Add To collaction

06-Aug-2022 ماں باپ

🌷🌷🌷🌷🌷🌷ماں باپ 🌷🌷🌷🌷🌷🌷


دنیا کی عظیم ترین ہستی ماں باپ
قیمتی ، انمول اور نایاب  ۔۔۔۔۔
خالق کائنات کی بخشی ہوئی ایک ایسی نعمت جس کا کوئی بدل نہیں ۔ان کی محبت ،ان کا پیار ، ان کی شفقت ان کا دلار ، ان کی قربانی ان کا ایثار  مثال کی حیثیت رکھتی ہے

ماں ممتا کی آنچل میں اپنی اولاد کے دکھ درد کو سمیٹ لیتی ہے تو باپ وہ تناور مضبوط درخت کی چھاؤں اور پہاڑوں کی چٹان کی مانند ہے جو اپنی اولاد کو  دنیا کے تمام آفات و بلیات سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا  ہے ۔
وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کے سروں پر ماں باپ کا سایا ہے  والدین کی بے لوث  محبت اور شفقت انہیں پروان چڑھانے میں کوشاں رہتے ہیں۔  ان کی دعاؤں کا اثر ہےکہ  دشوار کن مراحل طے کرنا آسان ہو جاتا ہے منزل مقصود حاصل ہو جاتا ہے اور کامیابی قدم چومتی ہے ۔وہ اولاد خوش قسمت ہوتی ہے جسے ماں باپ دونوں کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔
والدین کا حکم بجا لاتے کا موقع ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ذرا کوئی ان کے دل سے تو پوچھے جن کے والدین حیات نہیں ہوتے کتنی پیاری اور خوبصورت زندگی کی لذتوں سے وہ محروم ہوتے ہیں۔ دنیا کی ہر شۓ اس کی دلکشی اور رنگینیاں والدین کے مقدس چہرے کے سامنے پھیکے ہیں ۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ جب  اولاد اپنے والدین کے چہرے کو  پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہیں  تو خالق حقیقی بہت خوش ہو تے ہیں اور اس بندے سے راضی ہو کر ثواب سے نوازتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالی نے والدین کی خدمت کو جہاد پر فوقیت دی ہے ۔  مدینہ میں جب جہاد کا اعلان ہوا تو مذھب اسلام کے شیدائیوں نے تیاری شروع کردی ایک نوجوان حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور جہاد میں شامل ہونے کی خواہش کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھر پر کون ہے ؟ نوجوان نے کہا حضور !  گھر پر صرف میری ضعیف  ماں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم گھر واپس جاؤ اور اپنی والدہ کی خدمت کرو ۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کو ہر طرح سے نوازتا ہے ۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ تعالی کو والدہ کی خدمت گذاری کا یہ صلہ ملا کہ وہ رسول پاک ﷺ کے بپاروں میں شمار کۓ جاتے ہیں انہوں نے اعلی درجہ و مقام حاصل کیا  حضور ﷺ سے  ظاہری آمنا سامنا نہیں ہوا لیکن عشق کی انتہا نے روحانی ملاقات کا شرف بخشا ۔ یہ ماں کی دعاؤں کا ہی اثر تھا ۔
پدرانہ شفقت ومحبت کو محسوس کرنا اور جاننا ہے تو سرکار دوعالم ﷺ کی محبت وشفقت جو اپنی دختر کے لئےتھیں اس کا مشاہدہ کریں ۔ بی بی فاطمہ کی رخصتی کے بعد سے حضور ﷺ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ اپنی نور عین سے ملنے جایا کرتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں اکثر فاقہ رہتا تھا شہنشاہ عرب تاجدار مدینہ امام الانبیاء کی یہ فاقہ کشی میں  اللہ تبارک وتعالی کی حکمت کا راز پوشیدہ ہے ورنہ ان کے لئے نعمت دسترخوان کی کیا کمی تھی.. ۔!!
 فاقے کے دنوں میں جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بنت رسول ﷺ کو تھوڑا سا گیہوں لا کر دیا تو انہوں نے چکی میں پس کر آٹا سے ایک روٹی پکائی۔ تھوڑا سا ٹکڑا کھاتے ہی بابا کی یاد آگئی آپﷺ کی خدمت میں روٹی لے کر حاضر ہوئیں حضور دوعالم ﷺ کو پیش کیا آپﷺ نے نوالہ لے کر فرمایا ۔فاقے کا آج تیسرا دن تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!  
اسی طرح جب حضور ﷺ کے پاس کچھ آتا تو پہلے  اپنی لخت جگر کا ہی خیال کرتے۔۔۔۔۔۔۔
 یہ جذبہ محبت جو ایک بیٹی کے دل میں اپنے والد کے لئے اور والد کا اپنی لخت جگر کے لئے ہے ۔  کتنا لطیف اور پر کشش جذبہ ہے جس کا  کوئی مول نہیں۔
ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو بزرگوں کے  اوراق زندگی سے ملتے ہیں ۔۔جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔

