13-Aug-2022 کوۓ تمنّا تیسری قسط ۔
کوۓ تمنّا
از قلم ماریہ اکرم خان
تیسری قسط
"اسلام وعلیکم ! بابا جان نحل بتا رہی تھی آ پ کو کچھ بات کرنی تھی".
۔کچھ دیر بعد وہ میر حزب شاہ کےسامنے موجود تھا چہرے پہ بنا کوئ تاثر سجائے مگر آنکھیں اس وقت نیند سے بوجھل لگ رہی تھیں ۔
وعلیکم السلام! ہاں بیٹھوں"
خزب شاہ کے کہنے پر وہ انکے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھ گیا ۔
"تو کیا ہوا تمھاری جاب کا کب تک جار ہے ہو کراچی ؟"
ہاتھ میں تھا می کتاب اور ریڈنگ گلاسز سائیڈ ٹیبل پہ رکھتے مسکرا کر دیکھا میر سہراب شاہ کے مقابل وہ کافی نرم گو تھے
" جوائننگ لیٹر تو مل چکا ہے بابا جان تین دن بعد کی فلائٹ ہے" ۔
وہ سنجیدگی سے انکے سوالوں کا جواب دے رہا تھا ۔ مگر اسکے تاثرات کا بھر پور جائزہ لیتے مقابل کے انداز میں بے چینی کا عنصر نمایاں تھا ۔جبکہ وجدان بھی ایک طرف اپنے فیملی بزنس کے بجائے جاب کو ترجیح دے کر خوش تھا وہیں ساتھ کراچی میں قیام کو لیکر مضمحل بھی دیکھائی دے رہا تھا ۔
"وجدان کیا کراچی کا پلین کچھ ٹائم کے لیے پا سپونڈ نہیں کر سکتے "۔
خزب شاہ کے اچانک سوال پہ وہ بے ساختہ چونکا "
"لیکن کیوں بابا کوئی خاص وجہ ۔"
اسکے انداز میں الجھن نمایاں تھی ۔
"دراصل تمھارے تایا جان نے جلد از جلد ضارب اور نحل کی شادی کا فیصلہ کیا ہے جب کے میری خواہش ہے کہ ان کی شادی کے ساتھ ساتھ تمھارا اور دریکتا کا نکاح بھی ہو جاۓ تو زیادہ اچھا رہے گے" "ضارب اور نحل "! اسنے شدید حیرت سے دوہراتے حزب شاہ کو دیکھا ۔ آجکل وہ اپنی جاب کے سلسلے میں گھر کی سرگرمیوں سے کسی حد تک بے خبر ہی تھا ". تبھی اس وقت و ہ شدید الجھن اور نا گواری کا تا ثر دے رہا تھا ۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں با با ضارب اور نحل یہ کیسے مکمن ہے "
اپنے نکاح والی بات پہ بنا کان دھرے ضارب اور نحل کی شادی کا سن کر ہی دنگ رہ گیا تھا
"آپ جانتے ہیں نہ ضارب او ر گل رخ (اپنے سے ایک سال چھوٹی بہن کا نام لیتے کہا ),"کی بات تو بچپن سے طے تھی پھر بھلا ضارب اور نحل کی شادی کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں تا یا جان "؟
اُ ن دونوں کی شادی کی خبر گویا وجدان کے تن فن میں آگ لگا دی تھی ۔ وہ دونوں ہی اس رشتے کے لیے رضامند نہیں تھے ضارب کے دل حال سے وہ پہلے ہی واقف تھا البتہ تھوڑی دیر قبل نحل کی اتری ہو شکل اور سر درد کی صحیح وجہ اب سمجھ آئی تھی ۔
جب وہ دونوں ہی نا خوش ہیں تو یہ بے تکا فیصلہ کیونکر لیا جا رہا ہے تھا یہی سوچ اسکے حواسوں شل کرنے کے در پہ تھی ۔
"کیا ہوگیا وجدان تمھیں گل رخ اور ضارب کی نسبت بچپن میں طہ پا ئ تھی ۔مگر اب تو گل رخ کی شادی زارون سے ہو چکی ہے اور وہ خوش بھی ہے پھر کیوں نہیں ہو سکتی بھلا ضارب اور ںحل کی شادی "وہ بیزاری سے گو یا ہوئے وجدان کا اس قدر شدید ردعمل ان کی سمجھ سے بلکل بالاتر تھا۔
"آپ کو لگتا ہے وہ خوش ہے....؟"!
