قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ  قضا سے آنکھ لڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ نہ جاؤ تم ابھی تاروں کا دل دھڑکتا ہے  تمام رات پڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ ...

×