recluse_writes

Add To collaction

03-Nov-2022-نسل پرور

افسانہ نگار: مرحاشہباز
عنوان: نسل پرور

”بدبخت عورت، نکل جا میرے گھر سے، ان کا کیا کرنا ہے میں نے“ دوسری بیٹی کی پیداٸش پر عالیہ کے شوہر نے اُسے بہت کڑوی کسیلی سناٸیں۔  ہسپتال سے گھر آتے ہی اُسے خانہ بدر کر دیا گیا تو دروازے کی جانب مَن مَن بھر کے قدم اٹھا کر جاتے، اُسے محسوس ہوا کہ وہ چودہ سو سال قبل کے زمانہ جاہلیت کے لوگوں میں ہے۔ بس یہاں زندہ دفنانے کی بجاۓ زندہ وجود کا سانس روکنے کی نٸ رسم چلا دی گٸ ہے۔
”بیٹیوں کو ہی جنم دیے جاٶ گی تو نسل پرور کون ہو گا؟
جہیز کہاں سے پورا کرنا ہے؟
یہ بدذات کیا میرا دست و بازو بنیں گی؟
ہمارے بڑھاپے کی لاٹھی کون بنے گا؟“
عقب سے لفظوں کے ایسے تیر برساۓ گۓ کہ دل، سینہ سب چھلنی ہو گیا۔ وہ دہلیز پار کیے، گھر سے باہر ستون کے ساتھ سر ٹکاۓ بیٹھ گٸ۔  ذہن پر جمی دھول، ماضی کے واقعات سے پردے ہٹنے کے سبب اٹھنے لگی۔ ایسے ہی سوہانِ روح فقرے اس کے والد، اس کی ماں کو بیٹیوں کی ولادت پر کہا کرتے تھے۔ موت کی گھاٹی سے لَوٹتی ہر ماں پھر سے دل شِکن لفظوں سے موت کے گھاٹ اتاری جاتی۔ اور آج عالیہ گھر کے باہر بیٹھی اپنے روبرو موجود کورے کاغذ پر وہ سب نقش ہوتے دیکھ رہی تھی جو اُس کے دماغ پر ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر سوچ کی دل سودہ کھاٸیوں میں منہمک رہی۔ بالآخر ایک حتمی فیصلہ پر پہنچتے ہوۓ اٹھی اور حقوقِ نسواں کو فروغ دیتی این جی او کی جانب قدم بڑھاۓ۔  
”کیا کر لو گی؟“
”جو کسی نے نہ کیا۔“
”کیسے؟“
”عزمِ مصمم سے۔“
“اور اگر اپنوں نے مروا دیا؟“
”تو بھی کمزوروں کی فہرست میں اپنا نام نہیں پاٶں گی۔“
انھیرے میں سٹریٹ لاٸٹ کی روشنی کے باعث بنتے اپنے سایے سے کچھ لاشعوری گفت و شنید کے بعد وہ اپنے ارادے پر صورتِ کہسار جمے چلتی گٸ۔

   17
9 Comments

Sona shayari

05-Nov-2022 06:18 AM

بہت خوب

Reply

shweta soni

04-Nov-2022 02:07 PM

👌👌

Reply

Mahendra Bhatt

04-Nov-2022 01:17 PM

👏👌

Reply