خوش نہیں ہے بابا خود سے کئی سال بڑے اور شادی شدہ مرد کے ساتھ ایک سمجھوتہ ہے جو وہ کر رہی ہے "
گل رخ کی شادی ساڑھے تین سال قبل اپنے پھوپھی زاد کزن زارون سے ہوئی تھی.
زارون جسے اپنی پہلی بیوی بے تحاشا محبت تھی ۔ تھی مگر افسوس وہ شادی کے کچھ سال بعد کار حادثے کا شکار ہو کر وہ جانبحق گئی تھی ۔ اور یہی وہ وقت تھا جب زارون شاہ خود سے بھی بیگانہ ہو کر رہ گیا تھا۔
اور اسکی یہ حالت ارمینہ بیگم (زارون کی والدہ ) کے لیے مانو کسی اذیت سے کم نہ تھی ۔ وہ چاہتی تھیں کہ انکا اکلوتا بیٹا جلد از جلد زندگی کی طرف لوٹ آۓ۔ اور اس کے لیے انھے بے شمار ماؤں کی طرح دوسری شادی کی صورت ہی ممکن لگا ۔ جس میں کافی تگ دہ کے بعد وہ کامیاب بھی ہو گئیں تھیں۔ جہاں ایک طرف انکے یہاں خاندان سے باہر شادی کا رواج ہر گز نہیں تھا وہیں انکے لاڈلے سپوت کے لیے خاندان میں اسکے جوڑ کا رشتہ موجود نہ تھا ۔ کافی
سوچ بچار کے بعد بالآخر اُنھوں نے اپنے چھوٹے بھائی میر حزب شاہ کے آگے جھولی پھیلائی جہاں اُنھیں میر حزب شاہ کے بجائے میر سہراب شاہ کے فیصلے نے اطمینان بخشاہ سہراب شاہ کے نزدیک اس مسئلے کا حل گُل رخ کی زارون سے شادی کی صورت ہی ممکن تھا ۔کیونکہ اُ نکا خاندان جدی پشتی جاگیردار تھا ۔وسیع و عریض زمیداری اور روپے پیسے کو محض اپنے ہی خاندان تک محدود رکھنے کے لیے یہی طریقہ ہی اپنایا جاتا تھا جو کہ نجانے پہلے بھی کتنی بار اپنایا جا چکا ۔بہترین کالجز یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروا کر بھی یہاں لڑکیوں کو انکی زندگیوں کے سب سے اہم موقع پر جیسے گونگا بہرا بنا دیا جا تا تھا ۔ یہی میر شاہ خاندان کا سب سے بڑا المیہ تھا ۔
"بابا بس ختم کریں اس تماشے کو پلیز"
وجدان کی ملتجی آواز پہ وہ چونکتے ماضی سے حال میں آۓ ۔ اُنھے یاد تھا وجدان کا گل رخ کی شادی پہ اختلاف پھر اب تو بات نحل کی تھی پھر کیسے ممکن تھا وہ اپنی اس قدر لاڈلی بہن کے لیے خاموشی سے یہ سب ہوتا دیکھتا ۔
"ڈونٹ وری وجدان نحل کے ساتھ ایسا
کچھ نہیں ہوگا جو گل رخ کے ساتھ ہوا وہ خوش رہے گی ضارب کے ساتھ ۔
مجھے پورا یقین ہے "۔
وجدان کے شانے پہ ہاتھ رکھتے وہ بے حد نر می سے گو یا ہوئے ۔
جس پہ اسنے بے یقینی سے اپنے والد کو دیکھا اور انکا ہاتھ ا پنے شانے سے ہٹاتے اٹھ کھڑا ہوا ۔
"بابا آپ کیوں نہیں سمجھ رہے وہ خوش نہیں رہ پائیگی وہ دونوںہ ہی نا خوش ہیں بس آپ تایا جان سے بات کریں اور ختم کریں یہ
سب"
اب کی اس کے لہجے میں قدرے جھنجلاہٹ واضح تھی ۔
"یہ نا ممکن ہے بیٹا وہ کبھی نہیں مانے گے یہ تم اچھی طرح جانتے ہو "
میر حزب شاہ نے اپنے تیئں ٹھوس موقف پیش کیا ۔
