غزل
پھر کسی پہ بھروسہ کر بیٹھے ہو
سنا ہے تم عشق کر بیٹھے ہو
کتنا بزدل ہے یہ آدم ذات
قیامت سے پہلے ہی مر بیٹھے ہو
یہ کس نے ڈرا دیا ہے شہر کے نوجوانوں کو
لب سلے ہوئے اور جھکا کے سر بیٹھے ہو
بادہ نشی میں گزر جاتا ہے سارا وقت
ایسا کیا ہوا کہ رب سے مکر بیٹھے ہو
رواجِ زمانہ بھی تو دیکھو کیا سے کیا ہو گیا
موت کے انتظار میں کھا کے زہر بیٹھے ہو
یہ اہلِ علم کب ان سے بغاوت کر بیٹھیں گے
خوشامد میں جنکے شام و سحر بیٹھے ہو
اخباروں میں چھپوا دی ہے ساقی نے یہ خبر
ادھر محفلِ جام سجی ہے اور تم اُدھر بیٹھے ہو
- م ز م ل
Angela
09-Oct-2021 10:05 AM
Good👍
Reply
prashant pandey
12-Sep-2021 01:32 AM
👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
Reply
Rakhi mishra
08-Sep-2021 03:46 PM
💜💜💜💜💜
Reply