Add To collaction

غزل

پھر کسی پہ بھروسہ کر بیٹھے ہو 
سنا ہے تم عشق کر بیٹھے ہو 

کتنا بزدل ہے یہ آدم ذات
قیامت سے پہلے ہی مر بیٹھے ہو 

یہ کس نے ڈرا دیا ہے شہر کے نوجوانوں کو 
لب سلے ہوئے اور جھکا کے سر بیٹھے ہو

بادہ نشی میں گزر جاتا ہے سارا وقت 
ایسا کیا ہوا کہ رب سے مکر بیٹھے ہو

رواجِ زمانہ بھی تو دیکھو کیا سے کیا ہو گیا 
موت کے انتظار میں کھا کے زہر بیٹھے ہو 

یہ اہلِ علم کب ان سے بغاوت کر بیٹھیں  گے
خوشامد میں جنکے شام و سحر بیٹھے ہو

اخباروں میں چھپوا دی ہے ساقی نے یہ خبر
ادھر محفلِ جام سجی ہے اور تم اُدھر بیٹھے ہو


- م ز م ل

   14
13 Comments

Angela

09-Oct-2021 10:05 AM

Good👍

Reply

prashant pandey

12-Sep-2021 01:32 AM

👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻

Reply

Rakhi mishra

08-Sep-2021 03:46 PM

💜💜💜💜💜

Reply