چند پل خاموشی کی نظرہوۓ جسے وجدان کی بوجھل مگر فیصلہ کن آواز نے توڑا ۔“تو پھر ٹھیک ہے بابا کریں آ پ لوگ اپنی مر ضی میں بھی اب وہی کروں گا جو مجھے ٹھیک لگے گا "
کیا مطلب ہے تمھارا اس بات سے؟"
حزب شاہ کی جانب سے بے طرح چونکتے ترنت سوال آیا
وہی بابا جو آ پ سوچ رہے ہیں جس کے لیے تایا جان نے مجبور کیا ہے ۔
جہاں خزب شاہ اس کے انداز پہ چونکے تھے وہیں اسکے چہرے پہ چٹانوں کی سی سختی لیے تاثرات بہت کچھ باور کراتے تھے۔
تم اپنے حواسوں میں ہو بھی کے نہیں کیا بکواس کر رہے ہو تم یہ "
وہ دبے دبے لہجے میں غراۓ۔
"اب آپ کچھ بھی کہیں بابا میں نہیں کروں گا دریکتا سے شادی "
اسے اپنے ہی ادا کیے الفاظ کس قدر تلخ اور اجنبی لگے یہ شاید ہی سمجھا جا سکتا تھا ۔
"اور میں جانتا ہوں۔ تایا جان کے اصولوں کے مطابق اب مجھ یہاں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں" ۔
وہ ضبط سے حزب شاہ کو غصّے اور تکفر میں مبتلا کرتا جا چکا جبکہ کمرے داخل ہوتی فرحین بیگم نے اسکا آخری جملہ پورے خوش وحواس سے سنا تھا قبل اس کے وہ کوئی سوال کرتی وجدان سے وہ تیزی سے انکے پہلوں سے ہو کر جا چکا تھا ۔
کیا کہہ کے گیا ہے یہ دور چار قدموں کا فاصلہ طے کرتے وہ اپنے شریک حیات سے مخاطب ہوئی تھیں
"دماغ خراب ہو چکا تمھارے لاڈلے کا "
غصے سے کمرے میں ٹہلتے پیشانی پہ ہاتھ مارتے وہ پھنکارے۔
✩☆☆☆☆☆☆☆
رات نصف سے زائد بیت چکی تھی ۔اماوس کا چاند قوس کی طرح فلک کے شفاف سینے میں دمک رہا تھا ۔ گہری ہوتی تاریکی نے اس وقت روۓ زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ساتھ ہی بہت سے راز ؛آنسوں ؛الم ورنج چھپائے ہوئی تھی ۔
وہ بیڈ کی پائنتی سے لگی ہولے ہولے ہچکیاں لیتے کئی گھنٹوں سے مسلسل سسک رہی تھی ۔ ضبط تو سارا ہی ضارب سے دور ہوتے ہی ٹوٹ گیا تھا ۔اُسے تو وہ کسی طرح اپنی طرف سے مطمئن کر آئی تھی کہ وہ اب سے ایک نئی لائف شروع کرے گی اور یہ کہ وہ ایک ساتھ نہیں ہونگے تو کیا ہوا رہیں گے تو ہمیشہ اچھے دوست مگر کاش یہ سب اس کے لیے اتنا ہی آسان ہوتا ۔ جتنا اسنے ضارب کی گاڑی سے اترتے وقت کہا تھا ۔ مگر اتنا حوصلہ کہاں سے لاتی ۔محبت کے معاملے میں اسے ہمیشہ سے اپنا آپ بد نصیب لگتا تھا ۔ ضارب کی سنگت میں جہاں اسکی خزاں رسیدہ زندگی میں بہار نے قدم رکھے تھے وہیں ضارب سے بچھڑنے کا خوف بھی اکاس بیل کی طرح چمٹا رہا تھا ۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جہاں امتشال مستنصر کو اپنی زندگی بھی کسی بھیانک خواب جیسی ہی
لگی تھی ۔ زندگی ایک بار پھر انہیں تاریکیوں کی جا نظر ہوئی تھی جن سے نکلنے میں ابھی وہ پوری طرح کامیاب بھی نہ ہو پائی تھی ۔
✩☆☆☆☆☆☆۔
