recluse_writes

Add To collaction

11-Oct-2022 لمس

*ازقلم* *مرحاشہباز* 
 *عنوان*  *لمس*
 *الفاظ کی تعداد* *600* 
  
”نہیییییںںںںںں مت چھوٶ مجھے۔۔۔ دور ہو جاٶ۔۔۔ امی۔۔ امی۔۔۔ مجھے بچاٸیں“ 
آج پھر وہ نیند میں ڈر گٸ تھی۔
                                        ------
دو دن قبل
محلے کے سارے بچوں کو قرآن پڑھاتی رضیہ کی اکلوتی بیٹی فاریہ یونیورسٹی کے فنکشن کی وجہ سے گھر دیر سے لوٹی۔ وہ کسی خوفزدہ بچی کی مانند سہمی ہوٸی تھی۔ آنکھیں شدتِ کرب کی ترجمانی کر رہیں تھیں۔ جسم کیا، روح تک تکلیف میں تھی۔ ماں کے دل کو کچھ ہوا۔ ”اللہ میرا دل غلط کہہ رہا ہو۔“ اُنھوں نے آنکھیں میچ لیں۔ مگر آنکھیں فوراً چھلکنے لگیں۔ 
 وہ فاریہ کے قریب بیٹھیں۔ ”بیٹے کیا ہوا ہے؟ کہاں رہ گٸ تھی؟“مضمحل سی پوچھنے لگیں۔ ”اماں۔۔۔  وہ۔۔ میں۔۔ میں واپس۔۔۔ آ رہی تھی۔۔۔ کہ۔۔۔ “ وہ روتے ہوۓ بتانے گی. ”میری بچی بولو نہ پھر؟“ رضیہ کا دل کمزور پڑنے لگا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوٸی۔ ”اِس وقت کون آ گیا؟“ رضیہ کو تشویش ہوٸی۔ دیکھا تو پولیس وردی میں ایس ایچ او محلے کی کچھ خواتین کے ہمراہ تھے۔ ”کیا فاریہ نامی لڑکی اِسی گھر میں رہتی ہے؟ میں کافی دیر سے آپ کا گھر تلاش کر رہا تھا، پھر اِن سے پوچھا، یہ بازار جا رہی تھیں تو اِنھوں نے کہا پہلے مجھے چھوڑ آتی ہیں۔ بہرحال فاریہ کہاں ہے؟“ ایس ایچ او عجلت میں ہرگز نہ لگتا تھا۔ ”اندر ہے۔ خیریت؟“ رضیہ نے ہمت مجتمع کرتے ہوۓ پوچھا۔ ”اُس کا ریپ ہوا ہے۔ ریپسٹ پکڑا جا چکا ہے۔ میں ہی اطلاع ملنے پر اُسے بچانے گیا تھا۔ اُس کا بیان ریکارڈ کرنا ہے تاکہ ریپسٹ کو سخت سزا دی جا سکے۔“ 
       ریپ کا لفظ سننا تھا کہ خواتین اپنے راگ الاپنے لگیں۔
”ریپ ہوا ہے؟“
 ”کیا مطلب تمھاری لڑکی مردوں سے تعلقات بناۓ ہوۓ تھی؟“
 ”اب تو اس سے کوٸی شادی ہی نہ کرے گا۔“
”قرآن پڑھانے والی کی لڑکی خود ایسی ہے تو ہماری بچیوں پر کیا اثر پڑے گا۔“ً
 ”رضیہ یہ تو اب تیرے گھر ہی بڑھاپے کو پہنچے گی۔“ 
 اور رضیہ کو لگا اُس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ کر آسمان اُس کے سر پر گرا دیا گیا ہے۔ ایس ایچ او نے خواتین کو روانہ کیا اور خود اجازت لے کر رضیہ کے پیچھے پیچھے گھر کے اندر آ گیا۔ فاریہ نے ابھی اسے دور سے دیکھا ہی تھا کہ چِلا اٹھی۔ درد تازہ ہو گۓ۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ میں بس تمھارا بیان ریکارڈ کرنا چاہتا ہوں مگر وہ نہ مانی۔ بالآخر اُنھیں مایوس لوٹنا پڑا۔ اُن کے جاتے ہی رضیہ نے دروازہ بند کیا اور وہیں کھڑی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ”اللہ میرا ایمان ہے کہ تیرے ہر کام میں مصلحت ہے۔ بس اسے جلد ظاہر کر دے۔“ خدا سے التجا کرنے کے بعد من من بھر کے قدم اٹھاتی کمرے میں آتے ہی بیٹی کو کچھ بھی کہے بغیر گلے سے لگا لیا۔ دونوں بلک بلک کر رونے لگیں۔ گھنٹوں روتی رہیں پھر چپ چاپ لیٹ گٸیں۔
-----
اور آج، آج پھر فاریہ ڈر سے اُٹھ گٸ تھی۔ ساتھ ہی سوٸی ماں ہربڑا کر اُٹِھیں، ہاتھ منہ چوما، پیشانی پر بوسہ دیا اور دعاٸیں پڑھنے لگیں۔ فاریہ کا وجود اُن کے کندھے پر ہی ڈھلکتا چلا گیا۔ ”اماں میرے کیا بنے گا اب؟ سب مجھے اچھوت سمجھ رہے ہیں۔ اور میں، مجھے بےگناہ ہوتے ہوۓ بھی اپنے آپ سے گھن آتی ہے۔ ہر وقت جسم پر طرح طرح کے بُرے لمس محسوس ہوتے ہیں۔ لمس۔۔ جو نامحرموں کے ہیں۔۔۔ جسم پر۔۔ جگہ جگہ۔۔ ہیں“ پھر سے ماضی دہراتے ہوۓ اُسے درد ہونے لگا۔ اچانک اُسے برین ہمریج ہوا اور وہ ”لمس۔۔ لمس۔۔“ پکارتی چل بسی۔ 
ماں کے وجود نے بھی حرکت کرنا چھوڑ دی، ہارٹ اٹیک سے وہ بھی، رسواٸی کا خوف دل میں لیے بیٹی کے ساتھ عزتوں کے مالک کے پاس چل دِیں۔

   19
7 Comments

Mamta choudhary

11-Oct-2022 08:47 PM

Wow.. Bahut khoob 🌹🌹🌹

Reply

Muskan Malik

11-Oct-2022 08:40 PM

واہ واااااااااا واہ واااااااااا کیا بات ہے بہت لاجواب لکھےگا ہے بہت عمده👌👌👌👌🌷🌷

Reply

Gunjan Kamal

11-Oct-2022 08:27 PM

👌👏🙏🏻

Reply