نصب العین بن گیا تھا۔ 

وہ اکیلاتھا۔ اس کا کوئی رشتہ دار نہ تھا، شاید کوئی دور کا عزیز ہو۔ مگر ایسا تو کوئی نہ تھا جس کی کفالت اس کے ذمہ ہو۔ اس لیے بھی باغ اس کے لیے دنیا تھا۔ اس کی ساری محبت ان پودوں میں محصور ہوگئی تھی۔ وہ ان کو پروان چڑھتے دیکھ کر خوش ہوتا، جیسے کوئی اپنے بچوں کو پروان چڑھتے دیکھ کر خوش ہو۔ تنخواہ اس کی تن پوشی کے لیے کافی تھی اور اسے لے دے کے اگر کوئی فکر تھی تو صرف باغ کی۔ 

وہ باغ کی خدمت اس لیے نہیں کرتا تھا کہ یہ اس کا فرض تھا۔ غالباً اس نے اپنے فرض کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ وہ پودوں کو اپنے بچے سمجھتا اور ان سے محبت کرتا۔ جیسے کوئی باپ اپنے بچے سےمحبت کرے۔ 

جب ہوا پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کو اڑا کر پریشان کرتی تو مست ہو جاتا۔ اس کے دل میں محبت کا پاکیزہ ترین جذبہ تھا اور یہ اسی محبت کا اثر تھا کہ وہ ان پھولوں کی خوشبو میں ایک خاص فرحت اور لذت پاتا۔ وہ اکثر محبت بھری نظروں سے ندی کو تکا کرتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ندی اس کے باغ کے پاس سے بہتی تھی اور اس کے درختوں کو پانی دیتی تھی۔ 

اور اس طرح اس کی زندگی، مسرت، کیف اور لطف سے لبریز تھی۔ یہ سب محبت کااثر تھا اور محبت جو ہردل میں کم وبیش موجود رہتی ہے، اس کے دل میں بھی تھی اور اسے دنیا و مافیہا سے بے پروا بنا چکی تھی۔ 

اس کا مالک جب باغ میں آتا اور باغ کی تروتازگی کو دیکھتا تو ٹھنڈی سانس بھر کر کہتا، ’’یہ سب مالی کی محبت کا اثر ہے۔ ہر ہر پھول سے مالی کی محبت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ 

شاید وہ اپنی محبت کو یاد کرنے لگتا، جو اس کے جوانی کے زمانے کی بہترین یادگار تھی۔ 

(۲) 

دن گزرتے گئے۔ مالی بڈھا ہوتا گیا اور درخت تناور ہوتے گئے۔ 

اس کے مالک نے باغیچہ دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ باغبان اب بہت بڈھا ہوگیا تھا، درختوں کو اب بڈھے کی خدمات کااحتیاج نہ تھا۔ بڈھے کے ہاتھ پیر، اب درختوں کی خدمت کر بھی نہ سکتے تھے۔ حالاں کہ اس کی دلی محبت بڑھتی جارہی تھی۔ اس کی حالت ان پرندوں کی سی تھی جو درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر اور پھولوں سے مخاطب ہوکر نغمہ سرائی کرتے۔ بڈھا مالی بہت فرطِ مسرت سے کوئی دیہاتی راگ گانے لگتا۔ 

ایک دن نئے آقا نے بڈھے مالی کو بلاکر کہا، ’’یہ لو اپنی تنخواہ۔ اب تم بڈھے ہوگئے باغ تم سنبھال نہیں سکتے، جاؤ اور گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرو۔ اب تم کام نہیں کر سکتے اور یہ خدا کو یاد کرنے کازمانہ ہے اور یہ لو انعام۔‘‘ 

بڈھے مالی نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’حضور میری ایک تمنا پوری کردیں گے؟‘‘ 

’’کیا؟‘‘ 

’’مرنے کے بعد میری قبر پر اس باغ کا ایک پھول ڈال دیجیے گا؟‘‘ 

یہ کہہ کر کہنہ سال باغبان نے ایک سرد آہ بھری، اور لاٹھی ٹیکتا ہوا باہر نکل گیا۔ 

   1
0 Comments