شاہ ولا میں طلوع ہونے والی اگلی صبح بے حد نا خوش گوار ثابت ہوئی تھی وجدان نے ناشتے کی ٹیبل پہ بنا کسی تمہید کے دریکتا سے شادی نہ کرنے کے فیصلے سے سب کو آگاہ کیا جس پہ حسب توقع وجدان کے اس فیصلے نے سب کو ا پنی جگہ شدید حیران و پریشان کر کے رکھ دیا تھا ۔ دریکتا جو پہلے ہی وجدان کے سابقہ رویے پہ دل برداشتہ تھی مزید اس فیصلے نے جیسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ مگرپھر بھی کئی گلے شکوہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی عزت نفس تک کو پس پشت ڈالتے اپنا ریزہ ریزہ وجود لیکر اسکے پاس آئی تھی۔
آج پھر گردش تقدیر پہ رونا آیا
دل کی بگڑی ہوئی تصویر پہ رونا آیا
عشق کی قید میں اب تک تو امیدوں پہ جئے
مٹ گئی آس تو زنجیر پہ رونا آیا
کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
پہلے قاصد کی نظر دیکھ کے دل
سہم گیا
پھر تری سرخئ تحریر پہ رونا آیا
دل گنوا کر بھی محبت کے مزے مل نہ سکے
اپنی کھوئی ہوئی تقدیر پہ رونا آیا
کتنے مسرور تھے جینے کی دعاؤں پہ شکیلؔ
جب ملے رنج تو تاثیر پہ رونا آیا
"وجدان! آپ ایسا کیسے کر سکتے ایسے کیسے آپ سب ختم کر کے جا سکتے ہیں ۔
وہ جو بیٹھا اپنے فون پہ ای میلز چیک کر رہا تھا دریکتا کی رندھی ہوئی آواز پہ چونکتے سر اٹھا کر اسے دیکھا بھیگا چہرہ سرخ متورم آنکھیں لیے وہ کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی تھی اس کی حالت پہ وجدان کا دل ڈوب سا گیا اسکی بات کا کوئی مؤثر جواب نہیں موجود تھا اسکے پاس وہ نظریں چُراتا چپ سادھے کاوچ سے اُٹھتا گلاس ونڈو کے پاس آ کھڑا ہوا ۔
"آپ بولیں ناں کچھ جواب دیں ناں کیوں کہا آپ نے سب کے سامنے وہ سب "
"دریکتا تم جاؤ یہاں سے پیلز " ہنوز اسکی جانب پشت کیے وہ مدھم لہجے میں گویا ہوا ۔
" کہیں نہیں جاؤں گئ میں آپ کیسے کر سکتا میرے ساتھ ایسا “
سر کو نفی میں ہلاتی وہ آنکھوں کے کٹوروں میں نمی لیے چند قدموں کا فا صلہ طے کرتی اسکے مقابل آ کھڑی ہوئی ۔ ہر بار کی طرح نہ تو وہ تذبذب کا شکار ہوئی نہ ہی اسکے لہجے میں لغزش تھی ہاں البتہ اسکے لہجے میں گھلی نمی وجدان کے ضبط کا کڑا امتحان ضرور ثابت ہو رہی تھی۔
" وجدان کچھ تو کہیں پلیز جواب دیں کیوں کر رہے آخر آپ میرے ساتھ ایسا "
اسکی خاموشی سے خائف ہوتے دریکتا نے اسکا ہاتھ تھا متے جھنجھلا کر کہا ۔
میں نے کہا ناں جاؤ یہاں سے۔ جھٹکے سے ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کرواتے اسکا لہجا کچھ سرد سا تھا ۔
دریکتا کا اس قدر شدید ردعمل وجدان شاہ کے لیے اپنے کیے فیصلے پہ قائم رہنا بے حد مشکل بنا رہی تھی ۔
اسٹاپ اٹ پلیز اسٹاپ اٹ خدا کے واسطے بند کریں یہ تماشہ میں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر آپ کیوں نہیں سمجھ رہے آپ کو میری جاب سے پرابلم تھی نہ اب تو جاب بھی چھوڑ دی میں نے پھر کیوں کر رہے ہیں ۔ آپ یہ نہیں کریں وجدان میں مر جاؤں گی ۔
