گاؤں میں مچھلی کے شکار کا انداز بدل گیا ھے
گاؤں میں ساون کی بارش سے ندی، نہر ،تالاب اور پوکھرے چھلک گئے ہیں۔ دھان کے کھیتوں میں پانی جمع ہوگیاہے ، ندی اورتالاب کے قریب کے کھیتوں میں پانی کےساتھ مچھلیاں بھی آگئی ہیں ۔ بارش رکنے کے بعد کچھ دیر تک کھیت کا پانی گدلا رہتا ہے ۔ یہ دھیرے دھیرے صاف ہونے لگتا ہے ،پھراس میں مچھلی کے چھوٹے چھوٹے بچے جھلملاتے ہیں ،اُن کی فوج نکلتی ہے ،ذرا سی آہٹ پر یہ بچے غائب ہوجاتے ہیں۔زیادہ پانی میں یہ ہاتھ آتے ہی نہیں ، چھوٹے بچے اپنی ننھی ہتھیلیوں سے اُنہیں پکڑنے کی لاکھ کوشش کرتے ہیں ،چھوکر دیکھنا چاہتے ہیں، ہاتھوں میں لے کر کھیلنا چاہتے ہیں لیکن انہیں کامیابی ملتی ہی نہیں ، جیسے ہی بچےپانی میں ہاتھ ڈالتے ہیں ، یہ پتہ نہیں کہاں غائب ہوجاتے ہیں ؟
ان دنوں گاؤں میں صبح یا شام کے وقت کہیں کہیں اکا دکا لوگ بانس کی پتلی لکڑی ( کٹیایابنسی) لئے یا جال سنبھالے ہوئےنظر آتے ہیں۔ ندی یاتالاب کی طرف جاتے ہیں، مچھلی لانے کیلئے جھولا یاتھیلی بھی لئے رہتے ہیں۔ اب زیادہ تر لوگ تنہا ہی مچھلی کا شکار کرتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ تین چار کاگروپ رہتا ہے ۔ پہلے ساٹھ ستر کا گروپ کا ایک ساتھ نکلتا تھا ، ایک محلے کےلوگ بہت بڑ ا جال( چاتر) لے کر ندی جاتے تھےاور پورا پورا دن وہاںرہتے تھے ، پھر کم یازیادہ مچھلیاں لے کر لوٹتے تھے ۔عام طور پر مچھلیاں زیادہ ہی رہتی تھیں ، کیونکہ اس وقت ندی میں مچھلی زیادہ تھی ۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے کے مقابلے میں اب ندی میں بہت کم مچھلیاں رہ گئی ہیں ۔ و ہ بتاتے ہیں کہ آ ج لوگ جتنی بڑی مچھلیاں پکڑتے ہیں ،پہلے ان سے کہیں زیادہ چھوٹی مچھلیاں پکڑی جاتی تھیں۔ دراصل گاؤں دیہات میں مچھلی کا شکار پہلے بھی کیا جاتا تھا، اب بھی کیاجاتا ہے، ہاں اس کا انداز بدل گیا ہے۔پہلے لوگ اپنے ہاتھ سے جال بنتے تھے، مہینوں محنت کرتے تھے، جال کے پیچھے دن رات ایک کردیتے تھے،اس طرح انتہائی محنت کے بعد جال تیار ہوتا تھا۔اب مارکیٹ میں تیارشدہ جال ملتے ہیں۔چھوٹے بڑے ہر طرح کےجال کم زیادہ قیمت پر دستیاب ہیں۔پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ہاتھ سے بنا گیا جال زیادہ مضبوط ہوتا تھا، اچھے دھاگے سے تیار کیا جاتا تھا۔ایک بار جال بن جاتا تھا، کئی سال کی فرصت ہوجاتی تھی، اس میں سے بڑی سے بڑی مچھلی نکل نہیں پاتی تھی ۔ اب جال کم قیمت پر مل جاتا ہے،مچھلی پھنسانے کیلئے جال تکنیک سے بُناجاتاہے لیکن یہ زیادہ مضبوط نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح مچھلی کے شکار کے ایک دو نہیں ہزاروں طریقے ہیں، ہرعلاقے کا اپنا طریقہ ہے، اپنا مخصوص جال ہے۔موسم کے اعتبار سے بھی طریقےبدل جاتے ہیں۔ زیادہ پانی کاجال الگ ہوتا ہے ، کم پانی کا جال الگ ہوتا ہے ۔ یہ بھی کہاجاتا ہےکہ مچھلی کا شکار ایک ہنرہے اوریہ ہنر پہلے شوق بنتا ہے، دھیرے دھیرے جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے،پھر کسی کام میں دل نہیں لگتاہے، لوگ دن رات صرف مچھلی پھنسانے کے بارے میں سوچتے ہیں، ندی اور تالاب کے چکر کاٹتے ہیں، جہاں بھی مچھلی زیادہ ہونے کی سن گن ملتی ہے، اپنا جال وغیرہ لے کر پہنچ جاتے ہیں ، رات ہو یادن، بہار ہویا برسات، سردی ہو یاگرمی بس ایک ہی دھن سوار رہتی ہے،مچھلی پکڑنے کے سواکچھ سوجھتا ہی نہیں، کوئی اور چیز نظرآتی ہی نہیں ہے۔پہلے لوگ مچھلی کا شکار کرنے کے لئے سورج ڈوبنے سے پہلے سائیکل سے یاپیدل نکل جاتے تھے، ساتھ میں کھانے پینے کا سامان رہتا تھا۔ چار سے پانچ افراد کا گروپ نکلتا تھا، رات بھر ندی یاتالاب کے کنارے رہتاتھا۔کسی درخت کے سایہ میں پناہ لیتا تھا۔ کچھ لوگ پلاسٹک کاچھپر بنالیتے تھے ،برسات اور گرمی ہی نہیں، سخت سردی میں بھی ان کے قدم نہیں رکتے تھے ۔یہ لوگ رات رات بھر اور کبھی کبھی رات کے بعد پورا پورا دن تالاب یاندی کے قریب رہتے تھے، دوسرے دن شام کو مچھلی لے کر لوٹتے تھے۔کبھی کبھی ایسابھی ہوتاتھاکہ رات ہی میں زیادہ مچھلیاں پھنس جاتی تھیں، اتنی کہ رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی ، ایسے میں یہ اسی وقت وہاں سے نکل جاتےتھے ، رات کے اندھیرے میں گھر پہنچ جاتے تھے ۔یہ جب بھی گھر پہنچتے تھے ، گھر کے آنگن میں بڑی بڑی مچھلیاں رکھتی جاتی تھیں، زیادہ ہوجاتی تھیں تو محلے پڑوس میں تقسیم کی جاتی تھیں، رشتہ داروں کو دی جاتی تھیں۔بڑی مچھلیاں ہی اتنی زیادہ ہوتی تھیں کہ چھوٹی مچھلیوں کوکوئی پوچھتاہی نہیں تھا ۔
اُس زمانے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس وقت ندی کے ساتھ ساتھ تالاب سے بھی مچھلی پکڑی جاتی تھی۔ ندی اورتالاب سب برابر تھے ، ندی کی طرح تالاب بھی سب کا ہوتا تھا، اس پر کسی کاقبضہ یاسرکاری پٹہ نہیں ہوتاتھا،یعنی تالاب کی مچھلی کسی ایک کی نہیں ہوتی تھی، پورے گاؤں اور علاقے کی ہوتی تھی ، کوئی بھی اس میںجال ڈال سکتاتھا، کٹیا لگا سکتا تھا۔کسی کسی گاؤ ں میں یہ روایت تھی کہ سال بھر لوگ انفرادی طور پر مچھلی کاشکار کرتے ہی تھے ، سال میں ایک دن ایسا بھی ہوتاتھا جب پورا گاؤں ایک ساتھ تالاب میں اترکر مچھلیاں پکڑتا تھا۔ گاؤں میں ایک آدمی گھر گھر یامحلے محلے جاکر بتاتاتھا کہ آج فلاں پوکھرے یا تالاب میں مچھلی کا شکار کیا جائے گا۔ یہ سن کرپورےگاؤں والے اپنا اپناجال لےکر پہنچتے تھے اور دن بھرمچھلیا ں پکڑتے تھے ۔ اب گاؤں کے تالاب کی شکل بدل گئی ہے۔ پورے گاؤں اور علاقے کاگندہ پانی اسی میں جاتا ہے ،اس کے قریب سے لوگ ناک بندکرکےگزرجاتے ہیں، مچھلی کاشکار کرنا دور کی بات ہے ۔ آبادی سے دورجو تالاب بچے ہیں،ان کا پٹہ ہوگیا ہے،ان کی مچھلی سب نہیں پکڑسکتے ۔
Zeba Islam
22-Nov-2021 06:15 PM
Beutiful
Reply
Bushra Zaifi
21-Nov-2021 06:57 PM
زبردست
Reply
آسی عباد الرحمٰن وانی
02-Oct-2021 10:24 AM
بہت خوب
Reply