Add To collaction

حادثات





غزل


حادثات کے تسلسل سے گزر کیوں نہیں جاتا
محبت اتنی آساں ہے تو کر کیوں نہیں جاتا

وحشت میں بھٹکتے ہوئے مجنوں کو کہتے ہیں لوگ
لیلا تو کسی اور کی ہوئی تو مر کیوں نہیں جاتا

یہ حقیقت ہے تو مجھ کو دستیاب لیکن
یہ خواب ہے تو آخر بکھر کیوں نہیں جاتا

شب وصل تجھے دیکھتے ہوئے خواہش تھی مری
یہ گردش ایام یو وقت ٹھہر کیوں نہیں جاتا

اک باپ کو سمجھا ہے بیٹے نے باپ ہوکر 
کہ شام کے بعد وہ جلدی گھر کیوں نہیں جاتا 

یہ درد ہے کہ تو یا خدا بے پناہ ملے مجھ کو
یہ خنجر تو میرے دل میں اتر کیوں نہیں جاتا


طارق عظیم تنہا

   13
3 Comments

Raziya bano

14-Aug-2022 10:32 AM

نائس

Reply

Seyad faizul murad

14-Aug-2022 09:41 AM

واااہ بہت خوب

Reply

Gunjan Kamal

13-Aug-2022 11:41 PM

👏👌

Reply