Add To collaction

شکوہ

گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا جب وہ داخل ہوا۔ ہر سو خاموشی اور وحشت تھی۔ وہ دیوار پہ switch board تلاشنے لگا اور بالآخر اسے مل گیا اور ٹی وی لاونج میں پیلی روشنی پھیل گئی۔ 

طوبیٰ ؟ 
خاموشی کا شور کم ہوا۔ اب کہ اس کی آواز دیواروں سے ٹکرانے لگی تھی۔ جب کوئی جواب نہ موصول ہوا تو اس کی پیشانی پہ بل پڑنے لگے۔ وہ سیڑھیاں پھلانگ کر اوپری منزل پر پہنچا۔ اوپر بھی اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کی اور کمرے کی جانب بھرنے لگا۔ کمرے میں موجود کینڈل، اندھیرے میں خلل ڈال رہی تھی۔ اور ایسے ہی اسکی نظر زمین پہ بیٹھی لڑکی پہ پڑی۔ اس نے لمبا سانس لیا اور دروازے پہ ہی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اسے غصہ آ رہا تھا پر وہ اپنا لہجہ نرم کر کے اس کے پاس آیا۔
کیا ہوا ہے ؟ 
کوئی جواب نہ آیا۔
کیوں بیٹھی ہو ایسی ؟
اس کا ہاتھ پکڑا پر کچھ گیلا سا اس کے ہاتھوں کو لگ گیا تھا۔ اس نے حیرت سے اپنے ہاتھ دیکھے جن پہ خون لگا تھا۔ وہ زمین پہ جھک گیا اور اس کے ہاتھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ جن پہ جگہ جگہ بلیڈ مارا گیا تھا اور اس سے خون بہہ کر وہی جم رہا تھا۔ اس کو تیوری چڑھی۔ اس کا چہرا غصے سے تمتمانے لگا تھا۔ پھر بھی خود کو قابو کرتے ہوئے بولا 
یہ سب کیا ہے؟ 
آواز پہلے سے اونچی تھی۔
اس نے نگاہیں اٹھا کہ اسے دیکھا۔
چلے جاو یہاں سے۔ اکیلا چھوڑ دو مجھے۔
میں کچھ پوچھ رہا ہوں طوبیٰ ؟
اس کی نگاہیں اس کے گلے میں لٹکی چین پہ گئی جس پہ چھوٹا سا کر کہ اللہ لکھا تھا وہ اس نے آرڈر پہ خود بنوائی تھی۔ دور سے پتہ نہیں چلتا تھا پر قریب سے واضح نظر آتا تھا اللہ لکھا ہوا۔ وہ اس کو ہمیشہ پہنے رکھتا تھا۔ اس نے نظریں پھیر لی۔
چلے جاو یہاں سے میں کہہ رہی ہوں۔
وہ چلائی۔ چلے جاو۔ مجھے کسی کی بکواس نہیں سننی۔ اس لیے دفا ہو جاو۔
وہ بیٹھا رہا اس کے پاس اس کا چہرا ٹٹولتا رہا۔ وہ نرمی سے گویا ہوا۔ کیا مسلہ ہے طوبیٰ ؟
اس نے اس کی چین زور سے کھینچی ایسے کہ وہ اس کے ہاتھ میں آگئی وہ سرمئی رنگ کی چین تھی جس پہ اب خون بھی لگ رہا تھا۔ یہ ہے میرا مسلہ۔ سمجھ آرہی ہے تمہیں یہ۔ اس کا اشارہ اللہ کے لکھے نام پہ تھا۔
کچھ شن کر کے ٹوٹا تھا کہیں۔ کہیں اس کے دل میں۔ ایک تکلیف ابھری تھی۔ آنکھوں میں کیا آکے گزر گیا تھا اور کیا اس کے دل کو ہوا تھا۔ اس کا دھیان اس سب پہ نہیں تھا۔ وہ اب بھی اس ظالم کو دیکھ رہا تھا۔ پر اب اس نے اپنے لہجے اپنے غصے کو کنٹرول نہیں کیا تھا۔
وہ اب بھی کچھ کہہ رہی تھی۔ اللہ نے دیا ہی کیا ہے مجھے۔ اس کی ذات نے میری تقدیر میں سواۓ تکلیف کے لکھا ہی کیا ہے۔ 
اب سننے کی باری طوبیٰ کی تھی۔ یہ غم کا پردہ جو اس نے چڑھا رکھا تھا اب یہ اترنے والا تھا۔
اس نے کہا تھا۔
کہ
اس کا لہجہ سخت تھا۔
اس نے کہا تھا کہ 
اگر اتنا ہی مسلہ ہے تمہیں اللہ سے اور اتنے ہی شکوے ہیں تمہیں اس سے تو ایسا کیوں نہیں کرتی نکال کے پھینک کیوں نہیں دیتی جو کچھ اس نے دیا ہے۔ ہاں ؟ کیا نہیں دیا اس نے ؟ 
اس نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑا اور آئینے کے سامنے لا کھڑا کیا۔ 
کیا اس نے نہیں دیا تمہیں کچھ ؟ بولو ہاں؟
یہ جو زبان ہے جس سے تم ادا کر رہی ہو یہ الفاظ۔ یہ کس نے دی ہے تمہیں۔ یہ جو عقل ہے تمہاری یہ کس نے دی ہے تمہیں۔ 
بہت مسلہ ہے نا تمہیں اللہ سے اس کی ایک ایک چیز نکال کہ باہر پھینک دو۔نکالو۔ تمہارے جسم کے اندر ہر ایک چیز جو اس نے تم میں دی ہے پر بہت کو نہیں بھی دی ہو گی۔ نکالو باہر۔ یہ جو پاک خون تم میں دور رہا ہے۔ یہ جو ہر عضا کسی بھی مرض کے بغیر ہیں۔ نکالو انھیں باہر۔ ایک ایک چیز اپنی چیر پھاڑ کے نکالتی کیوں نہیں ہو تم۔ 
بہت مسلہ ہے نا تمہیں تو چھوڑ کیوں نہیں دیتی اللہ کو اور اللہ کی ہر شے کو۔بتاو نا۔ یہ زمین جس پہ تم کھڑی ہو نکل جاو اس سے۔ یہ دنیا تو اس کی ہے۔ نکل جاو پھر اس کی دنیا سے بھی پھر۔ جا کہ ڈھونڈو ایسی جگہ جو اس کی نہیں ہے۔ 
تاکہ تمہارے مسائل بھی ختم ہوجاۓ۔

   16
12 Comments

Khushbu

30-Jul-2022 04:48 PM

👌👏

Reply

Gunjan Kamal

30-Jul-2022 09:22 AM

👏👌

Reply

Aniya Rahman

29-Jul-2022 10:50 PM

Nyc

Reply