موجود دور میں ماں باپ اور اولادوں کے قدرتی اور جذباتی رشتوں کے درمیان دنیا داری اور بے راہ روی ،خودغرضی اور نمائش نے دلوں کو سیاہ کر دیا ہے ان میں دراڑیں پیدا ہو گئی ہیں اور فاصلے روز بروز بڑھتے جارہے ہیں 
آج ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں اعلی تعلیم وتربیت اور کامیابی کے باوجود مارڈن سوسائٹی کے نام پر عقل انسانیت کہیں گم ہو گئی ہے ۔  دور حاضر میں اکثر لوگ ضعیف ماں باپ کو بوجھ یا پرانی اشیاء سمجھ کر گھر کے کسی کونے  کے حصے میں رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں یا پھر انہیں 
Old Age Home بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری ایام کو اولاد کی جدائی میں سسک سسک کر گذار دیتےہیں 
Old Age Home  جی ہاں!  نہایت افسوس اور شرمندگی کا مقام ہے کہ یہ گھر اسں عظیم ہستی کے لئے بنائی گئی ہے جس نے بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی جوانی تک اس کا ہر لمحہ  ہر ساعت بھر پور ساتھ دیا ۔اپنی ایک ایک خواہش کا گلا گھونٹ کر اس کی آرزو اس کی تمنا پوری کی ۔خود بھوکے رہ گئے لیکن بچوں کو بھوکا نہیں سلایا ۔
بچوں کی بیماری میں رات رات بھر جاگ کر دیکھ بھال کی زندگی کے لئے گڑکڑاۓ ،دعائیں کیں ۔ خود کانٹوں پر سوتے رہے مگر بچوں کے لئے نرم ملائم پھولوں کا بستر تیار کیا۔ خود انگاروں پر چلتے ہوئے بچوں کی راہوں کو گلزار بنا دیا۔
اپنے ہونٹوں کی ہنسی انہیں دے کر ‌ا ن کے آنکھوں کی نمی کو اپنی محبت اور شفقت میں جذب کر لیا ۔ ان گنت قربانیاں دے کر انہیں اس قابل بنا دیا کہ وہ سماج میں اعلی مقام حاصل کر لیں اور شہرت کی بلندیوں کو چھو لیں  ۔
وہ بچہ جو پیدائش کے وقت صرف گؤشت کا لوتھڑا ہوتا ہے جسم کے تمام اعضاء ہونے کے باوجود بھی وہ لاچار ،معذور اور محتاج ہوتا ہے تب یہی وہ ماں باپ ہوتےہیں جو اپنی اولاد کو سینے سے لگائے اس کی جان کی حفاظت کرتے ہیں بچے میں قوت و طاقت پیدا کرتے ہیں  والدین اپنی  گوشۂ عافیت میں پرورش کرتے ہیں دن مہینہ اور سال گزرتے ہیں بچے کو اپنے بل پر چلنا خود سے کھانا پینا اور دنیاوی تمام باتیں سیکھاتے ہیں ‌۔ وہی بجہ جس نے باپ کا ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھا قدم اٹھانا سیکھا ماں نے غلاظت صاف کی نوالہ بنا کر کھلایا لیکن جیسے ہی ماں باپ عمر رسیدہ  ہوئے کمزور  ہوۓ تو اولاد ان سے کترانے لگے ان کے ڈگمگاتے قدموں کو سہارا دینا توہین سمجھنے لگے ۔بڑھاپے میں انسان بچوں جیسی حرکت کرنے لگتا ہے ۔جس بچے کو نازو نعم میں پالا گیا اب وہی والدین کے ناز ونخرے اٹھانے کو تیار نہیں ۔  ان کی نظر میں ضعیف العمر والدین کی قدر و قیمت نہیں رہتی اور ان کی  حیثیت گھر میں رکھے ہوئے کسی پرانی شۓ کی طرح ہوجا ہے جو گھر کی سجاوٹ اور خوبصورتی میں کمی پیدا کرتے ہیں اور ایسے نظریات رکھنے والے افراد کسی نہ کسی بہانے سے انہیں اولڈ ایج ہوم بھیج دیتے ہیں یہ وہ بد نصیب لوگ ہیں جنہیں بوڑھے ماں باپ ملے لیکن انہوں نے نے اپنی جنت کواپنے ہاتھوں سے برباد کر دیا۔ دنیاوی رنگینیوں اور رعنائیوں میں اس طرح گم ہو گۓ کہ نہ ہی اپنے والدین کی محبت شفقت قربانی اور جانثاری یاد رہی اور نہ ہی آخرت میں ملنے والے وہ انعام واکرام جس کے ذرائع ماں باپ ہیں۔ 
ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی اس عمر کو پہنچیں گے پھر ان کی اولاد بھی انہیں پرانی اور بیکار چیزوں کی طرح باہر پھینک دے کی ۔
دنیا میں اچھے اور نیک صفت افراد بھی موجود ہیں جو اپنے والدین کے فرمانبردار اور خدمت گذار ہیں  مگر ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے ۔ بہرحال ! 
 اللہ تبارک وتعالی کی عطا کردہ بیش قیمت نعمت کی قدر و منزلت روز ازل سے ماں حوا اور بابا آدم کی صورت میں ملی ہے  انہوں نے اس دنیا کو اپنی اولادوں سے سجانے سنوارنے اور نکھارنے کا کام انجام دیا ۔ اولادوں میں نیک اور بد دونوں ہی ہیں یہ سلسلہ روز قیامت تک چلتا رہے گا ۔

✍️۔۔۔۔۔۔🍁 سیدہ سعدیہ فتح 🍁

 


   18
8 Comments

Chudhary

08-Aug-2022 11:08 PM

Osm

Reply

Aniya Rahman

08-Aug-2022 10:57 PM

Nyc

Reply

Saba Rahman

08-Aug-2022 10:31 PM

Nice

Reply