مشتعل انداز سے بات کا آغاز کرتے وہ آخر میں پھوٹ پھوٹ رودی ۔ دریکتا کی محبت کی شدت پل بھر کووجدان کو ششدر کر دیا
دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو ۔
Try to understand
دریکتا ۔ میں نہیں کر سکتا یہ شادی "
روتی بلکتی دریکتا کے دونوں ہاتھ۔ چہرے سے ہٹاتے اسنے ملتجی ہوتے کہاں
"آپ مجھے بابا کے غلط فیصلوں کی سزا کیسے دے سکتے ہیں"
اسنے نفی میں سر ہلایا بے یقینی انداز سے چلکھتی رہی تھی مسلسل رو چکنے کے باعث گلا بیٹھ گیا تھا۔ بھاری ہوتے سر میں ٹیسیں سی اٹھ رہی تھیں ۔
Enough
دریکتا نہیں دے رہا میں تمھیں کسی اور کی سزا سمجھی تم "
دانستہ وہ تلخ ہوا تھا ۔
"سچ سننا چاہتی ہو نہ تو سنو میں نہیں کرنا چاہتا تم سے شادی نہ ہی مجھے تم سے محبت ہے ۔ "
اسے شانے سے تھامے کمال ضبط سے اپنی بات مکمل کرتا وہ واپس کھڑکی کے پار نظر آتے منظر پہ نظریں ٹکا گیا ۔
جبکہ دریکتا سہراب نے اپنی ذات کے پرخچے اُڑتے محسوس کیے تھے کہیں کچھ تھا ہاں بہت کچھ جو چھن کر ٹوٹا تھا شدید تکلیف کا احساس تھا جس کے باعث اسے اپنی قوتِ گویائی صلب ہوتی محسوس ہوئی تھی مان اعتبار اور نجانے کیا تھا جو اس سے چھین چکا تھا ۔
"آآ...پ ! آ آ ۔۔پ ! جھوٹ کہہ رہے ہیں یہ سچ نہیں ہے نہ"
وہ جو نجانے کیوں بھلا اب بھی موہوم سی امید لیے اب تک وہاں کھڑی تھی وجدان کے اگلے جملے نے اسے کرب کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پھینکا تھا ۔
"میرا کہا ایک ایک لفظ سچ ہے ۔ تم میری کزن ہو تم سے بچپن سے میری نسبت طہ تھی ۔ اس لیے تم سے انسیت تھی بس اور کچھ نہیں سوری میں اسے مزید محبت کا
نام نہیں دے سکتا ۔ اس حقیقت کو جتنا جلدی ہو سکے تسلیم کر لو دریکتا "
کبھی کبھی الفاظ سانپ بچھو سے زیادہ زہر آلود ہوتے ہیں ۔ دریکتا کو بھی جس کا ادراک چند ہی گھنٹوں میں جانے کتنی ہی بار ہو رہا تھا کہنے اور سننے کی مزید ہمت تھی ہی کہاں ۔ کئ سوالات مسلسل ذہن میں بازگشت کرتے کرتے خود ہی بے دم ہوگئے تھے دھندلی ہوتی آنکھوں کے ساتھ قدم خود بخود پیچھے ہوتے گئے تھے جبکہ وجدان تو اک پل کے لیے بھی اسکی آنکھوں میں ہلکورے لیتے سوالات کی تاب نہ لا سکا۔
✩☆☆☆☆☆ . رات کی سیاہی صبح صادق کے پیغام کے ساتھ دھیرے دھیرے چھٹ رہی تھی تھی۔ وہ اپنا شکست خوردہ وجود لیے اس وقت ننگے پاؤں ایک پہاڑی پہ کھڑی تھی جہاں سے زندگی مخض اک ہی جست کا فاصلہ طہ کر کے موت تک کا سفر کر سکتی تھی ۔ ہاں صرف ایک ہی جست کا فاصلہ ۔ نیچے نظر آتی جھیل کا منظر اوپر سے دیکھنے سے اس قدر ہولناک لگتا تھا کہ کوئی بھی عام انسان بے ساختہ اس وقت جھر جھری لیتے کئی قدم پیچھے کی جانب کر لیتا۔ مگر وہ تو یہاں کھڑی جیسے پتھر کی ہو چکی تھی۔ پتھر کا ایک ایسا مجسمہ جس میں زرہ برابر بھی جنبشِ نہ ہو ۔ بنجر آنکھوں میں اب صرف اور صرف ایک ہی خواہش چھلکتی تھی اور وہ نجات ۔
