recluse_writes

Add To collaction

09-Oct-2022 مقصدِ حیات

عنوان: مقصدِ حیات
کہانی نویس: مرحاشہباز

”مقصدِ حیات؟۔۔۔۔ مقصدِ حیات؟۔۔۔۔ مقصدِ حیات؟۔۔۔۔“ ننھا دماغ کٸ خیالات کے باعث گہری سوچ میں محو تھا مگر جواب ندارد۔ اسی دوران اکمل حسین کی والدہ کمرے میں آٸیں اور سر کی جانب بیٹھتے ہوۓ تشویش سے پوچھا ”کیا چیز ہے جو میرے بیٹے کو آج خاموش کیے ہوۓ ہے؟ کوٸی پریشانی ہے تو بتاٸیں۔ مل کے حل نکالتے ہیں۔“ ”امی یہ مقصدِ حیات کیا ہے؟ کیسے پتہ چلاٸیں کہ ہمارا مقصدِ حیات کیا ہے؟ اور جب آپ چھوٹی تھیں تو آپ کا مقصدِ حیات کیا تھا؟“ ننھے اکمل نے کمال دانشمندی سے استفسار کیا۔ ”ہممم تو یہ بات ہے۔ بیٹے زندگی اللہ تعالٰی کا بہت حسین تحفہ ہے۔ بہت سے لوگ اِسے لغو کاموں میں خرچ کر کے ضاٸع کر رہے ہیں۔ کوٸی شراب نوشی میں مبتلا ہے تو کوٸی سُود میں، کوٸی رب کا نافرمان ہے تو کوٸی بزرگوں کا بےادب، اِسی طرح اور بھی کٸ لوگ زندگی اور بھی کٸ دیگر طریقوں سے ضاٸع کر کے اللہ تعالی کے اِس انمول تحفے کی قدر نہیں کرتے۔ سو زندگی کو ایک سیدھی اور مثبت راہ پر چلاۓ رکھنے کے لیے ہمارا مقصدِ حیات یعنی زندگی کا کوٸی مقصد ہونا لازم ہے۔ جیسے اللہ کو کسی اچھے کام سے راضی کرنا، اللہ کی مخلوق کے مختلف انداز سے کام آنا۔ دوسروں کو ایذا۶ سے بچاۓ رکھنا۔ اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے تہیہ کیا تھا کہ جب تک جیوں گی، قرآن کی تعلیم عام کروں گی اور دیکھیں اتنے سالوں سے اپنایا گیا یہ مقصدِ حیات آج تک قاٸم و داٸم ہے۔“ عاٸشہ صاحبہ نے تفصیلاً بیٹے کو سمجھانا چاہا۔ ”مگر ہم مقصدِ حیات سوچے بغیر بھی تو اچھا کام کر سکتے ہیں نا؟“ ننھے ذہن میں پھر ایک سوال کُودا۔ ” میرے بچے جس طرح اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اسی طرح زندگی کا مقصدِ حیات پر۔ دیکھیں آپ نے حدیث میں پڑھا کہ ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“۔ پھر اس کی تفصیل بھی ہمیں بتاٸی گٸ کہ نیک نیتی سے عمل کریں گے تو اجر نیت کے کرنے سے شروع ہو کر کام کے پایہ تکمیل کے پہنچنے تک ملتا رہے گا۔ دوسری جانب اگر ہم نیک کام کی نیت کرتے ہیں مگر بعد میں کام کر نہیں پاتے تو پھر بھی نیت کا اجر مل چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح مقصدِ حیات اپنانے سے ہم نیت کر  لیتے ہیں کہ زندگی کو اس طرز پر گزاریں گے۔ جیسے کسی کا شوق ڈاکٹری میں ہو اور وہ یہ سوچ لے کہ میرا مقصد اپنے ہر مریض کی جان ممکنہ حد تک مثبت طراٸق سے بچانا ہے۔ تو اس نے اپنے کام میں ایمانداری کے باعث برکت ڈلوا لی اور چونکہ نیت پاک ہے تو جب تک وہ ڈاکٹر رہے گا، اجر بھی کماۓ گا اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا مقصدِ حیات ہماری زندگی تو بلاشبہ سنوارتا ہی ہے مگر ہماری آخرت کے مراحل کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔ انسان نکھرنے لگتا ہے اور مقصدِ حیات نیک ہونے کے باعث کم خطاٶں کو سرزد کرتا ہے۔ اب اگر ہم مقصدِ حیات رکھنے والے ڈاکٹر کے مقابل ایک بےمقصد زندگی گزارنے والے ڈاکٹر کو لیں تو وہ آخری ممکنہ حد تک کوشش کی بجاۓ صرف کوشش کرے گا کیونکہ وہ علاج صرف پیشہ سمجھ کر کسی بھی مقصدِ حیات کے بغیر کرتا ہے۔ سو نتیجتاً اسے صرف پیسے کمانے کو ملتے ہیں مزید کچھ بھی نہیں۔“ عاٸشہ صاحبہ نے ایک بار پھر سے دھند ہٹا کر ہر چیز واضح کرنے کی کوشش کی۔ ”اوہ اچھا اب میں سمجھا۔ تبھی تو سر رٸیس کہتے ہیں کہ ایک ہی بار سمجھو اور دوبارہ پوچھو تو کہتے ہیں پہلے سوۓ تھے کیا۔ اُن سے جب آج ہم نے مقصدِ حیات پوچھا تو چِڑ گۓ اور ہمیں بطور سزا یہ کہہ کر کھڑا کر دیا کہ ہم بےادب ہیں اور فضول سوال کرتے ہیں۔ جبکہ سر جاوید بہت اچھے ہیں۔ انھوں نے ہی تو مقصدِ حیات کو مختصراً بیان کرتے ہوۓ کہا تھا کہ رات  میں ہم سوچیں اور کل صبح جا کر مقاصد سے آگاہ کریں۔ امی جان سر جاوید بہت اچھے ہیں۔ وہ کبھی سوال کرنے سے منع نہیں کرتے۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ انھوں نے آج یہ بھی بتایا کہ ایمانداری سے اپنا علم مکمل طور پر بچوں تک منتقل کرنا میرا مقصدِ حیات ہے۔“ اکمل کے کمال ذہن سے دھند چھٹ چکی تھی اور اب وہ خاصہ خوش تھا مگر اچانک امی کے سوال نے اسے پھر سوچ میں مبتلا کر دیا۔ 
            ”آپ نے مقصدِ حیات سوچ لیا؟“ کچھ دیر تک ماں بیٹے کے درمیان خاموشی چھاٸی رہی۔ کافی سوچ بچار کے بعد ایک مناسب مقصدِ حیات ذہن میں آنے پر اکمل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
      ”امی جان میں۔۔۔۔ میں اپنے وطن کی سڑکوں اور محلے کو بھکاریوں سے پاک کروں گا۔ میں انھیں بھیک میں پیسہ دینے کی بجاۓ عزت سے ہنر سکھاٶں گا۔ میرا دیا گیا دس بیس کا نوٹ کسی بھکاری کی کیا مدد کرے گا، لیکن میرا سکھایا گیا ہنر کٸ مفلسوں کو مفلسی سے بچانے کا سبب بنے گا۔ میں ایک ایسی تنظیم بناٶں گا جہاں غربا۶ و فقرا۶ کو اُن کی ذہنی قابلیت کے مطابق ہنر دینے کے بعد نوکریوں پر بھرتی کیا جاۓ گا۔ میں اپنے پلیٹ فارم سے #jobs for all کا ہیش ٹیگ پورے پاکستان میں عام کروں گا۔“ وہ پُرجوش سا بولتے بولتے بستر سے اُٹھ بیٹھا۔ اپنے لختِ جگر کے روشن مستقبل کے حوالے سے روشن خیالات جان کر فرطِ جذبات میں عاٸشہ صاحبہ نے بیٹے کی پیشانی پر بوسے دیتے، اسے گلے سے لگا لیا۔ جانے یہ بچہ اُن کی کس نیکی کا صلہ تھا۔ عزیز قارٸین کیا آپ کا کوٸی مقصدِ حیات ہے، اگر نہیں ہے تو آج ہی بلکہ ابھی سوچیں۔

   16
4 Comments

Mamta choudhary

11-Oct-2022 08:54 PM

👍👍👍👍👍🔥💓

Reply

Asha Manhas

10-Oct-2022 02:59 AM

ماشاءاللہ❤️ کیا بات ہےکمال ہے,بہت عمدہ

Reply

Simran Bhagat

10-Oct-2022 02:39 AM

ماشاءاللہ❤️ کیا بات ہے آپ نے بہت خوبصورت لکھا ہے بہت پیارا😊😊

Reply