Add To collaction

نظم

بچے بھی گرفتار دیکھے ہیں
لاشوں کے انبار دیکھے ہیں 

دیکھے ہیں برہم حکمران اور لوگ 
خوشیوں کے قرضدار دیکھے ہیں 

یہ وحشتِ گُلستان عام سی بات ہے
پھول بھی لاچار دیکھے ہیں

دیکھی ہیں سرحدیں اور جنگیں بھی
اونچے وہ دیوار دیکھے ہیں

رائیگاں عمریں ہوئی ہیں تو کیا 
خون کے کاروبار دیکھے ہیں

یہ جنون ٗجوانی ٗاور وہ انقلاب 
خواب ایسے بے شمار دیکھے ہیں

اور پھر تندرست عیّاش بیکار بیٹھے ہیں 
لڑتے وہ بیمار دیکھے ہیں

وہ ٹوٹی تلواروں سے وار کرنا 
ایسے بھی سالار دیکھے ہیں

وہ خاموش عیدیں اور سہمے لوگ 
لٹے وہ بازار دیکھے ہیں

وہ دیکھے ہیں غازی مٹھی بھر لوگ
شکشت کھائے لوگ ہزار دیکھے ہیں

- م ز م ل

   13
10 Comments

Seema Priyadarshini sahay

01-Oct-2021 09:15 PM

well written

Reply

prashant pandey

17-Sep-2021 12:08 AM

👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻

Reply

Rakhi mishra

10-Sep-2021 01:21 PM

💜💜💜💜💜

Reply