غزل
فرقت میں تیری میں نے یہ راہ نکالی ہے
چپ چاپ سدا رہنا عادت یہ بنا لی ہے
سر کاٹ دیا میرا افسوس نہیں میں نے
سر دے کے بزرگوں کی عزت تو بچا لی ہے
تقدیر سے شکوہ ہے جن کو یہ بتا دیجیے
جب تک کہ یہ سانس ہیں کہ غم سے بحا لی ہے
کیا چیز ہے مجبوری اس باپ سے تم پوچھو
بیٹی ہیں جواں گھرمیں اور ہاتھ بھی خالی ہے
ہر آنکھ تجھے دیکھے ہر شخص نے تجھے چاہے
محبوب میرے تیری ہر بات نرالی ہے
دینے کی بھی کچھ راہیں ہم کاش بنا لیتے
ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے
تب گاؤں میں اے اکرمؔ برسات ہوئی میرے
اشکوں سے کسانوں نے جب پیاس بجھا لی ہے
اقبال اکرمؔ وارثی
لکھیم پور کھیری یوپی انڈیا ®©