Naseem minai
Gazal
غزل
زخموں کی ہے بہار بھی دل میں میلہ بھی ارمانوں کا
پھولوں کی خاموشی بھی ہے شور بھی ہے طوفانوں کا
چہرہ دیکھنے والوں تم کیا جانو دل کی بے تابی
مشکل ہے اندازہ ہونا ساحل سے طوفانوں کا
شورش اہل جنوں کی ہے نہ وہ جھنکاریں زنجیروں کی
جی بہلے تو کیوں کر بہلے گلشن میں دیوانوں کا
اپنے دل برباد سے اب تعبیر جسے ہم کرتے ہیں
سینۂ ویراں میں آباد ایک شہر تھا وہ ارمانوں کا
پی کر بہلے بہک کر سنبھلے اور سنبھل کر پھر بہکے
جب اٹھی وہ مست نظر جب دور رکا پیمانہ ہوکا
طوفاں سے ٹکرانا آساں دارو رسن سے گزرنا سہل
ہاں مشکل ہے بوجھ اٹھانا اپنوں کے احسانوں کا
شکوہ کرنا، اشک بہانا، عہد وفا سے جانا
مشکل کو بھی مشکل کہنا کام نہیں دیوانوں کا
ساقی کی نظر نے توڑ دیا محفل میں بھرم
کتنے ذہد کا دعوی کرنے والوں کے ایمانوں کا
پہلو میں اس دل کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے نسیمؔ
نور نہیں ہے شمع کا جس میں سوز نہیں پروانوں کا
نسیمؔ مینائی
شاہجہانپور
Maria akram khan
16-Sep-2022 03:05 AM
Umdah ❤️
Reply
Seyad faizul murad
15-Sep-2022 09:22 AM
واااہ واااہ بہت خوب
Reply