"ایک صرف ضارب شاہ کو ہی تو مانگا ایک ہی تو خوا ہش کی تھی مخض پھر کیوں فقیر رہی میں "
آنکھوں سے بہتے گرم سیال کے ساتھ اسنے نیچے بہتے گہرے پانی کو دیکھا جو اسے اس بے رحم دنیا سے نجات کا واحد ذریعہ لگا ۔ کیا تھی اس وقت امتشال مستنصر کی ذات کانچ کی مانند ٹوٹی بکھری یا شاید کسی حد تک خود ترسی کا شکار بھی ۔ اک پل کو اس نے کبوتر کی طرح آنکھیں موندتے ضارب کے ساتھ بیتائے تین سالہ وقت کو سوچا۔ گزرے وقت کا منظر فلم کی طرح اسکے ذہن کے پردے پہ چل رہا تھا ایک بعد ایک منظر بدلتا گیا ۔ اور نجانے پھر وقت اور کتنا پیچھے سرکا تھا کہ اسکے تخیل میں اپنے ماں باپ کا عکس آن ٹھہرا ۔ابکی بار قدموں میں لڑکھڑاہٹ محسوس کرتے اسنے فٹ سے آنکھیں کھولیں ۔ گہرا سانس بھر تے ہر منظر کو پرے دھکیلا اور اس سب کے بعد ایک زخمی مسکراہٹ نے لبوں پہ احاطہ کیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے اک ہی جست کا فاصلہ بھی مٹا دیا ۔ ٹھا ٹھے مارتے گہرے پانی نے اسکے شکستہ وجود کو خود میں سمو لیا ۔ اور پھر زندگی نے لمحوں میں ہی گُھٹتی سانسوں کے ساتھ موت کو گلے لگایا۔ ۔ بلاشبہ امتشال مستنصر نے ایک بے حد غلط عمل دُہرایا تھا ۔ موت سے قبل انسان کو کوئی چیز نہیں مار سکتی نہ زندگی کی راہیں کبھی ختم ہوتی ہاں کبھی کبھی زندگی اتنی تلخ ضرور لگتی ہے کہ خود اپنی سانسیں بھوج سی لگ رہی ہوتی ہیں۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا وہ وقت کبھی ختم نہ ہو ۔ حقیقتاً یہی تو وقت ہوتا ہے جب ہم فانی کو چھوڑ کر فلاح پانے والے بن سکتے ہیں۔
امتشال مستنصر نے بھی والدین کے وفات کے بعد ضارب شاہ کو محورِ حیات تسلیم کر لیا تھا اسکی دنیا صرف میر ضارب شاہ کے گرد ہی گھومتی تھی ۔ اور جب ۔بات ضارب سے جدائی کی آئی تو اسنے سب سے پہلے خود کو ختم کرنا مناسب سمجھا ۔
"محبت حاصل کر لینے کا نام تو نہیں "
وہ یہ الفاظ صرف ادا ہی کر پائ تھی۔ وہ کیوں بھول گی تھی کسی کا ہماری زندگی میں شامل ہونا یہ نہ ہونا ہمارے اختیارات میں ہوتا ہی کب ہے ۔ ہم صرف بہتر اور بہترین کی امید کر سکتے ہیں ۔ بلا شبہ یہ امید بہت خوبصورت ہوتی کیونکہ ہم اللّٰہ سے وہ مانگتے جسکی ہم خواہش کرتے جبکہ اللّٰہ ہمیں وہ نوازتا جو ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے ۔ انسان خالی ہاتھ تو کبھی بھی نہیں رہتا کچھ تو ایسا ضرور ہوتا ہے جو بہت خاص ہوتا جو ہمارے لیے ہوتا ہے۔ بس اسی تلاش اور امید کا نام ہی تو زندگی ہے اور جہاں ہماری امید ڈگمگا جائے وہیں سے درحقیقت ہماری نا کامی کا آغاز شروع ہو جاتا ہے ۔
