نظم
بچے بھی گرفتار دیکھے ہیں
لاشوں کے انبار دیکھے ہیں
دیکھے ہیں برہم حکمران اور لوگ
خوشیوں کے قرضدار دیکھے ہیں
یہ وحشتِ گُلستان عام سی بات ہے
پھول بھی لاچار دیکھے ہیں
دیکھی ہیں سرحدیں اور جنگیں بھی
اونچے وہ دیوار دیکھے ہیں
رائیگاں عمریں ہوئی ہیں تو کیا
خون کے کاروبار دیکھے ہیں
یہ جنون ٗجوانی ٗاور وہ انقلاب
خواب ایسے بے شمار دیکھے ہیں
اور پھر تندرست عیّاش بیکار بیٹھے ہیں
لڑتے وہ بیمار دیکھے ہیں
وہ ٹوٹی تلواروں سے وار کرنا
ایسے بھی سالار دیکھے ہیں
وہ خاموش عیدیں اور سہمے لوگ
لٹے وہ بازار دیکھے ہیں
وہ دیکھے ہیں غازی مٹھی بھر لوگ
شکشت کھائے لوگ ہزار دیکھے ہیں
- م ز م ل
Seema Priyadarshini sahay
01-Oct-2021 09:15 PM
well written
Reply
prashant pandey
17-Sep-2021 12:08 AM
👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
Reply
Rakhi mishra
10-Sep-2021 01:21 PM
💜💜💜💜💜
Reply