25-Oct-2022-اشعارِ اقبال
ازقلم: مرحاشہباز
اقبال کے تین اشعار کی تشریح میرے الفاظ میں
شعر 1
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
تشریح:
زیرِ تشریح شعر میں علامہ اقبال *دل سے نکلتی بات کے اثراث* پر روشنی ڈالتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ دل سے نکلنے والی ہر بات اس قدر پُراثر ہوتی ہے کہ وہ فورا دوسرے دلوں پر اثرانداز ہو جاتی ہے۔ ایک پَر تو اپنے ہلکے وزن کے باعث ہر سَمت پھیلی ہوا میں اِدھر اُدھر اُڑتا ہوا پرواز طے کرتا رہتا ہے مگر تاثیر سے لبریز بات پَر نہ رکھنے کے باوجود بھی لمبی اور بلند اُڑان کی سکت رکھتی ہے۔ الفاظ اگر ہماری زبان سے ادا ہونے کی بجاۓ دل سے ادا ہوۓ ہوں تو دوسروں دلوں کو اپنی جانب بہت جلد ماٸل کر لیتے ہیں۔ اقبال نے اِس شعر میں *اندازِ سخن کا ایک راز* چھپا رکھا ہے کہ چونکہ دل میں خدا بستا ہے سو یہاں سے نکلتی بات خداٸی طاقت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ اگر *نصیحت* ہو تو لوگ *مسلماں* ہونے لگتے ہیں، اگر *دعا* ہو تو *مقبول* ہو جاتی ہے اور *ذکر* ہو تو *قبول* کر لیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ سچے دل و جذبات سے ادا کیا کوٸی لفظ یا کوٸی احساس راٸیگاں نہیں جاتا۔
شعر 2
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
تشریح:
تشریح طلب شعر میں اقبال نے *خودشناسی* کے عمل کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی تلاش میں کھویا پڑا ہوں، اپنا آپ، اپنی ذات ڈھونڈتا پھرتا ہوں، خود کی تلاش ہی میں مہ و سال سرگرداں رہتا ہوں مگر یہ راز مجھ پر بہت دیر سے آشکار ہوا کہ اپنی *ذات کی پہچان* کے سفر کا مسافر اگر میں ہوں تو منزل بھی تو میں ہی ہوں۔ اس شعر میں ایک بہت گہری حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ انسان جس چیز کی کوشش میں ہوتا ہے، کاٸنات کی ہر شے اُسے انسان تک پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔ انسان کو منزل، جو اُس میں ہی ہوتی ہے، تک پہنچانے میں ہر چیز مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں میں شب و روز خود کو ڈھونڈتا رہا کہ شاید کہیں اپنی ذات کو تلاش کر لوں مگر مجھ پر یہ حقیقت جلد آشکار ہی نہ ہوٸی کہ *میں نہ صرف مسافر ہوں* بلکہ *منزل بھی مجھ ہی میں ہے* ۔ اگر میری منزل خدا ہے اور میں اُس کی تلاش میں در بدر پھر رہا ہوں، تو وہ تو بستا ہی میرے دل میں ہے۔ اگر میری منزل خود آگہی ہے، تو یہ منزل میرے اندر ہی ہے۔ اندر ہی سے آگہی و خودی کا سفر شروع ہوتا ہے اور جب ہم بہت آگے بڑھ جاتے ہیں تو بھی لوٹ کر اپنی ہی ذات کی جانب آتے ہیں کیونکہ اِس کو صرف کٹاٸی کی ضرورت ہے، منزل کا نگینہ اور اس تک پہنچنے کا راز ہمارے اندر ہی پنہاں ہے۔
شعر 3
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
تشریح:
علامہ محمد اقبال *اللہ سے مخاطب* ہوتے ہوۓ ظاہری صورت میں اس کے *دیدار کی خواہش* کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ عشقِ حقیقی کے اُس مقام پر موجود ہیں کہ اپنی اِس خواہش کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ اللہ تعالی جس کی ذات حقیقت ہے، اس سے اقبال کہتے ہیں کہ اے حقیقتِ منتظر مجھے تیرے ظہور کا بےصبری سے انتظار ہے۔ میں منتظر ہوں کہ تجھے مجازی صورت میں دیکھ سکوں، چھو سکوں، سن سکوں، میرے حواسِ خمسہ بےتاب ہیں کہ تیری ذات کو محسوس کر سکیں۔ اگرچہ میری عبادت اب بھی جاری و ساری ہے مگر آرزو یہ ہے کہ میں جب تجھے سجدہ کروں تو تجھے اپنے روبرو مجازی صورت میں محسوس کر سکوں۔ تاکہ میرے وہ سجدے جو ابھی سے میرے جبین میں تڑپ رہے ہیں، ان کی تڑپ رنگ لے آۓ، انھیں محبوبِ حقیقی کا دیدار ہو جاۓ۔ یوں ان کی بے چینی ختم ہو جاۓ گی۔ عجز و انکساری میں ڈوبی پیشانی میں ایسے ہزاروں سجدے ہیں جو تیرا دیدار ہونے پر تیرے روبرو سجدہ ریز ہونے کی خواہش رکھتے ہیں سو تُو میرے سامنے آ جا۔ چونکہ *مادی وجود انسان کو تسلی مہیا کرتے ہیں* لہذا اپنے اسی فطری عنصر کے باعث اقبال جیسے درویش اللہ تعالی کو ظاہری صورت میں اپنے سامنے دیکھ کر سجدہ ریز ہونا چاہتے ہیں تاکہ عاشق کے دل کو دیدارِ محبوب پر سارے وجود میں سکون میسر آ جاۓ۔
Anuradha
26-Oct-2022 06:56 PM
👌👍🏻👍🏻
Reply
Arshik
26-Oct-2022 06:50 PM
بہت خوبصوت
Reply
Mamta choudhary
26-Oct-2022 06:42 PM
بہت خوب
Reply