شخصیت
ٹھرکی پن ایک بیمار سوچ ہے جو ایک مکمل سوچ میں موجود کافی بیمار حصوں کی نشاندہی کرتی ہے جو مردوں میں بھی ملتی ہے اور عورتوں میں بھی ! ایسی سوچ رکھنے والے مرد و خواتین گھر کے بے ڈھنگے ، افسردہ ، بے لگام یا بے حد سختی کے ماحول کی نشاندہی کرتے ہیں جس سوچ اور نظر نے اعلی ظرفی، پختگی ، معیار ، ادب و آداب ، طور طریقے نہ دیکھے ہوں ایسی خود ساختہ پروان چڑھی سوچ بیماری کی طرف چل پڑتی ہے ہر کسی کے رنگ میں رنگ جاتی ہے ۔ لکیر کی فقیر بنتی ہے ۔ بغیر سوچے سمجھے react کرتی ہے ۔ اوچھے سے اوچھے کام میں خوشی محسوس کرتی یے کیونکہ جن پودوں کی Trimming کانٹ چھانٹ نہ کی جائے وہ بے ڈھنگے بد شکل ، لاپرواہ ، جنگلی اور مرضی کے مالک بنتے ہیں ۔
ٹھرکی پن یعنی ایک بیمار سوچ کو سنورنے میں بہت وقت لگتا ھے بہت محنت درکار ہے اسکے ساتھ اس انسان کی خود کو بدلنے کی اپنی مرضی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔
ننے پودے کو مالی جس ساخت میں ڈھالے ڈھل جاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ مٹی کی گوڈی کرتا ہے غیر ضروری جڑی بوٹیوں جنگلی گھاس وغیرہ کو صاف کرتا جاتا ہے روز محبت سے پانی لگاتا ہے دھوپ چھاوں سردی گرمی دوائی اور کھاد کا حساب رکھتا ہے محنت کرتا ہے شیر کی نظر رکھتا ہے تاکہ اس میں کیڑا نہ لگے کہیں سڑ نہ جائے بلکہ خوبصورتی بڑھتی جائے شان نکلتی آئے جس سے پودے کو مکمل زمین سے خوراک بھی ملتی ہے اور طاقت بھی ! پودے کی ایک خوبصورت شکل نکل آتی ہے ۔ بڑھتے بڑھتے وہ ایک خوشما درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے جس پہ پھل بھی میٹھے اور معیاری لگتے ہیں چھاوں بھی گنی دیتا ہے محنت کی ہوئی نظر آتی ہے ۔ مگر جب ایک پودا بغیر مالی کے پروان چڑھتا ہے اسکے ساتھ نکلنے والی جنگلی جڑی بوٹیاں بھی اسی کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں نہ کوئی پانی دینے والا نہ گوڈی کرنے والا نہ گندے پتے نکالنے والا مطلب کوئی اچھا مالی پودے کو دستیاب نہیں گھر والوں نے کچھ دن بعد پانی یاد آیا تو پانی لگا دیا دھوپ چھاوں میں حالت خراب ہوتی رہی جب فارغ ٹائم ملا گھر والوں کو اس پہ ایک عارضی نظر ڈال لی وہ عارضی نظر اس پودے کو ارد گرد پھلتی پھولتی نقصان دہ جڑی بوٹیوں سے پہنچنے والے نقصان سے ہی قاصر رہی کیونکہ وہ عارضی نظر لاپرواہ تھی جیسے بچوں کو کھانا دے دیا سکول ٹیوشن کی فیسیں دے دیں پیسے مانگے پیسے دے دئیے انکی مرضی کی ہر بات سوچے سمجھے بغیر پوری کر دی یا پھر انکی جائز بنیادی ضروریات زندگی کو بھی بچوں کیلئے حسرت بنا دیا چلو جی والدین کی ذمہ داری پوری ہو گئی یہ نہیں سوچا نہ ہی نظر رکھی کہ بچہ سکول میں کن بچوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے گھر سے باہر گیا ہے تو کہاں گیا ہے کس وقت گیا کس وقت آیا اسکے دوست سہیلیاں کن خیالات کی ہیں پیسے بچہ بچی کن چیزوں میں خرچ کرتے ہیں ٹی وی موبائل کمپوٹر پہ کیا کچھ دیکھا جا رہا ہے ۔چھت پہ بچے بچیاں کیا کچھ کر رہے ہیں گھر میں آئے مہمانوں بہن بھائیوں رشتے داروں ہمسائیوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں بچوں کے بیگ جیب الماریوں میں موجود پیسے چیزیں گفٹ کہاں سے آئے کیوں آئے کہیں کسی کی چوری کی ہوئی تو نہیں ہیں بچے کے دوست کس عمر کے ہیں انکا ماحول کس طرح کا ہے بچہ بچی گھر دیر سے آئے تو تحقیق کئے بغیر جو انہوں نے کہا مان لیا وغیرہ وغیرہ وغیرہ اس صورت میں پودے کی اپنی خوبصورتی بھی داغ دار ہوتی ہے اسکی جڑوں میں کیڑا بھی لگتا ہے کیڑا پودے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا جاتا ہے پودے کو ملنے والی خوراک بھی اسے طاقت اور معیار نہیں دے پاتی ادھر ادھر کی بے کار جنگلی جڑی بوٹیاں اسکی طاقت یعنی سوچ کے معیار کو چوس لیتی ہیں اندر سے کمزور لاغر باہر سے بدنما بدشکل بناتی ہیں ۔ ایسا پودہ جب درخت بنتا ہے تنا مضبوط تو ہو جاتا ہے مگر اسکی کوئی کل سیدھی نہیں رہتی آسمان کی طرف پروان چڑھنے کی بجائے کسی گھر کی دیوار یا کھڑکی توڑ کر اس میں بھی چڑھ پڑتا ہے ۔ ایسے درخت سیدھے نہیں کئے جا سکتے بلکہ دیوار کھڑکی کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے درخت کے کچھ حصوں کو کاٹنا پڑتا ہے کیونکہ بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔
اپنے بچوں کو کھلانے پلانے سکول کالج بھیجنے سے والدین یا گھر کے لوگوں کی زمہ داری پوری نہیں ہو جاتی یہ سب تو ان اداروں میں بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے جو یتیم بچوں کے کھانے پینے رہنے اور تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں ۔
والدین کی زمہ داری اس سے زیادہ ہوتی ہے کانٹ چھانٹ گوڈی سپرے وغیرہ ہوتی رہے تو وقت کے ساتھ ساتھ مثبت رزلٹ ملتے ہیں ۔ جن گھروں میں بچوں کو بے لگام تربیت کے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر بلاوجہ بلا ضرورت ہر وقت ہنٹر مارے جاتے ہیں ۔ صرف کھانا پانی تعلیم جیب خرچ کو تربیت سمجھ لیا جاتا ہے وہاں بچوں کی سوچ کے کسی حصے میں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی شکل میں بیماری شامل ہو ہی جاتی ہے ۔ ہمارے بچے ہی ہماری شان ہمارا مان ہماری پہچان ہیں اپنے بچوں کو اپنا معیاری وقت دیجئے بے جا لاڈ پیار نہیں بلکہ پیار دیجئے اپنے پیار بھرے الفاظ دیجئے انکی چھوٹی چھوٹی سی باتوں کو نوٹ کیجئے اچھی ہیں تو تعریف کیجئے بری ہیں تو ڈانٹ کے یا پیار سے سمجھا کر منع کیجئے ۔ کیسے اٹھنا بیٹھنا ۔کھانا پینا ۔ مہمان سے کیسے بات کرنی ہے ۔ پاوں اٹھا کے چلتے ہیں یا گسیٹ کے ۔ کس لہجے میں بڑوں چھوٹوں سے بات کرنی ہے وغیرہ وغیرہ سب تربیت کے بیج ہیں جو عمر کے ساتھ مضبوط ہوتے جائینگے ۔ اسکے علاوہ جس گھر میں والدیں یا بڑے بزرگ گالی دئیے بغیر بات نہیں کرتے اس گھر کے بچوں کی تعلیم و تربیت ھمیشہ زوال پزیر رہتی ہے ۔ ایسے والدین جن کے گھر گالیاں کھانے کے ساتھ کھائی جائیں پانی کے ساتھ پینے کا رواج ہو ماں کو بچوں کے سامنے زلیل کیا جائے مارا جائے چھوٹے بڑے کی عزت ایک کی جائے ایسے گھرانوں کے بچوں کی تعلیم پہ ایک روپیہ بھی خرچ کرنا ذائع کرنے کے برابر ہے ایسے جنگلی گھرانوں کے بچے ہی پڑھ لکھ کر جنگلی گوار نفسیاتی مریض یا مجرمانہ شخصیت کے مالک نظر آتے ہیں ۔
پڑھی لکھی جہالت اور بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ پالے گئے لڑکے لڑکیوں کی پہچان انکے ساتھ کھانا کھانے ، بات چیت کرنے ، اٹھنے بیٹھنے لبو لہجے ، انکے لباس اور انکی نظروں کا مطالعہ کرنے سے با آسانی ظاہر ہو جاتی ہیں ۔
اچھی باتیں بتانا میرا کام تھا عمل کرنا نہ کرنا آپکا ۔
مشکلوں سے گزر کر ہی شخصیت نکھرتی ہے
جو چٹانوں سے نہ الجھے وہ چشمہ کس کام کا
Shnaya
23-Aug-2022 11:03 AM
👏👌🙏🏻
Reply
Milind salve
22-Aug-2022 12:02 PM
👏👌
Reply
Anjana
22-Aug-2022 05:14 AM
Nice
Reply