غزل
حادثات کے تسلسل سے گزر کیوں نہیں جاتا
محبت اتنی آساں ہے تو کر کیوں نہیں جاتا
وحشت میں بھٹکتے ہوئے مجنوں کو کہتے ہیں لوگ
لیلا تو کسی اور کی ہوئی تو مر کیوں نہیں جاتا
یہ حقیقت ہے تو مجھ کو دستیاب لیکن
یہ خواب ہے تو آخر بکھر کیوں نہیں جاتا
شب وصل تجھے دیکھتے ہوئے خواہش تھی مری
یہ گردش ایام یو وقت ٹھہر کیوں نہیں جاتا
اک باپ کو سمجھا ہے بیٹے نے باپ ہوکر
کہ شام کے بعد وہ جلدی گھر کیوں نہیں جاتا
یہ درد ہے کہ تو یا خدا بے پناہ ملے مجھ کو
یہ خنجر تو میرے دل میں اتر کیوں نہیں جاتا
طارق عظیم تنہا
Raziya bano
14-Aug-2022 10:32 AM
نائس
Reply
Seyad faizul murad
14-Aug-2022 09:41 AM
واااہ بہت خوب
Reply
Gunjan Kamal
13-Aug-2022 11:41 PM
👏👌
Reply