✩☆☆☆☆☆☆☆. ضارب اور امتشال کی پہلی. ملاقات اسلام آباد کی آرٹ گیلری میں منعقد ایک سولو ایگزیبیشن میں ہوئی تھی ۔ جہاں امتشال اپنی پسندیدہ آرٹسٹ کی سولو ایگزیبیشن ہونے کے باعث موجود تھی ۔ آرٹ اینڈ کلچر سے متعلق کچھ روز پہلے بھی اسلام آباد میں ہی ایک سمینار بھی اٹینڈ کر چکی تھی ۔
وہیں ضارب بھی آرٹ سے لگاؤ رکھنے کے باعث ایک دوست کےساتھ موجود تھا۔
دونوں میں مختصر سی گفتگو بھی ایک پینٹنگ کو لیکر ہوئی تھی اتفاقاً دونوں کو ایک ہی پینٹنگ نے خاصا متاثر کیا تھا قبل اسکے امتشال وہ پینٹنگ
Buy
کرتی ضارب کی پسند دیکھتے ارادہ ترک کر گئ اور یہی ضارب کو کچھ عجیب لگا غلافی آنکھوں گھنگھریالے بالوں اور متناسب قدوقامت کی مالک امتشال مستنصر اسے عام لڑکیوں سے خاصی مختلف لگی اس پہ اسکا نپا تلا انداز ضارب کے دل میں ایک بار اور سہی اس سے ملنے کی خواہش اُجاگر کر گیا تھا ۔ گل رخ کی شادی ہو جانے کے بعد یوں بھی وہ خود کو کسی حد تک کو خاندانی روایات کی سے آزاد تصور کر رہا تھا۔ جبکہ امتشال جو کچھ عرصہ قبل پیرنٹس کی ڈیتھ کے بعد طویل دورانیہ ڈپریشن میں مبتلا رہ ،کر نیو یارک سے اپنے وطن لوٹ آئ تھی اسکے لیے یہ سب بس سرسری ہی تھا ۔یوں پھر یہ دونوں کی ملاقات پہلی ضرور تھی مگر آخری نہیں جس کا اندازہ کچھ روز بعد اسے کام سٹ یونیورسٹی ایبٹ آباد کے لان میں یٹھے دیکھ کر ہوا تھا ۔ اسکی تو جیسے من کی مراد ہی بر آئ تھی ۔ گو کہ دونوں کے ڈیپارٹمنٹ الگ تھے جس کا اندازہ ضارب کو اسے اسکیچ بک پہ جھکے دیکھ کر ہوا تھا مگر تب بھی یہ ضارب کے لیے بےحد خوش آئند بات تھی ۔ پھر تو جیسے یہ انکی ملاقاتیں معمول بن گئ تھیں ۔ ہا البتہ شروع میں امتشال کا اندازہ خاصا ریزرو سا تھا ۔ انکی دوستی کب محبت جیسے جذبے میں تبدیل ہوئی یہ تو وہ خود بھی نہیں جان پاۓ ۔ البتہ ضارب کے ساتھ نے امتشال کو زندگی کے ایک خوبصورت پہلو سے متعارف کروایا تھا ایک ایسے پہلوں سے متعارف جہاں وہ اپنی تمام تر محرمیوں کے فیز سے نکل کر میر ضارب شاہ کی سنگت میں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی تصورکرنے لگی تھی۔ اسکے ساتھ ایک خوف تھا جو ہمہ امتشال کے وجود میں پنجھے گاڑھے ہوۓ تھا اور وہ تھا ضارب کے چھن جانے کا خوف تھا کیونکہ ضارب کے بیک گراؤنڈ سے واقف تھی تبھی یہ خوف اسکے لیے جان لینے کے مترادف تھا ۔
✩☆☆☆☆☆☆☆
جاری ہے ✨✍️
Raziya bano
14-Aug-2022 10:33 AM
نائس
Reply
Qasim mehmood
14-Aug-2022 01:29 AM
ماشاء اللہ بہت خوبصورت، لا جواب قلم ریزی
Reply
Gunjan Kamal
13-Aug-2022 11:43 PM
👏👌
Reply